کشمیر ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند

January 01, 2020

بھارت کے جبر اور ظلم و ستم کی وجہ سے کشمیری قوم گزشتہ برس جاں گسل آزمائشوں کے ایک نئے دور میں داخل ہوگئی

صدیوں سے بیرونی تسلط اور اپنے جابر حکمرانوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار رہنے والی کشمیری قوم ،سالِ گذشتہ مزیدجاں گسل آزمائشوں کے ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے ۔ غلامی کی سفاکیوں کے سامنے اہلِ کشمیر نے جس ذوقِ خود مختاری کا مظاہرہ کیا ہے ، اس کو دیکھتے ہوئے شاعرِ مشرق علامہ اقبال کہہ اٹھے تھے کہ ؎

جس خاک کے ضمیر میں ہے آتشِ چنار

ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند

کشمیر کی کشمکشِ حیات 1947ء اور اس کے آس پاس کے برسوں میں شروع نہیں ہوئی ۔اس کا آغاز اُس وقت سے ہوگیا تھا جب خود ساختہ مہا راجائوں نے اس علاقے پر قبضہ کیا اور پھر غیر ملکی استعمار کے ساتھ ساز باز کرکے کشمیر پراپنی حکمرانی کوجاری رکھتے رہے۔البتہ1947ء سے جو کہانی شروع ہوئی اور جو آج تک جاری ہے،یہ ایک طرف کشمیر پر بزور تسلط قائم رکھنے اور دوسری طرف کشمیریوں کی اپنے حقِ خودارادیت کے حصول کی جدوجہد سے عبارت ہے۔گذشتہ 72 برسوں میں کئی سال اور مہینے ایسے آئے جب کشمیر کا قصہ منظر عام پر رہا لیکن پھر برسوں تک یہ نظروں سے اوجھل اور عالمی حافظے سے غائب بھی ہوتا رہا۔

2019ء کا سال جو اب رخصت ہوچکا ہے ،کشمیر کی کہانی کا ایک اہم سال بنا رہے گا۔تقویمِ ماہ و سال کے سفر میں کچھ آگے جاکر جب ہم پیچھے مُڑ کر دیکھیں گے تو اس سال پیش آنے والے واقعات نمایاں ہوکرہمارے سامنے آئیں گے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پچھلے 72برسوں میں یہ کبھی بھی عالمی سطح پر اتنا زیر بحث نہیں رہا تھا ۔جتنا کہ اب زیر بحث آیا ہے۔

5اگست 2019ء کو ہندوستان نے اپنے آئین کے آرٹیکل 35-Aاور370کو کالعدم کرنے کا فیصلہ کیا۔ہندوستان کے زیر تسلط کشمیر میں داخلی طور پر اس اقدام سے تین بڑے نتائج نکلے ہیں۔اول، ہندوستان نے اپنے آئین میں ملک کے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں کشمیر کو جو ایک مختلف حیثیت دے رکھی تھی اورجو کشمیریوں کو کسی حد تک یہ احساس فراہم کرتی تھی کہ اُن کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے،اوریہ کہ وہ ہندوستان کی یونین کا حصہ نہیں بن گئے ہیں، مذکورہ آرٹیکلز کے خاتمے سے یہ تکلف ختم ہوگیا ہے۔یہ آرٹیکلز عالمی برادری کو بھی یہ باور کرانے کا ذریعہ بنے تھے کہ کشمیر باقاعدہ اور باضابطہ طور پر ہندوستان کے علاقوں میں شامل نہیں ہے۔

اب ہندوستان نے ان آئینی آرٹیکلز کو ختم کرکے کشمیر کا یہ جداگانہ تشخص ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور اس کو اپنے مشمولہ علاقوں کا ایک حصّہ قرار دے دیاہے۔اس اقدام کا دوسرا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کشمیر کی داخلی وحدت بھی تار تار کر دی گئی ہے۔

