نظر آسمانوں پر، پاؤں زنجیروں میں

January 01, 2020

ہم ایسے وقت میں نئے برس میں داخل ہوئے ہیں جب بہت سے گمبھیر مسائل منہ پھاڑے سامنے کھڑے ہیں۔ ہماری ریاست کو جن چند اہم ترین چیلنجز کاسامنا ہے ،وہ درجِ ذیل ہیں:

سیاسی استحکام کا چیلنج، معیشت کو درپیش چیلنجز، دفاعی چیلنجز، صحت، تعلیم اور روزگار کے شعبے کے چیلنجز، انصاف، قانون سازی، پارلیمانی امور، امن وامان اور ماحولیات کے شعبے کے چیلنجز۔

پاکستان کو اگرچہ کئی دیگر چیلنجز بھی درپیش ہیں، لیکن اگر ہم اس برس درج بالا مسائل پر قابو پانےیا ان کی شدّت مناسب حد تک کم کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں تو بہت سے دیگر مسائل کی جڑیں خود بہ خود کٹ جائیں گی۔سیاسی استحکام اور نظام کا تسلسل دہائیوں سے ہماری اشد ضرورت ہے،لیکن ہم اس مطالبے سے اب تک منہ موڑے ہوئے ہیں۔تاہم اب حالات کا جبر ہمیں اس کی مزیداجازت دیتا نظر نہیں آتا۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم یہ استحکام حاصل کرلیں تو ہمارے بہت سے مسائل کی شدّت بہت حد تک خود بہ خود کم ہوجائے گی۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں ،مگر عمل کے وقت پیٹھ دکھادیتے ہیں۔ہمارے جوانوں کی نظریں آسمانوں پر ہیں،لیکن قرض، ناخواندگی، بے روزگاری، بے انصافی، اقربا پروری، بدعنوانی، نااہلی، دہشت گردی وغیرہ جیسے مسائل نےان کے پیروں میں زنجیریں ڈال رکھی ہیں۔

سیاسی استحکام کا چیلنج

اگرچہ ملک میں نئی حکومت کے قیام کوڈیڑھ برس ہی گزرے ہیں،لیکن بعض سیاسی جماعتیں اسے ہٹانے کی کوشش میں کافی آگے تک جاچکی ہیں۔لیکن ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا ہے۔خود ہمارے موجودہ وزیرِ اعظم کی جماعت بھی ماضی میں اسی طرح کی سیاست کرچکی ہے ۔ اس سے قبل بے نظیر بھٹو اورمیاں نوازشریف کی سیاسی جماعتیں بھی اقتدار کے ایوانوں میں ایسا ہی کھیل کھیلتی رہی ہیں۔لہذا ان میں سے کبھی کسی کی حکومت محض اٹھارہ ماہ میں اور کبھی ڈھائی برس میں چلتا کردی گئی ۔ لیکن پھر ان جماعتوں نے وقت سے زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت سبق سیکھا۔

چناں چہ بعد کے دور میں پہلے آصف علی زرداری کی قیادت میں پی پی پی کی حکومت نے اپنی میعاد پوری کی اورپھر نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ نون کی حکومت نے بھی ایسا ہی کیا۔لیکن پھر سیاست کے میدان میں پاکستان تحریکِ انصاف ایک نئے اورطاقت ور سیاسی حریف کے طورپر ابھر کرسامنے آگئ۔اس مظہرنے دونوں پرانی جماعتوں کو سخت مشکلات سے دوچار کر دیا ۔

آج ملک میں تحریکِ انصاف کی حکومت ہے اوردونوں پرانی جماعتیں حزبِ اختلاف کا حصہ ہیں۔جمہوری معاشروں میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہوتی ۔ لیکن ہم ماضی میں جیسی جمہوریتوں اور آمریتوں کا سامنا کرچکے ہیں انہوں نے ہمارے سیاسی اور سماجی لباس کو تار تار کردیا ہے۔چناں چہ ہمارے ہاں مثالی جمہوری روایات کا فقدان نظر آتا ہے۔

