’’غزل کے استعارے‘‘، ’’آگہی کی منزل‘‘ پر

December 30, 2019

شاعری کی دنیا طلسماتی اس لیے محسوس ہوتی ہے کہ یہ انسانی خوابوں اور آرزوئوں کی داستان کے ساتھ ساتھ ہر عہد کی حسیت کا مظہر بنتی ہوئی انسانی تاریخ کو سمیٹتی چلی جاتی ہے اور انسان کی اجتماعی دانش کا خوب صورت اظہاریہ بن جاتی ہے ۔

اس طرح شاعری اپنے زمانے کی تخلیقی دستاویز بن کر انفرادی سطح پر انسان کو جینے کا قرینہ سکھاتی ہے اور مشکل وقت میں انسان کا سہارا بنتی ہے ہے اور اجتماعی سطح پر بے حسی اور بے ضمیری کے دور میں پارہ پارہ ہوتی ہوئی سماجی وحدت کو ایک مرکز پر لانے کا جتن کرتی ہے اور تہذیب کی تشکیلِ نو کی کوشش کرتی ہے اس لیے شاعری کے بارے میں یہ اندیشہ کہ سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا سیلِ بلا فنِ شاعری کو بہا لے جائے گا ،ممکن ہی نہیں۔

یہ تو ضرور ہوا ہے کہ شاعری کو شہرت طلبی ،وقتی تسکین اور تفنن ِ طبع کا ذریعہ سمجھنے والے شعرا کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ غیر معیاری شعری مجموعوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کتاب کی بے توقیری کے اس عہد میں شاعری کے قارئین کی تعداد میں مزید کمی واقع ہوجائے لیکن جب تک انسان کا وجود باقی ہے، جذبے اور احساس کی دولت موجود ہے اور سوچنے والا ذہن زندہ ہے اُس وقت تک تخلیقی عمل کے دھارے کو کوئی نہیں روک سکتا ۔

اس مختصر سے اظہاریے میں اردو شاعری کی اُن تمام یا بیشتر کتابوں کا حصول، مطالعہ اور تجزیہ تو ممکن ہی نہیں لیکن ذیل میں کچھ اہم کتابوں کا ذکر ضرور کیا جارہا ہے جن کی اشاعت اسی سال ہوئی اور جن کے مطالعے سے ایک مرتبہ پھر اردو شاعری کے حوالے سے خوش امیدی کی کیفیت جنم لیتی ہے۔

…شعری مجموعے…

محمد سلیم الرحمن کا نام ہمارے عہد میں اردو نظم کا ایک انتہائی معتبر حوالہ ہے۔’’نظمیں ‘‘ کے نام سے اُن کے شعری مجموعے کے دوسرے اور اضافہ شدہ ایڈیشن کی اشاعت قوس لاہور کے زیر اہتمام اسی برس ہوئی ہے۔۱۹۵۷ء سے ۲۰۱۶ء تک کے عرصے میں تخلیق کی گئی یہ نظمیں زمانی ترتیب کے ساتھ مجموعے میں شامل کی گئی ہیں جن سے شاعر کے تخلیقی سفر اور ارتقائی مراحل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔فکری و فنی ہر دو سطح پر یہ شاعری ہمیں امکان کے بحر ناپیدا کنار میں لے جاتی ہے ۔

ایک طرف ان نظموں کی فن کارانہ بنت ، تخلیقی بہائو اور استعاراتی نظام انھیں اعلیٰ ادبی شہ پاروں کی صف میں جگہ دیتا ہے۔اردو غزل کی کوئی بھی تاریخ ظفر اقبال کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکے گی۔ لسانی تشکیلات کی تحریک کے حوالے سے ان پر بڑی تنقید بھی ہوئی لیکن انھوں نے اردو غزل کے شعری سرمائے میں قابلِ قدر اضافہ کیا۔اُن کا ۳۳ واں شعری مجموعہ ’’تشویش‘‘ اسی برس شائع ہوا ۔حسبِ معمول اس مجموعے میں جہاں کئی اچھے اشعار موجود ہیں وہیں ظفر اقبال کی جدت طرازیاں بھی عروج پر ہیں اور ایسے اشعار بھی ہیں جو غزل کی لطافت کو مجروح کرتے ہیں ۔

تاہم اُن کے شعری سفر کا یہ ایک اور سنگ میل ضرور ہے۔صابر ظفر کا نام بھی غزل کے ایسے شعرا میں شامل ہے جو زود گو ہونے کے باوجود اپنے شعری معیار کو برقرار رکھتے ہیں ۔ سال2019میں ان کے دو شعری مجموعے ’’دیوار پر چاک سے لکھا ہوں ‘‘ اور ’’ آواز کی لہر پر چلا میں ‘‘شائع ہوئے ۔صابر ظفر کی غزل کے سوتے تو کلاسیکی روایت سے پھوٹے ہیں لیکن جدید زندگی سے وابستہ معاملات بھی انھوں نے غزل کے لطیف پیرائے میں بڑی کامیابی سے بیان کیے ہیں ۔اُن کے تازہ شعری مجموعے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ اس سفر میں ابھی تھکے نہیں ہیں ۔

