نئے برس کے کڑے امتحان اور کڑوے سوالات

January 01, 2020

نقاش فطرت نے صبح کی روپیلی کرنوں کا سونا بکھیر دیا۔ نئی صبح طلوع ہوچکی۔ ’’2019‘‘ آنکھوں میں خواب سجائے کسی شب کی صورت گزرگیا۔ سالِ نو کی بانہوں میں حکومت کے لیے امتحان کڑے اور سوال کڑوے نظرآرہے ہیں۔ سال کے اختتام پر زبانوں میں بھرا ہوا زہر تھوک کر کانوں میں امرت گھولا جاتا رہا۔ توقعات کا ٹھاٹے مارتا ’’احتجاجی دریا‘‘ ابھر ابھر کر ڈوبتا، ڈولتا رہا۔

غالب کی ہزاروں خواہشیں اپنی جگہ لیکن خواہشوں کے پرندے شاخوں پر جھولتے رہے اور معاش کا پرندہ ایوان بالا کی منڈیر پر سوگیا ۔حکومت کبھی ایک کاغذ اور کبھی دوسرے کاغذ، کبھی قاعدے اور کبھی ضابطوں میں الجھی رہی ۔ بات مبہم استعاروں سے آگے بڑھتی رہی۔ فیصلہ کن موڑ آتے آتے طوفانی لہروں کا رخ بدلتے رہے۔

جھوٹ کی گرم بازاری کا کاروبار عروج پر رہا۔ سیاست کے دریچے کوچہ ٔ عدالت میں کھلتے رہے۔ عوام مہنگائی، بے روزگاری کی تنگ گلیوں میں کھڑے ادھر ادھر جھانکتے، گرمئی گفتار اورلہجے کی مٹھاس دونوں کا مزا لیتے رہے، جب کہ منتخب نمائندے اہم ترین عوامی مسائل کو نظرانداز کرکے صرف اور صرف اپنے سیاسی مخالفین کو گالیاں دیتے،انہیں برا بھلا کہتے رہے، جو جتنا زبان دراز تھا، حکام کے نزدیک اتنا ہی اہم تھا۔

سیاست نفرت سے عبارت، معیشت تباہ، وعدے فراموش، لیکن وزیراعظم عوام کو ’’گھبرانا نہیں‘‘ کا سبق یاد کراتے رہے۔ وہ سمت تو نظر ہی نہیں آئی جو ملکی ترقی وخوشحالی کے ایک غیرمعمولی سفر سے مشروط ہوتی۔ عام آدمی کو نہیں معلوم کہ سیاسی منظر نامے میں کیا کچھ درج ہوتا ہے۔ وہ تو زندگی کی سانسیں رواں رکھے، اپنے بچوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے مارا مارا پھرتا، گرانی کے طوفان میں صبح شام ڈبکیاں لگاتا رہا،البتہ حکومت اور بے روزگاری کا ’’جن‘‘ دونوں ایک پیج پر رہے۔

ان کے درمیان کامل یگانگت اور مکمل ہم آہنگی نظر آئی لیکن ہر کام جنتر منتر یا پھونکوں سے نہیں ہوسکتا، اس کے لئے کچھ عملی اقدامات بھی کرنا ہوتے ہیں، جوسال کے ’’365‘‘ صفحات میں خالی رہے۔ یہ پتھر کا نہیں ’’نیوز‘‘کا دور ہے۔ روشنی کی سی رفتار سے اطلاعات یہاں سے وہاں سفر کرتیں اور اپنے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اس دور میں حکام عوام کو ان کے بنیادی حقوق دیئے بناء رہ ہی نہیں سکتے۔ کیسے آس پاس کے ماحول کو چھپا کر جی سکتے ہیں۔ اس وقت ناروے، سوئیڈن اور ڈنمارک دنیا کی مثالی رفاہی ریاستیں ہیں، جہاں ضرورت مندوں خاص کر عمررسیدہ لوگوں کو گرم جرابوں سے لے کر سیاہ تلخ کافی کے ڈبے بھی احترام کی مٹھاس کے ساتھ دیئے جاتے ہیں۔

