دِلوں کو فتح کرنے والے ’قاضی حُسین احمد‘

December 29, 2019

5اور 6جنوری 2013 ء کی درمیانی سرد رات، جوآج بھی ہماراخون منجمد کردیتی ہے ۔ ان سب یادوں کو جمال عبداللہ عثمان نے ایک خُوب صُورت کتاب، ’’عزیز ِجہاں‘‘ میں جمع کردیا ہے، اس کا ورق ورق ایک گواہی ہے۔ محترم سعود ساحر لکھتے ہیں’’قاضی حُسین احمد کی ایک ایسی تہہ دَر تہہ داستان ہے کہ اس کے ہر پہلو پر کتاب لکھی جاسکتی ہے ۔

اتحادِ اُمّت کے لیے ہر مسلک کے مسلمانوں کو یَک جا کرنے کی کوششیں ، افغان جہاد ، کشمیری مسلمانوں کی آزادی کے لیے عملی جدّوجہد ، جماعتِ اسلامی کو انتخابی سیاست میں قابلِ قبول بنانے کا کارنامہ ، عملی سیاست میں جماعتی نظم سے باہر نوجوانوں کو منظّم کرنے کی تگ و دو ،اتحادیوں کی وعدہ خلافیوں پر تحمّل و برداشت کا رویّہ ،اپنوں کے لگائے چرکوں کے مقابل مروّت کااظہار ، غرض ہر پہلو ایک کتاب کا متقاضی ہے، اس سب کچھ کو سطروں میں سمونا کیسے ممکن …؟؟

قاضی حُسین احمد ؒ کو اللہ تعالیٰ نے لشکرِ مودودیؒ کاسپہ سالار بنایا ، فکرِ اقبال ؒ سے دل میں آرزو کی جوت جگائی اور نظر ِارکان سے فکرِ ادیان تک رسائی دی، مگر اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں کہ قاضی صاحب روایتی لوگوں کی مانند افکار کی راستی کو مجادلہ اور مقابلہ بنانے کی طرف راغب رہے، وہ دلوں کو فتح کرنے کے مشن پر مامور کیے گئے تھے۔اطہرہاشمی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’قاضی حُسین احمد کے انتقال پر تقریباً ہر اخبار اور رسالے میں اتنا کچھ لکھاگیاکہ اس کی مثال نہیں ملتی ۔

ان کی زندگی کاکوئی ایسا پہلو نہیں، جو سامنے نہ لایا گیا ہو ، اسی لیے کچھ لکھتے ہوئے یہ الجھن تو ہے کہ ایسا کیا رہ گیا ہے، جس پر ہم بھی لکھیں۔ ‘‘ ویسے تویہ الجھن مجھےبھی ہے کہ آغا جان پر اتنا کچھ لکھا جا چُکا ہے کہ اسے پڑھنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ مَیں نے ان کی یادوں پر مشتمل تحریروں کو جمع کیا، تو کئی ضخیم کتابوں کامواد جمع ہوگیا۔ وفات سے ایک ماہ پہلے اُن پر خود کُش بم حملہ ہوا تھا ، اس کے بعد جب وہ منصورہ آئے، توبمبار کے لیے غم زَدہ تھے کہ پتا نہیں اس نوجوان کا برین کیسے واش کیا گیا تھا ، جو اس کی جان چلی گئی۔ اپنے ساتھیوں پر بڑا فخر کرتے تھے کہ سب جلسہ گاہ کی طرف میرے ساتھ چل پڑے اور کوئی بھی غائب نہیں ہوا۔ انہی دِنوں میرے ساتھ اپنی یاد داشتیں بھی شیئر کرتے رہے۔

حضورِ نبی کریم ﷺ سے عشق انہیں وَرثے میں ملاتھا۔ گلو گیر آواز میں اپنے والد ،جنہیں ہم بابا جی کہتے تھے کی بات سنائی کہ جب پہلی دفعہ مدینہ منوّرہ میں داخل ہوئے ،تو جوتے اُتار دیئے اور بغل میں دیوانِ حافظ دابی ہوئی تھی، اُسے نکال کرپڑھا تو یہ شعر درج تھا۔؎منم کہ دیدہ بدیدار دوست کردم باز…چہ شکر گویم تو کارساز و بندۂ نواز۔’’کہ مَیں وہ خوش قسمت ہوں، جس نے اپنے دوست کے دیدار کے ساتھ آنکھیں کھولی ہیں ،تو اے اللہ !تیرا شُکر کیسے اداکروں ، تُو کارساز اور بندہ نواز ہے۔‘‘بابا جی گاڑی سے بہت دُور اُتر گئے اور بطحا کی گلیوں ،کُوچوں میں پھرتے رہے اور پھرگنبدِ خضراء کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ گئے۔