سقراط کے زہر پیالے کو اپنے شعر سے ایک نئی معنویت بخشنے والے، اور نظر انداز کیے جانے والے غزل کے اہم اور نمائندہ شاعرلیاقت علی عاصم کاآخری شعری مجموعہ ’’ میرے کتبے پہ اُس کا نام لکھو ‘‘ ان کی وفات سے ایک ہفتے قبل شائع ہواجو اپنی بھرپور تخلیقی توانائی اور اثر انگیز غزلوں کی بنا پراردو غزل کے شعری سرمائے میں ایک اہم اضافہ ہے۔

مشہور ترقی پسند شاعر، ادیب اور نقاد پروفیسر یوسف حسن کی پچاس سالہ شعری ریاضت کا حاصل پہلا اور آخری شعری مجموعہ ’’اے دل، اے دریا‘‘ شائع ہوا ۔ان کی غزلوںاور نظموں میں تازہ تر علامتوں ،تلمیحات اور ضرب الامثال کے استعمال سے اثر آفرینی کی کیفیت نمایاں ہے ۔

با کمال اور کہنہ مشق شاعررفیع الدین راز کا تازہ شعری مجموعہ ’’وادیٔ غزل بھی اسی برس شائع ہوا۔تازہ ترین مجموعہ اُن کی ایسی غزلوں پر مشتمل ہے جو اُن کے مخصوص آہنگ اور اسلوب کی ترجمان بھی ہیں اور فکری و فنی سطح پر ان کے مسلسل سفر کی گواہ بھی ہیں ۔ اس مجموعے میں مانوس بحروں،اوزانِ رباعیات اور بحورِ غیر مستعمل پر مشتمل ستاسی(۸۷) غزلیں شامل ہیں۔ اس طرح یہ مجموعہ ایک تجرباتی صورت اختیار کرگیا ہے۔

فراست رضوی کا تازہ ترین شعری مجموعہ ’’ سلام فلسطین‘‘ اس اعتبار سے بہت منفرد ہے کہ اس میں تمام مزاحمتی نظمیں فلسطین کے موضوع پر لکھی گئی ہیں ۔ عالمی سطح کے ایک بڑے انسانی مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے یہ نظمیں نہ صرف یہ کہ فلسطین کے قیام سے لے کر آج کے دور تک وہاں ہونے والے مصائب و مظالم کی داستان سناتی ہیں بلکہ محض خارجیت اور سطحی اظہار کے بجائے اس مسئلے کے خلاف حقیقی سطح پر مزاحمت اور درد مندی کے ساتھ شاعر کی داخلیت سے ہم آمیز ہو کر اثر انگیزی کی حامل بھی ہیں۔

انور مسعود مزاحیہ اور ظریفانہ شاعری کے حوالے سے عہدِ حاضر کا ایک اہم نام ہے لیکن انور مسعود مزاح کے ساتھ سنجیدہ شاعری بھی کرتے ہیں۔ اُن کی کتاب ’’ سخن در سخن ‘‘ منظرِ عام پر آئی ہے جس میںاردو اور پنجابی میں اُن کا سنجیدہ اور مزاحیہ کلام شامل ہے ۔حمد، نعت، منقبت، سلام، غزل، آزاد نظم، نثری نظم پر مشتمل فاطمہ حسن کا چوتھا شعری مجموعہ ’’فاصلوں سے ماورا ‘‘ شائع ہوا۔

موضوعاتی تنوع کے ساتھ ان نظموں میں تہذیبی روایت کے کھو جانے،علم و دانش کو معتوب ٹھہرانے، نارسائی اور فرقت کے دکھ کو قربت میں بدلنے ، صنفی جانب داری پر مزاحمتی رویہ اختیار کرنے کے ساتھ نشاطیہ عناصر بھی موجود ہیںاور غزلوں میں یہ اظہار لطیف اور سادہ ہے۔ عقیل عباس جعفری کا پہلا شعری مجموعہ ’’ تعلق‘‘ خاصی تاخیر سے رواں برس منظرِ عام پر آیا۔

اس مجموعے میں نعتوں اور منقبت کے علاوہ غزلیں شامل ہیں ۔آخر میں ’وطن کے نام‘‘ کے عنوان سے ایک پابند نظم بھی ہے ۔کئی غزلیں رفتگاں کی نذر کی گئی ہیں ۔ان غزلوں میں تعلقات کی رنگا رنگی، یادوں سے آراستہ تنہائی،جرا ء تِ اظہار کا سودا کرنے والوں ،شہر کو آگ لگا کر امن کا نغمہ گانے والوں اور صارفی کلچر کو پروان چڑھانے والوں کا دکھ موجود ہے۔

