مِرگی: تمام اقسام قابلِ علاج ہیں

December 29, 2019

مِرگی جسے انگریزی میں ایپی لیپسی "Epilepsy" اور عرفِ عام میں جھٹکے کی بیماری کہا جاتا ہے، دُنیا بَھر میں دماغی امراض میں سب سے عام عارضہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پوری دُنیا میں50ملین سے زائد افراد اس عارضے کا شکارہیں، جن میں سے80فی صد کا تعلق ترقّی پذیر مُمالک سے ہے۔اگر پاکستان کی بات کی جائے، تو یہاں مرض کی شرح تقریباًایک فی صد ہے،جب کہ زیادہ تر مریض30سال سے کم عُمر ہیں۔

مِرگی سے متعلق دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 2ملین یعنی20لاکھ افراد اس مرض کا شکار ہیں۔ تاہم،شہری آبادی کی نسبت دیہی علاقوں میں مرض کی شرح بلندہے،کیوں کہ بدقسمتی سے ہماری پس ماندہ آبادی، گاؤں دیہات میں کئی غیر حقیقی تصوّرات عام ہیں،جو علاج معالجے میں بھی رکاٹ کا سبب بنتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں میں علاج کی شرح 1.9فی صد ہے، جب کہ شہروں میں یہ شرح27فی صد تک ہے۔ دراصل مِرگی کو اس کی علامات کے باعث کسی جادو ٹونے کا اثر، جن بھوت یا کسی مافوق الفطرت شے کا تسلّط سمجھا جاتا ہے اور اکثریت علاج معالجے کے لیے اتائیوں، پیروں، فقیروں ہی سے رجوع کرتی ہے، جہاں علاج کے نام پر مریضوں کے ساتھ انتہائی غیر مناسب سلوک کیا جاتا ہے۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض والدین نہ تو اپنے بچّوں کا علاج کرواتے ہیں اور نہ ہی کسی سے اس کا ذکر کرتے ہیں۔جب کہ اکثریت اسے ناقابلِ علاج مرض سمجھتی ہے،حالاں کہ ادویہ کے ذریعے نہ صرف اس پر قابو پانا سہل ہے، بلکہ مریض تن درست ہوکر اپنی زندگی عام افراد کی طرح گزار سکتا ہے۔

مِرگی ایک دماغی بیماری ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی دماغ میں جو برقی کرنٹ پایا جاتا ہے، اگر اُس کرنٹ کے نظام میں کچھ گڑبڑ واقع ہوجائے، تو نتیجے میںیہ مرض دورے کی صور ت ظاہر ہوتا ہے۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ انسان کے دماغ میں پایا جانے والا برقی کرنٹ جب وقتی طور پربے قابو ہوجائے، تو نتیجے میں جسم پر دورے کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے،جسے طبّی اصطلاح میں ’’مِرگی‘‘ کہتے ہیں۔

دورے کی عام علامات میں پٹّھوں کا کھنچاؤ،جسم کا اکڑنا،بدحواسی،اچانک بے ہوشی طاری ہونا، کھڑے کھڑے ٹھوکرکھائے بغیرنیچے گرجانا، منہ کا ٹیڑھا ہوجانا، وقتی طور پر سانس رُکنا( جس کی وجہ سے ہونٹ نیلے پڑسکتے ہیں)، منہ سے جھاگ نکلنا، دانتوں تلے زبان کاآجانا، بول وبراز خطاہوجانا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ بیماری عُمر کے کسی بھی حصّے میں لاحق ہوسکتی ہے، لیکن بچّوں میں اس کی شرح بُلند ہے۔ نوجوانوں میں مِرگی سے متاثرہ نئے مریض نسبتاً کم پائے جاتے ہیں۔

