تخلیق کی آگ میں جلتی ’’قراۃ العین حیدر‘‘

December 29, 2019

’’آگ کا دریا، بلاشبہ اُردو ناول نگاری میں ایک عظیم تجربے کی حیثیت رکھتا ہے۔ صدیاں ایک ایسے آفاقی سمندر کی صورت اختیار کرلیتی ہیں، جس میں انسان کا عالم ’’اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے‘‘ ایسا ہوتا ہے۔ کینوس اتنا وسیع ہے کہ آگ کا دریا ایک بے کراں سمندر بن جاتا ہے، جس میں مختلف فلسفوں کے دریا اور علوم کی ندیاں آ آ کر گرتی ہیں، اس لیے جب تک تہہ میں نہ جاؤ، موتی نہ ملے گا۔

لیکن تہہ میں جانے والے شناور کتنے؟‘‘ یہ الفاظ ہیں، ڈاکٹر سلیم اختر کے اور ایسی مقبول ترین کتاب کے بارے میں ہیں کہ جس کے کئی کئی ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ’’اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘‘ کے مصنّف کو اگرچہ قراۃ العین حیدر کا تذکرہ کرنا ہرگز مقصود نہ تھا،مگر وہ قراۃ العین حیدر کا تذکرہ کیے بغیر رہ بھی نہ سکے۔ کون ہیں یہ قراۃ العین حیدر؟ ایک ایسی مصنّفہ کہ جن کے ناول ’’آگ کا دریا‘‘ کو اُن سے الگ کرکے دیکھنا ممکن نہیں۔

وہی قراۃ العین حیدر کہ جن کے اوّلین ناول’’میرے بھی صنم خانے‘‘کے شائع ہوتے ہی اُردو ادب کے متوالوں نے سمجھ لیا کہ ایک نئے ستارے نے ادب کے اُفق پر روشنی بکھیرنے کاسلسلہ شروع کردیاہے۔ وہی قراۃ العین حیدر کہ جن کے یہاں قاری کبھی تاریخ پڑھتا ہے، تو کبھی تہذیب۔ کبھی مذہب کی بات سنتا ہے، تو کبھی فسادات کے قصّے۔ کبھی جاگیردارانہ سماج کی ظالمانہ رُسوم دیکھتا ہے، تو کبھی فلسفیانہ موشگافیاں۔

غرض، ایک پہلو دار فن کار کی تہہ داری کے چہارسُو مظاہراُسے حیرت کدئہ عالم کے طلسمات کا اسیر بنادیتے ہیں اور یہ سب یک دم نہیں ہوگیا۔ اس کے پسِ پُشت قراۃ العین حیدر کا وسیع اور مضبوط علمی و ادبی پس منظر ہے۔ اُن کے دادا، خان بہادر، سیّد جلال الدین حیدر، جھانسی کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کے عہدے پر فائز تھے۔ جلال الدین کے دیگرتین بھائی بھی اچھے عہدوں پر تھے۔

یہ لوگ تعلیم یافتہ اور مالی طور پر خوش حال ہونے کے علاوہ گہرے مذہبی رُجحانات کے بھی حامل تھے۔ اگرچہ ان سے دو پُشت اوپر خاندانی زمینیں اس وجہ سے موجود تھیں کہ مغلیہ دربار میں سہ ہزاری، پنج ہزاری منصب داری کے حامل تھے، مگرخان بہادر، سیّد جلال الدین حیدر کے والد امیر احمدؔ علی نے غدر 1857ء میں فرنگیوں کا ساتھ نہیں دیا۔ تادیب کے طور پر انگریز سرکار نے ساری زمینیں ضبط کرلیں۔ یوں امیر احمدؔ علی کی اولاد کو گزر بسر اور معاشی خود کفالت حاصل کرنے کے لیے سرکاری ملازمت پر انحصار کرنا پڑا،تاہم اچھی تعلیم نے اچھی ملازمت اور اچھے مستقبل کی راہ ہم وار کردی۔ خان بہادر جلال الدین کی شادی محترمہ سعید بانو سے ہوئی۔

اُن کی اولاد میں چار بیٹے اور ایک بیٹی شامل تھے۔ سیّد اعجاز حیدر، صغریٰ فاطمہ، سجّاد حیدر، نصیر الدین حیدر اور وحید الدین سب کے سب لائق فائق نکلے۔ سو، ان ہی میں سے تیسری اولاد سیّد سجّاد حیدر نے ادبی دنیا میں اپنی شناخت اس طرح بنائی کہ ’’سجّاد حیدر یلدرمؔ‘‘ کے نام اور کام کو ایک زمانے بعد بھی سراہے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ سیّد سجّاد حیدر 1880ء میں قصبہ کانڈیر، ضلع جھانسی میں پیدا ہوئے۔ تاہم، سیّد معین الرحمٰن نے ’’مطالعۂ یلدرم‘‘ میں ولادت نہٹور، ضلع بجنور قرار دی ہے۔ بچپن ہنستے کھیلتے اور اچھی تعلیم حاصل کرتے بسر ہوا۔ معاشی خوش حالی تھی۔

