’’ برگد کا درخت‘‘ کراچی میں اسے ورثہ قرار دے دیا گیا

December 19, 2019

ریاض سہیل

اگر آپ کراچی میں رہتے ہیں تو ساحلِ سمندر کلفٹن پر ضرور گئے ہوں گے۔ براستہ دو تلوار آپ شاہراہ ایران سے جائیں یا پھر حاتم علوی روڈ سے سڑک کے دونوں اطراف موجود برگد کے درخت بازو پھیلائے آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ لیکن کبھی آپ نے سوچا کہ ان برگد کے درختوں کی تعداد کتنی تھی اور اب کتنی رہ گئی ہے؟

نیچرل ہیریٹیج ایسوسی ایشن آف کراچی کی تحقیق کے مطابق اب اس علاقے میں برگد کے درختوں کی تعداد صرف 68 رہ گئی ہے۔

کمشنر کراچی نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے کلفٹن اور کراچی کے دیگر علاقوں میں برگد کے درخت کو شہر کا ورثہ قرار دینے کے ساتھ متنبہ کیا ہے کہ ،کوئی شخص یا ادارہ ان درختوں کو نقصان پہنچانے کا مرتکب ہوا تو اس کے خلاف سندھ قومی ورثہ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

کمشنر نے حکم نامے میں واضح کیا ہے کہ یہ درخت شہر میں کٹائی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ لاپرواہی، دانستہ کٹائی اور ناعاقبت اندیش لوگوں کی وجہ سے یہ ناپید ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کراچی نے تمام ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت کی ہے کہ وہ برگد کے درختوں کا سروے کریں ان پر نمبر اور علامات لگائی جائیں۔

موجودہ کلفٹن کے علاقے کو پہلے ہوا بندر کہا جاتا تھا، جہاں ایک طرف بزرگ عبداللہ شاہ غازی کی مزار ہے تو ساتھ میں ہی قدیم مہا دیو مندر بھی ہے۔

نیچرل ہیریٹیج ایسوسی ایشن آف کراچی کی سرکردہ رکن ماروی مظہر کے مطابق ’کلفٹن پہلے ایک جزیرہ تھا، جہاں پر بڑے پیمانے پر بدیسی پرندے بھی آ کر رکتے تھے۔ بعد میں اس جزیرے کو زمینی علاقے سے منسلک کر دیا گیا، اس وقت کی منصوبہ بندی کے تحت یہاں سڑکوں کے کنارے برگد کے درخت لگائے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی پر انگریزوں کے قابض ہونے کے بعد انہوں نے پہلے یہ عمارتیں تعمیر کیں، جس کے بعد پارسی کمیونٹی کے لوگ یہاں منتقل ہو گئے اور یہ شہر کا پوش ترین علاقہ تصور کیا جانے لگا۔

کراچی کی تاریخ پر کتاب ’’کراچی سندھ کی مارئی ‘‘کے مصنف گل حسن کلمتی بتاتے ہیں کہ ایم اے جناح روڈ پر بلوچ پارک، گرو مندر، دھوبی گھاٹ، لیاری کی موسیٰ لائن، ریکسر لائن، کلفٹن برج اور اولڈ کلفٹن کے علاقے میں برگد کی درختوں کی بہتات تھی۔

اس کے علاوہ منگھو پیر میں جزام اسپتال اور ڈملوٹی ویلز، جہاں سے ملیر اور کراچی کے دیگر علاقوں کو پانی کی فراہمی ہوتی تھی، یہاں پر برگد کے درخت موجود تھے لیکن آہستہ آہستہ یہ لاپتا ہو گئے۔دراصل برگد کے اس خاص درخت کو منفرد بنانے والی اس کی جڑیں ہیں، جو درخت کی بالائی شاخوں سے پھوٹتی ہیں اور لٹکتی ہوئی برگد کے نچلے حصے کی جانب زمین کو جاتی ہیں۔ زمین سے ملتے ہی یہ جڑیں تناور تنوں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں، اور جا بجا پھیل کر درخت کو عجیب اور منفرد ساخت دیتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ گھروں سے کٹائی میں تو شہری ملوث ہو سکتے ہیں لیکن سڑک کے کنارے اور پارکوں سے جو درخت کاٹے گئے ان میں اداروں کی مرضی و منشا شامل تھی۔

کراچی میں اس وقت دیہی علاقوں اور اولڈ کلفٹن میں برگد کے درخت دیکھے جا سکتے ہیں۔ کلفٹن میں انڈر پاس کی تعمیر سے یہ درخت متاثر ہوئے، جس کے بعد پکی سڑکوں، مون سون کے بارشوں اور دیمک نے انھیں کمزور کیا۔