مِرگی کا عارضہ عُمربھر مریض کو اپنی لپیٹ میں رکھ سکتا ہے، البتہ نوجوانی میںاس کے دوروں کی شدّت یا تو بہت ہی کم ہوجاتی ہے یا پھر ختم ہوجاتی ہے۔یہ ایک طویل المدّت مرض ہے، جس میں ادویہ کا استعمال کئی برسوں تک جاری رہتا ہے۔ اِس کی ابتدائی علامات ہر مریض میں مختلف ہوسکتی ہیں۔ تاہم ،زیادہ تر مریض دورے سے قبل چند مخصوص کیفیات سے دوچار ہوتے ہیں۔ مثلاً گھبراہٹ، خوف، تیزدھڑکن، چکّر آنا یا آنکھوں کے سامنے تارے سے آجانا، اشیاء کا حجم چھوٹا یا بڑا نظر آنا وغیرہ وغیرہ۔

وقت گزرنے کے ساتھ مریض کو ان مخصوص علامات کے شروع ہوتے ہی اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ اب اُسے مِرگی کا دورہ پڑنے والا ہے۔مرض لاحق ہونے کی وجوہ کے حوالے سےحتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کون سی وجہ دورے کا سبب بن سکتی ہے، البتہ بعض اوقات چند وجوہ دورےکی محرک بن سکتی ہیں، جن میں کم خوابی، تیز رفتار جھولا جھولنا، تیزی سے جھلملاتی روشنیاں دیکھنا، نشہ آور ادویہ کا استعمال، شدید تھکاوٹ، ٹی وی یا کمپیوٹر کا زائد استعمال، شدید بخار اور ذہنی امراض وغیرہ شامل ہیں۔

جب کہ بعض کیسز میں چند غدود کے افعال میں بےقاعدگی بھی اس مرض کا سبب بنتی ہے، تو کبھی دماغ پر لگنے والی کوئی چوٹ بھی اس مرض کا شکار کردیتی ہے۔البتہ نوزائیدہ یا کم عُمر بچّوں میں تیزبخار مِرگی یا بعض اوقات کسی اور ذہنی پس ماندگی کا سبب بن جاتا ہے۔اگر مرگی کے مریض کو یہ علم ہو جائے کہ کون سی وجہ دورے کاسبب بن سکتی ہے، تو وہ ان وجوہ سے اجتناب برت کے دورے سے ممکنہ طور پر محفوظ رہ سکتا ہے۔مِرگی کی درست تشخیص دماغی امراض کا ایک ماہر معالج ہی کرسکتا ہے۔

یوں تومِرگی کی کئی اقسام ہیں، لیکن سب سے عام قسم "tonic-clonic" یا "Convulsive seizures"ہے۔اس سے متاثرہ مریض دورے سے قبل چیخ مارتا ہے اور چند لمحوں کے لیے اس کا پورا جسم اکڑجاتا ہے، جس کے بعد جھٹکے لگنےلگتے ہیں۔ یہ کیفیت چند منٹ برقرار رہتی ہے،پھر وہ نڈھال یا تو بے ہوش ہوجاتا ہے یا پھر سوجاتا ہے۔ دورے کے دوران چوٹ لگنے اور دانتوں تلے زبان آکر کٹ جانے کا بھی خطرہ رہتا ہے، نیز، بول و براز بھی خطا ہوسکتا ہے۔

عمومی طور پر دورے کا دورانیہ2سے4منٹ پر مشتمل ہوتا ہے۔ مرگی کی اس قسم میں دورے روزانہ بھی پڑسکتے ہیں اور دِن میں کئی بار بھی۔ یا پھر ان میں کئی مہینوں کا طویل وقفہ بھی آسکتاہے ۔مرگی کی دوسری قسم"partial seizure"کہلاتی ہے، جو جسم کے کسی ایک حصّے کو متاثر کرتی ہے۔ دورے کے دوران اس مخصوص حصّے میں جھٹکے لگتے ہیں۔ اِسی طرح ایک اور قسم "Myoclonic jerks seizure"ہے،جس میں جسم کا صرف ایک ہی پٹّھا متاثر ہوتا ہے۔ ایک اور قسم "Complex partial seizure" میں دورے کی ابتدا جھٹکے کی صُورت جسم کے کسی ایک حصّے سے ہوتی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ یہ جھٹکے بتدریج بڑھتے ہیں اور پورے جسم کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ ایک دوسری قسم "Atonic seizure" یا"Drop seizure"ہے۔اس میں جسم کے تمام پٹّھے ایک دَم کچھ دیر کے لیے بےجان ہوجاتے ہیں۔ مرگی کی ایک شدید قسم"Status epilepticus"ہے، جس میں دورے کادورانیہ پانچ منٹ سے طویل ہوتاہے، جب کہ بعض کیسز میں دورے بار بار اتنی جلدی پڑتے ہیں کہ مریض پچھلے دورے سےابھی بہتر ہی نہیں ہوپاتا کہ دوسرا شروع ہوجاتا ہے۔مرگی کی ایک اہم قسم "Temporal lobe epilepsy"ہے۔