یوں تعلیمی منازل ذہانت اور محنت کے ساتھ جلد حاصل کرلیں۔ گھر کی فضا میں عالمانہ اور جاگیردارانہ بودو باش کی جھلک موجود تھی، لہٰذا لباس اور وضع قطع میں مغربی انداز کی پیروی میں کوئی عار محسوس نہ کرتے۔ گھریلو فضا کی وجہ سے پڑھنے لکھنے کا شوق اور اخبار بینی عادت بن گئی۔ ذہانت کے ساتھ گفتگو کی بھی صلاحیت موجود تھی۔ یوں اسکول کے زمانے ہی سے تقریری مقابلوں میں بھی حصّہ لینا شروع کیا۔ تاہم، کھیل کود سے طبیعت کو زیادہ نسبت نہ تھی۔ اسکول کی تعلیم مکمّل ہوئی، تو یلدرمؔ کو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے علی گڑھ بھیج دیا گیا۔ وہی علی گڑھ کہ جہاں کی تعلیم ذہنی اُفق کو افلاک کی وسعتوں سے ہم آہنگ کرنے کا ہنر خوب جانتی تھی۔ سو، یہاں آکر یلدرمؔ کی صلاحیتوں کو خوب خوب جِلا ملی۔ دوستوں کا حلقہ بھی وسیع ہوچلا۔ مقصود علی خاں اور زمان مہدی سے زیادہ قُربت رہی۔

قراۃ العین حیدر کے والد، سجاد حیدر یلدرم

اوّل الذکر تعلیم مکمّل کرنے کے بعد یوپی میں پہلے ڈپٹی کلکٹر، پھر کمشنر کے عہدے تک پہنچے۔ بعدازاں، تعلیمی قابلیت کے بل بوتے پر پنجاب میں ڈپٹی کمشنر کا عہدہ حاصل کیا۔ 1896ء کے آس پاس کا زمانہ تھا کہ نواب اسماعیل خاں کے رسالے ’’معارف‘‘ کے لیے افسانے تحریر کرنا شروع کیے اور پھرکئی برس تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ یلدرمؔ کو طبیعت کی منکسر المزاجی اور ذہانت کی وجہ سے جلد ہی علی گڑھ یونی ورسٹی میں پہچانا جانے لگا۔ فارسی سے طبیعت کو یک گونہ نسبت تھی۔ سو، جلد ہی استاد الاساتذہ، علامہ شبلی نعمانی کی قُربت بھی حاصل ہوچلی۔1899ء میں انٹر کے امتحان میں الہ آباد یونی ورسٹی میں انگریزی اور فارسی میں اوّل آئے۔ تاہم، ریاضی کے امتحان میں کام یابی یوں نہ ہوسکی کہ ریاضی کا مضمون ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔

انتہائی دل چسپ صورت یہ بھی پیدا ہوئی کہ یلدرمؔ سے ملنے جُلنے والے سارے طالب علم ریاضی کے مضمون کو محض اس وجہ سے برا بھلا کہنے لگے کہ یلدرمؔ اُس میں کام یاب نہ ہوسکے۔ یہی وہ زمانہ تھا کہ یلدرمؔ کا دتاولی کے رئیس، حاجی اسماعیل خاں سے ایسا تعلق استوار ہوا کہ وہ ان کے سیکریٹری ہوگئے۔ حاجی اسماعیل ’’العزیز‘‘ کے مُدیر ہونےکے علاوہ ترکی زبان سے بھی خوب واقف تھے اور ترکی سمیت کئی ممالک گھوم آئے تھے۔ یلدرمؔ کو اُن کے ساتھ رہنے سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ وہ بھی ترکی زبان کی طرف مائل ہوئے اور بالآخر اُس میں دسترس حاصل کرلی۔ چوں کہ تحریر اور تقریر کی صلاحیت غیر معمولی تھی۔ سو، ارادہ کیا کہ تحریر کی جانب سنجیدگی سے قدم اٹھایا جائے۔ اگرچہ گاہے گاہے لکھنے کا سلسلہ تو کئی برس پیش تر ہی شروع ہوچکا تھا۔

انگریزی زبان پر عبور تھا، اور اپنے ساتھیوں میں اس بنیاد پر سب سے ممتاز بھی سمجھے جاتے تھے۔اُس زمانے کے معتبر ترین انگریزی اخبار ’’The Pioneer‘‘ میں مضمون کا شایع ہوجانا، اچھی انگریزی پرکھنے کا معیار تھا۔ مذکورہ اخبار میں یلدرمؔ نے جوں ہی اپنا ایک مضمون بھیجا، اخبار نے فوری طور پر شایع کردیا۔ یوں سب ہی یلدرم کی قابلیت کے قائل ہوگئے۔ قائل ہونے والوں میں مولانا محمد علی جوہرجیسے فردِ کامل بھی تھے۔ جب دہلی سے’’ہمدرد‘‘ کا اجراء ہونے والا تھا، تو مولانا محمد علی جوہرکی بڑی خواہش تھی کہ یلدرم اُس کے ادارتی معاملات کی نگرانی کریں۔ تاہم، یلدرم اس کے لیے خود کو آمادہ نہ کرسکے۔

