پاکستان کی عدم شرکت سے کیا پیغام گیا...؟؟

December 29, 2019

آخر وہی ہوا، جس کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔ حکومت نے عین موقعے پر اعلان کیا کہ وہ 17دسمبر کو ملائشیا کے دارالحکومت، کوالالمپور میں ہونے والی کانفرنس میں کسی بھی سطح پر شرکت نہیں کرے گی۔

اس سے وہ غیر یقینی کیفیت تو ختم ہوئی، جو کئی روز سے وزیرِ اعظم، عمران خان کی کانفرنس میں شرکت سے متعلق جاری تھی، لیکن اس نے مُلک کی خارجہ پالیسی سے متعلق کئی سوالات بھی اُٹھا دئیے۔ مسلم دنیا میں موجود کَش مکش میں ہمارا کردار کیا ہے؟ اور کیا ہونا چاہیے؟ یہ موضوع ایک بار پھر شدّت سے زیرِ بحث آیا۔

وزیرِ اعظم، عمران خان نے اپنے ملائشین ہم منصب، مہاتیر محمّد کو ٹیلی فون کرکے کانفرنس میں شرکت نہ کرنے پر معذرت کی۔ اس طرح وہ اپنی خواہش اور کمٹ منٹ کے باوجود کانفرنس میں شریک نہ ہوسکے۔

اِس سے قبل اُنہوں نے تُرکی کے صدر، رجب طیّب اردوان کو بھی یہی بات جنیوا میں ہونے والی ملاقات میں بتائی تھی، جہاں دونوں مہاجرین سے متعلق پہلی گلوبل کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تھے۔

کوالالمپور کانفرنس کے روز وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ’’ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو کوالالمپور کانفرنس پر تحفّظات ہیں۔‘‘ بلاشبہ عمران خان اس کانفرنس کے ایک اہم مقرّر تھے، جو مسلم ممالک کو درپیش چیلنجز پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔

وزیرِاعظم، عمران خان

کانفرنس میں تُرکی کے صدر، طیّب اردوان کے ساتھ، ایران کے صدر، حسن روحانی نے بھی شرکت کی۔ جب کہ عرب ممالک میں سے قطر کے وزیرِ اعظم بھی موجود تھے۔ مشرقِ وسطیٰ میں کئی برسوں سے جاری کشیدہ صُورت حال اس فورم پر بھی اثر انداز ہوئی۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس کانفرنس سے کوئی مزید دراڑ نہیں پڑی، تو اُسے علاقے کے حالات سے لاعلم ہی قرار دیا جائے گا۔

لیکن یہ بات بھی درست نہیں کہ اس سے مسلم دنیا میں خلیج مزید بڑھ گئی، کیوں کہ خلیج میں کمی واقع ہی کب ہوئی تھی، جو کانفرنس سے بڑھ جاتی۔ تاہم، اسلام آباد کے آخری وقت میں شرکت سے انکار سے یہ بات ضرور عیاں ہوگئی کہ وہ مسلم ممالک کے درمیان ثالثی کروانے کی کتنی پوزیشن میں ہے۔

شہزادہ، محمّد بِن سلمان

کوالالمپور میں مسلم دنیا کے مسائل پر کانفرنس منعقد کروانے کا آئیڈیا مہاتیر محمّد کا تھا۔ اُنہوں نے نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے سالانہ اجلاس کے موقعے پر عمران خان اور طیّب اردوان سے اس پر بات کی، تو دونوں نے اس خیال کو پسند کیا۔ اِس سہ فریقی مذاکرات کے اعلامیے میں مشترکہ طور پر انگریزی زبان کا ٹی وی چینل شروع کرنے کا بھی ذکر تھا، جس کا مقصد اسلاموفوبیا کا مقابلہ اور اسلامی دنیا سے متعلق باقی دنیا کو بہتر طور سے آگاہ کرنا تھا۔