دراصل یہ روایات چند برسوں میں نہیں بلکہ دہائیوں میں پنپ پاتی ہیں ۔سیاسی استحکام ، جمہوری ادادروں کا تسلسل،وقت،حالات،تاریخ کا جبر ، سیاست دانوں کا ذہنی اور فکری معیاروغیرہ اس ضمن میں بہت اہم کردار اداکرتے ہیں۔

آج اگر پاکستان میں ابتری، انتشاراور بے یقینی کی کیفیت ہے تو اس کا ذمے دار کسی ایک فرد،سیاسی جماعت یا کسی ایک ادارے کو قرار دینا شاید مکمل انصاف نہیں ہوگا۔عوام کا بھی اس میں کچھ حصہ ہے۔لیکن اندرون اور بیرون ملک سے درپیش چیلنجز ہمیں یہ چیخ چیخ کر بتارہے ہیں کہ اب ہمیں بہت تیزی سے اپنی اصلاح کرنی ہوگی،کیوں کہ اب جو طوفان ہماری جانب اُمڈ رہے ہیں وہ پہلے کی طرح تنکوں سے ٹلنے والے نہیں ہیں۔

وقت کاتقاضا ہے کہ سیاسی راہ نما دیدہ وری سے کام لیں۔ قوم درست طورپر یہ سمجھتی ہے کہ ملک کواکہتّربرس کے سیاسی مغالطوں، جمہوری مبالغہ آرائیوں، منافقت، ریا کاری اور جمہوریت سے انحراف کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔چناں چہ اب لازم ہے کہ اہلِ اقتدار سیاست میں اجتماعیت اورقومی مفاد کو پیش نظررکھیں، کشیدگی اور محاذ آرائی سے بچیں اورکشادہ دلی کے ساتھ مشترکہ جمہوری رویوں کو فروغ دینے کی مثالیں قائم کریں اوران چیلنجز کا ادراک کریں جوخِطّے کو لاحق ہیں۔

سیاست اورمعیشت کا بحران جاری ہے۔ جمہوری قوتوں کو ایک مستحکم ، آسودہ ، معتدل اور متوازن پالیسیوں کی سمت کا انتظار ہے۔ تاہم اب تک حکومت اس تاریک سرنگ سے باہر نکلنے میں کام یاب نہیں ہوسکی ہے جس کے آخری سرے پر عوام کو اکثر اقتصادی ریلیف کی کوئی کرن نظرآتی ہے۔بہ ظاہر عالمی ، علاقائی معاملات ، سیاسی قربتیں ،بین الاقوامی تعلقات ، سفارت کاری اور تجارتی رابطے معمول کے مطابق چل رہے ہیں، لیکن بنیادی سوال پی ٹی آئی کی حکومت کے انصاف ، تبدیلی، ترقی اور خوش حالی کے اہداف کے حصول کا ہے۔

دوسری طرف اپوزیشن کا کہنا ہے کہ نئے انتخابات کے مطالبے پر سمجھوتہ نہیں ہوگااور بحران کا حل حکومت کا خاتمہ ہے۔ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی، بلاول بھٹوکا کہنا ہے کہ آیندہ کسی سلیکٹڈ کو قبول نہیں کیاجائے گا۔مسلم لیگ ن کے راہ نما احسن اقبال کا کہنا ہے کہ حکومت ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ حقیقت میں خطرات کا دائرہ خِطّے کے سیاق وسباق میں کثیر جہتی اندیشوں سے عبارت ہے۔

ہمارا ازلی دشمن بھارت پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے مہم جوئی کر رہا ہے۔ اس نے مقبوضہ کشمیرکوکشمیریوں کے لیے جیل خانہ بنا دیا ہے۔مودی کی حکومت بھارت کو تیزی سے ہندوتوا کے فلسفےکی راہ پر لے جارہی ہے۔اس نے شہریت کے نئے قانون کے ذریعے مسلمانوں کے گرد ہندو انتہا پسندوں کا گھیرا مزید تنگ کردیا ہے۔