سال 1900ء تھا، انہوں نے کالج کے ایک طالبِ علم پرجنہیں سب ’’خالا امّاں‘‘ کہا کرتے، ایک نظم تحریر کی، جس کا عنوان تھا ’’مرزا پھویاؔ علی گڑھ میں۔‘‘ یہ نظم بہت پسند کی گئی۔ نظم کے چند شعر یہ ہیں؎ایک صاحب اودھ میں رہتے تھے..... مرزا پھویاؔ سب اُن کو کہتے تھے..... کیا کہوں تھا کہاں چمن اُن کا..... لکھنو ٔ تھا کبھی وطن اُن کا..... گھر سے نکلے نہ تھے تمامی عُمر.....ساری بھونرے ہی میں گزاری عُمر۔ اسی سال ’’معارف‘‘ میں پہلا افسانہ ’’نشے کی پہلی ترنگ‘‘ شایع ہوا۔1901ء میں مشہور ادبی پرچے ’’مخزن‘‘ میں ’’فطرت جواں مردی‘‘ کے عنوان سے افسانہ تحریر کیا اور اسی سال بی اے کے امتحان میں اس شان سے کام یابی حاصل کی کہ پوری الٰہ آباد یونی ورسٹی میں چوتھا درجہ رہا۔یلدرم، کالج میں نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں یکساں طور پر مصروف رہتے۔ تقریر بھی بہت جوش و خروش سے کرتے۔ یہی نہیں، کالج یونین کے سیکریٹری اور صدر بھی منتخب ہوئے۔

اُن ہی دنوں شعر و شاعری سے بھی خوب لگاؤ ہوا۔ اب یلدرم کے مضامین مختلف پرچوں میں تواتر سے شایع ہونا شروع ہوئے۔ موضوعات خاصی حد تک مسلم سماج میں رائج قدامت پرستی کے خلاف تھے،چناں چہ اُنہیں کچھ حلقوں کی طرف سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ایسے عنوانات میں دیسی زبان میں نماز کی ادائیگی،بِنا عربی عبارت کے قرآنِ پاک کو کتاب کی صورت میں شایع کرنا وغیرہ شامل تھے۔ کچھ ہی عرصے بعد علی گڑھ کالج کے پرنسپل، مسٹر موریسن کو حکومتِ عراق کی طرف سے درخواست موصول ہوئی کہ کسی ایسے شخص کی سفارش کریں، جو عربی پر عبور رکھتا ہو۔ درخواستیں طلب ہوئیں۔ امیدواروں میں بہت سےعربی زبان میںایم اے کے سند یافتہ بھی شامل تھے۔ تاہم، یلدرم کا نام اس عہدے کے لیے تجویز کیا گیا۔

اگرچہ وہ بی اے پاس تھے۔ اُن کا نام تجویز کرنے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ ترکی زبان سے بھی واقف تھے۔ بہرحال، یلدرم عراق کی طرف عازمِ سفر ہوئے اور بغداد میں قائم برطانوی سفارت خانے میں ترجمانی کے فرائض انجام دینے لگے۔ یہ قیامِ بغداد ہی کااثر تھا کہ سیّد سجّاد حیدر کے نام کے ساتھ ’’یلدرم‘‘ کا لاحقہ ایسا لگا کہ پھر وہ ادبی دنیا میں اسی نام سےپہچانے جانے لگے۔ ایسا انہوں نے ترک سلطان بایزید کی تاسّی میں کیا تھا۔1907ء تک بیرونِ ملک مقیم رہے۔ 1908ء میں سابق امیرِ کابل، یعقوب خاں کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر کام کرنے لگے۔ ’’خیالستان‘‘ اُن کے افسانوں کا وہ مجموعہ تھا، جو 1910-11ء میں سامنے آیا۔ رومانیت اور حقیقت کی آمیزش کے ساتھ تحریر کیے گئے افسانے پڑھنے والوں میں بے حد پسند کیے گئے۔

پطرس بخاری نے اس پر رائے دیتے ہوئے کہا، ’’یہ کتاب اپنی اشاعت کے چند ہفتوں کے اندر اُردو کی ایسی مقبول تصنیف بن گئی، جو بڑی رغبت سے باربار پڑھی گئی۔‘‘مقبولیت کی انتہا یہ تھی کہ علامہ اقبالؔ نے اُسے پنجاب یونی ورسٹی کے نصاب میں شامل کرنے کی سفارش کی۔ مزاح یلدرم کی تحریر کا ایک اور وصف تھا۔’’مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ‘‘ اُس کی ایک کمال مثال ہے۔