اس فیصلے کا پس منظر یہ تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑا جاتا ہے، تو بلاشبہ ایسی کوئی بھی کوشش، جس کے ذریعے مسلم ممالک اور مسلمانوں کا معتدل امیج پیش کرنے کے اقدامات کیے جائیں، قابلِ تحسین ہے، اسی لیے اس فیصلے کو عمومی طور پر سراہا گیا۔

اسلامی ٹی وی چینل کی ضرورت، اثرات اور کام یابی کے امکانات پر اِن ہی صفحات پر تفصیل سے لکھا جا چُکا ہے۔الجزیرہ ٹی وی چینل کے مالی اور انتظامی معاملات کے تجزیے کے بعد ہم نے یہ سوال اُٹھایا تھا کہ کیا اِس ہمارے پاس وہ ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ افرادی قوّت موجود ہے، جو مسلم اُمّہ کے کسی مشترکہ چینل کو کام یابی سے چلا سکے؟ وہاں نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ اہم عرب ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مِصر وغیرہ اِس ٹی وی چینل سے نہ صرف یہ کہ شدید نالاں ہیں، بلکہ اسے اپنے خلاف ایک سازش قرار دیتے ہیں۔

قطر کے باقی عرب ممالک سے کشیدہ تعلقات کا ایک بنیادی سبب یہ ٹی وی چینل بھی ہے، جس کی نشریات ان ممالک کو پسند نہیں۔پھر جس قسم کی تقسیم اور اُس کے نتیجے میں ہونے والی خون ریزی گزشتہ کئی برسوں سے مشرقِ وسطیٰ میں جاری ہے، اُس کے خاتمے کے لیے وسیع تر اتفاق کے بغیر کسی مشترکہ فورم کا تصوّر شاید ناممکنات میں سے ہے۔

اور اس طرح کے کسی منصوبے کو آگے بڑھانا کس حد تک سود مند ہوسکتا تھا، اس کے ابتدائی نتائج عمران خان کی کانفرنس میں عدم شرکت کی صُورت سامنے آگئے۔

عرب، ایران تنازع، مسلم مُمالک، خاص طور پر خطّے میں اس کے بدترین اثرات، ایک ایسی زمینی حقیقت ہے، جسے نظرانداز کیا جانا ممکن نہیں۔ پاکستان میں کئی حلقوں کی جانب سے ایک عرصے سے اس خواہش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ہمیں ان مسلم ممالک کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے۔

گو کہ یہ ایک انتہائی پیچیدہ اور مشکل ٹاسک ہے کہ اس تنازعے کی ایک طویل تاریخ ہے، مگر اس کے باوجود پاکستان ان ممالک کو قریب لانے کی کئی بار کوششیں کرچُکا ہے اور اب وزیرِ اعظم، عمران خان بھی اس حوالے سے متحرّک ہیں۔اس مشن میں بہت سی مشکلات اور اُلجھنیں ہیں۔

سب سے پہلے تو شام کا تنازع ہے، جس میں پانچ لاکھ سے زاید مسلمان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جب کہ زخمیوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔

ایک کروڑ شہری بے گھر ہوگئے، جو پناہ کی تلاش میں مارے مارے پِھر رہے ہیں۔ ایران نے جس طرح روس کے ساتھ مل کر اسد حکومت کا ساتھ دیا، اُس کی فتح اور اپوزیشن کو کچلنے میں فوجی، مالی اور سیاسی دخل اندازی کی، وہ عربوں کے لیے ناقابلِ قبول ہے، جس کا فوری نتیجہ یمن کی خانہ جنگی ہے۔

پھر جولائی2015 ء میں ہونے والی ایران، امریکا نیوکلیئر ڈیل نے عربوں میں اس تاثر کو مزید گہرا کیا کہ ایران مشرقِ وسطیٰ میں کوئی بالادست مقام حاصل کرنے جارہا ہے، جسے امریکا سمیت بڑی طاقتوں کی اشیر باد حاصل ہے۔ اس صُورتِ حال نے عرب ممالک کو پہلے امریکا اور پھر اسرائیل سے قریب ہونے پر راغب کیا، جو مسلمانوں کے اتحاد میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