ابرار احمد جدید اردو نظم کا ایک معتبر نام ہے۔سانجھ، لاہور سے اُن کی نظموں کا مجموعہ’’ موہوم کی مہک‘‘ اسی برس شائع ہوا جس میں بہتر (۷۲) نظمیں ہیں۔ مغائرت، بیگانگی اور تنہائی کے احساس کو سمیٹتی ہوئی یہ نظمیں بڑی دلآویز ہیں اور جذبے اور احساس کی ایک بسیط کائنات ان میں سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔

ارشد معراج بھی نظم کے ایک اچھے شاعر ہیں ۔ بے سمتی کا کرب، بکھرتی ہوئی معاشرتی اقدار ،عالمی سطح پر پھیلی ہوئی اداسی، عدم فعلیت اور چار سو پھیلی ہوئی رات کے دکھ اُن کی نظموں میں ہمیں آواز دیتے ہیں ۔ان کی نظموں کا دوسرا مجموعہ ’’دوستوں کے درمیاں ‘‘ ،’’گمشدہ آسمان‘‘ جمیل الرحمن کی نظموں کامجموعہ شائع ہوا۔امیجری اور پیکر تراشی سے آراستہ یہ نظمیں اگرچہ عصری حسیت کی حامل ہیں لیکن ان کا مزاج نظریاتی یا سیاسی ہونے کے بجائے ادبی ہے اور ان میں شاعر کا جدید انداز ِ نظر اور معاصر زبان کا لہجہ نمایاں ہے ۔

صابر وسیم کا شعری مجموعہ ’’ ایک سفر ایجاد کیا‘‘ بھی شائع ہوا۔دھیمے لب و لہجے میںجدید و قدیم کے امتزاج ،ذاتی تجربے و احساس اور سماجی شعور سے متصف غزلیں اور نظمیں اس مجموعے میں شامل ہیں ۔ ڈاکٹر جواز جعفری کی نثری نظموں کی کتاب ’’متبادل دنیا کا خواب (جنگ مخالف نظمیں)‘‘ شائع ہوئی۔ عہدِ حاضر کے تناظر میں یقینا ان کی اہمیت ہے۔

عتیق احمد جیلانی کا پہلاشعری مجموعہ ’’روز بناتا ہوں پُل‘‘ مکتبۂ ارتفاع حیدر آباد نے ۲۰۱۹ء میں شائع کیا۔ فکری اور اسلوبیاتی سطح پر عتیق احمد جیلانی کی غزل اپنا ایک دل پذیر ذائقہ رکھتی ہے ۔اس مجموعے میں چھیاسٹھ (۶۶) غزلیں ہیں اور یہ غزلیں درونِ ذات کی آہٹوں، وقت کے بے کنار دائروں اور بے موسم منطقوں کا خوب صورت اظہاریہ ہیں۔ بزرگ اور کہنہ مشق شاعر رحمن خاور کی کتاب ’’ دوہے، دوہا رنگ‘‘اسی برس شائع ہوئی ۔

اس مجموعے میں دو سو سے زائد دوہے شامل ہیں جن میں ایسے ہندی دوہے بھی ہیں جو عام ہندی دوہوں کی بحر میں کہے گئے ہیں اور وہ دوہے بھی ہیں جن میں جمیل الدین عالی کی دوہا چال نمایاں ہے۔حسن حمیدی کے بڑے بھائی اور حمید عظیم آبادی (شاگرد شاد عظیم آبادی) کے صاحب زادے سید مبارک حسین سرور (مرحوم) کا منتخب کلام سید توقیر حسن نے مرتب کیا۔جس میں پچھتر (۷۵) غزلوںاور سات نعتوں کے علاوہ نظمیں، سلام، نوحے، قطعات اور رباعیات بھی شامل ہیں ۔اُس عہد کے فکری رجحانات کے ساتھ ساتھ اس شاعری میں انسانی سماج میں استحصالی رویوں کے خلاف دبا دبا احتجاج بھی نظر آتا ہے۔

عنبریں حسیب عنبر کا پہلا شعری مجموعہ’’دل کے افق پر‘‘ اپنی دلکش غزلوں اور نظموں کے سبب قارئین و ناقدین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا تھا جس کا دوسرا ایڈیشن 2019 میں شائع ہوا۔اسی برس ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’’ تم بھی ناں ‘‘ اسلام آباد سے شائع ہوا جس میں صرف غزلیں شامل ہیں ۔

