غزوہ اُحد (قسط نمبر 8)

January 12, 2020

قریشِ مکّہ کے بہترین سامانِ حرب سے لیس تین ہزار جنگ جُو مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لیے تیار تھے، جن میں سات سو زرہ پوش اور دو سو گھڑ سوار شامل تھے۔ سواری اور بار برداری کے لیے تین ہزار اونٹ بھی جمع کر لیے گئے۔شعراء اور ناچ گانے والے لشکر میں موجود تھے، توحبشی غلاموں کو بھی فوج میں شامل کیا گیا۔

نیز، اُن کے مدینے کے یہودیوں اور منافقین سے بھی خفیہ رابطے تھے۔ یہودی قبائل نے مالی امداد بھی دی۔عربوں کی لڑائیوں میں خواتین کی بڑی اہمیت رہی ہے، جو میدانِ جنگ میں جوانوں کے حوصلے بڑھاتیں۔لہٰذا قریش کی خواتین بھی اپنے مَردوں کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے بے تاب تھیں۔ اُنہوں نے مسلمانوں کے لہو سے اپنے انتقام کی آگ بجھانے کی مَنّتیں مان رکھی تھیں۔ چناں چہ معزّز گھرانوں کی خواتین بھی لشکر کا حصّہ بنیں۔

لشکر کی مکّے سے روانگی

کفّارِ مکّہ کی فوج ڈھول باجوں کے ساتھ اپنے بُتوں کے نعرے بلند کرتی مکّے سے روانہ ہوئی۔ رسول اللہؐ کے چچا، حضرت عبّاسؓ نے، جو اسلام قبول کر چُکے تھے، لیکن ابھی مکّے ہی میں تھے، فوج کی روانگی کی اطلاع لکھ کر ایک قاصد کے حوالے کی، جو انتہائی تیز رفتاری سے آنحضرتؐ کی خدمت میں پہنچا۔ وہ 5شوال، 3ہجری کی صبح تھی۔ آپؐ نے دو افراد کو مزید اطلاعات لانے کے لیے روانہ کیا۔ آنحضرتؐ اُس وقت قبا میں تشریف فرما تھے۔ آپؐ فوری طور پر مسجدِ نبوی ؐ تشریف لائے اور مجلسِ شوریٰ کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا۔ صحابہ کرامؓ نے انصار کے ایک دستے کو حضورﷺ کی حفاظت پر مامور فرمایا اور مدینہ منوّرہ کے تمام داخلی راستوں پر مسلّح دستے متعین کر دیئے گئے۔کفّار کا لشکر مدینے سے 80میل دور، ابواء کے مقام پر پہنچا۔

یہ وہی جگہ ہے، جہاں رسول اللہؐ کی والدۂ ماجدہ بی بی آمنہ کی قبر ہے۔ ابو سفیان کی بیوی ہند نے تجویز دی کہ قبر اُکھیڑ دی جائے، لیکن ابو سفیان اور دیگر قائدین نے تجویز رد کرتے ہوئے سفر جاری رکھا اور وادیٔ عتیق جا پہنچے۔ پھر کسی قدر دائیں جانب کترا کر کوہِ اُحد کے قریب، عینین نامی ایک مقام پر پڑائو ڈالا۔ آنحضرتؐ نے حضرت خبابؓ کو مشرک فوج کی تعداد اور پڑائو کے بارے میں اطلاع لانے کے لیے روانہ کیا۔ اُنہوں نے فوج کا صحیح تخمینہ اور اُحد کے نزدیک پڑائو کے بارے میں مطلع کیا۔

مقابلے کے طریقۂ کار پر مشاورت

آنحضرتؐ نے مجلسِ شوریٰ میں مدینے میںرہ کر کفّار کا مقابلہ کرنے کی تجویز دی، لیکن نوجوانوں نے شہادت کی رغبت ظاہر کرتے ہوئے شہر سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کرنے پر سخت اصرار کیا، تو آنحضرتؐ نے اس رائے کو قبول فرما لیا۔ اس کے بعد آپؐ نےجنگ کی تیاری کا حکم فرمایا۔ صحابہ کرامؓ مسجد نبویؐ میں جمع ہوگئے۔ آپؐ نے نمازِ عصر پڑھائی، پھر سیّدنا حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عُمر فاروقؓ کے ساتھ حجرے میں تشریف لے گئے۔ دونوں نے آپؐ کو لباسِ حرب پہنایا۔