وہاں انسان کے انسان سے رشتے کم زور ہیں، البتہ ریاست کا ہر شہری سے رشتہ بہت مضبوط ہے لیکن ہمارے ملک میں دونوں نہیں ہیں ، جس کا بارہا اندازہ گزشتہ سال کبھی پارلیمنٹ میں تو کبھی احتجاجی ریلیوں میں نظر آیا ۔ وہ جو کہتے ہیں ناں کہ، جب ستارے گردش میں ہوں تو چلتے اونٹ پر بیٹھے ساربان کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے۔

حالات سال بھر کچھ ایسے ہی رہے۔ وہ اطمینان تو نظر ہی نہیں آیا جو بے فکری کے باغ میں سکون کے ساتھ چہل قدمی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ تبدیلی تو نظر ہی نہیں آئی جس کی بازگشت سارا سال سماعت سے ٹکراتی رہی۔ ’’نیا پاکستان‘‘ کو نظریں تلاش کرتی رہیں۔ لیکن ابھی تو کہنے سننے کو بہت کچھ ہے۔ اس وقت تو گلزار کی ایک نظم کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ ملاحظہ کریں:

ابھی نہ پردہ گرائو، ٹھہرو کہ داستان آگے اور بھی ہے

ابھی تو کردار ہی بجھے ہیں

ابھی دھڑکتے ہیں درد، دل کے

ابھی تو احساس جی رہا ہے

یہ تو بچالو، جو تھک کے کردار کی ہتھیلی سے گر پڑا ہے

یہ تو بچا لو، یہیں سے اٹھے گی جستجو پھر بگولا بن کر

یہیں سے اٹھے گا کوئی کردار پھر اس کی روشنی کو لے کر

کہیں تو انجام و جستجو کے سرے ملیں گے

ابھی نہ پردہ گرائو، ٹھہرو کہ داستان آگے اور بھی ہے

داستان2019ء طویل ہے۔دسمبر کے وسط میں ملکی حالات نے حیرت انگیز طور پر ایسی کروٹ بدلی کہ سرد موسم میں بھی گرماؤ محسوس ہونے لگا۔زمینی حقائق اور آئینی حساسیت سے متعلق لاعلمی کا برفانی تودہ جسد سیاست پر اچانک گر پڑا۔ بے سمت سیاست دانوں کو بھونچال نے ششدر کردیا۔

غیر معمولی عدالتی فیصلوں نے قوم کے اعصاب جھنجھو ڑ کر رکھ دیئے۔ ایسا محسوس ہوا پارلیمان، قومی سلامتی کے امور، سماجی رویوں اور طرز حکمرانی نے ایک جھرجھری سی لی ہے۔ سب ایک خواب سے بیدار ہوئے ہیں۔وقت کے ساتھ گرج دار آوازوں میں تواضافہ ہوتا گیا۔گرچہ سال بھر پہاڑی پگڈنڈیوں کا مہم جو سفر جاری رہا، جس میں منفرد ذائقے کے پھل، تیز موڑ، جھنجھوڑ دینے والے واقعات اور آہ و فغاں بہت تھی۔ منظر ناموں کی پرتوں پر عجیب پیوندکاری کے ایسے ایسے نمونے نظر آئے جو رفو بھی نہ ہوسکے۔ احتجاج اور مہذب طنز سماعت سے ٹکرائے تو معنی کی اتنی پرتیں اور مطالب کی اتنی تہیں ایک کے بعد ایک کھلتی گئیں کہ ایسا لگا، سا ل نو، میں انسانیت کی تلاش کا عمل پھر سے شروع ہوگا۔

