کیمیا گری سے انسان گری تک...

December 29, 2019

مصباح طیّب، سرگودھا

برس ہا برس سے انسان، سونا بنانے کے فن میں مہارت حاصل کرنےکے چکّر میں ہے،لیکن ناکام ہی رہا۔ آیئے، انسان کو سونا بنانے کا طریقہ سیکھتے ہیں۔ مسلمانوں کو تو اس فن کا ماہر ہونا چاہیے، کیوں کہ ہمارا مذہب ہمیں یہی سکھاتا ہے۔ اللہ رب العزّت نے کچھ بھی بے مقصد تخلیق نہیں کیا اور انسان توٹھہرا اشرف المخلوق۔ اسے اپنے مقصدِحیات کا تعیّن کرنا ہے، بلکہ اللہ نے خود ہی فرما دیا، ’’اور مَیں نے جِنوں اور انسانوں کو پیدا کیا ہے، تاکہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘جسمانی طور پر تو انسان اپنے وجود کی تخلیق کے ساتھ ہی ساری خصوصیات لے کر پیدا ہوتا ہے،لیکن اس کے اندر زندگی کی پروگرامنگ کرنی پڑتی ہے۔

جب وہ بچّہ ہوتا ہے،تو یہ ذمّے داری والدین کی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ بچّے کی خوراک، لباس اور دُنیاوی تعلیم کی ذمّے داری تو خوب اچھی طرح نبھائی جاتی ہے، مگر تربیت کے معاملے میں لاپروائی برتی جاتی ہے۔ حالاں کہ بچّے کی تربیت دُنیا کا سب سے اہم کام ہے اور اللّٰہ پاک نے اس کام کے لیے فطری طریقہ عطا کیا ہے۔والدین، دُنیاوی طور پر تو بچّے کو تیار کرتے ہیں، لیکن اس حوالے سےفکرمند نہیں ہوتے کہ مجھ سے اس معاملے میں روزِمحشر سوال بھی ہو گا۔ اللّٰہ نے خلق (پیدایش) میں تو کامل بنا دیا، لیکن اولاد ان کے اچھے اخلاق کے لیے بھی محنت والدین ہی کو کرنی ہے۔یادرہے، والدین خود صاحبِ عمل نہیں ،تو تربیت کا عمل بے کار ہے۔

ماں کی گود، بچّے کے لیے سب سے پہلا مدرسہ ہے اورگھر کا سربراہ یعنی مرد راعی(محافظ) ہے، اپنے گھر والوں پر، عورت پر۔چرواہے کے ذمّے بھیڑیں ہیں، وہ انہیں روز صُبح لے کر نکلتا ہے۔ سارا دِن ان کی رکھوالی کرتا ہے، آزادی کے ساتھ۔ انہیں اِدھر اُدھربھٹکنے نہیں دیتا، کھانے پینے کا خیال رکھتا ہے،پورا دِن حفاظت کرکے رات کو بحفاظت واپس لاتا ہے۔وہ اپنی ذمّے داری پوری دیانت داری سے ادا کرتا ہے۔ اُسے پتا ہے کہ اگر بھیڑ کے گلّے سے کوئی ایک بھیڑ بھی بھٹک گئی، تو مالک پوچھ گچھ کرے گا۔والدین کے ذمّے جو بچّے ہیں، وہ بھیڑیں نہیں ،باشعور ہیں۔

یوں کہہ لیں کہ بچّہ ننھا بیج ہے، جو پودا بننے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے کہ اللہ ربّ العزّت پوری صلاحیتوں کے ساتھ اسے دُنیا میں بھیجتا ہے۔ماں باپ راعی ہیں۔ انہوں نے ایمانی تربیت کا بیج بونا ہے، تاکہ بچّہ اچھا انسان بن سکے۔تربیت کے معاملے میں ماں کا کردار زیادہ اہم مانا جاتاہے کہ حضرت اسماعیلؑ کی تربیت بی بی حاجرہؑ ہی نے کی۔ حضرت مریمؑ کی تربیت ہی تھی کہ حضرت عیسیٰ ؑ پوری دُنیا کے لیے مثال بن گئے۔ اور اللّٰہ پاک نے نبی آخر الزماں ﷺ کو ماں کے شکم میں قیمتی ہیرا بنا دیا کہ وہ درِّیتیم تھے اور پھر دُنیا میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے ثابت ہوئے۔

ہم ماؤں کو اپنی اولاد کو ’’کیمیا‘‘ بناناہے، جس کے لیے اللّٰہ تعالیٰ سےاپنی آنے والی نسلوں کے لیے بہتر سوچنا اور بہتر مانگنا چاہیے کہ ’’دُعا‘‘ ہی تو مومن کا ہتھیارہے۔ اور ہر مومن اس ہتھیار سے لیس ہے، لہٰذا اپنے بچّوں کی نیک اور اچھی تربیت کے لیے اللّٰہ سے دُعا مانگیں۔ ہمیں اپنی نسلوں کی آب یاری ایسے کرنی ہے کہ دُنیا میں بھی نیک نامیاں سمیٹیں اور روزِمحشر بھی ربّ کے حضور شرمندگی نہ اُٹھانی پڑے۔