اسی واقعےکے ساتھ آغاجان نے اپنا ایک واقعہ سنایا کہ مَیں تین مہینے کی سیر وسیّاحت اور سفرِ حج سے واپسی پر نگر نگر گھومتا واپسی پر جب ہرات پہنچا ،تو وہاں خرقہ شریف کی درگاہ دیکھی۔ جس کے متعلق روایت ہے کہ یہ حضورِ نبی کریم ﷺکا خرقہ (پیوند لگا لباس)مبارک ہے۔ حج سے واپسی پر ویسے ہی انسان کے دل کی دنیا بدلی ہوئی ہوتی ہے اور دل مدینے میں بے قرار چھوڑ آیا ہوتا ہے، تو جب مَیں نے اُس پر لگے کتبے کو دیکھا ،تو مجھ پر ایسے گریہ طاری ہواکہ مَیں وہاں بہت دیر تک روتا رہا اور اللہ سے فریاد کرتارہا ۔ ؎

داخرقہ دہ در رسول مدنی ﷺ…چہ پہ لاس شوہ دہ اویس قرنیؓ…سلسلہ پہ سلسلہ دے زائے تہ راغلہ… دہ خاوندئے خدایہ ماکڑے اسپیلنی۔ (یعنی، یہ حضور نبی کریمﷺ کاخرقہ مبارک ہے ، جو حضرت اویس قرنی ؓ کو عطا کیاگیاتھا۔ سلسلہ بہ سلسلہ اس جگہ تک پہنچااور اے اللہ ! مجھے اس کے مالک رسولِ مدنی ﷺ کے صدقے قربان کردے۔) بالکل اسی طرح کا گریہ مجھ پر 16دسمبر1971 ء کو سقوطِ ڈھاکا کی رات طاری ہوا تھا کہ جب مَیں ساری رات زار وقطار روتا رہاتھا۔ مجھے اپنی زندگی میں اتنی رُلا دینے والی کوئی اور رات یاد ہی نہیں۔‘‘

ایک اور وقت کاذِکر کرتے ہوئے بتانے لگے کہ’’ مَیں جب میٹرک میں تھا، تو اپنا نام قاضی حُسین احمد سلجوقی لکھاکرتاتھا۔ ایک دن بڑے بھائی ،مولانا عبدالقدّوس قاسمی نے میری ڈائری دیکھی اور میرا نام پڑھا تو کہاکہ’’ واہ بھئی! تم تو بہت بڑے آدمی بن گئے ہو، کیا معتبر نام ہے ،قاضی حُسین احمد سلجوقی ‘‘۔پھر بڑی محبّت سے میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہاکہ ’’بیٹا! مَیں نے اپنے والد سے یہ جذبہ اخذ کیا ہے کہ رزقِ حلال سے اپنے بچّوں کی پرورش کروں ۔

وہ ہمارے لیے بہت دُعاکیاکرتے تھے اور ہم دس بہن بھائیوں کی ایسی تربیت کی کہ ہر ایک علم و فضل میں ایک مقام پر پہنچا۔ہر انسان کاایک شوق ہوتاہے، میرے والد کا شوق تھاکہ ان کی اولاد دینی و دنیاوی علوم میں ممتاز مقام حاصل کرے۔ انہوںنے میرے بڑے بھائیوں کو دیوبند بھی بھیجا ،جو دینی علوم کاممتاز ادارہ تھا اور پھردونوں بڑے بھائی امریکا اور کینیڈا بھی گئے۔ ایک مولانا عبدالسبوح قاسمی، پاکستان میں لائبریری سائنس کے اوّلین پی ایچ ڈی ڈاکٹرز میں سے تھے ، جنہوںنے 50ء کی دَہائی میں کولمبیا یونی وَرسٹی سے پی ایچ ڈی کی اور ڈاکٹر عتیق الرّحمٰن، خیبر پختون خوا کے اوّلین ریڈیالوجی اسپیشلسٹ تھے۔‘‘