عصری آگہی، انسانی اقدار کی بقا، نسائی شعور ،جذبے اور فکر کی گہرائی اور ذاتی جذبات و محسوسات کا رنگ ان غزلوں میں نمایاں ہے ۔دلاور علی آزر کا تیسرا شعری مجموعہ ’’کیمیا‘‘ کوئٹہ سے شائع ہوا۔بھرپور تخلیقی توانائی کی حامل یہ غزلیں ،قلبی واردات ،نفسیاتی میلانات ،لاشعوری کیفیات اور بین العلومیت کی مظہر ہیں اور زندگی کی نئی معنویت کو اظہار میں لاتی ہیں ۔

انور ندیم علوی کی کتاب’’ غزل کے استعارے‘‘ ۲۰۱۹ء میںلاہور سے شائع ہوا۔ کتاب کا نام ’’ غزل کے استعارے‘‘ ہے لیکن اس میں نظموں کے علاوہ عربی، فارسی، ترکی، بنگالی ،سندھی اور پنجابی کلام کے منظوم تراجم بھی ہیں ۔اس مجموعے میں شامل غزلیں زیادہ تر روایتی موضوعات اور رومانی اسلوب کی حامل ہیں ۔معروف شاعر نثار احمد نثار کی غزلوں کے اولین مجموعے ’’ آئینوں کے درمیاں ‘‘ میںسادہ اور حقیقت پسندانہ طرزِ اظہار کے ساتھ زندگی کے تلخ و شیریں تجربات ، ذاتی مشاہدات ، منفی سماجی رویوں اور دہرے معیار کے خلاف ایک مزاحمتی رویہ بھی نظر آتا ہے۔

سادہ لفظوں اور مختصر بحروں میں اظہار کرنے والی رضیہ سبحان قریشی کا پانچواں شعری مجموعہ ’’آگہی کی منزل پر‘‘ حال ہی میں سامنے آیا۔ غزلوں کے ایک بڑے حصے کے علاوہ اس مجموعے میں کچھ نظمیں بھی ہیں اور مولانا روم کے کلام کے کچھ تراجم بھی ہیں۔ معروف شاعرہ آمنہ عالم کے دوسرے شعری مجموعے’’ شعور کی دستک‘‘ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں آیاتِ ربانی کے منظوم تراجم اور غزلوں کے علاوہ سائنسی موضوعات کے حوالے سے نظمیں موجود ہیں ۔سعید اشعر کے تین شعری مجموعے ’’امواج‘‘ (رباعیات)، ’’میں اور میں‘‘ ( غزلیات) اور’’ تاویل (غزلیات) 2019میں شائع ہوا۔

ڈاکٹرشہناز مزمل کا حمدیہ کلام ’’ متاعِ عشق‘‘ اور دو نعتیہ مجموعے’’عشق مزمل ‘‘ اور ’’رمزِ عشق‘‘ بھی اسی سال شائع ہوئے۔ عشرت معین سیما جرمنی میں رہائش پذیر ہیں ۔افسانے بھی لکھتی ہیں اور شعر بھی کہتی ہیں ۔ان کی غزلیات کامجموعہ ’’آئینہ مشکل میں ہے‘‘ ،محمد علی منظر کا شعری مجموعہ’’ پانی کا لمس‘‘ اور عینی خان کا ’’میں عینی خان ہوں‘‘، کراچی سے شائع ہوئے۔انجم عثمان کا شعری مجموعہ ’’العطش‘‘ دنیاے ادب ،کراچی سے شائع ہوا۔ ’’آتش ِ زیر ِ پا‘‘( شارق جمال خان)،’’خاکِ افلاک‘‘( شمسہ نجم)، ’’نیلی آنچ‘‘ ( نیلم ملک) اور ’’عکسِ دل‘‘(شمشاد ولی) ماورا، لاہور کے زیرِ اہتمام شائع ہوئے۔’’سلگتی ریت پر سجدہ‘‘ (عرفان مرتضیٰ)،’’امید سہارا دیتی ہے‘‘(رانا خالد محمود قیصر)، ’’کِشتِ جاں ‘‘( ثریا حیا)، ’’محبتوں کے شہر میں ‘‘(شائستہ مفتی)، ’’رقصِ جنوں ‘‘(راشد حسین راشد) ،’’دستکِ امکاں ‘‘(نور شمع نور) اور ’’ متاعِ زیست‘‘ ( شہناز رضوی) بھی 2019 میں شائع ہوئے ۔

یہ سال طویل نظموں کے لیے بھی خوش آئند ثابت ہوا اور نئی شعری جمالیات کی حامل سعید احمد کی طویل نظم ’’اکیسویں چاند کی رات (سرائے ناوقت میں ایک مکالمہ )‘‘ خوب صورت سرورق کے ساتھ کتابی شکل میں ویرا مطبوعات، اسلام آباد نے شائع کی ۔معنی کی تکثیریت کی حامل یہ نظم اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات سے مکالمہ کرتی ہوئی اکیسویں صدی کے جہنم میں سانس لیتے ہوئے انسان کا اظہاریہ بن جاتی ہے اور ما بعد جدید عہد کے المیوں کو سمیٹتی ہے۔