’درختوں پر فٹ پاتھ بنائے گئے، جس کی وجہ سے ان کی جڑیں کمزور ہوئیں اور انھیں بڑھنے اور سانس لینے میں مشکلات ہو رہی ہے، اس کے علاوہ وزن بڑھنے کی وجہ سے بھی کئی شاخیں گر جاتی ہیں۔

برگد، اسے فارسی میں برگد، عربی میں ذات الذوانب ، اور انگریزی Banyan tree کہتے ہیں اردو میں برگد، پنجابی میں بوہڑ جبکہ سندھی، ہندی اور مراہٹی میں اسے بڑ کہتے ہیں۔ ابتدا میں اس کے پتے نرم ہوتے ہیں جن کی رنگت سرخی مائل ہوتی ہے اور بعد میں یہ سبز ہو جاتے ہیں ۔

اس میں پھل بھی لگتا ہے جو سرخ اور بیری کی طرح ہوتا ہے جو پک کر سیاہی مائل سرخ ہو جاتا ہے۔اسے عرف عام میں بوہڑ بھی کہا جاتا ہے ایک گھنا سایہ دار درخت ہوتا ہے جس کی عمر ایک ہزار سال سے تجاوز کر جاتی ہے۔ گزرے زمانے میں بھارت اور پاکستان میں یہ درخت سڑکوں اور شاہراہوں کے کناروں پر عام تھا ۔ سری لنکا اور نیپال میں بھی بہت تھا، مگر اب ختم ہوتا جا رہا ہے۔

برگد کا درخت ادب میں ایک دیو مالائی کردار رہا رہا ہے، جبکہ ہندو اور بدھ مذہب کے پیروکار برگد کو مقدس سمجھتے ہیں، ہندو دھرم میں اس کو دیویوں اور دیوتاؤں سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ پھلوں کے ساتھ برگد کے پتے بھی چڑھاوے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، جبکہ ان پر کھانا بھی کھایا جاتا ہے۔ویسے تو اسے دیہات کا مرکزی درخت بھی کہا جاتا تھا جس کے نیچے چوپالیں لگائی جاتی تھیں۔ گپیں ہوتیں ۔ قصے کہانیاں ، تعلیم و تربیت اور فیصلے سنائے جاتے مگر یہ ثقافت اور روایات اب ختم ہو چکیں

گوتم بدھ نے چھ سال برگد کے درخت کے نیچے ہی بیٹھ کر تپسیا کی تھی جب انھیں نروان ملا۔ بعض درگاہوں اور مزارات پر بھی یہ درخت نظر آتے ہیں۔

نیچرل ہیریٹیج ایسوسی ایشن آف کراچی کی تحقیق کے مطابق اولڈ کلفٹن کے اس علاقے کے آس پاس تعیلمی ادارے اور غیر ملکی سفارتخانے واقع ہیں، برگد کے ان درختوں پر چڑیوں، چیلوں، کوئل اور مینا سمیت 12 اقسام کے پرندوں کے آشیانے ہیں۔اس کا دودھ (شیرِ برگد) اور پھل کے کئی ادویاتی استعمال ہیں جو قدیم چینی و ہندی طب میں ملتے ہیں۔ اس کے پتوں کو جلا کر زخم پر لگایا جاتا تھا۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبے نباتات کے سربراہ ڈاکٹر سید احتشام الحق کا کہنا ہے کہ برگد مقامی درخت ہے جو شہری جنگلی حیات کے لیے موزوں ہے کیونکہ اس کا سایہ بھی گھنا ہوتا ہے اس میں پرندوں کے لیے پھل بھی دستیاب ہے۔

’’کراچی سندھ کی مارئی ‘‘کے مصنف گل حسن کلمتی کا کہنا ہے کہ کچھ مقامی لوگ برگد کو کٹ مار کر اس کا رس جمع کرتے تھے جو حکیموں کو فروخت کیا جاتا تھا، ان مزدوروں کو دھکی یا چوٹ لگانے والے کے نام سے پہچانا جاتا تھا لیکن دیہی کراچی میں اب یہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔

’ان درختوں کی چھٹائی اور دیکھ بھال سے درختوں کو گرنے سے بچایا جا سکتا ہے، ان پر دیمک سے بچاؤ کی ادویات استعمال کی جائیں تاکہ سڑن سے محفوظ رہیں۔ درختوں کے گرد باڑ لگانے اور نشستیں لگانے سے عوام کو بیٹھنے کی جگہ میسر ہو گی اور اس کے ساتھ یہ درخت کسی نقصان سے بھی محفوظ رہیں گے۔