’’انار کلی‘‘ جیسے شہرئہ آفاق ڈرامے کے تخلیق کار، سیّد امتیاز علی تاج نے ایک مقام پر یلدرم کے بارے میں یوں اظہارِ خیال کیا ہے، ’’سیّد سجّاد حیدر صاحب ہر جگہ، ہر موقعے کے مناسب الفاظ استعمال کرنے میں بہت محتاط رہتے ہیں۔ کہیں وہ ایسے الفاظ تلاش کر کے لکھنے کا اہتمام کرتے ہیں کہ جن کی اصوات اُن کے معنوں کا سُراغ دیتی ہیں۔

کہیں آپ صرف ایک موزوں لفظ یا نفیس و نازک ترکیب سے فقرے میں زندگی کی لہر پیدا کردیتے ہیں اور بعض اوقات ان کے الفاظ اختلاف کا ذہنی عمل بیدار کرکے پڑھنے والے کے معمولی تجربات و مشاہدات کو ایک عجیب دل کش روشنی میں پیش کرتے ہیں۔‘‘ 1912ء میں اُس زمانے کی مشہور افسانہ نگار، نذر زہرا بیگم، جو بنتِ نذر الباقرکہلاتی تھیں، اُن کی شریکِ حیات بنیں۔ وہ خواتین کے معتبر ترین رسالے ’’تہذیبِ نسواں‘‘کی قلمی معاون تھیں۔ امتیاز علی تاج کی والدہ، بی بی محمدی بیگم اُس رسالے کی مدیر تھیں۔

بنتِ نذر الباقر بچّوں کے مشہور رسالے’’پھول‘‘ کی اعزازی مُدیر بھی رہیں۔ متذکرہ دونوں پرچوں کے بارے میں ناقدین کی رائے ہے کہ خواتین اور اطفال کے لیے جو مثالیں انہوں نے قائم کیں، آج بھی اُن کے مقابلے میں ایسے پرچوں کا آنا دشوار ہے۔ اُن کی مشہور کتابوں میں ’’سلیم کی کہانی‘‘،’’پھولوں کا ہار‘‘،’’سچّی رضیہ اور اس کی بکری‘‘ اور ’’دُکھ بھری کہانی‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ اُن کا اوّلین ناول ’’اختر النساء بیگم‘‘ تھا جو 1910ء میں سامنے آیااور ادب سے شغف رکھنے والوں نے اُسے تحسین سے نوازا۔ ’’ثُریّا‘‘ اور ’’مذہب اور عشق‘‘ 1930ء کے عشرے میں تحریر کیے گئے ناول تھے۔

وہ سماجی طور پر بھی خاصی فعال تھیں۔اُدھر سجّاد حیدر یلدرمؔ 1914ء میں مسلم لیگ کے رہنما، راجا محمود آباد کے پولیٹیکل سیکریٹری مقرّر ہوئے۔ 1920ء میں جب ایم اے او کالج کو ’’علی گڑھ یونی ورسٹی‘‘ کا درجہ ملا، تو یلدرم کو اُس کا اولّین رجسٹرار ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ پھر اگلے ہی برس جب شعبۂ اُردو قائم ہوا،تو یلدرمؔ شعبے کے پہلے صدر بنائے گئے۔ تاہم 1929ء میں ایک بار پھرسول سروس میں واپس آگئے اور1930ء میں اسسٹنٹ ریونیو کمشنر کے طور پر ترقی ملنے کے بعد جزائر انڈمان بھیج دیے گئے۔ تاہم، تھوڑے ہی عرصے میں غازی پور واپس آگئے اور 1935ء میں ملازمت سے قبل ازوقت سبک دوشی اختیار کرلی جس کے آٹھ برس بعد 1943ء میں اس دنیا سے کوچ کرگئے۔

اس عہد کے صفِ اوّل کے نقّاد، شمس الرحمٰن فاروقی، یلدرم کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’افسانے میں وہ پریم چند سے پہلے ہیں۔ ادب ِ لطیف کہی جانے والی نثر میں وہ نیاز فتح پوری پر مقدّم ہیں اور مزاح میں اُن کا اثر پطرس کے یہاں جا بجا نظر آتا ہے۔‘‘یلدرم کی تصانیف میں’’پرانا خواب‘‘،’’آسیبِ اُلفت‘‘، ’’جنگ و جدال‘‘،’’زیارت قاہرہ و قسطنطنیہ‘‘(سفرنامہ) ترکی زبان سے کیے گئے تراجم وغیرہ شامل ہیں۔ سیّد معین الرحمٰن نے’’مطالعۂ یلدرمؔ‘‘ میں اپنی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ اُردو کے اوّلین افسانہ نگار سجّاد حیدر یلدرمؔ ہیں۔ سو، ان ہی یلدرم اور بنتِ نذر الباقر کی اولاد(چھے بچّوں) میں سے باقی رہ جانے والا ایک لڑکا مصطفیٰ حیدر اور لڑکی قراۃ العین حیدر شامل تھے۔ لڑکے کی عُرفیت چھبو اور لڑکی کی عینی رہی۔ قراۃ العین حیدر کے سالِ ولادت میں کچھ اختلاف ہے۔1926ء اور 1927ء دونوں بیان کیے جاتے ہیں۔