چنانچہ وادی کشمیر کو مرکز کے تحت ایک ایسا یونین علاقہ قرار دیاگیا ہے جس کی اپنی ایک اسمبلی بھی برقرار رہے گی البتہ لدّاخ کو مرکز یا یونین کے تحت ایک علیحدہ علاقے کا درجہ دیا گیاہے، جس کے پاس اپنی کوئی مقننہ بھی نہیں ہوگی۔تیسرا اہم نتیجہ ان آرٹیکلز کو ختم کرنے کا یہ ہے کہ ماضی کے برعکس اب ہندوستان کے دوسرے علاقوں کے لوگ اعلانیہ طور پر کشمیر میں آباد ہوسکیں گے، وہاں ملازمتیں اور کاروبار بھی کرسکیں گے۔

وزیر اعظم نریندر مودی اپنے سیاسی کیریئر کی شروعات ہی سے آرٹیکل 370کے خلاف زبان کھولتے رہے تھے۔ان کا کہنا تھاکہ جواہر لعل نہرو اور کانگریس کی قیادت نے قومی مفاد کے خلاف کشمیر کو ایک علیحدہ حیثیت دی جس کی وجہ سے یہ دنیا کی نظروں میں متنازعہ علاقہ بنا رہا۔گذشتہ انتخابات میں تو انہوں نے واضح طور پر اعلان کردیا تھا کہ ان کی حکومت کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ہندوستان کے آئین سے خارج کرنے میں زرا دیر نہیں لگائے گی۔

ہندوستان کی بی جے پی سرکار کا کشمیر کو بیک جنشِ قلم ہڑپ کرلینے کا اس کا ارادہ تو بہت پرانا تھا اور اس کے لیے اس کی منصوبہ بندی بھی ایک عرصے سے جاری تھی۔ البتہ اس اقدام کے لیے مناسب ترین وقت کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیاگیا۔داخلی طور پر بی جے پی حکومت تازہ بہ تازہ از سرِ نو انتخاب جیت کر بلکہ پچھلی مدت اقتدار میں حاصل عوام اور لوک سبھا کی حمایت کے مقابلے میں زیادہ بڑی حمایت کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی۔گذشتہ پانچ چھہ برسوں میں بی جے پی کی حکومت نے ہندوستان میں اقتصادی ترقی کا زبردست پروپیگنڈا کیا تھا۔ماہرینِ معاشیات کے خیال میں یہ ترقی اتنی حقیقی نہیں تھی جتنا کہ اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا۔تاہم بیرونی دنیا میں بھی ہندوستان نے اپنا ایک امیج بنایا۔

ووٹروں کی تعداد کی بنیاد پر یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ تو پہلے ہی تھی،اب کھلی منڈی کی معیشت کو بھرپور طریقے سے قبول کرنے اور بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے اپنے دروازوں کے سارے پٹ کھول دینے سے ،ہندوستان دنیا بھر سے فائدے وصول کررہا تھا۔امریکہ اور چین کے اپنے اختلافات کتنے بھی ہوں ،ہندوستان کو شیشے میں اتارنے میں دونوں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کررہے۔

ہندوستان کی وسیع و عریض مارکیٹ دونوں کو رِجھا رہی ہے۔روس کے تو ہندوستان سے قریبی تعلقات کئی عشروں پر پھیلے ہوئے ہیں۔عالمِ عرب اقتصادی اعتبار سے ہندوستان سے اس وقت جتنا مرعوب اور جتناقریب ہے،اتنا ماضی میں کبھی نہیں تھا۔ان حقائق کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہندوستان نے کشمیر پر یا اس کے ایک بڑے حصے پرقبضہ کرنے کے لیے اُس نے موزوں ترین وقت کا انتخاب کیا۔