زرہ کے ساتھ لگی چمڑے کی پیٹی پر تلوار لٹکائی۔ ڈھال پُشت پر رکھی۔ سَر پر عمامہ باندھا۔ باہر سب لوگ آپؐ کے منتظر تھے۔ اس موقعے پر حضرت سعدؓ اور حضرت اُسیدؓ بن حضیر نے کہا’’ تم لوگوں نے حضورﷺ کو مدینے سے باہر نکلنے پر زبردستی آمادہ کیا ہے۔ بہتر تو یہ تھا کہ یہ فیصلہ رسول اللہؐ ہی کو کرنے دیتے۔‘‘ جیسے ہی آپؐ باہر تشریف لائے، تو نوجوان آگے بڑھے اور کہا’’ یارسول اللہؐ! ہمارے ماں باپ آپؐ پر قربان، آپؐ جو فیصلہ کریں گے، ہمیں منظور ہوگا۔‘‘ آپؐ نے فرمایا’’ کسی نبی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ جب وہ زرہ اور ہتھیار پہن لے، تو اُنہیں اُتار دے تا وقتیکہ اللہ اس کے اور دشمن کے درمیان فیصلہ نہ کر دے‘‘(مسند احمد)۔

اسلامی لشکر کی روانگی

آنحضرتؐ نے ایک ہزار مجاہدین پر مشتمل لشکر کو تین دَستوں میں تقسیم فرمایا۔ انصار کے قبیلے اوس کا عَلم حضرت اُسیدؓ بن حضیر کو عطا فرمایا۔ قبیلہ خزرج (انصار) کا عَلم حضرت حبابؓ بن منذر کو عطا فرمایا، جب کہ مہاجرین کا عَلم حضرت مصعب بن عمیرؓ کو عطا کیا۔ لشکر میں سو زرہیں اور دو گھوڑے تھے۔آنحضرتؐ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے، تلوار پہلے ہی حمائل تھی، ڈھال پُشت پر تھی۔ آپؐ نے کمان کو کاندھے پر ڈالا، ایک ہاتھ میں نیزہ پکڑا اور پھر حمدِ باری تعالیٰ کے ساتھ کُوچ کا حکم فرمایا۔ آپؐ کے گھوڑے کے آگے حضرت سعدؓ بن معاذ اور حضرت سعدؓ بن عبادہ تھے، جب کہ دائیں بائیں زرہ پوش اور لشکر کے باقی لوگ۔

روانگی سے پہلے آنحضرتؐ نے حضرت عبداللہ ابنِ اُمّ ِ مکتومؓ کو مدینے کا امیر مقرّر فرمایا۔ جب شیخان نامی مقام پر پہنچے، تو حضورﷺ نے لشکر کا معائنہ فرمایا۔ کچھ کم عُمر لڑکے نظر آئے، تو اُنھیں واپس بھیج دیا۔ صرف دو کم عُمر نوجوانوں کو رُکنے کی اجازت ملی، ایک حضرت رافعؓ بن خدیج جو ماہر تیر انداز تھے، دوسرے حضرت سمرہؓ بن جندب۔

جنہوں نے کہا’’ یارسول اللہؐ! مَیں تو رافعؓ سے زیادہ طاقت وَر ہوں اور اُنھیں پچھاڑ سکتا ہوں۔‘‘ آنحضرتؐ نے دونوں کی کُشتی کروائی، تو سمرہؓ جیت گئے۔ اس طرح اُنہیں لشکر میں شمولیت کی اجازت ملی۔ رات کے پچھلے پہر کُوچ کا حکم فرمایا۔ مشرکین نے اُحد کے دامن میں پڑائو ڈالا ہوا تھا۔اُجالا ہو چکا تھا۔ دونوں فوجیں ایک دوسرے کی حرکات و سکنات بخوبی دیکھ رہی تھیں۔

عبداللہ بن اُبی کی منافقت

یہی وہ وقت تھا جب رئیس المنافقین، عبداللہ بن اُبی نے اچانک اسلامی لشکر سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا۔ اُس نے بہانہ گھڑا کہ’’ رسول اللہؐ نے میرے بجائے لڑکوں کی رائے کو اہمیت دی۔‘‘ اس کے ساتھ ہی اُس کے 300 حامی بھی واپس چلتے بنے۔دراصل، عبداللہ بن اُبی درپردہ قریش سے ملا ہوا تھا۔ اُس نے یہ سب کچھ سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا تاکہ ایک طرف دشمن دیکھ لے کہ مسلمانوں میں پھوٹ پڑ چُکی ہے اور دوسری طرف، اس اقدام سے مسلمانوں کے بھی حوصلے پست ہو جائیں۔