اس کا احساس سال گزشتہ کے آخری ماہ میں ہوا، جب انسانیت دم توڑ گئی۔ مسیحا اور انصاف کے علم بردار دست و گریباں ہوگئے اور ایسا سیاہ باب رقم کیا جس نے لمحوں میں تاریخ میں جگہ بنالی، قانون کے لفظ، قانون کی کتابیں گردآلود ہوائوں میں اڑ گئیں، قانونی دائود پیچ اور دلیلیں تلاش کرتے لوگ کہتےرہے، اب کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں۔ معمولی سی بات انا کا مسئلہ بن گئی ۔ پڑھے لکھے جاہلوں کو ہاتھوں میں پتھر اٹھائے، بال نوچتے، لاتیں، مکے مارتے دیکھا تو یقین آگیا کہ تبدیلی آگئی۔

نیا پاکستان، بن گیا…لیکن یہ تبدیلی، غوروفکر کی دعوت دے گئی۔ سیانے کہتے ہیں کہ ، حاکم کا رعب اور قانون کا خوف محض ایک نفسیاتی حصار ہوتا ہے، جب کوئی سر پھرا، اسے توڑ ڈالے تو بھرم ٹوٹ جاتا ہے اور پھر وہ بھی بولتا ہے جیسے الفاظ و معانی کی حقیقت کا ادراک نہیں ہوتا، یہی کچھ سال بھر ہوتا نظر آیا۔

پاکستان کے مہذب ملک ہونے کے تمام تر دعوئوں کے باوجود اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ مختلف طبقوں بالخصوص عوام جو تبدیلی کے منتظرتھے، مسلسل محرومیوں، مایوسیوں اور بنیادی ضروریات زندگی کے حصو ل میں ناکامیوں کے باعث ان کی قوت برداشت جواب دے گئی۔ بات بات پر غصہ، اشتعال، الزام تراشی اور حملے روزمرہ کا معمول بن گئے۔ عمل سے خالی، روح سے عاری کیا بچے، کیا جوان، کیا بزرگ، سب کے سب خوف سے آنکھیں بند کئے گردش رنگ چمن کے بھنور میں پھنسے مون سون کی گھٹائوں سے گھرے آسمان کو دیکھ کر بھی لطف اندوز نہیں ہوئے کہ انہیں بارش کے بعد کے خدشے اور اندیشے ڈراتے رہے۔

وہ تو مسائل کی دیگ میں اس آس میں جھانکتے رہے کہ شاید خوش کن تبدیلی کے کچھ آثار نظر آجائیں۔بے بس عوام سارا سال اس طرح سانس لیتے رہے جیسے کوئی مجبوری میں جیتا ہے۔ انتخابی منشور غریبوں کے لئے خواب نگری ہوتے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف ’’تبدیلی‘‘ کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئی۔ ایک کروڑ ملازمتوں اور پچاس لاکھ گھروں کا خواب عوام کو دکھایا لیکن ملازمتیں دینے کے بجائے ’’لنگر خانے‘‘ اور گھر کی جگہ ’’شیلٹر ہوم‘‘ کے افتتاح کردیئےلیکن نہ غربت ختم ہوئی نہ غریبوں میں کمی آئی۔ چین کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ ، غریب کو کھانے کے لئے مچھلی دینے کے بجائے مچھلی پکڑنا سکھاؤ۔

