’’نشاط سنیما‘‘ جس کا افتتاح محترمہ فاطمہ جناح نے کیا تھا

December 19, 2019

انور محمود

کسی بھی قوم اور ملک کی تہذیب وثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے تھیٹر اور سینما کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے، اس لحاظ سے پاکستان میں بھی ڈرامہ، تھیٹر اور فلم انڈسٹری نے پاکستان کی زبانوں اور مختلف علاقوں کی ثقافت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ گو کہ پاکستان میں فلم اور سینما کی تاریخ مختلف ادوار میں مختلف رہی ہے۔تقسیم کے بعد نوزائیدہ مملکت پاکستان کے حصے میں فلم انڈسٹری کا ایک چھوٹا سا حصہ کراچی اور لاہور میں ہمارے حصے میں آیا اورغالباً پاکستان کے حصے میں جو سینما گھر آئے ان کی تعداد چند سو سے زائد نہ تھی، کراچی میں سینماؤں کی تعداد بیس تھی اور پھرستر کی دہائی تک یہ تعداد سو تک جا پہنچ، اسی میںکراچی کی مشہور بندر روڈ ( اب ایم اے جناح روڈ) پر واقع نشاط سنیما کا کراچی کے سنیما گھروں میں ایک منفرد مقام حاصل تھا۔ یہ 1948 سے قائم ہوا اور اس لحاظ سے یہ کراچی اور پاکستان کا سب سے پرانا سنیما گھر تھا ۔

پچیس دسمبر انیس سو سینتالیس کو محترمہ فاطمہ جناح نے نشاط سینما کا افتتاح کیا اور فلم ’’ ڈولی ’’ بھی دیکھی ( انیس سو باسٹھ میں محترمہ نے اداکار محمد علی کی پہلی فلم ’’ چراغ جلتا رہا ’’ کا پریمئر شو بھی ڈائریکٹر فضل کریم فضلی کے ہمراہ یہیں دیکھا )۔ نشاط سینما نہیں بہت کچھ تھا ۔اُس وقت یہ سنیما کراچی کے مشہور پارسی بزنس مین گوڈریج کانڈاوالا کی ملکیت تھا۔ اس حوالے سے یہ ایک ایسے وقت کا نشان بھی ہے جو آج کے دور سے اتنا ہی دور لگتا ہے جیسے کوئی اور ہی دنیا۔اس کی تعمیر کا سہرا کانڈاوالا صاحب کے سر ہے۔ ان کے پاس دو پلاٹ تھے، ان میں سے ایک پر ’’نشاط ‘‘ سنیما تعمیر ہوا جبکہ دوسرے پر ایک بلڈنگ ’’کانڈاوالا‘‘ کے نام سے ہی تعمیر کی گئی ،جو سنیما کے بغل میں آج بھی قائم ہے اور جس میں اس وقت ایک بینک قائم ہیں۔

پرانی فلموں کو بام عروج پر پہنچانے والاکئی فلموں کی تاریخی کامیابیوں کا حصے دار اور گواہ،کراچی کے شہریوں کو سستی تفریح فراہم کرنے والا نشاط سنیما ہی تھا-

اس سنیما میں کئی فلموں نے گولڈن جوبلی بھی منائی۔ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اس سنیما میں تفریح کی غرض سے آچکے ہیں ۔ تقسیم سے پہلے اس کا نام کرشنا سینما رکھا گیا جب کہ اس کی جڑواں بہن رادھا ( سینما ) سڑک کے پار تھی۔تقسیم کے بعد رادھا کو ناز اور کرشنا کو نشاط کا نام دے دیا گیا۔۔ یہاں سب سے پہلے فلیٹ اسکرین ٹیکناولوجی متعارف ہوئی،چنانچہ کراچی کے تماشائیوں کی پہلی کوشش یہ ہوتی کہ کسی طرح نشاط کا ٹکٹ مل جائے۔انگریزی فلموں کے ٹکٹ بھی اسی طرح بلیک ہوتے جیسے اردو کے۔