معیشت بہتر بنانے کا چیلنج

آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک اس وقت تک اقتصادی طورپر مستحکم نہیں ہوسکتا جب تک وہاں سیاسی استحکام نہ ہو۔چناں چہ ملک کے موجودہ سیاسی حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی اسٹیک ہولڈ رز خِطّےاور داخلی صورت حال کو اپنی سیاست کا محور بناتے ہوئے دوراندیشی پر مبنی فہم وفراست سے کام لیں۔ہمارا بہت سا قیمتی وقت بے مقصد بلیم گیم میں ضایع ہو چکا ہے اورہورہا ہے۔

تناؤ کا اعصاب شکن عفریت بائیس کروڑ ہم وطنوں کو حصار میں جکڑے ہوئے ہے۔عجیب کھینچا تانی کا سلسلہ جاری ہے۔ایک جانب ملکی معیشت کی بہتری کے دعوے ہیں اوردوسری جانب عوام بہ دستور منہگائی اور بے روزگاری کی اندھی گلی میں دیواروں سے ٹکریں مار رہے ہیں۔وہ نیا پاکستان بننے کے شدّت سے منتظر ہیں ۔ ایسا پاکستان جس میں عوام کوآسودگی ملے،منہگائی اور بے روزگاری ختم ہو، سیاست میں مستقل ٹھہراؤکی کیفیت پیدا ہو۔ ملک سیاسی ابتری کے حصار سے نکلے اور عوام اطمینان کا سانس لیں۔

عوام کا خیال تھا کہ عمران خان کی قیادت میں ملک کی کایاکلپ ہوجائے گی۔ملک فرسودہ سیاست کورد کر کے جدیددورکی ترقی پسند،متوازی جمہوری روایات، مستحکم اقتصادی نظام اور اسلامی تشخص کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کرے گا۔ اس سفر کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے مابین تعلقات کی کیمسٹری بھی بدل جائے گی، اشرافیہ کی بالادستی قبول نہیں کی جائے گی، غربت،بے روز گاری،جرائم کا خاتمہ ،میرٹ کی توقیر،معاشی آسودگی اصل حکومتی اہداف ہوں گے اور حکم راں جمہور اور عام آدمی کے مفادات کو پیش نظر رکھیں گے ۔

یہ توقعات کچھ غلط بھی نہیں تھیں۔پی ٹی آئی نے اپنے منشور اور اس کے راہ نماوں نے اپنی تقاریرکے ذریعے عوام کو یہ توقعات وابستہ کرنے کی راہ دکھائی تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ محض توقعات نہیں بلکہ وقت کی اہم ضرورت ہیں۔معیشت کے استحکام کے لیے اس وقت وسیع البنیاد مصالحت، خیر سگالی، دور اندیشی، مفاہمت، گلوبل وژن، داخلی استقامت اور سمت سازی کے ساتھ انقلابی، غیر روایتی اور دلیرانہ فیصلہ سازی کی ضرورت ہے۔

عوام شدّت سے یہ چاہتے ہیں کہ حکومت بے یقینی کا خاتمہ کرے،موثرحکمت عملی کا مظاہرہ کرے، عوامی توقعات پوری کرنے پر اپنی ساری توانائی خرچ کرے، احتساب بلا امتیاز جاری رکھا جائے اورنظام میں دراڑیں پڑنے کی جو چہ مگوئیاں اور افواہیں ہیں ان کا ازالہ ہونا چاہیے۔ سیاسی کشیدگی اور محاذ آرائی خانہ جنگی کی نوبت تک نہ پہنچے، قوم کی امنگوں کا ادارک کیا جائے اور ہر قسم کی الزام تراشی، شعلہ بیانی بند ہونی چاہیے تاکہ سیاسی اور اقتصادی اشتراکِ عمل کا نیا باب رقم کیا جاسکے۔

دوسری جانب مشیر خزانہ، ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے، جی ڈی پی ہدف سے زیادہ رہے گی، سخت اقدامات کے بعد معیشت کی صورت حال بہترہوئی ہے، تاہم معیشت کومشکلات کا سامنا ہے۔اس حقیقت سے ملک بھرکے اقتصادی ماہرین متفق ہیںکہ ملک کا اصل ٹیسٹ کیس اقتصادی ترقی میں مضمر ہے۔مشیر خزانہ کو ادراک ہے کہ مشکلات درپیش ہیں، ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ اقتصادی اہداف حاصل کیے جائیں گے۔