ابتدا میں نیلوفر نام رکھا گیا۔ تاہم، جلد ہی ’’قراۃ العین حیدر‘‘ میں تبدیل کردیاگیا اور یہی نام ادب میں غیر معمولی شناخت کا باعث قرار پایا۔ عُرفیت کے سلسلے میں کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ تاجکستان کے نام ور شاعر اور ادیب، صدر الدین عینی کی پیروی میں اختیار کیا گیا۔ یوں باپ نے ترکی کے اثر سے یلدرم اور بیٹی نے تاجکستان کی محبت میں وہاں کے ایک ادیب و شاعر سے اثرات قبول کیے۔عینی کا بچپن کسی ایک جگہ یوں بسر نہ ہوا کہ باپ کی سرکاری ملازمت کے تقاضے شہر در شہر لیے پھرتے۔ اسی سبب عینی نے محض دس بارہ برس کی عُمر ہی میں نہ صرف ہندوستان کے طول و عرض کا سفر کرلیا، بلکہ ہندوستان سے باہر بھی جانے کا موقع ملا۔

لکھنے پڑھنے کی دُھن سر میں کیوں نہ سماتی کہ ماں اور باپ دونوں ہی اپنے اپنے انداز میں یکتا تھے۔ سو، قراۃ العین حیدرنے بچپن کی منزلوں ہی میں یعنی 1938ء میں بچّوں کے اُسی معتبر پرچے ’’پھول‘‘ میں’’بی چوہیا کی کہانی‘‘ سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا، جس کے لیے اُن کی والدہ بھی قلمی معاونت کرتی رہیں۔1941ء میں میٹرک اور 1943ء میں ایزابیلا تھوبرن کالج،لکھنؤ (Isabella Thoburn College, Lucknow)سے انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں کام یابی حاصل کی۔ جو مضامین پڑھے، اُن میں اُردو، انگریزی، اقتصادیات اور شہریات شامل تھے۔ موسیقی کا بھی شوق تھا۔ سو، ہندوستانی اور مغربی کلاسیکی موسیقی کی مبادیات سے بھی آگاہی حاصل کی۔ اسی اثنا میں اوّلین افسانہ ’’ایک شام‘‘ تحریر کیا۔ تاہم، افسانہ نگار کے طور پر نہ تو ’’عینی ‘‘ نہ’’ قراۃ العین حیدر‘‘ اور نہ ہی ’’نیلوفر‘‘نام لکھا، بلکہ مذکورہ افسانہ ’’لالہ رُخ‘‘ کے نام سے تحریر کیا۔

اگلا افسانہ ’’ارادے‘‘ تھا اور پرچہ ’’ادیب‘‘۔ مذکورہ افسانہ نہ صرف ان کے نام سے شایع ہوا بلکہ بیس روپے انعام کا حق دار بھی ٹھہرا۔ بس پھر کیا تھا، افسانوں کے سلسلے میں طبیعت کو ایک تحریک مل گئی اوریوں اب کبھی ’’ادبِ لطیف‘‘ تھا،تو کبھی’’ہمایوں‘‘ اور کبھی ’’ساقی‘‘ دیکھتے ہی دیکھتے عُنفوانِ شباب کا زمانہ آپہنچا۔ ہندوستان زبردست سیاسی شورش اور افراتفری سے دوچار تھا۔ ایک سے ایک سیاسی رہنما اور ایک سے ایک سیاسی اور سماجی تحریک ذہن کی شادابیوں کو بے داریوں اور بے باکیوں میں تبدیل کرتی دکھائی دیتی۔

سوچنے سمجھنے اور سیکھنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ یہ سب تو تھا ہی اور تعلیم بھی جاری تھی۔ سو، 1945ء میں اندرا پرستھا کالج، دہلی (Indraprastha College, Delhi)سے بی اے کی سندبھی حاصل ہوگئی۔مضامین میں معاشیات،مغلیہ اور یورپی تاریخ اور اُردو شامل تھے۔ مزید تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور تقسیمِ ہند کے سال یعنی1947ء میں لکھنؤ یونی ورسٹی سے ایم اے کی سند بھی حاصل کرلی۔

بعدازاں، غیر نصابی مضامین سے انہیں یک گونہ دل چسپی پیدا ہوگئی اور تاریخ، فلسفہ اور ادب گویا ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئے۔ افسانے لکھنے کا سلسلہ تو چند برس قبل شروع ہو ہی چکا تھا۔ سو، 1947ء میں جب ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ستاروں سے آگے‘‘ شایع ہوا، تو پڑھنے والوں کو اندازہ ہوگیا کہ اُفقِ ادب پردیگر کواکب کے ساتھ ایک اور روشن ستارہ منظرنامے کو حسین تر بنانے آپہنچا۔ مصنّفہ نے افسانوں میں اپنی آپ بیتی، بچپن، لڑکپن، بے فکری، حسین یادیں، غرض یہ کہ بھرپور مہ و سال کا احوال کچھ یوں قلم بند کیا کہ پڑھنے والوں کا ایک حلقہ میسّر آگیا۔