جو حکمت عملی اختیار کی اُس کے بھی دو پہلو ہیں۔ایک طرف یہ حکمت عملی شدید جبر،ظلم اور بربریت کی ہے۔دوسری طرف اس میں ایک شاطرانہ چال بھی پوشیدہ ہے۔ہندوستان نے کشمیریوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کے لیے جس انتہا پر جانے کا فیصلہ کیا،اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ دنیا کی نظر یں اس بربریت پر ٹھہر جائیں۔دنیا اس کی مخالفت کرے۔

دنیا بھر کی سول سوسائٹیاں،ہفتوں تک جاری رہنے والی کرفیو کی پابندیوں، ناکہ بندیوں، تعلیمی اداروں کی بندشوں ،بیماروں کے ہسپتال تک نہ پہنچ پانے،فصلوں کے، منڈیوں تک رسائی کو مسدود کردیے جانے اور ایسے ہی سیکڑوں استبدادی اقدامات کی مذمت میں لگ جائیں اور ان پابندیوں کے ہٹائے جانے کا بیانیہ ہی واحد بیانیہ بنا رہے اور اس سب میں جو اصل اور تاریخی موضوع کشمیر کے حق خود ارادیت کا ہے وہ زیر بحث ہی نہ آئے بلکہ دنیا کا ذہن اس طرف جائے ہی نہیں۔

کشمیر میں حقوق انسانی کی پامالی کا موضوع ہی دنیا کی توجہ حاصل کرے۔چنانچہ اور ہوا بھی یہی۔جہاں تک کشمیر میں حالیہ پابندیوں کا تعلق ہے تو یہ پابندیاں خواہ وہ کرفیو یا تحریر و تقریر پر عائد قدغنیں،یا آمدورفت میں حائل رکاوٹیں،ظاہر ہے کہ اس قسم کی پابندیاں ہمیشہ تو نہیں عائد رکھی جاسکتیں۔جلد یا بدیر ان کو ہٹانا پڑے گا۔

آئین کی دو شقوں کے خاتمے کے نتیجے میں مقبوضہ لداخ کا بغیر اس کی کسی اسمبلی کے،اور مقبوضہ وادیٔ کشمیر کو اس کی اسمبلی کے ساتھ ،اپنی یونین کا حصہ بنالینے کے اقدام کو ہندوستان کی 72سالہ کشمیر پالیسی کو ایک تازہ تر مرحلے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ ہندوستان کی سیاسی قیادت نے پچھلے72 برسوں میں کم از کم ہندوستان کے نقطۂ نظر سے بڑی حد تک ایسی سوچی سمجھی کشمیر پالیسی پر عملدر آمد کیا ہے جس پر بحیثیت مجموعی اس سیاسی قیادت،پارلیمان اور رائے عامہ کا اتفاق رہا ہے۔

اس پالیسی کے جو پہلو اتفاق رائے کے حامل نہیں بھی تھے ان سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑی خوبصورتی سے احتراز برت لیا گیایا اس میں ترمیم کرلی گئی۔جہاں جہاں جھَول تھے ان کو دور کرلیا گیا۔تفصیلات اور باریک نکتوں پر اختلاف ضرور برقرار رہا لیکن موٹے موٹے نکات پر اتفاق رائے بھی حاصل کیا جاتا رہا۔ہندوستان کی حکمت عملی کا یہ سفر اب آرٹیکل 370 کے خاتمے تک پہنچا ہے ۔اب بھی اختلاف رائے کسی نہ کسی دائرے میں موجود ہے۔ لیکن 1947سے 2019 تک ایک سفر کے نقوش بھی باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔

1947 میں برصغیر کی دو ملکوں میں تقسیم لازماً ان کے درمیان مبارزآ رائی اور مخاصمت کا پیش خیمہ بننے کا ذریعہ نہیں تھی۔چنانچہ قائد اعظم کا خیال تھا کہ تقسیم کے بعد پاکستان اور ہندوستان اُسی طرح کے اچھے پڑوسی ثابت ہوں گے جس طرح کے دو پڑوسی امریکہ اور کینڈا ہیں۔جواہر لعل نہرو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اشتراک کو خطے اور عالمی امن اور ترقی کا ذریعہ قرار دے رہے تھے ۔البتہ تقسیم ہند جس طرح عمل میں لائی گئی اور اس کے ساتھ جس قسم کے مسائل نے جنم لیا وہ دراصل اس مخاصمت اور معاندانہ تاریخ کی بنیاد بنے جو ان دونوں ملکوں کے درمیان سات عشروں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔

تقسیم کے وقت جموں و کشمیر مسلم اکثریت پر مشتمل ریاست تھی۔یہ جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کی سرحدوں سے متصل بھی تھی لہٰذا تقسیم کے پلان اور منطق دونوں کی رُو سے اس کا الحاق پاکستان کے ساتھ با آسانی ہوسکتا تھا۔مگرمہاراجہ ہری سنگھ کے اپنے منصوبے تھے۔اُس نے چند ہفتے آزاداور خود مختار کشمیری ریاست کے قیام کی کوشش کی لیکن ریاست کی مسلم آبادی کے ایک بڑے حصے کی بغاوت اور پاکستانی علاقوں سے قبائلیوں کی لشکر کشی کے پس منظر میں اُس نے ہندوستان سے مدد طلب کرلی۔

ہندوستان نے کس طرح اُس کو الحاق پر آمادہ کیا اور الحاق کی دستاویز پر کس طرح سے دستخط کرائے گئے اس کے بارے میں اب تاریخ نویس بہت سے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔کشمیر میں ایک طرح کی خانہ جنگی 1947 کے آغاز ہی سے شروع ہوچکی تھی۔پاکستان کی طرف سے قبائلی لشکروں کے حملے اور اُن کی کاروائیوں کو بنیاد بنا کر مہاراجہ جو اس سے پہلے پاکستانی انتظامیہ سے بھی اپنی آزاد ریاست کے حوالے سے سلسلۂ جنبانی شروع کرنا چاہتا تھا، مدد کے لیے ہندوستان کی طرف مائل ہوا۔ہندوستان خود بھی کشمیر کو ایک آزاد ریاست کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتا تھا ۔لیکن اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اس نے مہاراجہ سے معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

اکتوبر 1947ء کے آخری ہفتے میں ہندوستانی حکومت اور مہاراجہ کے درمیان بات چیت جاری رہی۔مہاراجہ نے ہندوستان کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے اور اس کے ساتھ ہندوستان کی فوج ریاست میں داخل ہوگئی ۔بعض تاریخ نویسوں کا خیال ہے کہ الحاق کی دستاویز پر دستخط ہونے سے قبل ہی ہندوستانی فوج کشمیر میں داخل ہوچکی تھی۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس دستاویز میں یہ بھی واضح کردیا گیا تھا کہ یہ ایک عبوری الحاق ہوگاجو بعد ازاں عوام کی منظوری سے مشروط ہوگا۔ 31 دسمبر 1947 کو ہندوستان ہی کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کائونسل میں لے کر گیا۔

یکم جنوری 1948کو سیکیورٹی کائونسل نے کشمیر کے مسئلے پر غور کیا۔15 جنوری کو ہندوستان اور پاکستان دونوں نے اپنے موقف پیش کیے۔17جنوری1948 کو سیکیورٹی کائونسل نے قرارداد نمبر 38اور 20 جنوری کو قرارداد نمبر 39 منظور کی۔پہلی قرارداد میں ہندوستان اورپاکستان سے کہا گیا کہ وہ صورت حال کو مزید خراب ہونے سے روکیں۔ ساتھ ہی صورت حال میں کسی بڑی تبدیلی واقع ہونے کی صورت میں،ان سے کائونسل کوآگاہ کرنے کو کہا گیا تھا۔دوسری قرارداد کی رو سے سیکیورٹی کائونسل نے ایک تین رکنی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا جس کا مقصد مسئلہ کشمیر کا جائزہ لینا تھا۔اس کمیشن کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 34 کے مطابق کردار ادا کرنا تھا۔