اقتصادی فیصلہ سازی میں صوبوں کا کردار بڑھایا جارہا ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی آئی ہے، سرمایہ کاری بڑھی ہے،سولہ ماہ میں معیشت کو درست راہ پر گام زن کرنے میں مصروف رہے، درست سمت میں صحیح فیصلے کیے گئے، شرح مبادلہ کا تعین کرنے سے استحکام ملا جو پاکستان کی ترقی کے لیے دیرپا فیصلے کرنے میں مددگار ثابت ہورہا ہے۔

تاہم حزبِ اختلاف کے راہ نما اور مسلم لیگ ن کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال کاموقف ہے کہ حکومتی بیانیے سے معیشت کے حالات خراب ہوئے۔ادہر چین نے پاکستان کی اقتصادی صورت حال کا جائزہ لیا ہے۔چینی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کو محاصل اور بجلی کے نرخ میں استحکام برقرار رکھنا چاہیے۔عالمی بینک نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں کہا ہے کہ نو برسوں میں پاکستان کی محاصل سے ہونے والی آمدن بیاسی ارب ڈالرز سے زاید ہوسکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں نئے ٹیکس کے نفاذ اور ٹیکس کی شرح میں اضافے کے بغیر اس آمدن میں اضافہ ممکن ہے۔

عالمی بینک کا کہنا ہے کہ اگرمحاصل کی وصولی پچھہتّر فی صد تک بڑھ جائے تو پاکستان کی ٹیکس آمدن جی ڈی پی کے چھبّیس فی صد تک پہنچ سکتی ہے ۔ لیکن متعلقہ لوگ ممکنہ آمدن کا صرف آدھا ہی وصول کررہے ہیں۔دوسری جانب سابق گورنراسٹیٹ بینک شمشاد اخترکا موقف ہے کہ پائے دار ترقی کے اہداف حاصل کرنے کےلیے پاکستان کو جی ڈی پی کاآٹھ فی صد سے زایدبنیادی ڈھانچے پر لگانا چاہیے۔

معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے ہمیں انسانی وسائل کو بھی ترقی دینا ہوگی۔لیکن اس ضمن میں بری خبر یہ ہے کہ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس ( ایچ ڈی آئی) کی نئی عالمی درجہ بندی میں پاکستان مزید پیچھے چلا گیا ہے اور اب 189 ممالک میں اس کا نمبر 152ہے۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ پاکستان کی درجہ بندی جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں کم تر ہے۔بھارت اور بنگلا دیش سمیت دیگر ممالک سےہمارا ایچ ڈی آئی 13فی صد اوسطا کم ہے۔ پاکستان نے 2000 سے 2015 کے عرصے میں بہتری دکھائی تھی، تا ہم اس کے بعد یہ عمل سست روی کا شکار ہو گیا۔

ملٹی ڈائی مینشنل پاورٹی انڈیکس ( ایم پی آئی)کے مطابق جنوبی ایشیا میں541ملین غریب افراد ہیں۔ان میں سے 75ملین پاکستان میں ہیں جن میںسے40ملین بچے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہےکہ پاکستان میں ہر تین میں سے ایک بچہ غریب ہے۔ جنوبی ایشیائی خِطّے میں مالدیپ میں ایم پی آئی 0.8 فی صد اور افغانستان میں 56.9 فی صدہے۔

ایم پی آئی کی تعریف کے مطابق گیارہ فی صد جنوبی ایشیائی بچیاں بہت غریب ہیں اور وہ اسکول سے باہر ہیں ، لیکن پاکستانی بچیوں کے حوالے سے یہ تعداد27فی صد ہے۔جنوبی ایشیامیں چار سال تک کے بچوں میں گھروں میں غذائیت میں عدم مساوات کی شرح 23فی صدہے لیکن پاکستان میں یہ 33فی صد ہے ۔