اس کی علامات انتہائی پیچیدہ ہوتی ہیں۔ اس کے شکار مریضوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہونے کے ساتھ جذبات و خیالات میں تبدیلی کے علاوہ حرکت کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوجاتی ہے۔ مریضوں کا طرزِعمل بہت تبدیل ہوجاتا ہے اور ان سے غیرمتوقع افعال سرزد ہونے لگتے ہیں۔ بعض مریض غصّے کی حالت میں جنونی کیفیت میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان دوروں کا کوئی مخصوص وقت نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کی طوالت کے بارے میں وثوق سے کچھ کہا جاسکتا ہے۔

بعض اوقات یہ دورے مہینوں اور کبھی برسوں پر محیط ہوتے ہیں۔ مِرگی کی حتمی تشخیص کا کوئی لیبارٹری ٹیسٹ نہیں ہے۔ عام طور پرتشخیص مریض کے دورے کی کیفیت دیکھ کر یا پھر اہلِ خانہ سے سُن کر کی جاتی ہے۔ عمومی طور پر مریض کی فیملی ہسٹری، بچپن سے لے کر دورہ پڑنے تک کی عُمر تک کی مکمل معلومات وغیرہ درکار ہوتی ہیں۔ تاہم، مرض کی تشخیص میں سی ٹی اسکین، ای ای جی(Electro encephalogram)اور ایم آر آئی معاون ثابت ہوتے ہیں۔

واضح رہے کہ مرگی میں مبتلا مریضوں کی اکثریت کا علاج گھر پر ممکن ہے، البتہStatus Epilepticusسے متاثرہ مریضوں کو کچھ عرصے کے لیے اسپتال میں داخلے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔چوں کہ ادویہ کے استعمال کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے،تویہ صرف نیورولوجسٹ کی ہدایت کے مطابق ہی استعمال کی جائیں کہ ایک معالج ہی یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ دوا کب، کیوں اور کتنے عرصے تک استعمال کرنی ہے۔ اگر بچّوں کو بخار کے دوران دو یا دو سے زائد بارجھٹکے لگیں، تو ان کا علاج مستقل بنیادوں پر ادویہ کے ذریعےممکن ہے،لہٰذا والدین کم عُمری کے بخار پرخاص توّجہ دیں کہ بعض اوقات معمولی سے کوتاہی بھی اس عارضے کے لاحق ہونے کی وجہ بن سکتی ہے۔

مِرگی سے متاثرہ بعض مریض بچپن ہی سے کسی جسمانی یا ذہنی بیماری کا شکار ہو تے ہیں یا کسی جسمانی یا ذہنی مرض کے سبب مِرگی کے دورے پڑنا شروع ہوتے ہیں۔ ان عوارض میں ذہنی پس ماندگی، ارتکازِتوجہ میں کمی، یاسیت،اسکول جانے سےانکار (School Refusal) سائیکوسس اور آٹزم وغیرہ اہم ہیں، جنہیں عموماً نظر انداز کردیا جاتا ہے۔یاد رکھیے، اگر مناسب علاج کروالیا جائے تو ان طبّی مسائل پر بھی بہت حد تک قابوپانا سہل ہوسکتا ہے۔ ذہنی پس ماندگی میں بچّے کی ذہنی نشوونما بتدریج یا پھر کسی ابتدائی مرحلے ہی میں رُک جاتی ہے، جس کا سبب دورانِ حمل ماں کا مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونا یا دوسری وجہ نوزائیدہ بچّوں میں شدید بخار یا زخم کا ہونا ہوسکتی ہے۔

