’’بہار کالونی‘‘ ایک قدیم بستی تھی (حصہ اول)

December 19, 2019

شکور پٹھان

بہار کالونی، جہاں میں نے صحیح معنوں میں ہوش سنبھالا، یہاں دور دور تک ایسا کچھ نہیں تھا کہ میں ماضی کی یادوں میں جھومتا ہوا کہوں کہ کیا گلیاں تھیں اور کیا منظر ہوتا تھا ۔ حد نظر تک ایسی کوئی چیز نہیں تھی، جس سے کوئی خوشگوار تاثر ابھرے، ہاں صرف بہار کالونی کا میدان اور جامع مسجد کے آس پاس کا علاقہ تھا ،جہاں سے کوئی برا تاثر نہیں ابھرتا تھا، مسجد کے قریب ہی ایک چھوٹی سی صاف ستھری عمارت میں چرچ تھا، جہاں میں اپنے دوستوں، نکی اور کوڈی کے ساتھ ایک بار بڑے دن کے موقع پر گیا تھا اور شاید میں نے پہلی بار پھول دیکھے تھے۔ یہ وہ گلدستے تھے، جن سے چرچ کو بڑے دن کے لیے سجایا گیا تھا۔

یہاں مہاجر مکینوں کی اکثریت بہاری تھی

بہار کالونی ایک قدیم بستی تھی۔ سنا ہے قیام پاکستان سے پہلے قائد اعظم نے مولانا عبدالقدوس بہاری کو ایک وفد کے ساتھ بھیجا تھا کہ وہاں مہاجروں کی آبادکاری کے امکانات کا جائزہ لیں۔ بہار کالونی کے اولین مہاجر مکینوں کی اکثریت بہاری ہی تھی لیکن یوپی، گجرات، مہاراشٹرا اور دیگر علاقوں کے مہاجر بھی بہت بڑی تعداد میں یہاں آئے۔

بہار کالونی ،لیاری کا علاقہ تھا اور لیاری کی پہچان شیدی مکرانی یعنی بلوچ بھائی ہیں لیکن، جہاں تک مجھے یاد ہے پورے بہار کالونی میں ایک بھی مکان میں نے بلوچوں کا نہیں دیکھا ۔ البتہ ٹینری روڈ کے اختتام سے پہلے جو مشہور کوئلہ گودام تھا، اس کے عقب میں مکرانیوں کی آبادی تھی۔ بہار کالونی کے پڑوس کی آبادیوں رانگی واڑہ، چاکیواڑہ، کلاں کوٹ، کلری، موسی لین، بغدادی، گلبائی، ماری پور وغیرہ خالصتا بلوچ آبادیاں تھیں۔

بہار کالونی شاید سطح سمندر سے نیچے تھا کہ وہاں آپ ایک فٹ کھودیں تو پانی نکل آتا تھا لیکن یہ کھارا پانی ہوتا تھا،یہی وجہ ہے کہ وہاں کے مکانات جو کہ پہلے سے ہی بہت پرانے تھے، اکثر سیلن زدہ تھے۔ دیواروں پر رنگ و روغن زیادہ دیر نہیں رہ پاتا، زیادہ تر مکانات ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے اور کئی مکانات کھنڈر کی شکل میں تھے، جہاں چمگادڑیں ڈیرہ جمائے رکھتیں۔ مجھے یاد ہے مغرب کے بعد نیم اندھیرے میں اکثر چمگادڑیں اڑتی دکھائی دیتیں تھیں۔ یہاں سیوریج کا نظام اور گٹر لائنیں نہیں تھیں۔

گھروں کی باہر بیت الخلاء ہوتے تھے، جن کے ساتھ گلی میں ایک حوضی بنی ہوتی تھی۔ ہر دوسرے دن بلدیہ کی ایک بڑی سی ٹنکی جو بیل گاڑیوں پر لدی ہوتی وہ ان حوضیوں سے سارا گندہ پانی لے کر انہیں خالی کرتی۔ تقریباً ہرروز ہی ان حوضیوں اور نالیوں پر فینائل کا اسپرے کیا جاتا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہاں مچھر نظر نہیں آتے تھے، اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ یہاں سبزہ نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ پورے بہار کالونی میں ایک بھی پارک نہیں تھا۔گھروں میں پانی کی لائنیں بھی نہیں تھیں۔ بلدیہ کی جانب سے ٹینکر آتے جن سے کوپن کے ذریعے پانی ملتا تھا۔