بنو سلمہ اوربنو حارثہ کے لوگ بھی دِل برداشتہ ہو کر جانے لگے، لیکن چند معزّز ہستیوں نے اُنہیں سمجھایا اور پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اُن کے دِلوں کو مضبوط کیا۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے’’اور جب تم میں سے دو گروہ بُزدلی دِکھانے پر آمادہ ہوگئے تھے، حالاں کہ اللہ اُن کی مدد کے لیے موجود تھا اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے‘‘(سورۂ آلِ عمران۔122)۔

لشکر کی صف بندی اور جبلِ رماۃ پر تیر اندازوں کی تعیّناتی

300 منافقین کی بغاوت کے بعد مسلمانوں کے لشکر میں سات سو افراد باقی رہ گئے۔ آنحضرتؐ نے وادی کے آخری سرے پر گھاٹی میں اپنا کیمپ اس طرح لگوایا کہ پیچھے اُحد پہاڑ، سامنے مدینہ اور درمیان میں کفّار کا لشکر تھا۔ رسول اللہؐ کی بصیرت افروز نگاہیں میدانِ جنگ کا بھرپور جائزہ لے چُکی تھیں۔ آپؐ نے پچاس تیراندازوں کو حضرت عبداللہؓ بن جبیر انصاری کی قیادت میں عینین کے درّے پر مامور فرمایا۔ اس چھوٹی سی پہاڑی کا فاصلہ اسلامی کیمپ سے کوئی ڈیڑھ سو میٹر تھا۔

آج کل اس پہاڑی کا نام جبلِ رماۃ ہے۔ تیراندازوں کو تعیّنات کرتے ہوئے آپؐ نے سختی سے تاکید فرمائی کہ تمہارا کام دشمن کو تیر مار کر ہم سے دُور رکھنا ہے تاکہ وہ پُشت سے حملہ نہ کر پائے۔ ہم جیتیں یا ہاریں، تمہیں اپنی جگہ ہی پر ڈٹے رہنا ہے۔ جب تک مَیں نہ بلائوں، جگہ نہ چھوڑنا۔ صحیح بخاری کے مطابق آپؐ نے فرمایا ’’اگر تم لوگ دیکھو کہ ہمیں پرندے اُچک رہے ہیں، تو بھی اپنی جگہ نہ چھوڑنا۔ یہاں تک کہ مَیں بُلا بھیجوں اور اگر تم لوگ دیکھو کہ ہم نے مشرکین کو شکست دے دی ہے اور اُنہیں کچل دیا ہے، تو بھی اپنی جگہ نہ چھوڑنا، یہاں تک کہ مَیں بُلا بھیجوں‘‘(صحیح بخاری۔426/1)۔اس اہم مورچے کو محفوظ بنا کر آپؐ نے مزید لشکر کی صف بندی فرمائی۔ میسرہ پر حضرت زبیرؓ بن عوام کو مقرّر فرمایا اور حضرت مقدادؓ بن اسود کو اُن کا نائب بنایا۔ میمنہ پر حضرت منذرؓ بن عمرو کو مقرّر فرمایا۔

حضرت حمزہؓ کو مقدمۃ الجیش مقرّر فرمایا۔ پورے لشکر کے عَلم بردار حضرت مصعبؓ بن عمیر کو بنایا۔ آپؐ کی شمشیرِ خاص حضرت ابو دجانہؓ کے حصّے میں آئی۔ حضرت ابو دجانہؓ نہایت جرّی اور نڈر صحابی تھے۔ اُن کے پاس ایک سُرخ پٹّی تھی، جب وہ سَر پر باندھ لیتے، تو لوگ سمجھ جاتے تھے کہ اب مدّمقابل زندہ بچ کر نہیں جا سکتا۔ تلوار ملتے ہی اُنہوں نے سَر پر پٹّی باندھی اور خوشی کے عالم میں اکڑ اکڑ کر چلنے لگے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا’’ویسے تو یہ چال اللہ کو سخت ناپسند ہے، لیکن کفّار کے مقابلے کے وقت اِس طرح چلنا جائز ہے۔‘‘