کتابی شکل میں شائع ہونے والی فرخ یار کی طویل نظم ’’کاریز‘‘ باپ کے کردارکے حوالے سے ایک منفرد نظم ہے جو انسانی تاریخ کے اوراق سے لپٹے ہوئے مقدس خوابوں کا در باز کرتی ہے اور انسانی رشتوں کی توقیر اور اقدار کے تحفظ کا اشاریہ بنتی ہوئی ہمیں اپنی تہذیب کی طرف مراجعت کی دعوت دیتی ہے۔

…کلیات…

اردو کے شعری سرمائے میں کلیات کی اشاعت کسی بھی شاعر کے بکھرے ہوئے شعری سرمائے کو سمیٹنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے ۔شاعری کے عام قارئین کے علاوہ تنقیدی و تحقیقی مطالعات کے لیے بھی اس کی اہمیت مسلّمہ ہے ۔۲۰۱۹ء میں چند اہم کلیات بھی شائع ہوئیں ۔سرور بارہ بنکوی کے دو شعری مجموعوں ’’سنگ آفتاب‘‘ اور ’’ سوزِ گیتی‘‘ کے کلام پر مشتمل ’’کلیاتِ سرور‘‘ شائع ہوئی۔

سادگی، سلیقۂ اظہار اور عصری آگہی کی حامل غزلوں کی بدولت مشاعروں کے بھی مقبول شاعر تھے ۔اس کلیات میں اُن کی نعتیں، غزلیں، نظمیں ، طویل نظم اور چند فلمی گیت بھی شامل ہیں ۔ اس کلیات سے سرور بارہ بنکوی کی شخصیت کی ادبی جہت نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے۔

’’ کیفیات‘‘ کے نام سے کلیاتِ کیفی اعظمی بھی اسی سال شائع ہوئی جو ہندوستان میں ۲۰۰۳ء میں شائع ہوئی تھی ۔پاکستان میں اس کلیات کی یہ پہلی اشاعت ہے۔کیفی اعظمی کے چاروں شعری مجموعے ’’جھنکار‘‘،’’آخرِ شب‘‘،’’آوارہ سجدے‘‘ اور ’’ ابلیس کی مجلسِ شوریٰ( دوسرا اجلاس) اس کلیات میں موجود ہیں ۔اس شاعری میں سچی ترقی پسندی کی جھلک بھی ہے ،ذاتی اور رومانی محسوسات بھی ہیں اور اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی سفاک زندگی کے مناظر بھی ہیں ۔

ابلیس کی مجلسِ شوریٰ( دوسرا اجلاس) ایک اچھی طویل نظم ہے جسے اقبال کی نظم ’’ ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ کے تناظر میں ایک امکانی صورتِ حال کی نشان دہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔فیض احمد فیض کی کلیات ’’ نسخہ ہائے وفا ‘‘ کے نام سے سب سے پہلے شائع ہوئی تھی 2019 میں نعمان الحق کی مرتب کردہ ’’کلیاتِ فیض‘‘ بھی اسی سال اشاعت پذیر ہوئی جس میں مرتب نے حواشی بھی شامل کیے ہیں ۔’’کلیات ِعلی سردار جعفری‘‘ بھی ہندوستان میں دو جلدوں میں شائع ہوئی تھی جسے ایک جلد میں سمویا گیا تھا ۔ترقی پسند تحریک سے علی سردار جعفری کی فکری اور عملی وابستگی سے تمام اہلِ نظر واقف ہیں ۔’’کلیاتِ علی سردار جعفری‘‘ میں غزلیں بھی ہیں لیکن نظموں کا تناسب زیادہ ہے۔

انہوں نے اردو نظم کو موضوعاتی اور فکری سطح پر جس تنوع سے ہم کنار کیا ہے وہ قابلِ داد ہے۔ اسی ادارے نے رواں برس ڈاکٹر اختر شمار کے آٹھ شعری مجموعوں پر محیط ان کی شعری کلیات ’’ اختر شماریاں ‘‘ بھی شائع ہوئی نیز ’’کلیاتِ شاعر صدیقی‘‘ بھی شائع کی جس کے مرتب محمود اختر خان ہیں اور جس میں حمدیں، نعتیں، غزلیں، نظمیں، گیت، دوہے، قطعات، رباعیات شامل ہیں ۔ادا جعفری کی کلیات ’’ موسم موسم‘‘ ۲۰۰۲ء میں شائع ہوئی تھی جس میں ان کے پانچ شعری مجموعے اور غیر مطبوعہ کلام شامل تھا ۔