ہمیں اب اس دھوکے سے نکل آنا چاہیے کہ قرض کی مے پی کر ہم آگے بڑھتے رہیں گے،کیوں کہ اب مسائل کی نوعیت اور جہتیں بہت بدل چکی ہیں۔پاکستان، ایف اے ٹی ایف کی کڑی نگرانی میں بھی ہے۔جاری خسارہ ،قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ،قرضوں پر سود کی ادائیگی،کرنسی کی گری ہوئی قدر، برآمدات کے شعبے میں بہت معمولی سا اضافہ، مینوفیکچرنگ کے شعبے کی زبوں حالی،عالمی منڈیوں میں ہمارے مال کے نرخ مسابقت کے قابل نہ ہونے وغیرہ جیسے مسائل بھی ہماری ترقی کا پہیہ روکے ہوئے ہیں۔

قانون سازی اور قانون کے نفاذ کے چیلنجز

تحریکِ انصاف کے نام اور اس کے نعروں میں ’’انصاف‘‘ اس وقت تک بہت نمایاں تھاجب تک وہ حزبِ اختلاف میں تھی۔لیکن جوں ہی وہ حکومت میں آئی ماضی کی حکومتوں کی طرح اس پر بھی آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا الزام لگنے لگا جس میں انصاف کی نفی کی گئی ہوتی ہے۔ابتدائی دنوں میں ہی ذاتی مسئلے پرپنجاب کے ایک پولیس افسر کے راتوں رات تبادلے کا معاملہ سامنے آیا ۔

پھر جس طرح پنجاب میں پولیس کے سربراہان یکے بعد دیگرے تبدیل ہوئے، ایک بہت اچھی شہرت کے حامل افسر نے حکومت کی جانب سے تفویض کردہ ذمے داریوں سے کنارہ کشی کرلی،ساہیوال کے سانحے کے ضمن میں جس طرح معاملے کو لپیٹا گیا،پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیا لوجی پروکیلوں کے حملے کے وقت اور اس کے بعد اس معاملے میں جو رویہ اپنایا گیا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آئندہ ساڑھے تین برسوںمیں عوام کو کیسا ’’انصاف‘‘ ملے گا۔

لیکن تحریکِ انصاف کی حکومت کو2020 میں یہ یاردکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ریاست مدینہ میں انصاف کی بلا امتیاز اور بروقت فراہمی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ویسے عمران خان کو حضرت علی ؓ سے منسوب یہ قول یاد ہےاور وہ اسے جلسوں میں دہراتے رہے ہیں کہ معاشرے کفر پہ زندہ رہ سکتے ہیں،بے انصافی پر نہیں۔ انصاف کے بعد احتساب اور پھر قانون سازی کے مسائل بھی حکومت کے سامنے منہ کھولے کھڑے ہیں۔نیب کی جانب سے کیا جانے والا احتساب اب تو عدالتوں میں بھی مذاق قرار پانے لگا ہے،پھر اس سےکچھ خاص حاصل وصول بھی نہیں ہورہا۔

قانون سازی کے بجائےصدارتی فرمانوں سے کام چلانے کی پچھلی حکومتوں والی پالیسی اپنالی گئی ہے۔پارلیمان میں وفاقی میزانیے کی منظوری کے علاوہ اب تک کو ئی خاص قانون سازی نہیں ہوسکی ہے اور مستقبل قریب میں ایسا ہونے کے امکانات بھی نظر نہیں آرہے۔ وجہ یہ ہے کہ پارلیمان کا ہر اجلاس چور ، لٹیرے،ڈاکو،بدعنوان،ملک کو لوٹنے والے، احتساب، نیب،وغیرہ وغیرہ سے شروع ہوتا ہے اور اسی طرح کی جوابی غزل پر ختم ہوجاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ان حالات میںملک پائے دار ترقی کرسکے گا؟اس کا جواب نفی میں ہے۔البتہ کام چلاونوعیت کی لیپا پوتی ہوتی رہے گی۔

خارجہ اور دفاعی امور کے چیلنجز

چین کے علاوہ خطّےکے زیادہ تر ممالک سے پاکستان کے روابط کوئی زیادہ اچھے نہیں کہے جاسکتے۔ ان ممالک میں افغانستان، ایران، بھارت اور بنگلا دیش شامل ہیں۔ عرب ممالک سے بھی، جو ہمارے دیرینہ حلیف ہیں، بہت زیادہ توقّعات وابستہ رکھنا دانش مندی نظر نہیں آتی۔ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر ہم ان کا ردعمل دیکھ ہی چکے ہیں۔یہ درست ہے کہ خلیجی ممالک پاکستانی تارکینِ وطن کو روزگار فراہم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ رہے ہیں،لیکن ہم نے انہیں اپنے اندرونی معاملات میں غیر ضروری طور پر ملوث کر کے خود کو خاصا نقصان پہنچایا ہے ۔