کفّار کی لشکر بندی

مشرکین کے سپہ سالار ابو سفیان نے بھی صف بندی کی۔ اُس نے میمنہ پر خالد بن ولید کو (جو مسلمان نہیں ہوئے تھے)، میسرہ پر عکرمہ بن ابی جہل کو، پیدل فوج کا سالار صفوان بن اُمیّہ کو مقرّر کیا۔ تیراندازوں کی کمان عبداللہ بن ربیعہ کو دی۔ زمانۂ قدیم سے قریش کا پرچم بنی عبدالدار کے پاس چلا آ رہا تھا۔ ابو سفیان نے اُن سے کہا کہ’’ جنگِ بدر میں پرچم تمہارے آدمی کے پاس تھا،جو گرفتار ہو گیا ۔‘‘ابو سفیان کی اس گفتگو نے بنی عبدالدار کی غیرت کو للکارا۔لہٰذا جھنڈا اُن کے سردار طلحہ بن ابی طلحہ نے تھام لیا۔

عبداللہ بن اُبی کی عین میدانِ جنگ میں غدّاری کے بعد ابو سفیان نے مسلمانوں کی قوّت مزید کم زور کرنے کی ایک اور سازش کی۔ اُس نے مدینے کی ایک نام ور شخصیت ابو عامر کو میدان میں اُتارا۔ اُس کا اصل نام عمرو بن صیفی تھا، لیکن راہب کے نام سے مشہور تھا، جب کہ مسلمان اُسے فاسق کے نام سے یاد کرتے تھے۔ آنحضرتؐ کے مدینہ منوّرہ ہجرت سے پہلے وہ قبیلہ بنو اوس کا سردار تھا۔ وہ رسول اللہؐ اور اسلام کا سخت دشمن تھا۔ مسلمانوں سے عداوت کی بنا پر مکّے میں رہنے لگا تھا تاکہ قریش کو مسلمانوں سے جنگ پر آمادہ کر سکے۔ ابو عامر نے قریش کو یقین دِلایا تھا کہ جب وہ میدانِ جنگ میں آواز لگائے گا، تو انصار اسلامی لشکر سے نکل کر اُس کے پاس آ جائیں گے۔

اُس نے میدان میں آ کر آواز لگائی’’اے مدینے کے لوگو! دیکھو مَیں ابوعامر راہب ہوں۔ آئو میرے ساتھ کھڑے ہو جائو۔‘‘ انصار نے جواب دیا’’اے فاسق شخص ہم تجھ کو خُوب اچھی طرح جانتے ہیں۔‘‘ اس موقعے پر ابو عامر فاسق کے صاحب زادے، حضرت حنظلہؓ آنحضرتؐ کے پاس آئے اور کہا’’یارسول اللہؐ! مجھے اجازت دیجیے، اس مشرک کی گردن اُتار دوں۔‘‘ مگر آپؐ کے جذبۂ رحمت نے یہ گوارا نہ کیا کہ بیٹے کی تلوار باپ کے خون سے رنگین ہو۔ ابو عامر فاسق شرمندہ و رُوسیاہ ہو کر واپس پلٹ گیا۔

جنگ کا آغاز

ابو عامر واپس پلٹا ہی تھا کہ کفّار کی صفوں کو چیرتا ہوا ایک مضبوط و توانا نوجوان ایک ہاتھ میں جھنڈا اور دوسرے میں چمکتی تلوار لہراتا میدانِ جنگ میں آیا۔ یہ کفّار کا عَلم بردار اور بنی عبدالدار کا سردار ابو طلحہ بن ابی طلحہ تھا، جسے اپنی طاقت و بہادری پر بڑا ناز تھا۔ حضرت علیؓ میدان جنگ میں آئے اور اس زور سے تلوار کا وار کیا کہ طلحہ کی لاش زمین پر تھی۔ ( روایات میں حضرت زبیرؓ کا نام بھی آیا ہے کہ طلحہ کو اُنھوں نے قتل کیا، جس پر نبی کریمﷺ نے نعرۂ تکبیر بلند کیا اور فرمایا’’ ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرے حواری زبیرؓ ہیں)۔ طلحہ کے بعد اس کے بھائی عثمان نے، جس کے پیچھے پیچھے عورتیں اشعار پڑھتی آ رہی تھیں، عَلم ہاتھ میں لیا اور رجز پڑھتا حملہ آور ہوا۔

