ٹیکنالوجی ڈیوائسز کا زائد استعمال انگلیاں، ہاتھ کمزور کرتا ہے

January 05, 2020

محققین کا کہنا ہے کہ بہت زیادہ ٹیکنالوجی ڈیوائسز استعمال کرنے والے بچے اسکول میں پنسل پکڑنے یاقینچی سے کاغذ کاٹنے میں ناکام رہتے ہیں۔ دراصل والدین بچوں کو بوریت سےبچانے اور روتے بچوںکو چپ کروانےکیلئے ان کے ہاتھ میں اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹ پکڑا دیتے ہیں۔ بچے بس انہیں سوائپ یاٹچ کرتے رہتے ہیں، جس سے ان کی انگلیوں اور ہاتھوں کے کام کرنے کی صلاحیت میںکمی آرہی ہے، جو آج سے دس سال پہلے کے بچوں میں نہیں تھی۔

ہارٹ آف انگلینڈ فاؤنڈیشن این ایچ ایس ٹرسٹ کے ایک نئے جائزے میں بتایا گیا ہے کہ جوبچے لکھنے اور دیگر سرگرمیوں کیلئے کلاس رومز میں آ رہے ہیں، ان کی انگلیوںکے مسلز صحیح طور پر کام نہیںکرپارہے۔ اس رپورٹ کی بنا پر برطانوی ماہر امراض اطفال، ٹیکنالوجی کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں، جس کی وجہ سے روایتی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں، جیسے کہ موتی پرونا، رنگ کرنا یا کاغذ کی کٹنگ سے کرافٹتیار کرنا یا دیگر ایسی سرگرمیاں جن میںانگلیوں کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔

ہارٹ آف انگلینڈ فاؤنڈیشن این ایچ ایس ٹرسٹ کی پیڈیاٹرک سربراہ اور تھراپسٹ سیلی پائینے کہتی ہیں، ’’ اسکول میں آنے والے بچوں کو پنسل دی جارہی ہیں لیکن وہ تیزی سے اس پر گرفت نہیںکرپاتے کیونکہ ان کی انگلیوںمیں نقل و حرکت کی بنیادی صلاحیتیں نہیں ہیں۔

دراصل کسی بھی بچے کو کھیل کود کی سرگرمیوںجیسے بلڈنگ بلاکس، کاٹنے اور چپکانے والے کھلونے اور رسیاں کھینچنے والے ٹولز دینے سے زیادہ آسان ہے کہ انہیں ٹیبلٹ پکڑا دیا جائے، تاہم اس کی وجہ سے بچوںکو وہ بنیادی مہارت نہیں مل رہی، جس کی مدد سے وہ پنسل پکڑ کر عمدہ لکھ سکیں یا خوبصورت رنگ کرسکیں۔ اگر اساتذہ، والدین اور پیشہ ور افراد نے اس طرف توجہ نہ دی تو بچوں کی نشوونما کے ابتدائی مراحل میں یہ عمل ان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

کمزور ہاتھ، سُست نشوونما

اپنی رپورٹ میں برٹش ہیلتھ آرگنائزیشن نے6سالہ برطانوی لڑکے پیٹرک کی کہانی بتائی ہے کہ اس نے جب پرائمری اسکول میںداخلہ لیا توپنسل پکڑنے کیلئے اس کے ہاتھوں کے مسلز کام ہی نہیںکر رہے تھے۔ بچے کی والدہ لورا، اس وقت کو ذمہ دار ٹھہراتی ہیں جب انہوںنے اپنا وقت بچانے کیلئے اسے ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے دیا۔

لورا کا کہنا تھا، ’’میں نے پیٹرک کو زیادہ روایتی کھلونے دینے کے بجائے مجازی کھلونوں (Virtual Toys) والی ٹیکنالوجی دی۔اسکول کے پہلے دن اسکول والوں نے مجھ سے رابطہ کرکے اس پریشانی کا اظہار کیا کہ وہ پنسل کو ایسے پکڑ رہا تھا جیسے کوئی زمانہ قدیم کا انسان لکڑی تھامے ہوتا ہے۔ اس کے بعد پیشہ ور تھراپسٹ کے ساتھ چھ ماہ تک کام کرنے کے بعد ، پیٹرک نے اپنے ہم عمر بچوں کی طرح پنسل پکڑنا سیکھ لی‘‘۔

آج سے تیس سال قبل ڈاکٹروں نے یہ کہنا شروع کیا تھا کہ نوزائیدہ بچوں کو پیٹ کے بل نہ سلائیں کیونکہ ان کے ہاتھوں میں اتنی جان نہیںہوتی کہ وہ اپنے آپ کو پلٹ سکیں اور دم گھٹنے کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ اس حالت کو ڈاکٹرز sudden infant death syndrome یا مختصراََSIDS کہتے ہیں۔

لیکن بچے جب تھوڑے بڑے ہوتے ہیں اور انہیں پیٹ کے بل لٹایا جاتاہے تو وہ رینگنے یا کسی چیزکو پکڑنے یا خود کو حرکت دینے کی کوشش کرتے ہیں، اس سے ان کے ہاتھوںکے مسلز کام کرنا شروع ہوجاتے ہیں، جس کے باعث ان میں ہاتھ اور انگلیاں استعمال کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ مگر آج ہم چھوٹے چھوٹے بچوںکے پاس ہاتھوں اور انگلیوں میں چابک دستی پیدا کرنےو الے کھلونوںکے بجائے ٹیبلٹ یا اسمارٹ فون دیکھتے، جس پر وہ ویڈیوز دیکھ رہے ہوتے ہیں اور یہی ویڈیوز اور گیمز ان کے ہاتھوںکی موٹراسکلز بڑھانےمیں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

والدین کیلئے لمحہ فکریہ

صرف کمزورہاتھ ہینہیں بلکہ بہت زیادہ اسکرین ٹائم کی وجہ سے آپ کے بچے کی بصارت بھی خطرے میںہے۔ تاہم ویڈیو گیمز اور ویڈیوز کے اسکرین ٹائم اور بصارت کی کمزوری کے درمیان تعلق کو ثابت کرنے کیلئے تحقیق جاری ہیں۔ بچے کھیل کود کیلئےباہر جا کر جسمانی سرگرمیاں کرنے کے بجائے صوفے میں دھنس کر اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹ پر مصروف نظر آتےہیں،جس سے وہ موٹاپے کا شکار ہورہےہیں، جوکہ کئی بیماریوں کی جڑ ہوتاہے۔

ماہرین مختلف مطالعوں کے ذریعے یہ معلوم کرچکے ہیں کہ اسکرین کے سامنے زیادہ دیر تک بیٹھے رہنے کی عادت سے بچوں میںموٹاپے کے ساتھ ساتھ نیند کی خرابی کا مسئلہ بھی پیدا ہورہا ہے۔ جوں جوں نت نئی چیزیں جیسے کہ فیس بک، انسٹا گرام، اسنیپ چیٹ اورگیمز کی دیگر ایپس سامنے آرہی ہیں، بچوں کے اسکرین ٹائم کادورانیہ بڑھتا جارہا ہے۔

خاص طور پر رات میںموبائل فون کو تکتے رہنے سے نیند کی خرابی اور ڈپریشن کا عارضہ عام ہوتا جارہاہے۔ ماہریناس تشویش میں مبتلا ہیںکہ کہیں الیکٹرونک ڈیوائسز لوگوںکے دماغ کو پگھلا نہ دیں۔ مزید برآں سائنسدانوں نے دریافت کیاہے کہ بچے اگر موبائل فون استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کی سیکھنے کی صلاحیت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