یہ پانی ماشکی ( سقے) گھر پہنچایا کرتے تھے، البتہ بجلی تھی اور تقریباً ہر گھر میں تھی اور شاید ہی کبھی بجلی جاتی تھی۔گلیوں میں البتہ ایک آدھ ہی جگہ اسٹریٹ لائٹ تھی، چنانچہ رات کے وقت لوگ گھروں سے کم ہی نکلتے تھےکہ اندھیرے راستوں میں نالیاں اور گٹر پھلا نگنا خاصہ جان جو کھوں کا کام تھا۔ امتحانوں کے دنوں میں ان اسٹریٹ لائٹس کے نیچے وہ طالبعلم پڑھتے نظر آتے، جن کے گھر وں میں بجلی نہیں تھی یا گھر اتنے چھوٹے تھے کہ انہیں تنہائی اور یکسوئی میسر نہ آتی تھی۔

مکانات بہت سادہ سے تھے اور زیادہ تر ایک منزلہ تھے۔ چند ایک ہی دو منزلہ گھر تھے، جن میں ایک ہمارا گھر بھی تھا جہاں ہم کرایہ پر رہتے تھے۔ ہمارے مکان مالک کانپور کے مہاجر دو بھائی تھے۔ ہمارے نیچے والے حصے میں بھی کرایہ دار تھے اس کے بعد دونوں بھائیوں کے گھر جن کے بیچ سے ایک دیوار میں سے آنے جانے کا راستہ بنا ہوا تھا اور انتہائی بائیں جانب ایک اور کرایہ دار رہتے۔ یہ دونوں مالک مکان اور ہم تین کرایہ دار گھرانے سب آپس میں بڑے شیرو شکر رہتے تھے۔

تمام گھروں کی چھت ملی ہوئی تھی جس پر جانے کا راستے ہمارے گھر کی سیڑھیوں کے ساتھ تھا، یہ چھت میراکھیل کا میدان تھی، جہاں میں پتنگوں کے گرنے کا انتظار کرتا اور ایسے ہی ایک بار مالک مکان کا ایک بیٹا جو میرا ہم عمر تھا پتنگ اڑاتے ہوئے پیچھے ہٹتے ہوئے نیچے جاگرا تھا اور یہ پہلی موت تھی جو میں نے زندگی میں دیکھی۔

ہمارے مالک مکانوں کے پانچوں گھروں کا ایک سا نقشہ تھا جو اکثر دوسرے گھروں کا بھی تھا۔ ایک بڑا سا کمرہ ، اس کے ساتھ برآمدہ، اس کے ساتھ آنگن یا صحن، ایک جانب باورچی خانہ اور ایک غسلخانہ اور گھروں سے باہر کی جانب گلی میں بیت الخلا۔ یہ کل کائنات تھی۔ البتہ ہمارے مالک مکان کے صحن میں ایک نیم کا درخت بھی تھا جس کی نمولیوں سے ہم آم کی دکان سجاتے۔

رات کے وقت ان ہی میں سے کسی کے آنگن میں پہل دوج، کھوکھو یا کوڑا جمال شاہی وغیرہ کھیلتے یا لڑکیاں رسی کودتیں۔ چھٹی کے دنوں میں دو چارپائیاں کھڑی کرکے ان پر چادر یا دری ڈال کر نیچے ہنڈکلیا پکاتیں یا گڑیا گڑیا کھیلتیں اور کبھی کبھار ایک ایک دو دو پیسے جمع کرکے بڑی دھوم دھام سے گڑیوں کی شادی کرتیں۔ ہم لڑکے یا تو گلی میں بیٹ بلا، گلی ڈنڈا، لٹو یا کنچے کھیلتے یا پھر گھروں میں ہی کرکٹ کھیلتے تھے

ہمارے گھر سے دائیں جانب یعنی مشرق کی طرف جائیں جہاں ٹینری روڈ تھا جس پر گیارہ نمبر بس کا آخری اسٹاپ تھا ۔ بائیں جانب یعنی مغرب میں مسان روڈ تھی، جہاں میں اپنی امی اور دادی کے ساتھ آٹے کی چکی پر جایا کرتا تھا۔ میری ذہن کے پردے پر مسان روڈ سے ازمنہ قدیم کی کسی تجارتی منڈی کا تصور ابھرتا ہے۔ اب وہاں نجانے کیا حال ہو لیکن مجھے یاد پڑتا ہے یہاں اونٹ گاڑیاں، اونٹ، گھوڑے اور گدھے بندھے نظر آتے اور بڑے بڑےگٹھوں میں نجانے کیا بندھا ہوتا اور فضا میں حقے کے تمباکو اور جانور وں کے فضلے کی بو پھیلی ہوتی تھی۔

ٹینری روڈ اور مسان روڈ کو ایک کچی سڑک ملاتی جو بعد میں پکی ہوگئی اور شاید فلاح روڈ کہلاتی تھی۔ اس سڑک کے بالکل درمیان میں دائیں جانب جامع مسجد الفلاح تھے اور بائیں جانب گورنمنٹ گرلز اسکول تھا۔ یہ بہار کالونی کا شاید سب سے بہتر، صاف اور تعلیمیافتہ علاقہ تھا۔ اسکول کے بائیں جانب ایک اونچے چبوترے پر بنے ہال نما کمرے میں “مخزن ادب لائبریری “ تھی، جہاں ریڈنگ روم بھی تھا۔