ذہنی پس ماندگی کے شکار بچّوں کی جوں جوں عُمر بڑھتی ہے، روزمرّہ معمولات انجام دینے کا عمل سُست ہوتاجاتاہے۔ ایسے بچّے بسا اوقات جسمانی کم زوری کا بھی شکار ہوسکتے ہیں۔ ارتکازِ توّجہ میں کمی کے شکار بچّے بظاہر بالکل تن درست دکھائی دیتے ہیں، لیکن حد سے زیادہ شرارتی ہوتے ہیں اور کسی ایک جگہ ٹِک کربیٹھ نہیں پاتے ۔یہی وجہ ہے کہ اپنی بےچین طبیعت کے سبب ان کا کوئی بھی کام درست طریقے سےانجام پاتا ہے اور نہ ہی وہ توجہ سے پڑھ پاتے ہیں۔ ان بچّوں میں چڑچڑےپن، اُداسی، بے سبب رونے، دیر تک سوتے رہنے یا جلد جاگ جانے، تعلیم پر توجہ نہ دینے، خوراک میں کمی اور یاسیت کی علامات عام پائی جاتی ہیں۔ بچّے کا اسکول جانے سے انکار ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، جس کا سبب اساتذہ یا کلاس فیلوز کے روّیے ہوسکتے ہیں، جن کے حل کے لیے اسکول کے ماحول، اساتذہ اور ہم جماعتوں کے روّیوں کا جائزہ لینا اور اس ضمن میں مناسب مشاوت ضروری ہے ۔بعض اوقات اسکول تبدیل کرکے بھی یہ مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔

یہاں ان سب عوامل کا تذکرہ یوں ضروری ہے کہ اگر خدانخواستہ بچّے کو مِرگی کے ساتھ درج بالا شکایات بھی ہوں، خاص طور پر یاسیت کا عارضہ لاحق ہو، تو پھر علاج خاصا مشکل ہوجاتاہے۔اس صورت میں ذہنی امراض کے ماہرمعالج سے تفصیلی معائنہ اور نفسیاتی تجزیہ کروانا ناگزیر ہوجاتا ہے، تاکہ درست تشخیص اور مناسب علاج ہوسکے۔مِرگی سے متاثرہ بچّوں کے والدین پر یہ ذمّے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما پر خاص نظر رکھیں۔ اگر معمول سے ہٹ کرکوئی بات نظر آئے، تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ تصوّر ات بھی عام ہیں کہ مِرگی کا عارضہ اعصابی تھکن، محبّت میں ناکامی، شادی میں تاخیر، جسمانی کم زوری، احساسِ کم تری یا برتری، کاروبار میں نقصان کے سبب بھی اپنا شکار بنالیتا ہے۔بعض افراد سمجھتے ہیں کہ اگر مریض کو جوتا سُنگھا دیا جائے، تو دورہ ختم ہوجاتا ہے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مرگی چھوت کا مرض ہے۔ نیز، پانی دیکھنے یا آگ کے قریب جانے سے بھی دورہ پڑسکتا ہے۔ اس کے علاوہ مریض معمول کی زندگی بسر نہیں کرسکتے، پڑھنے لکھنے اور ملازمت کے قابل نہیں رہتے، تو ان سب باتوں میں رتّی بھر صداقت نہیں۔

یہ تمام تصوّرات لاعلمی کا نتیجہ ہیں۔یاد رکھیے،مِرگی سے متاثرہ زیادہ تر مریضوں کی ذہنی استعداد نارمل ہوتی ہے اور وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر نمایاں امور انجام دے سکتے ہیں۔ ہمارے سامنے ایسے بےشمار معروف افراد موجود ہیں، جنہوں نے مِرگی کے عارضے میں مبتلا ہونے کے باوجود ایک نارمل فرد کے طور پر زندگی گزاری۔ مولانا عبدالستّار ایدھی بھی اس مرض سے متاثر تھے،اس کے باوجود انہوں نے دُنیا بَھر میں خدمت خلق کے حوالے سے کام کیا۔ پھر امریکی صدر روز ویلٹ سمیت دیگر کئی معروف افراد بھی اس مرض میں مبتلا رہے۔