اس مرتبہ حضرت حمزہؓ مقابلے کے لیے نکلے اور اس کے شانے پر ایسی تلوار ماری کہ کمر تک اُتر آئی۔ کفّار کا عَلم ابو سعد بن ابی طلحہ نے اُٹھایا۔ اس مرتبہ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص میدان میں تھے۔ اُنہوں نے ایک تیر مارا، جس نے اُس کے گلے کو چیر دیا اور زبان باہر لٹک گئی۔ مسافع بن طلحہ بن ابی طلحہ نے جھنڈا اُٹھایا۔ اُسے عاصم بن ثابتؓ نے تیر مار کر قتل کر دیا۔ کلاب بن طلحہ نے جھنڈا اُٹھانا چاہا، تو حضرت زبیرؓ بن عوام نے اس کا کام تمام کر دیا۔ جلاس بن طلحہ بن ابی طلحہ جھنڈا اُٹھانے آیا، تو حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ نے اُسے قتل کر دیا۔ پھر ارطاۃ بن شرجیل نے جھنڈا اُٹھایا، تو حضرت علی مرتضیٰؓ نے اسے جہنّم رسید کر دیا۔ شریح بن قرظ جھنڈا اُٹھانے آگے بڑھا، اسے قزمان نے قتل کر دیا۔

قزمان منافق تھا، جو اسلام کی بجائے قبائلی حمیّت کے جوش میں مسلمانوں کے ہم راہ لڑنے آیا تھا۔ شریح کے بعد ابو زید عمرو بن عبد مناف نے جھنڈا سنبھالا، مگر اُسے بھی قزمان نے ٹھکانے لگا دیا۔ پھر شرجیل بن ہاشم عبدوی کے ایک لڑکے نے جھنڈا اُٹھایا، مگر وہ بھی قزمان کے ہاتھوں مارا گیا۔ یوں بنو عبدالدار کے دس افراد نے جھنڈا اُٹھایا اور سب کے سب مارے گئے۔ اب اُن کے قبیلے کا کوئی آدمی باقی نہ بچا تھا۔ پھر اچانک اُن کے ایک حبشی غلام’’صواب‘‘ نے لپک کر جھنڈا اُٹھا لیا،بالآخر وہ بھی مارا گیا۔ جھنڈا زمین پر گر گیااور کوئی اُسے اُٹھانے والا نہ تھا(رحیق المختوم۔ 254)۔

گھمسان کی جنگ

گھمسان کی جنگ شروع ہو چُکی تھی۔ مسلمان قلّتِ تعداد اور سامانِ حرب کی کمی کے باوجو کفّار کو پسپائی پر مجبور کر رہے تھے۔ نوجوان صحابی، حضرت حنظلہؓ شادی کی پہلی رات بیوی کے ساتھ تھے کہ جہاد کے لیے پکارا گیا۔ جیسے ہی اعلان سُنا’’ لبّیک، رسول اللہؐ لبّیک‘‘ کہتے ہوئے کھڑے ہو گئے۔ نئی نویلی دلہن نے کہا’’ رات کے صرف چند گھنٹے ہی باقی ہیں، یہاں ٹھہر جایئے، صبح چلے جایئے گا‘‘، لیکن عشقِ مصطفیٰﷺ سے مخمور اور شوقِ شہادت سے سرشار حضرت حنظلہؓ بولے ’’ مت روکو! اللہ کے محبوبؐ کی جانب سے جو حکم آ گیا ہے ،اس میں ایک لمحے کی بھی تاخیر رَوا نہیں۔‘‘ میدانِ اُحد میں اپنی شجاعت و بہادری کے جوہر دکھا رہے تھے کہ دُور سے ابو سفیان نظر آ گیا۔

برق رفتاری سے مشرکین کی صفوں کو چیرتے ، محافظوں کا گھیرا توڑ کر ابو سفیان کے سر پر جاپہنچے۔ تلوار کا بھرپور وار کیا جو گھوڑے کو لگا اور وہ چیخ و پکار کرتا گھوڑے سمیت زمین پر آگرا۔ حضرت حنظلہؓ نے دوسرے وار کے لیے تلوار ہوا میں لہرائی۔ قریب تھا کہ ابو سفیان کا سَر جسم سے الگ ہو جاتا، اُس کے محافظ نے آگے بڑھ کر حملہ کر دیا اور حضرت حنظلہؓ شہید ہو گئے۔ جنگ کے بعد صحابہ ؓنے دیکھا کہ اُن کی لاش غائب ہے، پھر کافی دیر کے بعد لاش اس حال میں ملی کہ اُس سے پانی ٹپک رہا تھا اور وہ خوش بُو سے مہک رہی تھی۔