اس کا کام کسی ایک فریق کے موقف کے حق میں فیصلہ دینا نہیں تھا۔21 اپریل1948کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کائونسل نے قرارداد نمبر 47 منظور کی جس میں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے تین مرحلوں پر مشتمل طریقہ کار کی تجویز دی گئی۔اس کی رُو سے پہلے پاکستان کو کشمیر سے اپنے لوگوں کو نکالنا تھا۔دوسرے مرحلے میں ہندوستان کوکشمیر میں اپنے فوجیوں کی تعداد کو کم سے کم سطح پر لانا تھا اور تیسرے مرحلے میں کشمیر میںرائے شماری کے انتظامات کیے جانے تھے۔

پاکستان اور ہندوستان دونوں نے ان تجاویز کو اپنی اپنی وجہ سے رد کردیا۔اس سے قبل جنوری 1948 میں اقوام متحدہ کا کمیشن برائے ہندوستان اور پاکستان(UNCIP) وجود میں آچکا تھا۔یکم جنوری 1949 کو پاکستان اور ہندوستان کی فوجوں کے درمیان فائر بندی ہوئی۔ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہندوستان اور پاکستان(UNCIP) نے 5 جنوری 1949کو اعلان کیا کہ جموں و کشمیر کے پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعے ہوگا۔

28 اپریل 1949کو آزاد کشمیر نے پاکستان کی حکومت کے ساتھ معاہدہ کراچی پر دستخط کیے جس کے تحت دفاع اور خارجہ امور نیز گلگت و بلتستان کے جملہ امور پاکستانی حکومت کے کنٹرول میں آگئے۔1950 میں ہندوستان نے اپنا آئین نافذ کیا ۔اس نے آرٹیکل 370 کو آئین کا حصہ بناتے ہوئے جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت اور داخلی خود مختاری دینے کا اعلان کیا۔ 1956میں جب آئین میں کئی اہم ترامیم کی گئیں اُس وقت بھی اس آرٹیکل کو برقرار رکھا گیا۔

5اگست 2019 کو اس آرٹیکل کے حذف کر دیے جانے کے نتیجے میںکشمیر کا یہ خصوصی مقام جو ہندوستان کے آئین نے اس کو دیا تھا ختم ہوگیا۔مذکورہ آرٹیکل کی رُو سے یونین حکومت یا مرکزی حکومت کا کشمیر میں عمل دخل الحاق کی اُس دستاویز کی روشنی میں طے پایا تھا جو ہندوستانی حکومت نے مہاراجہ کے ساتھ طے کی تھی۔اس دستاویز کے مطابق ریاستِ جموں و کشمیرمیں مرکز کا عمل دخل دفاع،امورِ خارجہ اور مواصلات تک محدود تھا۔

اب اس آرٹیکل کے حذف کردیے جانے کے بعد وادی اور لداخ جن کو الگ کردیا گیا ہے براہِ راست طور پر مرکز کے زیر انتظام علاقے قرار پائے ہیں۔تقسیم ہند کے فوراً بعد رائے شماری کے موقف کو اختیار کرنے اور آرٹیکل370کو آئین کا حصہ بنانے کے بعد ہندوستان میں ان دونوں فیصلوں کے حوالے سے اختلافِ رائے موجود رہا۔پہلے تو ہندوستان نے رائے شماری کے موقف سے انحراف کے راستے تلاش کیے۔1950میں جواہر لعل نہرو ہی کی طرف سے ’تقسیم اور رائے شماری کی تجویز دی گئی ۔