سونے کاایک دانت چمکائے چھ چھ فٹ کے مکرانی بلوچ پلاسٹک کا پائپ لہراتے بار بار ٹوٹتی لائن سیدھی کراتے رہتے۔ وقت بدلا تو نہ ویسے دیوانے تماشائی رہے اور نہ وہ سنہری دانت والے بلوچ۔ابتداء میں اس کی 550نشستیں تھیں جبکہ آخری شوچلنے تک اس میں نشستوں کی تعداد 832تھی۔ 72ء تک یہاں اردو فلمیں چلتی رہیں پھر جب سینما اسکوپ انگریزی فلمیں بننے لگیں تو ’’نشاط‘‘ انگریزی فلموں کا مرکز بن گیا ۔

ایک وقت تھا کہ جب کراچی میں سنیماؤں کی بہتات تھی۔ ایم اے جناح روڈ، صدر، لیاقت آباد، ناظم آباد، لانڈھی، ملیر، کیماڑی ، شاہ فیصل کالونی، نیپیئر روڈ اور دیگر علاقوں میں سینما قائم تھے، ایک وقت ایسا بھی تھا، جب ثقافت اور فنون کو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے باقاعدہ سرپرستی حاصل تھی اور سنیما اور فلم کو اتنی ہی اہمیت حاصل تھی جتنی کسی اور ثقافتی سرگرمی کو۔

1963ء میں نشاط سنیما کی ملکیت مانڈوی والا خاندان کے پاس چلی گئی۔ ندیم مانڈوی والا نے، جو خود فلموں کے مداح ہیں، وقتاًفوقتاً سنیما میں نئی ٹیکنالوجی متعارف کرائی۔ 1988ء میں نشاط پاکستان کا پہلا سنیما گھر تھا، جس میں سٹیریو ساؤنڈ کی ٹیکنالوجی استعمال ہوئی۔ 1997ء میں ڈولبی ڈیجیٹل سراؤنڈ ساؤنڈ بھی آگیا۔اُن کی دیکھا دیکھی کئی دوسرے سنیما گھروں نے بھی یہ نئی ٹیکنالوجی اپنالی۔ لیکن فلم بینوں کے لئے نشاط ہمیشہ سب سے بہتر سنیما قرار پایا۔

2012 میں توہین اسلام پر مبنی ایک فلم کےخلاف ملک بھر میں پرتشدد احتجاج کے دوران مشتعل ہجوم نے نو سینما گھروں پر بھی اپنا غصہ اتارا تھا۔ان نو سینما گھروں میں 1947 میں بننے والا کراچی کا تاریخی نشاط سینما بھی شامل تھا، جسے مشتعل ہجوم نے توڑ پھوڑ کے بعد جلا ڈالا۔ باقی سنیماؤں کو تو اتنا نقصان نہیں پہنچا تھا کہ ان کی بحالی مشکل ہو تی لہٰذا وہ کچھ ماہ بعد ہی دوبارہ کھول دیئے گئے لیکن نشاط سنیما بری طرح جل گیا،اس کو نئے سرے سے بنانے کے لئے کروڑوں روپے درکار تھے۔

نشاط سنیما کے جلنے کے ساتھ ا سسے جڑی کئی یادیں بھی راکھ ہوگئیں۔اب مانڈویوالا اسٹیٹ نے2015 کو ایک اشتہار کے ذریعے 66 سال پرانے تھیٹر کو نیلام کرنے کا اعلان کیا تھا۔اشتہار میں کہا گیا ہے کہ ' کراچی کے معروف اور یادگار نشاط سینما میں لاکھوں افراد کو تفریح فراہم کرنے کا سفر تمام ہوا۔

کبھی نشاط سینما میں ہر عمر کے لوگوں کا رش نظر آتا تھا، یہاں فلم بین اپنی پسندیدہ فلمیں دیکھنے کی خاطر بڑی تعداد میں قطاریں بنائے ٹکٹیں خریدتے تھے لیکن آج یہ عمارت محض ایک ڈھانچہ ہے ،جس کا تابناک ماضی اندھیرے میں گم ہو چکا۔شہر کے تاریخی سینما گھر کی نیلامی کا سن کر لوگ بھی افسردہ ہوگئے۔کبھی اس کےبڑے پردے پر خوبصورت فلمیں سجا کرتی تھیں، وہاں آج تباہی اور سناٹے کا راج ہے۔نشاط سنیما کی فروخت کے ساتھ ہی پاکستانی سنیما کی تاریخ کا سنہری باب بھی بند ہوجائے گا۔