’’موسم موسم ‘‘ کا دوسرا ایڈیشن اس سال اشاعت پذیر ہوا۔ادا جعفری کا کلام زندگی کی جمالیات، سوزِ دروں، قدیم و جدید لفظیات کے امتزاج ،ماضی کی بازیافت کے احساس اور نسائی حسیت سے آراستہ ہے اور منفرد شعری اسلوب کا حامل ہے۔ احمد نوید نے اردو غزل کے حوالے سے فکر اور اسلوب دونوں سطحوں پر مسلسل اور بہت کامیاب تخلیقی اظہار کیا اور نظم میں بھی طبع آزمائی کی۔

احمد نوید کی کلیات کی جلد اول پچھلے برس شائع ہوئی تھی رواں برس اس کلیات کی دوسری جلد شائع ہوئی ۔غزل ،نظم اور مذہبی شاعری میں تسلسل سے اظہار کرنے والی ڈاکٹر شہناز مزمل کی دو کلیات 2019 میں شائع ہوئیں جن میں ’’منتہائے عشق‘‘ غزلیات پر اور ’’ندائے عشق‘‘ نظموں پر مشتمل ہے۔

…انتخاب…

گذشتہ برسوں کی طرح2019 میں بھی انتخاب شائع کرنے کا رجحان برقرار رہااور اس حوالے سے بھی کچھ کتابو ں کی اشاعت ہوئی۔نامور شاعر اور صحافی محمود شام کے شعری مجموعوں کا انتخاب ’’بیٹیاں پھول ہیں ‘‘ اسی سال مثال پبلشرز ،اسلام آبادنے شائع کیا۔ یہ انتخاب انھوں نے خود اپنے چھے مجموعوں سے کیا ہے ۔

اپنی زمین سے جڑے ہوئے خواب، مزاج کا تلاطم، عقیدوں اور ضابطوں کا جبر، آدمی پر لگائی گئی بندشیں ،بحیثیت قوم ہماری سہل پسندی ،اہلِ ستم کی یورشیں اور مشرق و مغرب میں زندگی کی ہنگامہ خیزیاں جیسے موضوعات ان غزلوں اور نظموں کا حصہ ہیں ۔یہ انتخاب اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر شاعر چاہے تو صحافتی مصروفیات اس کے تخلیقی ذہن کی زر خیزی پر غالب نہیں آسکتیں ۔

’’ذرا سی بات ‘‘ کے نام سے امجد اسلام امجد نے بھی اپنے کلام کا انتخاب شائع کرایا۔دو اور کتابیں ’’دیوانِ سلام و کلامِ ِ انیس‘‘ اور ’’باقیات و نادراتِ فیض‘‘ بھی شائع ہوئیں جنھیں مشہور اسکالر اور بے شمار کتابوں کے مصنف ڈاکٹر سید تقی عابدی نے بڑی محنت سے مرتب کیا۔یاسمین حمید کی شاعری میں بلند آہنگی کے بجائے نرم اور دھیمے لہجے میں احتجاج کی کیفیت اور زندگی کی محرومیوں ، ناکامیوں ، مسرتوں اور کامرانیوں کا گہرا شعور نظر آتا ہے ان کے کلام کا انتخاب ’’ ہم دو زمانوں میں پیدا ہوئے‘‘ شائع ہو کر پذیرائی حاصل کر چکا ہے ۔

اب اس انتخاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا ۔حمد و نعت ،غزلوں اور نظموں پر مشتمل ’’انتخابِ کلام گستاخ بخاری‘‘ محمود اختر خان نے ترتیب دیا جو رنگِ ادب ،کراچی نے شائع کیا۔’’خیالِ تازہ ‘‘ کے نام سے جدید غزل کے نمائندہ اشعار کا انتخاب خورشید ربانی نے کیا۔

حمدیہ اور نعتیہ شاعری کے انتخاب شائع ہوتے رہتے ہیں اورسچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں حمد، نعت، منقبت اور رثائی ادب نے بڑی تیزی سے ارتقائی منازل طے کیے ۔کچھ اہم انتخاب اس باب میں بھی شائع ہوئے ۔منظر عارفی کی تحقیق و ترتیب کے ساتھ ’’ مناقبِ خلفاے راشدین اور شعراے کراچی ‘‘ شائع ہوئی ۔

یہ انتخاب اس لحاظ سے بڑا اہم ہے کہ اول تو اس میں پہلی بار مناقبِ خلفاے راشدین کا انتخاب پیش کیا گیاہے دوم اس میں محقق و مرتب نے روایت و درایت کی کسوٹی پر پورا اترنے والے مناقب کا انتخاب ایک کڑے معیار کے تحت کیا ہے اور کراچی کے ایک سو پچھتر (۱۷۵) شعرا کا کلام اس میں شامل ہے ۔