وزیراعظم لیاقت علی خان نے اس کو اس شرط کے ساتھ قبول کرنے کا عندیہ دیا کہ اس فارمولے پر عملدرآمد سے پہلے ریاست کو ایک غیر جانبدار انتظامیہ کے کنٹرول میں دے دیا جائے ۔ہندوستان اس شرط کو ماننے پر تیار نہیں ہوا۔ستمبر 1951میں ریاست جموں و کشمیر میں انتخابات منعقد کروائے گئے جن میں شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے تمام سیٹیں جیت لیں۔ ہندوستان کی طرف سے ان انتخابات کو کشمیر کے اس کے ساتھ الحاق کی توثیق قرار دیا گیا ۔لیکن ہندوستان کی یہ پوزیشن نہ تو پاکستان کے لیے قابل قبول تھی اور نہ ہی اقوام متحدہ میں قبولیت حاصل ہوئی۔

اسی طرح 1953میں جب پاکستان نے مغربی دفاعی معاہدوں سیٹو اور سینٹو میں شمولیت کی کوششوں کا آغاز کیا تو نہرو نے واضح طور سے یہ اعلان کیا کہ پاکستان یا تو کشمیر پر رائے شماری کے آپشن کو پیش نظر رکھے یا امریکہ کے فوجی اتحادوں میں شامل ہو۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان فرار کے راستے تلاش کرتا رہا ہے۔

مسئلہ کشمیر کو ایک نئی جہت اس وقت حاصل ہوئی جب 1965کی جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند طے ہوا جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے مفتوحہ علاقے واپس کیے لیکن اس کے ساتھ ہی کشمیر میں ایک قوم پرست گروپ امان اللہ خان اور مقبول بٹ کی قیادت میں ’رائے شماری فرنٹ‘ کے نام سے سامنے آیا جس کے عسکری وِنگ نے جموں اینڈ کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ(NLF) کے نام سے آزاد کشمیر میں کام کرنا شروع کیا۔

1971کی پاکستان اور ہندوستان کی جنگ کے بعد 1972 میں ہونے والے شملہ معاہدہ میں کشمیر کی بابت یہ فیصلہ ہوا کہ وہاں سیز فائر لائن، لائن آف کنٹرول کے طور پر قبول کی جائے گی۔ساتھ ہی یہ بھی فیصلہ ہوا کہ کشمیر کے حتمی فیصلے کے لیے دونوں ملک دوطرفہ بات چیت پر انحصار کریںگے۔معاہدہ شملہ سے ہندوستان اور پاکستان دونوں کو کچھ نہ کچھ حاصل ہوا۔ہندوستان نے اس کی یہ تشریح کی کہ اس معاہدے کے بعد پاکستان کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ یا کسی بھی تیسرے فریق سے رجوع نہیں کرے گا۔

پاکستان نے ہندوستان کی اس تاویل کو کبھی قبول نہیں کیا جبکہ خود اس نے معاہدہ شملہ کے اس پہلو کو زیادہ اہمیت دی کہ ہندوستان جو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ریاستی انتخابات کو رائے شماری کا نعم البدل قرار دے کر مسئلہ کشمیر کے حل ہوجانے سے تعبیر کرتا رہا تھا،اس معاہدے کے بعد کشمیر کو ایک متنازعہ مسئلہ تسلیم کرنے پر آمادہ ہوگیا ہے۔1980کے عشرے میں پاکستان نے کشمیر میں اُس وقت جہادی سرگرمیوں کی پشت پناہی شروع کی جب افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکہ اور مغربی دنیا کی پشت پناہی سے چلائی جانے والی جہادی مہم اختتام کو پہنچ رہی تھی۔