یہ افراد تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں، کھیل کود اور دیگر سرگرمیوں میں حصّہ لے سکتے ہیں۔ اسی طرح ملازمت بھی کرسکتے ہیں اور شادی بھی۔ مِرگی سے متعلق جہاں عوام النّاس میں معلومات عام کرنے کی اشد ضرورت ہے،وہیں ہر شہری پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی ایسے متاثرہ کو جانتے ہیں، جو علاج سے محروم ہے، تو نہ صرف مریض ،بلکہ اُس کے اہلِ خانہ کی بھی رہنمائی کریں۔ یاد رہے، پاکستان میں چند فلاحی اداروں اور تمام سرکاری اسپتالوں میں مِرگی کے مفت علاج کی سہولت دستیاب ہے۔

دورہ پڑنے کی صُورت میں اہلِ خانہ بعض احتیاطی تدابیر اختیار کرلیں، تو بہتر ہے۔ اوّل تو خود کو پُرسکون رکھیں اور مریض کو مناسب جگہ پر لٹا دیں۔ اردگرد کی اشیاء ہٹا دیں، تاکہ مریض اور ان اشیاء کو کوئی نقصان نہ پہنچ سکے۔ جھٹکوں کے دوران مریض کے ہاتھ، پائوں دبائو سے روکنے کی کوشش نہ کریں، ورنہ ہڈیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔نیز، کوئی شے کھلانے یا پلانےسے بھی اجتناب برتا جائے۔ اگر سڑک پر چلتے چلتے دورہ پڑجائے، تو مریض کو فوراً وہاں سے ہٹا دیں۔

عینک وغیرہ اُتار دیںاور اگر گلے میں ٹائی، مفلر ہو تو اُسے ڈھیلا کردیں۔ دورے کے بعد مریض کو کروٹ کے بل لٹا دیں اور اگر منہ میں رطوبت وغیرہ ہو، تو صاف کردیں۔ دورہ ختم ہونے کے بعدبعض مریض ذہنی طور پر ماؤف ہوجاتے ہیں،مگریہ کیفیت بھی وقتی ہوتی ہے،لہٰذا مریض کو کچھ یاد دلانے کی کوشش نہ کی جائے۔اگروہ سونا چاہے، تو آرام کرنے دیں اورجب تک خود بیدار نہ ہو، زبردستی نیند سے نہ اُٹھائیں۔ علاوہ ازیں، مریض معالج کی ہدایات پر سختی سے عمل کریںاورمتوازن غذا استعمال کرنے کے ساتھ َھرپور نیند لیں۔ایک صحت مند فرد کی طرح زندگی گزاریں اور خود کو مصروف رکھیں، تاکہ دھیان بار بار مرض کی طرف نہ جائےاور ذہنی دباؤ سے بھی دُور رہا جاسکے۔ البتہ مشینری کے استعمال سے گریزکریں اورجب تک معالج اجازت نہ دے ڈرائیونگ بھی نہ کی جائے۔

علاج کے ساتھ معالج سے مشورہ کرکےیوگا اور ورزش بھی کی جاسکتی ہے۔علاوہ ازیں، متاثرہ مریضوں کا مذاق ہرگز نہ اڑائیں۔ ان کے ساتھ محبّت، نرمی اور شفقت سے پیش آئیں کہ یہ بھی ہمارے معاشرے کا حصّہ ہیں اور دیگر مریضوں کی طرح ہماری خصوصی توّجہ کے طالب بھی۔ ان کا علاج اور تحفّظ ہم سب کا دینی، اخلاقی اور معاشرتی فریضہ ہے۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ ہماری تھوڑی سی توّجہ اور ہمّت افزائی سے متاثرہ افراد نہ صرف اپنے خاندان، بلکہ معاشرے کے لیے بھی مفیدثابت ہوں۔

(مضمون نگار، جنرل فزیشن ہیں اور الخدمت اسپتال،کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)