پہلے افسانوی مجموعے کی قبولیت بھی کچھ یوں ہوئی کہ چار سو روپے بطور رائلٹی وصول پائے۔ گویا ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے بجائے منزل ’’ستاروں سے آگے‘‘ تلاش کی جانے لگی۔ تقسیمِ ہند کے موقعے پر ہونے والے فسادات کو اُنہوں نے نہ صرف کھلی آنکھوں سے دیکھا، بلکہ اُس سے کسی حد تک متاثر بھی رہیں کہ ڈھیرہ دون میں فسادیوں نے اُن کے گھر کو آگ لگادی۔

تقسیمِ ہند کے سال کے اختتام یعنی دسمبر 1947 میں قراۃ العین حیدروالدہ کے ساتھ پاکستان آگئیں، جہاں سے ایک نئی زندگی کا آغاز ہوا۔ نئی مملکت میں آنے اور ایک نئی تہذیب کو اپنے سامنے جنم لیتے ہوئے دیکھنے کے انوکھے تجربے کو محسوس کرنے کے باوجود قراۃ العین حیدرکے پاس دو استحکام بخش چیزیں تھیں، مضبوطی کے ساتھ جمے ہوئے قدم اور پُختہ فکری کے ساتھ تھاما ہوا قلم۔ سو، جلد ہی تخلیقی سفر نے نیا موڑ لیا اور 1949ء میں پہلا ناول ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ شایع ہوا، جو بنیادی طور پر تقسیمِ ہند کے تناظر میں تحریر کیاگیا تھا۔ اگرچہ اس میں ہندو مسلم فسادات کا براہِ راست اظہار تو نہ تھا،تاہم تقسیم کے نتیجے میں صدیوں کی بنی ہوئی تہذیب کے بکھر جانے کا نوحہ ناول کا مرکزی خیال تھا۔ یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اُن کا اوّلین ناول ایک مٹتے ہوئے تمدّن کاحُزنیہ گیت بن کر سامنے آیا۔

تاریخ کے جلو میں سفر کرنے والی قراۃ العین حیدرکو ایک جمی جمائی تاریخ کے فنا ہوجانے کا دُکھ اس قدر گہرا رہا کہ ایک طویل عرصے تک وہ اُس صدمے سے باہر نکلنے میں کام یاب نہ ہوسکیں۔1951ء میں ملازمت کا سلسلہ یوں شروع ہوا کہ محکمۂ اطلاعات کے شعبۂ اشتہارات میں ’’انفارمیشن آفیسر‘‘کا عہدہ مل گیا۔ اگلے برس برطانیہ چلی گئیں۔1952 میں دوسرا ناول ’’سفینۂ غمِ دل‘‘ نے پڑھنے والوں کو باور کروادیا کہ یہ بھی ایک طرح سے پچھلے ناول کا تسلسل ہے۔ اودھ کی تہذیب، معاشرت، سماج اور اسی کے ساتھ زمیں دار طبقے کی زوال آمادہ رُسوم کا بہت عُمدہ نقشہ ناول میں پیش گیا گیا تھا۔1953ء میں لندن میں قیام کے دوران ہی وہاں کے مشہور اخبار ’’ڈیلی ٹیلی گراف‘‘ سے بحیثیت رپورٹر منسلک ہوگئیں اور یہیں دنیا کے مشہور ترین نشریاتی ادارے ’’بی بی سی‘‘ کے لیے بھی لکھنے کاموقع ملا، تو ذہنی اُفق کچھ اور وسیع ہوچلا۔

تاہم، اگلے ہی برس وطن واپسی ہوئی اور ایک بار پھر سابقہ ملازمت سے وابستہ ہوگئیں۔ اب ڈاکیومینٹری، فلم اور کارٹون فلم سے بھی دل چسپی بڑھ گئی اور ایسا اس لیے بھی تھا کہ ہندوستان میں تعلیم کے زمانے میں موسیقی کی تعلیم کے سلسلے میں اظہار کے دیگر شعبوں سے بھی واقفیت رہی تھی۔ اُدھر تخلیقی میدان میں ’’شیشے کے گھر‘‘ کے عنوان سے اُن کا دوسرا افسانوی مجموعہ 1954ء کے اوائل میں سامنے آیا۔ گویا اب ادب بھی تھا اور صحافت اور دیگر مشاغل بھی۔1956ء میں قراۃ العین حیدرکو رائٹر اور پروڈیوسر ڈاکیومینٹری مقرّر کردیا گیا۔اس دوران انہوں نے پاکستان کی مختلف ثقافتوں اور لوک روایتوں پر مبنی کئی ڈاکیومینٹریز بنائیں، جن میں سے ایک پر انٹرنیشنل پرائز کی بھی حق دار قرار پائیں۔