اس نیوکلیئر ڈیل کی سب سے بڑی کم زوری یہی تھی کہ علاقے کے عرب ممالک کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا، جو براہِ راست اس سے متاثر ہوتے۔ یہ بداعتمادی یمن جنگ کی خون ریزی میں بھی بڑھتی گئی۔ مشکل یہ ہوئی کہ تُرکی، جو عثمانی خلافت کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ صدر اردوان کے دور میں عربوں کے بہت قریب آچُکا تھا، شام میں اسد افواج کی کام یابیوں کے بعد اپنے اصولی موقّف سے ہٹتا گیا اور ساتھ ہی عربوں سے بھی دُور ہو گیا۔

اس کے اس موقّف میں کہ وہ کسی بھی صُورت صدر اسد کو شام میں قبول نہیں کرے گا، نرمی آئی، یہاں تک کہ اردوان روس کے زیرِ سایہ اسد حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے لگے۔یعنی اُنہوں نے عربوں کی شکست اور ایران، روس، اسد حکومت کی فتح تسلیم کرلی۔

عربوں کو تُرکی اور اردوان کی یہ بات بہت عجیب لگی، جو اپنے موقف پر ڈٹ جانے کی شہرت رکھتے ہیں۔ سعودی عرب اور دیگر عربوں نے اسے برداشت تو کر لیا، لیکن دِل سے قبول نہیں کیا۔ پھر جمال خاشقجی کا معاملہ سامنے آیا، جس میں براہِ راست سعودی ولی عہد، محمّد بن سلمان کو ٹارگٹ کیا گیا۔ اس سے عربوں میں اردوان کے لیے جو سافٹ کارنر پیدا ہوا تھا، وہ ختم ہوگیا۔یوں تُرک صدر کا ثالثی کا کردار مخالفت میں بدل گیا۔

جب نیویارک میں کوالالمپور کانفرنس کے خدّوخال پر اردوان، مہاتیر محمد اور عمران خان کے درمیان بات چیت ہو رہی تھی، اُس سے چند روز قبل ہی سعودی تیل تنصیبات، آرامکو پر حوثی باغیوں نے ایک بڑا حملہ کیا، جس سے تیل کی نصف سپلائی معطّل ہوگئی۔ جس کے بعد امریکا نے وہاں فوجی تعیّنات کرنے کے ساتھ، جدید دفاعی نظام بھی نصب کردیا۔

سعودی عرب اور امریکا نے اس حملے میں ایران کے ملوّث ہونے اور اُس پر حوثی باغیوں کی پُشت پناہی کے الزامات لگائے۔ یہ تلخی جنگ کے میدان تک جا پہنچی اور جنگ چِھڑتے چِھڑتے بچی۔

تُرکی نے ان حملوں میں ایران کے ملوّث ہونے کے الزامات پر اپنے تحفّظات کا اظہار کیا۔ ہر طرف ان حملوں کی باز گشت سُنائی دے رہی تھی، ایسے میں مسلم ممالک کی کسی کانفرنس کے انعقاد کا خیال اور وہ بھی سعودی عرب اور عرب دنیا کو اعتماد میں لیے بغیر، عربوں اور خاص طور پر ریاض کو سخت ناگوار گزرا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عرب، ایران کشیدگی میں پاکستان کا کردار ہمیشہ یہی رہا ہے کہ ان اہم مسلم ممالک کو کسی طرح ایک دوسرے سے بات چیت پر راضی کیا جائے۔ نہ صرف عمران خان، بلکہ ماضی کی تمام حکومتوں نے یہی کردار اپنانے کی کوشش کی۔