اسی طرح امّی ،ابّو نے ہم بہن بھائیوں کو بھی دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ کروایا اور ہم تین بہن بھائیوں نے یونی وَرسٹی میں ٹاپ کیا۔ چھوٹا بھائی ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہے۔جب قاضی صاحب نے 2009ء میں چین کے دورے پرحکومتِ چِین کے ساتھ ایک ایم او یو(memorandum of understanding) پر دستخط کیے، تو بقول مشاہد حُسین سید ’’ وہ پہلے دینی رہنما تھے، جنہوں نے چِینی حکومت کے ساتھ ایم او یوپر دستخط کیے تاکہ جماعتِ اسلامی اور چین کی حکومتی پارٹی آپس میں ورکنگ ریلیشنز قائم کرسکیں۔‘‘ ایک مرتبہ مجھے حضور نبی کریم ﷺکی حدیثِ مبارکہ ’’حکمت مومن کی گُم شدہ متاع ہے ، جہاں سے پائے، اسے حاصل کرلے ‘‘سُناتے ہوئے نصیحت کی کہ’’بیٹا ! انسان کی زندگی میں عقیدہ اور ایمان سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

اسلام کے مفادات پر اپنے کسی مفاد کو اوّلیت دینا ،دَراصل اپنا ایمان بیچنا ہے اور دنیا میں جن لوگوں نے بھی اپنا نظریہ اور ایمان بیچا، تاریخ نے انہیں اپنے کُوڑے دان میں پھینک دیا ۔ ہم نے ہر جگہ اپنا یہ تاثر مستحکم کیاہے کہ ہم لوگ اپنے ایمان کی قیمت پر کوئی کام نہیںکریں گے ۔ وہاں(چِین) کے مسلمانوں کے مفادات کی قیمت پر کوئی سمجھوتا کریں گےاور نہ ہی ہمارے مالی و دیگر مفادات کسی سے وابستہ ہیں۔‘‘

ایک مسلم نوجوان کاذکر کرتے ہوئے بتایاکہ ’’ اُس نےاپنی دُکانوں پر نمازِ باجماعت کی جگہ بنائی اور رمضان میں تراویح کا اہتمام بھی کیا تو دُور دُور سے مسلمان آنے لگے ۔ وہاں کے چینیوں میں بھی تجسّس بڑھااور انہوں نے ہم سے پوچھا کہ ’’ کیاپڑھتے ہو؟‘‘ تو ہم نےچینی کوسورۃ فاتحہ کا ترجمہ سنادیا۔ جسےسُن کر اس نے میرے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہاکہ ’’پانچ وقت اپنےخداسے جھوٹ بولتے ہو، تم توایسا کچھ نہیں کرتے ‘‘ وہ نوجوان شرمندگی سے خاموش ہوگیا۔ ہمارے پاس قرآن اور سیرتِ رسول ﷺتو موجود ہیں، مگر معاشرے میں ان کاکوئی عملی نمونہ نہیں۔‘‘

آغا جان نےامریکا کے ساتھ بھی اپنے تعلقات اور اسلام کے صحیح تصوّر کو پیش کرنے کے لیے مکالمے کی ضرورت پر زورد یا۔ پاکستان میں امریکی سفیر ،وینڈ ی چیمبر لین کاایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ’’ افغانستان پر حملے سے پہلے ایک تقریب میں اُن سے گفتگو ہوئی ،تو مَیں نے اُن پر یہ واضح کردیا کہ کسی بھی طرح کی جنگ نہ اس خطّے کے مفاد میں ہے اور نہ امریکا کے اپنے مفاد میں ، مگر انہوں نے اس پر کوئی غور نہیں کیا اور نتیجتاً یہ پورا خطّہ اور امریکا خود ایک ایسی تباہ کُن جنگ میں پھنس گیا کہ اس نے اس پوری دنیا کے امن پر ضرب لگادی ہے۔‘‘وہ خود بھی مختلف زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور ہمیں بھی سکھائیں۔

مَیں نےایک بار کہاکہ آپ نے اتنی اچھی انگریزی ، فارسی اور عربی کیسے سیکھی ؟ اُردو بھی اتنے خُوب صُورت الفاظ کے ساتھ لکھتے، بولتے ہیں، توجواب دیا’’بیٹا! جب بھی کوئی زبان سیکھنی ہو ، تو اس زبان کاترجمے والا قرآن پڑھاکرو۔ اس طرح عمدہ الفاظ کا ذخیرہ جمع ہوجائے گا اور زبان بھی خُوب صُورت ہوجائے گی۔ ‘‘ہر زبان کی ڈکشنری پاس رکھتے اور فوراً اس کی تشریح معلوم کرتے تھے۔کلامِ اقبال کے حافظ تھے۔اکثر اُن کی طویل نظمیں گُنگنایا کرتے ۔