اس کے برعکس بھارتی وزیرِ اعظم، نریندر مودی نے عرب ممالک کے دوروں کے دوران بھارتی باشندوں کے لیے ہم دردیاں حاصل کر لی ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ خلیجی ممالک میں موجود پاکستانی تارکینِ وطن کا ماننا ہے کہ اب وہاں ہر شعبے میں بھارتی تارکینِ وطن غلبہ حاصل کر رہے ہیں اور پاکستانیوں کے لیے روزگار کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔

ادھر جو چہرہ امریکا کا اب سامنے آیا ہے اور سب دیکھ رہے ہیں،وہ بہت مختلف ہے۔امریکہ کا مسئلہ صرف پاکستان ہی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے ساتھ ہے۔ جس طرح سے امریکااب اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے وہ پہلے سے بہت مختلف ہے۔

پہلے وہ سپر پاور ہونے کے ناتےدنیا کے ایشوز کو سنبھالتااور انہیں نمٹاتا تھا،لیکن اب وہ خود ایشوز بنا رہا ہے اور پہلے سے موجودمسائل کو گمبھیر بنارہا ہے یا ان میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتا۔پاکستان کے لیے فائدہ اس میں ہے کہ وہ امریکاکے ساتھ ایک حد تک تعلقات کو باہمی احترام کے تحت برقرار رکھے،کیوں کہ یہ ہمارے حق میں بہتر نہیں ہو گا کہ ہمارے تعلقات امریکا کے ساتھ دوستانہ نہ ہوں۔

عمران خان کی حکومت پر لازم ہے کہ وہ ملک کی خارجہ پالیسی کو ذمے دارانہ طریقے سے چلائے۔وہ دنیا کو باور کرائے کہ پاکستان ایسا ملک ہے جو نہ صرف اپنے ہاں امن چاہتا ہے بلکہ خطے میں بھی۔ اور خاص طور پر افغانستان میں مثبت کردار ادا کر بھی سکتا ہے اور اس کا خواہش مند بھی ہے۔افغانستان کے بارے میں ہم نے اب جو رویہ اپنایا ہے وہ کسی حد تک درست کہا جاسکتا ہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا منصوبہ پاکستان کے لیے بہت اہم ہو گیاہے۔ ایسے میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا پاکستان کے لیے امریکا کو راضی رکھنا اہم ہے؟اس کے جواب میں ہمیں صرف یہ اصول یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کو کسی ملک کو راضی نہیں کرنا چاہیے بلکہ جمہوری ملک ہونے کے ناتے اپنے عوام کو راضی کرنا چاہیے،کیوں مطمئن قومیں آگے بڑھنے کا راستہ ہر حال میں ڈھونڈ ہی لیتی ہیں۔اگر آپ صحیح جگہ پر کھڑے ہوں اور آپ کو معلوم ہو کہ کس پر سمجھوتہ نہیں کرنے میں پاکستان کا فائدہ ہے تو دنیا بھی سمجھ جاتی ہے اوروہ آپ پر بلا وجہ دباؤ ڈالنا بند کر دیتی ہے۔

شام،یمن اور قطر کے معاملے میں ہم نے ماضی میں مناسب پالیسی اختیار کی جس کی وجہ سے بعض جبینوں پر بل تو پڑے ،لیکن ہم بہت سے بین الاقوامی الجھاواور اندرونی خلفشار سے بچ گئے۔کسی بھی ریاست سے ہمارے تعلقات خوا ہ کسی بھی نوعیت کے ہوں ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کسی کی پراکسی یا کلائنٹ ریاست نہیں ہے۔