صحابہ نے آنحضرتؐ سے تذکرہ کیا۔ آنحضرتؐ نے فرمایا ’’تمہارے ساتھی حنظلہؓ کو فرشتوں نے غسل دیا ہے، جا کر اُس کے گھر والوں سے معلوم کرو۔‘‘ صحابہؓ اُن کے گھر گئے، تو بیوی نے بتایا کہ جب جہاد کا اعلان سُنا، تو نہایت عجلت میں گھر سے نکل گئے۔ اُس وقت وہ حالتِ جنابت میں تھے۔

حضرت حمزہؓ ،شجاعت و بہادری کا پیکر

سیّدالشہداء، حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب، رسول اللہؐ کے چچا اور رضاعی بھائی تھے۔ اللہ نے جرأت و شجاعت سے مالامال فرمایا تھا۔ معرکۂ بدر میں قریش کے سرداروں کو چُن چُن کر جہنّم رسید کیا۔ یہی وجہ تھی کہ مشرکین اُن کے خون کے پیاسے تھے۔ جبیر بن مطعم نے اپنے چچا کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے اپنے ایک حبشی غلام، وحشی سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ (حضرت)حمزہؓ کو قتل کر دے، تو اُسے آزاد کر دے گا۔ ہند بنتِ عتبہ نے بھی اپنے باپ، چچا اور بھائی کا بدلہ لینے کے لیے اسے مال و زَر کا لالچ دیا ۔حضرت حمزہؓ بپھرے شیر کی طرح کفّار کی صفوں کو چیرتے آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے اور تنِ تنہا 30 مشرکین کو جہنّم رسید کر چُکے تھے۔

وحشی بن حرب بہت دیر سے اپنا نیزہ تھامے اُن کے تعاقب میں تھا۔ وحشی کہتا ہے کہ’’ مَیں ایک پتھر کے پیچھے چُھپا ،اُن کے اپنے نشانے پر آنے کے انتظار میں تھا کہ اچانک سباع بن العزی اُن کی زد میں آ گیا۔ حضرت حمزہؓ نے اُسے للکارتے ہوئے اس زور سے تلوار ماری کہ اُس کا سَر کٹ کر دُور جا گرا اور بس یہی وقت تھا کہ جب حضرت حمزہؓ میرے نشانے پر تھے۔ مَیں نے پوری قوّت سے اپنا نیزہ اُن کی طرف اچھال دیا، جو اُن کے پیٹ میں ناف کے پاس لگا اور آرپار ہو گیا۔ ‘‘ وحشی نے جنگِ طائف کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا۔

ایک مرتبہ ایک وفد کے ساتھ آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ کی نظر جب اُس پر پڑی تو فرمایا’’وحشی تم ہی ہو؟‘‘ اُس نے کہا’’جی ہاں۔‘‘ آپؐ نے اُسے معاف تو فرما دیا تھا، لیکن فرمایا’’تم میرے سامنے نہ آیا کرو، مجھے اپنے چچا یاد آجاتے ہیں۔‘‘ جب مسیلمہ کذّاب نمودار ہوا، تو اُس نے سوچا کہ شاید اُسے قتل کر کے حضرت حمزہؓ کا بدلہ اُتار سکے۔

چناں چہ جنگِ یمامہ میں اس نے اپنے اُسی نیزے سے مسیلمہ کذاب کو قتل کیا۔ رسول اللہؐ نے ابو سفیان کی بیوی، ہند بنتِ عتبہ کو بھی اسلام لانے پر معاف فرما دیا، حالاں کہ اُس نے حضرت حمزہؓ کی لاش کا مثلہ کیا تھا۔ ناک، کان کاٹ کر زیور بنا کر گلے میں پہنے۔ شکم چاک کر کے جگر اور دِل نکالا اور چبا چبا کر تھوکا۔

مشرکین میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے

کفّارِ مکّہ کے تین ہزار جنگ جُو جنھیںاپنے سامانِ حرب اور بہادری پر ناز تھا، سات سو بے سروسامان مجاہدین کے سامنے بے بس ہو گئے اور کچھ ہی دیر میں میدانِ جنگ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ (جاری ہے)