اس کہاوت پر چین نے چالیس سال عمل کیا، اب 2020میں وہ غربت کے مکمل خاتمے کا اعلان کرنے کے قریب ہے۔ ہم نے کیا کیا؟ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اب تو عوام چاہتے ہیں کہ صر ف کرپٹ حکم رانوں کا احتساب نہ ہو بلکہ ان کا احتساب بھی ہو جنہوں نے اقتدارکے حصول کے لئے جھوٹ کا سہارا لیا، جنہوں نے اعتبار کی توہین کی ۔ ایسا ہوا تو اسے تبدیلی کہہ سکتے ہیں۔ ویسے ہونا تو یہ بھی چاہئے تھا کہ حکومت بے یقینی کا خاتمہ کرکے، حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو، کی حکمت عملی کا مظاہرہ کرتی تو اعتماد بھی بحال ہوتا اور اعتبار بھی، فیصلے بھی مل جل کر ہوتے اور مسائل بھی حل ہوتے۔ ایسا نہ ہوا، تب ہی تو غلطیاں ہوتی رہیں، مخالفین کو انگلیاں اٹھانے کا موقع ملتا رہا۔ عوام تذبذب کا شکار ہوتے رہے۔ حکام کی پے درپے غلطیوں اور جلد بازی نے جو ایشو تھے ہی نہیں انہیں بھی ایشو بنا دیا،خواہ الیکشن کمیشن کے دو ارکان اور چیف الیکشن کمیشن کا تقرر ہویا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ۔ حکومت نے عام کام کو بھی خاص بنا کر بگاڑ دیا۔ نتیجہ کیا ہوا سب کے سامنے ہے۔

چین کے سوشلٹ رہنما ماؤزے تنگ نے کہا تھا ، ’’ میرے بھائی میں دیکھ رہا ہوں تم بڑے عرصے سے یہاں اس انتظار میں بیٹھے ہو کہ تمہارے سامنے کھڑی ہوئی دیوار گرے اور تم اِس کے اُس پار بسی ہوئی جنت میں داخل ہو جاؤ۔ تمہارا انتظار درست ہے، وقت اُس کی جڑوں کو بوسیدہ کررہا ہےتاریخ اُسے اپنے عبرت خانے میں سجانے کے درپے ہے، مگر ہم انتظار کی صبر آزما ساعتوں سے کیوں دو چار رہیں۔ میں دو کدالیں لایاہوں، ایک تم لے لو ، ایک میں، آؤ وقت کے ساتھ ہم بھی اس کی تباہی کا سبب بننے والوں میں اپنا نام لکھوا دیں‘‘۔لیکن ہم وہ ہیں جنہیں کسی کدال کی ضرورت نہیں، ہماری جلد بازی، ہماری زبانیں ہی کدال کا کام دیتی ہیں۔

ان ہی پر ہم اعتبار کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہم دوسروں کو بھی تباہی کا راستہ دکھا دیتے ہیں، یوں دوسروں کے لیے کام آسان ہوجاتا ہے۔ جب فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو پھرتباہی کے ساتھ وہ تبدیلی بھی آسکتی ہے، جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا ۔ رخصت ہوئے سال میں تو تبدیلی احتجاج اور دھرنوں میں اس طرح اچھل رہی تھی جس طرح ساون کے مہینے میں دریا کی لہروں میں مچھلیاں مچلتی ہیں۔

عوام کی خواہشات تو نہ پہلے پوری ہوئیں اور نہ امسال وہ تو ہر حکومت سے توقعات بہت وابستہ کرلیتے ہیں ، کیوں کہ اُن کے منشور میں عوام کی خواہشات دبی ہوتی ہیں۔ لیکن تاحال حکومت کی کار کر دگی کا ایک بھی میٹھا پھل عوام کو نہیں ملا ۔حکومتیں سیاسی فضا کو ٹھنڈا کرکے اپنے منشور اور منصوبوں پر توجہ دیتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں یہ فضا سال بھر گرم سے گرم تر ہوتی گئی ۔اب تو عوام کے دلوں میں اس آرزو کے گلاب کھل رہے ہیں کہ کاش 2020 ء میں ہمارا حکمران بھی کوئی عمربن عبدالعزیز جیسا ہو اس کاش میں اُمید کی چنگاری چمک رہی ہے ۔

اُمیدوں کے ساتھ …نیاسال مبارک

رضیہ فرید

میگزین ایڈیٹر ،جنگ کراچی