ہمارا دنیا اور اس خطے میں ایک جیو پولیٹیکل مقام ہے۔ہمارے بعض راہ نماوں نے خود پاکستان کی عزت اور وقار بیچنے کی کوشش کی،لیکن وہ راہ نماوں کی غلطی تھی، ملک اور ریاست کی نہیں۔ہمیں ترکی اور ملائیشیا سے تعلقات بڑھانے کے ضمن میں بھی یہ نکتہ ذہن نشین رکھنا چاہیے اور ان ممالک کے ساتھ تعلقات کی نئی منزلیں چڑھنا چاہیے۔

تمام تر تلخیوں اور بری یادوں کے باوجود بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کے دروازے بالکل کھل سکتے ہیں۔لیکن یہ عمل دو طرفہ کوششوں کا متقاضی ہے نہ کہ یک طرفہ۔مذاکرات کے ذریعے اس سے بڑے بڑے مسئلے دنیا میں حل ہو چکے ہیں۔ اگر کشمیریوں کی امنگوںاور خواہشات کو مد نظر رکھیں تو ہمارے لیے یہ مسئلہ حل کرنا مشکل نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بھارت پوری دنیا کو اپنا نہایت گھناؤنا چہرہ دکھا رہا ہے۔

ہماری بقا کو سب سے بڑا خطرہ بھارت سے لاحق رہتا ہے، لیکن دنیا کے حالات اس نوعیت کے ہوچکے ہیں کہ مستقبل قریب میں بھارت سے کسی بڑی جنگ کا خطرہ نظر نہیں آتا۔البتہ اس کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں اور آئندہ بھی جاری رہ سکتی ہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ ہمیں ’’دہشت گردی‘‘ کے زمرے میں لپیٹنا چاہتا ہے، وہ جعلی سرجیکل اسٹرائیکس کے دعوے کر کر کے دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی تربیت کے مراکز قائم ہیں۔لیکن وہ اب تک اس کوشش میں کام یاب نہیں ہوسکا ہے۔

بھارت کا دفاعی بجٹ اوردنیا بھر سے اسلحے کی خریداری کے آرڈر بڑھے ہیں ۔ فرانس سے رافیل طیارے حاصل کرکے وہ ہم پر دباو بڑھانا چاہتا ہے، لیکن اس کی فصائیہ کا کیا حال ہے ،دنیا یہ چھبّیس اور ستّائیس فروری 2019کو دیکھ چکی ہے۔ افغانستان کی سرحد سے بھی اب پہلے والے خطرات نہیں رہے ہیں۔بیرونی خطرات کے ضمن میں ہمیں اصل خطرہ خراب سفارت کاری سے ہے،جسے ہمیں لازما بہتر بنانا ہوگا،ورنہ ہم عالمی برادری کے سامنے جیتے ہوئے کیسز بھی ہارجائیں گے۔

ماحولیاتی چیلنجز

ماہرین کے مطابق اس وقت پاکستان کو جو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہے وہ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہے۔ وہ خطرہ ماحولیاتی ہے۔اس ضمن میں شدید ہوتے ہوئے مسائل میں بڑھتا ہوا اسموگ، حد سے کہیں زیادہ آلودہ ہوا، کچراٹھکانے لگانے کے نظام کی بڑھتی ہوئی ناکامی ، سیلاب،فلیش اور اربن فلڈنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات اور خطرات، گلیشیئرز کا پگھلنا، موسموں کے انداز میں تبدیلی،شدید گرمی اور سردی کی لہروں کا آنا،پانی کی بڑھتی ہوئی قِلّت،کاشت کاری کے روایتی طریقے، زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونا وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔

پاکستان چين اور بھارت کے بعد ان ممالک کی فہرست ميں تيسرے نمبر پر ہے جہاں آلودگی کے سبب سب سے زيادہ لوگ ہلاک ہوتے ہيں۔دو دہائیوں سے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ اوّلین دس ممالک کی فہرست میں پاکستان مسلسل موجود ہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں کی وجہ سے ملکی معیشت کو 3800 ملین ڈالر زکا نقصان ہوا ہے۔یہ ہی نہیں بلکہ اس وجہ سے سب سے زیادہ اقتصادی نقصانات اٹھانے والے ملکوں میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے۔