قرآن ، حدیث اور اقبال کی کلیات سرہانے رکھی ہوتیں ۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کے بچّوں کوکہتےکہ’’داد ا کی شاعری پڑھنے کے لیے فارسی سیکھو۔ ‘‘ہمیں بھی اقبال کی فارسی شاعری پڑھانے،سمجھانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ۔ آخری دِنوں میں اقبال کی ’’نیا شوالہ‘‘ نظم سنائی کہ مجھے آج سمجھ آئی ہے کہ اقبال اس میں ہمیں کیا سمجھانے کی کوشش کررہے تھے ۔میرا چھوٹا بھائی انس فرحان قاضی کہنے لگا’’اقبال نے خود بھی اپنی شاعری اتنی کسی کو نہ سمجھائی ہوگی ،جتنی آپ نے ہمیں سمجھا دی ہے۔‘‘

میرے پی ایچ ڈی کرنے پر بے حد خوش تھے۔تاہم، پنجاب یونی وَرسٹی کی انتظامیہ کے اس وقت جمعیت سے تعلقات اچھے نہ تھے ، انتظامیہ کی طرف سے پیغام ملاکہ ’’قاضی صاحب کانوکیشن میں تشریف نہ لائیں کہ کوئی ناخوش گوار صورتِ حال پیش نہ آجائے۔‘‘ پیغام ملتے ہی کہنے لگے’’میری زندگی کاانتہائی خُوب صُورت دن ہے کہ میری بیٹی کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری مل رہی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ مَیں اس میں شامل نہ ہوں۔ مَیں ضرور جائوں گا اورایک عام والد کی طرح ہال میں بیٹھوں گا۔میرے دونوں بچّوں کو کہاکہ آج امی کے کانوکیشن میں جائیں گے۔‘‘ میری بیٹی کو اپنے ساتھ بٹھایا اور ہال میں سب والدین کے ساتھ بیٹھ گئے۔

وائس چانسلر ، ڈاکٹر مجاہد کامران نے دیکھا تو انہیں انتہائی احترام سے آگے بٹھایا اور کہاکہ’’ ایک سٹِنگ ایم این اےنے ہماری یونی وَرسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے، یہ ہم سب کے لیے فخر کا مقام ہے۔‘‘ میری ساتھی ڈگری ہولڈرز آغا جان کے پاس آکر تصویریں بنوانے لگیں، تو لاہور کے پرانے فوٹوگرافر ، آغا جان کے پاس آئے اورپوچھاکہ’’ آج آپ اپنی بیٹی کے ساتھ تصویر بنوائیں گے؟‘‘تو مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’آج کیوں نہیں؟ ‘‘ یہ ان کی میرے ساتھ واحد تصویر ہے۔

انہوں نےہمیشہ میری پشتیبانی کی ،ہمیں ہماری روایات سے بھی جوڑے رکھا اور جدید چیلنجز کامقابلہ کرنے کا حوصلہ بھی دیا۔مَیں جب ڈگری لے کر گھر آئی، تو دیکھاکہ کھانے کی میز پر ایک ٹشو پیپر پر میرا نام’’ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی‘‘ خوش خطی کے ساتھ اُردو اور انگلش میں لکھا ہے۔ مجھے کہاکہ’’ بیٹا مَیں آج بے حد خوش ہوں۔

تم نے میری عزّت و وقار میں بہت اضافہ کیا۔ بتائو تمہیں کیا انعام دوں ؟‘‘ مَیں نے کہا ’’آپ کی محبّت اور شفقت ہی تو میرا انعام ہے۔ آپ اور امّی نہ ہوتے، تو مَیںپی ایچ ڈی کیسے کرتی، اتنی سہولتیں کون فراہم کرتا۔‘‘ میرے یتیم بچّوں کو انہوںنے باپ کی کمی کبھی محسوس ہی نہ ہونے دی اور گھر میں ہمیں اتنی محبّت ، حفاظت اور سب سے بڑھ کر عزّت سے نوازا کہ ان کی محبّت کرنے کی صلاحیت پر رشک آتا ہے۔ کبھی کسی بات پر دل گرفتہ ہوتے ،تو بالکل خاموش ہوجاتے۔ ہم نے کبھی انہیں اونچی آواز میں بات کرتے نہ دیکھا۔