لائبریری کی ممبرشپ تھی اور یہیں سے میں کھلونا نئی دہلی، تعلیم و تربیت، پھلواری، بچوں کی دنیا، غنچہ جیسے بچوں کے رسالے اور فیروز سنز کے بچوں کے ناولوں، عالی پر کیا گذری ، محمود کی آپ بیتی، دو یتیم، بہادر علی وغیرہ سے متعارف ہوا۔ یہیں پر ایک سرکاری ڈسپنسری بھی تھی، جہاں مفت علاج ہوتا تھا۔

مسجد کے بائیں جانب یعنی سڑک کی طرف دکانیں تھیں ۔ کتابوں اور اسٹیشنری کی ایک دکان “ مکتبہ ملی” مجھے آج بھی یاد ہے۔ مکتبہ ملی اور مخزن ادب جیسے ناموں سے آپ بہار کالونی والوں کے ادبی ذوق کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مسجد کی دوسری طرف فٹبال گراؤنڈ تھا، جہاں مقامی “ الیون اسٹار” کے علاوہ، کلاں کوٹ ، کلری، بغدادی اور کراچی کی مشہور ٹیمیں کھیلنے آتیں اور عصر کے بعد یہ میدان کسی بڑے اسٹیڈیم کا سماں پیش کرتا۔ مسجد کے داخلی دروازے کے سامنے، میدان شروع ہونے سے پہلے مکانوں کا ایک سلسلہ تھا ،جس میں ایک گھر کی پیشانی پر سمنٹ سے بڑے بڑے حروف میں لکھا ہوا تھا” قبلہ نما” ۔ جس کے سامنے چھوٹے سے احاطے میں آرام کرسی بچھائے ایک باریش اور نہایت با رعب صاحب اخبار یا کوئی کتاب پڑھتے نظر آتے۔

یہ تھے جناب میجر آفتاب حسن، کئی سائنسی کتابوں کے مصنف، کراچی یونیورسٹی کے استاد، ریڈیو کے مشہور کوئز ماسٹر اور ایک زمانے میں جامعہ کراچی کے طلباء کے لیے دہشت کا نشان۔ میں اس وقت بہت چھوٹا تھا اور مجھے بہت سے نام یاد نہیں لیکن میجر آفتاب حسن کے علاوہ مسلم لیگی رہنما “ آزاد بن حیدر” وہاں اکثر آتے، جنہوں نے وہاں “ مسلم گرلز اینڈ بوائز اسکول “ قائم کیا تھا ،جہاں میں نے چوتھی جماعت میں داخلہ لیا ۔

پہلی سی تیسری تک میں نے گورنمنٹ اسکول بہار کالونی میں پڑھا جہاں سکینڈری اسکول کی نویں دسویں کلاس میں میرے چچا بھی پڑھتے تھے ( اتفاق سے میرا اور چچا کا کالج بھی ایک ہی تھا یعنی گورنمنٹ کامرس کالج، گوکہ دونوں کہ زمانہ طالبعلمی میں کئی سال کا فرق تھا)۔ اسی گورنمنٹ اسکول میں عبدالقادر بھی پڑھتا تھا ،جس کا بھائی عبدالعزیز قائداعظم ٹرافی کھیلتے ہوئے سینے پر گیند لگنے سے جا بحق ہوگیا تھا۔

عبدالقادر نے خالدعباداللہ کے ساتھ آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کے لیے ،ڈیبو، کیا تھا اور پہلے ہی میچ میں پچانوے رنز بنا کر رن آؤٹ ہوگیا تھا۔ عباد اللہ نے پاکستان کی جانب سے پہلے ہی میچ میں سنچری بنانے کا اعزاز سب سے پہلے حاصل کیا۔میرے چچا کے ساتھ ایک سانولے رنگ اور لمبی سی ناک والا لڑکا پڑھتا تھا جو مولانا حسرت موہانی کا نواسہ تھا۔

بہار کالونی بے شک ایک ٹوٹی پھوٹی، غلیظ اور غریبوں کی بستی تھی لیکن یہاں کا ماحول بڑا علمی تھا۔ یقین جانیے اس کے بعد میرا رہنا اور آنا جانا سوسائٹیز کے علاقوں اور ڈیفینس وغیرہ میں بھی ہوا لیکن ایسے سلجھے ہوئے اور پڑھے لکھے لوگ مجھے کہیں اور نہیں ملے۔

یہاں نہ صرف ہمارے گھر میں بلکہ پڑوسیوں کے ہاں کتابیں اور رسالے ضرور آیاکرتے تھے۔ اس کی کئی سال بعد مجھے کچھ پوش علاقوں کے ایسے گھروں میں بھی وقت گذارنے کا موقع ملا، جہاں کتاب تودرکنار کاغذ کا ٹکڑا تک نظر نہیں آیا۔