مہاتیر محمّد نے کوالالمپور میں صحافیوں کو بتایا کہ سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز مسلم دنیا کو درپیش ایشوز پر باہر بحث کرنے کے خلاف ہیں۔سعودی فرماں روا کا خیال ہے کہ مسلم ممالک کی تنظیم، او آئی سی ہی ایسے معاملات سُلجھانے کا مناسب پلیٹ فارم ہے۔ اُن کا یہ بھی خیال تھا کہ اس طرح کی کانفرنسز سے سعودی عرب کے قائدانہ کردار پر بھی ضرب پڑے گی۔

وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ’’ اس اختلاف کے سامنے آنے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان پہلے ریاض اور کوالالمپور کے درمیان اختلافات ختم کروانے کی کوشش کرے گا، لیکن اگر ایسا نہ ہوسکا، تو وہ کانفرنس میں شریک نہیں ہوگا۔اسی سلسلے میں عمران خان نے کانفرنس سے قبل سعودی عرب کا ہنگامی دَورہ کیا۔‘‘

اُنہوں نے مزیدکہا کہ ’’اِس معاملے پر مہاتیر محمّد کو راضی کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ خود سعودی عرب جاکر شاہ سلمان کو شرکت کی دعوت دیں، لیکن یہ دورہ تاریخوں کے طے نہ ہونے کی وجہ سے ممکن نہ ہوا۔‘‘ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ’’ کانفرنس میں شرکت نہ کر کے پاکستان نے اپنی غیرجانب دارانہ پوزیشن برقرار رکھی اور یہ کسی طور بھی، کسی سے اجازت لینے یا کسی کی طرف داری کی بات نہیں۔‘‘ پاکستان کی اُمتِ مسلمہ کو قریب لانے کی خواہش اور کوشش ایک اچھی بات ہے۔

مسلم دنیا اسے سراہتی بھی ہے، لیکن صرف خواہشات ٹھوس خارجہ معاملات اور ملکوں کے درمیان تعلقات برتنے میں کام نہیں آتیں۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی خود اس بات کا گِلہ کرچُکے ہیں کہ عرب ممالک بھارت میں اپنے اقتصادی مفادات کی وجہ سے کشمیر کاز پر کُھل کر پاکستان کا ساتھ نہ دے سکے۔

ایران نے گو بھارت اور پاکستان میں ثالثی کی پیش کش کی تھی، لیکن اس کے بھی بھارت میں بہت زیادہ مفادات ہیں،جو چا بہار بندرگاہ سے لے کر ایرانی تیل کی خریداری تک پھیلے ہوئے ہیں۔

یہ باتیں پاکستانی میڈیا میں بار بار زیرِ بحث رہی ہیں اور ممکن نہیں کہ ان ممالک نے اس کا نوٹس نہ لیا ہو، لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا موجودہ حکومت ایسی پوزیشن میں ہے کہ غیر معمولی طور پر فعال خارجہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے مسلم دنیا کے ان ممالک کے درمیان ثالثی کر سکے، جو خون ریزی اور جنگوں سے نمٹ رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کی حکومت کے آنے کے بعد سے پاکستان جس اقتصادی بحران اور معاشی کم زوری سے گزر رہا ہے، کیا وہ ایسی کسی پالیسی کا متحمّل ہوسکتا ہے؟ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا، تو اسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہی نے اربوں ڈالرز دے کر بحران سے نکالا۔

اس کا اعتراف وزیرِ اعظم اور وزیرِ خزانہ بھی کرتے ہیں۔ پھر پاکستانی تارکینِ وطن کی سب سے بڑی تعداد، جو پچاس لاکھ کے قریب ہے، سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک ہی میں اپنی روزی کماتی ہے۔ ان تارکینِ وطن کے بھجوائے گئے اربوں ڈالرز ہماری اقتصادیات کے لیے برآمدات سے بھی زیادہ اہم ہیں۔

اگر اِن مفادات کو سامنے رکھا جائے، تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ اسلام آباد ان سب باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کرتا؟ صدر اردوان اور مہاتیر محمّد نے اقوامِ متحدہ میں کُھل کر کشمیر کے معاملے میں پاکستانی موقف کی تائید کی۔