پاکستان میں ایسی تنظیموں کی تشکیل اور پشت پناہی کی گئی جو ہمارے پالیسی ساز اداروں کی دانست میں کشمیر میں آزادی کی مہم کو آگے بڑھا سکتی تھیں۔ہندوستان نے اس کو بیرونی مداخلت قرار دیا اور دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف بھرپور مہم چلائی ۔نتیجتاً پاکستان پر بیرونی دبائو پڑا اور 5اگست 2019کے ہندوستانی اقدام سے پہلے پاکستان کو ان تنظیموں سے اپنے تعلق کے خاتمے کا عالمی برادری کو یقین دلانا پڑا ۔ایک لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان نے جموں اور لداخ پر قبضہ کرنے کے لیے پاکستان کی سفارتی کمزوری سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود پاکستان گذشتہ 72سال سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کیا کامیابیاں حاصل کرسکا ہے اور اس کو کن دشواریوں کا سامنا رہا ہے؟غیر جانبدار ہوکر سوچا جائے تو یہ تکلیف دہ نتیجہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ بدقسمتی سے ہماری حکومتیں کشمیر کے حوالے سے کوئی مربوط اور قابل عمل حکمت عملی وضع نہیں کرسکی ہیں۔ہم ایک ہی سانس میں کشمیر کی آزادی کی بات بھی کرتے ہیں اور کشمیر کو اپنی شہہ رگ بھی قرار دیتے ہیں۔

جب ہم کشمیر کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو اس میں یہ امکان بھی پوشیدہ ہوتا ہے کہ کشمیری مستقبل میں ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے بجائے اپنی آزادی کا انتخاب بھی کرسکتے ہیں۔جب ہم کشمیر کو اپنی شہہ رگ قرار دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی بات کررہے ہیں۔ہم نے یہ دونوں متضاد پوزیشنیں بیک وقت اختیار کررکھی ہیں۔ان دونوں پوزیشنوں کے ساتھ عالمی برادری کو ہمارے نقطہ نظر کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔

کشمیر کی صورتحال آج جہاں تک پہنچی ہے اس کو دیکھتے ہوئے اس مسئلے کے ایک ایسے پہلو کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے جو اکثر لوگوں کے پیش نظر نہیں ہوتا اور وہ پہلو یہ ہے کہ کشمیر صرف کسی خطہ زمین کا نام نہیں ہے ،یہ صرف ایک ایسے علاقے کا نام نہیں ہے جس پر دو ملکوں کا دعویٰ ہے اور وہ دونو ں اس کے حوالے سے کبھی بات چیت کرتے ہیںاور کبھی جنگوں میں الجھ جاتے ہیں۔ کشمیر جیتے جاگتے انسانوں کی سرزمین ہے اور یہ انسان ہی اس سرزمین کے اصل مالک ہیں۔

صدیوں کے ارتقائی سفر میں تاریخ کا یہ فیصلہ تو بار بار سامنے آچکا ہے کہ کسی سرزمین کا فیصلہ اگر اس کے اصل باشندوں نے نہ کیا ہو تو وہ فیصلہ زیادہ عرصے قائم ودائم نہیں رہتا ۔ سو اس مسئلے کا حل کئی شکلوں میں نکل سکتا ہے مگر ان میں سے وہی شکل قابل عمل اور دیر پا ہوگی جس کی تلاش اور حـصول میں کشمیر یوں کا کلید ی کردار ہوگا ۔

ماضی میں بعض مواقع پر پاکستان اور ہندوستان مسئلہ کشمیر پر کسی نتیجے تک پہنچنے کے قریب بھی پہنچے مگر وہ لیاقت علی خان اور نہرو کے درمیان سلسلہ جنبانی ہو یا جنرل پرویز مشرف اورمن موہن سنگھ کے درمیان بات چیت کے نتیجے میں اجاگر ہونے والا فارمولا ہو ، یہ کاوشیں اس لئے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکیں کیونکہ ان میں خود کشمیری شامل نہیں تھے۔

آج بھی کشمیر کا مسئلہ باوجود اس کے کہ ہندوستان من مانی کر کے بڑی حد تک اپنے لئے استوار کر چکاہے اور باوجود اس کے کہ پاکستان کسی بڑے بریک تھرُو کی تلاش میں ہے، یہ گتھی سلجھنا صرف اسی وقت شروع ہوگی جب اس میں کشمیر ی اور ان کی تنظیمیں خود فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آئیں گی ۔ اور ان کے اس کردار کو ہندوستان اور پاکستان دونو ں تسلیم کریں گے۔