ہمیں یہ بھی نصیحت کی کہ ’’جماعت سے جڑے رہنا،یہ تمہیں حفاظت اور امانت کے راستوں پر چلائے گی اور اپنی صلاحیّتوں کو اپنے ربّ کی رضا کے لیے استعمال کرنا۔ اپنی ذات کو پیچھے رکھ کر اپنے مقاصد کو اوّلیت دو گی ،تو اللہ تمہاری ذات کو کبھی پیچھے نہ رکھے گا۔ جماعت سے جُڑے رہو گے، تو میرے بعد لوگ تم سے اور بھی زیادہ محبّت کریں گے۔‘‘آغا جان نے ساری عُمر محبّت اور عزّت کے بیج بوئے ،یہ اسی کا اعجاز ہے کہ ہمیں اس کا ثمر عزّت اور محبّت کی صُورت مل رہا ہے۔ اللہ ہمیں ان کاصدقۂ جاریہ بننے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ سے درخواست ہے کہ اُن کی مغفرت کے لیے دعا گو رہیں۔

امّی ! اب ہم یتیم ہوگئے ہیں…

جب جمیل(میرے شوہر)،بارہ سالہ محمّد اورسات سالہ رہام کومیرے سپرد کرکےدنیا سے رخصت ہو گئے، تو آغاجان نے میرے سر پہ ہاتھ رکھ کے تسلّی دی ’’ بیٹا! قدرت کے آگے انسان بے بس ہے۔ اس آزمائش کا مقابلہ تمہیں ہمّت سے کرنا ہے۔اللہ ان دونوں بچّوں کے نصیب کا ہمیں بھی دے گا ‘‘۔ میرےتایاجان نے مجھے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئےکہا کہ ’’تمہیں بہت سے وسوسے اور اندیشے گھیریں گے ،لیکن تمہیں ان کا مقابلہ کرنا ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ تربیت یافتہ انسان ، حضرت محمّد ﷺ بھی ایک درّ ِ یتیم تھے۔‘‘ میرے بھائیوں نے حوصلہ دیا کہ ’’آپ ان بچّوں میں احساسِ محرومی و کم تری کسی صُورت بھی پیدا نہیں ہونے دیجیے گا۔

ورنہ ہمارے اتنے بڑے خاندان کا کیافائدہ؟‘‘ پھر اُس کے بعد مجھےآغاجان نے کبھی ایک لمحے کے لیے بھی تنہا نہ چھوڑا۔ سب سے پہلا کام تویہ کیا کہ جو وَراثت ہمیں اُن کے بعد ملنی تھی ،وہ میرے شوہرکی وفات کے فورا ًبعد تقسیم کردی۔ تاکہ مجھے یہ محسوس ہی نہ ہو کہ آغاجان ہمارے اخراجات اُٹھا رہے ہیں ۔آغاجان کے ساتھی محمّد ابرار صاحب ، اب میرے ماہانہ یوٹیلیٹی بلزکی ادَائی کو یاد کرکےرو پڑتے ہیںکہ آغاجان نے انہیںیہ تاکید کررکھی تھی کہ راحیل کو کچھ پتانہیں چلنا چاہیے۔

آغاجان کے جانے کے بعد مجھے میرے بچّوں نے کہا کہ’’ امّی ! اب ہم یتیم ہوئےہیں کہ آغاجان نے تو اتنی آسودگی اور اعتماد دیا تھا کہ کبھی یاد ہی نہ رہا کہ ابّو نہیں ہیں۔‘‘ وہ مجھے اوربچّوں کوبٹھا کر جمیل کی باتیں کیا کرتے تھے کہ محبّت کرنے والی ہستیوں کا حق ہوتا ہے کہ انہیں دعاؤں میں یاد رکھا جائےاور اُن کی قبر کی پگڈنڈی پر کبھی گھاس نہیں اُگنی چاہیے۔

آغا جان ہی مجھے یہ بھی حوصلہ دیتے کہ ’’یتیم بچّوں کو اللہ تعالی کچھ اضافی خصوصیات سے نوازتا ہے، جو عام انسانوں میں نہیں ہوتیں۔‘‘جمیل کی تعزیت کے لیے آئی میری چار کزنز نے،جو جوانی میں بیوہ ہوگئ تھیں، مجھے روتے ہوئے دلاسادیا کہ ’’ہمارے آغاجان یتامیٰ کو پالنے کے عادی ہیں۔‘‘