1959ء وہ سال تھا، جب قراۃ العین حیدرنے ’’آگ کا دریا‘‘ تحریر کر کے برّصغیر کے ادبی میدان میں ہلچل مچادی۔ ناول کے مختلف وقتوں میں کئی کئی ایڈیشن شایع ہوئے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ پاکستان میں اس ناول کے سلسلے میں ادبی محاذ آرائی بھی دیکھنے میں آئی۔ ایک گروہ کا کہنا تھا کہ یہ ناول لکھ کر قراۃ العین حیدرنے اسلام اور پاکستان دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ دوسرے گروہ نے ان تمام الزامات کی سختی سے مذمّت کی۔

الزامات اور جوابی الزامات سے قطع نظر ’’آگ کا دریا‘‘ نے اُردو ناول نگاری کی تاریخ کو ایک وقار عطا کردیا۔ ناول کیا ہے،گویا صدیوں کی تاریخ اور فلسفہ ہے کہ جس کے درمیان ہندوستان اپنی ارتقائی منازل طے کرتا نظر آتا ہے۔ناول کے چند اہم کرداروں میں انسان، تہذیب، تاریخ، فلسفہ اور وقت شامل ہیں۔ ممتاز نقّاد، خلیق انجم نے اس ناول کے بارے میں تحریر کیا ہے،’’اُردو کے کسی بھی ناول نگار نے انسانی تاریخ کا اتنا وسیع مطالعہ نہ کیا ہوگا، جتنا قراۃ العین حیدرنے کیا ہے۔ انسانی اور سماجی علوم پر اُن کی گہری نظر ہے۔ انہیں فلسفے اور خاص طور پروقت کے فلسفے سے غیر معمولی دل چسپی ہے۔ انہوں نے اپنے ناول آگ کا دریا کی بنیاد وقت کے فلسفے پر رکھی ہے۔‘‘

’’ستاروں سے آگے‘‘ کی مصنّفہ درحقیقت نئی کہکشاؤں کو دریافت کرنے کے لیے ہمہ وقت بے چین رہتی تھی۔ سو، ایک بار پھر لندن جانے کا ارادہ کرلیا اور 1960ء کے آخر میں جب والدہ کو مقامی اسپتال میں علاج سے خاطر خواہ افاقہ نہ ہوسکا، تو وہ والدہ کو لے کر لندن پہنچ گئیں۔ والدہ کو بیماری سے جب قدرے افاقہ ہوا، تو سوچا کہ لندن ہی میں ملازمت تلاش کی جائے اور خوش قسمتی سے بی بی سی سے فوری وابستگی بھی ہو گئی۔ لگ بھگ ایک برس لندن میں گزارا۔ والدہ صحت یاب ہوگئیں، تو اُنہوں نے بیٹی سے بھارت جانے کی فرمایش کی۔ اس طرح 1961ء میں قراۃ العین حیدر نے بھارت کا سفر اختیار کیا اور پھر بمبئی (اب ممبئی) میں سکونت اختیار کرلی۔ بھارت کی مضبوط ترین فلم انڈسٹری کی جڑیں اسی شہر میں تھیں۔

فلمی گیت، موسیقی، گلوکاری، اداکاری غرض اُس زمانے کا بمبئی روشنیوں میں اس قدر ڈوبا ہوا تھا کہ دیکھنے والوں کی نگاہیں چکاچوند ہوجاتیں۔ قراۃ العین حیدر کا نام، اب سکّۂ رائج الوقت کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔ سو، ان کے ملنے جلنے والوں میں ایک سے بڑھ کر ایک شخصیت شامل تھی۔ اُن ہی میں سے کسی نے اُنہیں مجبور کیا کہ ایک فلم کی کہانی تحریر کردیں۔ قراۃ العین حیدرنے محض تجرباتی بنیاد پر ’’ایک مسافر، ایک حسینہ‘‘ کی کہانی تحریر بھی کردی۔ تاہم، یہ تجربہ اُن کے اندرونی احساسات کو کچھ خوش گوار محسوس نہ ہوا۔ سو، آئندہ کے لیے اس سے تائب ہوگئیں۔ بمبئی نہ صرف بھارت کی فلم نگری کا مرکز تھا،بلکہ ادب اور صحافت کے فروغ کا بھی ایک مضبوط مرکز تھا۔