ادب سرائے انٹرنیشنل نے ڈاکٹر شہناز مزمل کے حمدیہ اور نعتیہ کلام کا انتخاب ’’رمزِ عشق ‘‘ اور ’’متاعِ عشق ‘‘ کے نام سے شائع کیا۔کراچی سے زاہد رشید نے حمد و نعت کا ایک عمدہ انتخاب’’اللہ اکبر‘‘ کے نام سے مرتب کیا جس میں مرزا محمد رفیع سودا سے لے کر دور حاضر تک کے مسلم اور غیر مسلم شعرا کی حمدیہ و مناجاتیہ شاعری اور بچوں کے لیے کی جانے والی حمدیہ و مناجاتیہ شاعری کا انتخاب بھی موجود ہے ۔اگرچہ کچھ شعرا کے نام اس میں نظر انداز بھی ہوئے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی یہ ایک اچھا انتخاب ہے۔

رثائی ادب کے ضمن میں علامہ ضمیر اختر نقوی کی ایک اہم کتاب ’’مرزا دبیر کے مرثیے ،زندگی اور شاعری‘‘ بھی 2019 میں شائع ہوئی ۔جس میں مرزادبیر کے عہد سازفن اور حالاتِ زندگی کے حوالے سے نثری تحریریں بھی ہیں لیکن دبیر کے مراثی، سلام اور رباعیات کا انتخاب بھی موجود ہے۔ یہ کتاب دبیر کے حوالے سے ایک دستاویز کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔

اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی ناگوار حقیقتوں اور معاشرتی خامیوں کو مزاح نگار یا طنز نگار کچھ اس طرح پیش کرتا ہے کہ تلخیاں کچھ کم ہوجائیں اور ہنسی اور ظرافت کے پردے میں اصلاحِ احوال کی بھی کوئی صورت نکل آئے۔ظریفانہ شاعری کے باب میں بھی کچھ انتخاب شائع ہوئے۔اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس کے اشاعتی سلسلے ’اردو ورثہ‘ کے تحت ’میرزا محمود سرحدی‘ اور ’ عنایت علی خاں ‘ کے کلام کا انتخاب شائع ہوا ۔

ان کتابوں میں ڈاکٹر رئوف پاریکھ نے بڑی محنت سے ترتیب و تعارف کا حق ادا کیا ہے ۔میرزا محمود سرحدی نے غزل اور قطعات میں طبع آزمائی کی۔ اُن کے کلام پر اکبر الہٰ آبادی کا اثر نمایاں ہے اس لیے بعض نقاد انھیں ’’ اکبرِ سرحد‘‘ بھی کہتے ہیں۔انھوں نے سیاسی حالات، سماجی ناہمواریوں اور مغربی تہذیب کو طنز و ظرافت کے پردے میں تنقید کا نشانہ بنایا ۔

عنایت علی خاں موجودہ دور میں طنز و ظرافت کے باب میں ایک اہم نام ہے ۔اُن کی مزاحیہ غزلوں، نظموں اور قطعات کے علاوہ اُن کی سنجیدہ شاعری کا کچھ حصہ بھی اس انتخاب میں شامل ہے ۔عنایت علی خاں کی مزاحیہ اور سنجیدہ شاعری دونوں میں ایک درد مند دل دھڑکتا نظر آتا ہے۔

ارد گرد پھیلی ہوئی زندگی کے معاملات، مشرقی و اخلاقی روایات،احترامِ عورت ،سیاسی بازی گروں کی تماشا گری اور سماجی ناہمواریوں کو انھوں نے شائستہ پیرایۂ طنز و مزاح میں پیش کیا ہے۔ہمہ جہت شخصیت ڈاکٹر انعام الحق جاوید جو خود بھی شگفتہ مزاح کے حوالے سے اردو کے شعری منظر نامے پر نمایاں مقام کے حامل ہیں ،ان کی مرتب کردہ ایک اہم کتاب ’’ مزاحیہ شاعری کا انسائیکلو پیڈیا،موضوع اور انتخاب‘‘شائع ہوئی۔اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اکبر الہٰ آبادی سے لے کر عہدِ حاضر تک کے مزاح نگار شعرا کے کلام کا انتخاب اس میں موضوعاتی حوالے سے کیا گیا ہے ۔یقینا یہ تحقیقی کام اس ضمن میں انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

مشہور صحافی اور مصنف نذیر لغاری نے قبل از اسلام کی عرب شاعرہ الفریحہ بنت شداد سے لے کر حضرت الخنساء،حضرت رابعہ بصری سے لے کر نازک الملائکہ اور موجودہ دور کی شیخہ المطائری تک بیس (۲۰) عرب شاعرات کے کلام کے تراجم اس طرح کیے کہ اصل متن کے معنی و مفہوم ، نظمیہ فضا اور شعری جمالیات متاثر نہ ہوں ۔ ’’صحرا کا رقص‘‘ کے نام سے یہ کتاب شائع ہوئی۔یقینا یہ مجموعہ تراجم کے باب میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔

2019میں شائع ہونے والی اردو شاعری کی کتابوں میں سے کچھ کتابوں کا یہ مختصر جائزہ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ اس سال بھی غزلو ں اور نظموں کے بعض بہت اچھے شعری مجموعے شائع ہوئے اور حسبِ روایت دنیائے شاعری پر ان دونوں اصناف کی حکمرانی برقرار رہی ۔نظموں کے مجموعوں میں آزاد نظم اور نثری نظم کا چلن زیادہ رہا ۔

جدید موضوعات، عصری حسیت اور تازہ تر لفظیات کے حوالے سے نظم کی زمین زیادہ زرخیز رہی اور زندگی کی معنویت دریافت ہوئی جو اکیسویں صدی میں غزل کے مقابلے میں نظم کے غالب ہونے کی مظہر ہے لیکن اس کے باوجود غزل کی جوہری قوت اور ہمہ رنگی سے انکار ممکن نہیں کیوں کہ رواں برس غزل کے کچھ اچھے مجموعوں نے بھی جدید حسیت کی بنا پر غزل کے وقار و اعتبار میں اضافہ کیا۔

اچھی کلیات کی اشاعت سے سخن وروں کی شعری جہات کے حوالے سے مزید تنقید و تحقیق کی راہیں ہموار ہوئیں ۔شاعری کے انتخاب میں مرتبین کی دل چسپی برقرار رہی اور غزل، نظم، حمد و نعت، منقبت ،رثائی ادب اور مزاح کے کئی اچھے انتخاب سامنے آئے ۔بچوں کے چند رسائل کے علاوہ بچوں کے لیے شاعری زیادہ فروغ نہ پا سکی ۔ البتہ معروف شاعر اور صحافی احفاظ الرحمٰن کی بچوں کے لیے دلچسپ اور سبق آموز نظموں کی کتاب’’تتلی اور کھڑکی‘‘ شائع ہوئی۔

ادبی رسائل میں بھی شاعری اور تراجم کے اچھے نمونے سامنے آئے تاہم تراجم کے ضمن میں تخلیق کاروں اور مترجمین کی مزید توجہ درکار ہے تاکہ بین الاقوامی سطح پر ہونے والی شاعری اور اردو شاعری کے تراجم ہماری زبان کے دامن کو وسعت آشنا کرسکیں ۔اس لیے یہ شور تو لا حاصل ہے کہ اچھی شاعری تخلیق نہیں ہورہی کیوں کہ تخلیقی دھارے کے تسلسل کو مزید تقویت ملی اور ثابت ہوا کہ کتابوں کی بے توقیری، بعض غیر معیاری مجموعوں کی اشاعت اور شاعری کے قارئین میں کمی کے باوجود اردو شاعری نئے افلاک کی جانب مائل بہ پرواز ہے۔

٭… غزلو ں اور نظموں کے بعض بہت اچھے شعری مجموعے شائع ہوئے اور حسبِ روایت دنیائے شاعری پر ان دونوں اصناف کی حکمرانی برقرار رہی ۔

جدید موضوعات، عصری حسیت اور تازہ تر لفظیات کے حوالے سے نظم کی زمین زیادہ زرخیز رہی اور زندگی کی معنویت دریافت ہوئی جو اکیسویں صدی میں غزل کے مقابلے میں نظم کے غالب ہونے کی مظہر ہے

٭… بچوں کے چند رسائل کے علاوہ بچوں کے لیے شاعری زیادہ فروغ نہ پاسکی۔ البتہ معروف شاعر اور صحافی احفاظ الرحمٰن کی بچوں کے لیے دلچسپ اور سبق آموز نظموں کی کتاب’’تتلی اور کھڑکی‘‘ شائع ہوئی۔

٭…نامور شاعر اور صحافی محمود شام کے شعری مجموعوں کا انتخاب ’’بیٹیاں پھول ہیں ‘‘ اپنے چھے مجموعوںسے کیا ہے ۔

٭… اُردو کے شعری سرمائے میں کلیات کی اشاعت کسی بھی شاعر کے بکھرے ہوئے شعری سرمائے کو سمیٹنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے ۔شاعری کے عام قارئین کے علاوہ تنقیدی و تحقیقی مطالعات کے لیے بھی اس کی اہمیت مسلّمہ ہے ۔

٭… شاعری کے بارے میں یہ اندیشہ کہ سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا سیلِ بلا فنِ شاعری کو بہا لے جائے گا ،ممکن ہی نہیں ۔