بھارت کے مظالم کی نشان دہی اور اُس کی مذمّت کی،یقینًا اس کے لیے یہ مُلک ہمارے شکریے کے مستحق ہیں، خاص طور پر ملائیشیا، جس نے پہلی دفعہ کشمیر کے معاملے پر بھارت کی مذمّت کی ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق، اس کی پادش میں اُسے پام آئل کی برآمد پر بھارت کے دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ، مگر جس اقتصادی ضعف سے ہماری معیشت گزر رہی ہے، اس میں عرب دنیا کو نظر انداز کرنا کسی طور ممکن نہیں۔

عمران خان خود مہاتیر محمّد کے فین ہیں، وہ ہمیشہ ملائیشیا کو پاکستان، بلکہ مسلم ممالک کے لیے رول ماڈل قرار دیتے ہیں۔یقیناً مہاتیر نے اپنے مُلک کو ترقّی دینے میں بنیادی کردار ادا کیا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملائیشیا آج مہاتیر کے پہلے دَور والا مُلک نہیں، اس کی حالیہ پالیسز کے سبب، جیسے کرپشن کے نام پر سیاسی تقسیم اور چین سے اختلافات، مُلک کے لیے خاصے مسائل کھڑے ہوگئے ہیں۔

اِسی لیے مہاتیر نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے برس اپنی اتحادی پارٹی کے سربراہ اور سابق نائب وزیرِ اعظم، انور ابراہیم کو اقتدار سونپ دیں گے۔کوالالمپور کانفرنس پر اختلاف کا یہ عالم رہا کہ ملائیشیا کے سب سے قریبی پڑوسی اور دنیا کے سب سے بڑے اسلامی مُلک، انڈونیشیا کے صدر نے بھی اس میں شرکت نہیں کی۔

وزیرِ اعظم، عمران خان کا مہاتیر محمّد سے کمٹ منٹ کر کے آخری وقت میں کانفرنس میں شریک نہ ہونا، خود اُن کے لیے بھی کوئی خوش گوار تجربہ نہیں ہوگا۔ اِسی طرح مُلک کے لیے بھی یہ اچھا نہیں ہوا۔ جب نیویارک میں اس کانفرنس کی تجویز سامنے آئی تھی، اُس وقت ایران اور سعودی عرب میں کشیدگی عروج پر تھی، بلکہ جنگ جیسے حالات تھے، لہٰذا بہتر ہوتا کہ وزارتِ خارجہ صرف تین ماہ بعد ہونے والی اس کانفرنس کے حوالے سے مُلکی کردار پر غور کر کے وزیرِ اعظم کو کوئی مناسب مشورہ دیتی۔

پھر یہ کہ اُن دنوں پاکستان، عرب ممالک سے امداد لے چُکا تھا اور تیل کے لیے اُن پر مزید انحصار پر مجبور ہے، تو پھر جب ملائیشیا کے ڈپٹی وزیرِ اعظم اسلام آباد آئے، تو کانفرنس میں شرکت کی حتمی ہامی کیوں بھری گئی؟ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ اُسی وقت ملائیشیا کو کانفرنس پر عرب ممالک کو اعتماد میں لینے کے لیے کہا جاتا، بلکہ کانفرنس کو او آئی سی سے جوڑ کر مسلم اُمّہ کی مجموعی رضا مندی حاصل کر لی جاتی۔

یوں سب کا بھرم بھی رہ جاتا اور مسلم دنیا کے اختلافات ایک مرتبہ پھر دنیا کے سامنے نہ آتے۔نیز، پاکستان بھی ایک اہم ترین سفارتی پوزیشن پر آجاتا کہ اس نے مسلم دنیا کو اُمّہ کے مسائل پر غور کے لیے یک جا کردیا۔ لیکن اب اس عدم شرکت سے ایک مرتبہ پھر یہ بات سامنے آئی کہ خارجہ اُمور میں کسی قسم کا فعال کردار ادا کرنے کے لیے کسی مُلک کی خود اپنی معاشی مضبوطی کس قدر ضروری ہے۔