قراۃ العین حیدرنے فلم کی کہانی کے بعد بمبئی کے ایک معیاری جریدے کے لیے خدمات انجام دینا شروع کیں۔ ’’Imprint‘‘نامی رسالے کی مینیجنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے لگ بھگ چار برس اور پھر اسی پرچے میں ایک برس تک ایڈیٹر کے طور پر کام کیا۔ ساٹھ کے عشرے کے اسی درمیان اُن کی تخلیقات ’’سیتا ہرن‘‘، ’’چائے کے باغ‘‘، ’’ہاؤسنگ سوسائٹی‘‘ اور افسانوی مجموعہ ’’پت جھڑ کی آواز‘‘ وغیرہ سامنے آئے۔ ستّر کا عشرہ بھی اُن کے تخلیقی سفر کے لیے بہت اہم رہا۔ ’’کارِجہاں دراز ہے‘‘،’’اگلے جنم موہے پھر بٹیا کیجو‘‘،’’دل رُبا‘‘ اور ’’آخرِ شب کے ہم سفر‘‘ اسی عشرے کی یادگار ہیں۔ اگلے دو عشرے بھی انہوں نے ادب کے متوالوں کو مایوس نہیں کیا اور ’’روشنی کی رفتار‘‘،’’گردشِ رنگِ چمن‘‘،’’چاندنی بیگم‘‘ جیسی تخلیقات پیش کیں۔ علاوہ ازیں، افسانوی مجموعے، ناولٹ، ناول کے علاوہ قراۃ العین حیدرنے خاکہ نگاری کی صنف میں بھی خوب طبع آزمائی کی۔ یوں تو انہوں نے متعدد شخصیات کے خاکے تحریر کیے۔

تاہم، مشہور ہستیوں میں عزیز احمد، غلام عبّاس، شاہد احمد دہلوی، شوکت تھانوی، سعادت حسن منٹو، ابنِ انشاء، ن۔م۔راشد، فیض احمد فیض، بیگم شائستہ اکرام اللہ، عصمت چغتائی وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے رپورتاژ اور تراجم کو بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا موثّر ذریعہ بنایا، جب کہ ان کی تالیفات کی فہرست الگ ہے۔ اگرچہ قراۃ العین حیدرنے اوّل و آخر نثر سے اپنی ذہنی قُربت اور وابستگی رکھی۔ تاہم، شاعری میں بھی انہوں نے اپنی فکری پیوستگی کو اس طرح ظاہر کیا کہ نثری تخلیقات کے لیے عنوانات کا انتخاب اشعار ہی سے کیا۔

مثال کے طور پر اُن کا اوّلین افسانوی مجموعہ ’’ستاروں سے آگے‘‘ اقبالؔ کے مشہور شعر ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں..... ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘‘ سے لیا گیا ہے۔ اُردو ادب کی تاریخ کے چند عظیم ترین ناولز میں سے ایک ’’آگ کا دریا‘‘ کا عنوان اُردو غزل کے سربرآوردہ شعراء میں شمار کیے جانے والے جگر مراد آبادی کے شعری مجموعے ’’شعلۂ طور‘‘ میں شامل سماعتوں کے دوش پر سفر کرنے والے شعر ’’یہ عشق نہیں آساں، اتنا ہی سمجھ لیجے..... اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے‘‘سے مستعار ہے۔ 21 اگست 2007 کو بھارتی ریاست، یوپی میں انتقال کرجانے والی اُردو ادب کی اس غیرمعمولی ادیبہ کی بھرپور ادبی زندگی کے مختلف گوشوں پر پی ایچ ڈی اور ایم فل کی سطح پر بہت سے تحقیقی کام انجام دیے گئے۔ اُن پر تحریر کی جانے والی کتابوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے اور اُن سے لیے جانے والے انٹرویوز تو بے شمار ہیں۔

تہذیب، فلسفہ،ہندوستان کی مشترکہ ثقافت، ہندوستان کی تقسیم، ہجرت، اعلیٰ طبقے کے رکھ رکھاؤ، خصوصاً اودھ کے زمیں دارانہ نظام کا زوال، مَردوں کے سماج میں عورت کی مسابقت کی بھرپور جدوجہد وغیرہ قراۃ العین حیدرکے مستقل موضوعات رہے۔ ایک عورت ہوتے ہوئے اُنہوں نے عورت کے کردار کو اُجاگر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ قراۃ العین حیدرکے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے عقیلہ جاوید نے ’’اُردو ناول میں تانیثیت‘‘میں تحریر کیا ہے،’’قراۃ العین حیدرکی عورت معاشرے کی سب سے اہم قدر ہے۔ اس کے ذریعے معاشرے میں رشتوں کا تعیّن کیا جاتا ہے۔

ان کے ناولزمیں عورت اپنے مذہب اور حیثیت کے حوالے سے اتنی نمایاں نہیں، جتنی اپنے عورت پن کے حوالے سے نمایاں ہے۔ ان کے ناول کی عورت پڑھی لکھی اور آدرش پسند ہے، جو مرد کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنا جانتی ہے اور جس میں خود اعتمادی اس کی جدید تعلیم کی بدولت ہے اور اپنے مضبوط ارادے ہی کی بدولت زمانے سے نباہ کرتی ہے۔‘‘

اُردو ادب بلاشبہ قراۃ العین حیدراور اُن کے خانوادے کی نثری تخلیقات پر ناز کرسکتا ہے کہ اُن کی بدولت ادب کا سرمایہ بین الاقوامی ادبی سرمائے میں اپنی شناخت قائم کرنے میں کام یاب رہا۔