’حبیب بینک پلازہ‘ اسے کراچی کی پہچان قرار دیا جاتا تھا

January 09, 2020

حبیب احمد

کراچی اپنی ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے، بلند و بالا اور جدید عمارتوں کے درمیان کئی قدیم عمارتیں وقت کے نشیب و فرازکو سہتی ہوئی آج بھی فخر سے اپنی شان دکھا رہی ہیں۔

سالہا سال تک اپنے’بازو‘ پھیلانے والا شہر قائد اب مسلسل اپنا ’قد‘ بھی بڑھا رہا ہے۔ نادرن بائی پاس سے کلفٹن کے ساحل تک۔۔۔سپرہائی وے کے آغاز سے کیماڑی تک۔چاروں جانب پھیلنے کے بعد اب یہ سطح زمین سے اٹھ کر فلک بوسی تک پہنچنے لگا ہے۔نیز نجی اور سرکاری کمپنیزکے دفاتر کے لیے اس طرح کی عمارات موزوں نظر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اونچی عمارتیں اب تیزی سے تعمیر ہورہی ہیں۔ ہر طرف آسمان سے باتیں کرتی، خوبصورت عمارتیں، جنھوں نے شہر کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔

ایک زمانے تک کراچی میں آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع حبیب بینک کی خوبصورت عمارت کو پاکستان کی بلند ترین عمارت کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ اسے پاکستان اور خصوصاً کراچی کی پہچان قرار دیا جاتا تھا۔

قائدِاعظم نے مُسلمانوں کے مُعاشی استحکام کے لیئے ایک بینک جیسے پلیٹ فارم کی ضرورت اُس وقت محسوس کی جب ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ ملک کی تخلیق کے لئے کوششیں عروج پر تھیں۔ انہوں نے اپنے ایک قریبی تاجر دوست کو ایک تجارتی بینک قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کی جو ہندوستانی مسلم کمیونٹی کی خدمت کرسکتا تھا۔

ان کی کوششوں کے نتیجے میں حبیب بینک کی تخلیق 1941 میں ہوئی، بمبئی (اب ممبئی) میں اس کی پہلی برانچ کھولی گئی اور 25 ہزار روپے کی فکسڈ سرمایہ سے اس کا آغاز کیا گیا۔ برِصغیر میں"آل انڈیامُسلم لیگ" کے لیئے مسلمانوں کے دیئے گئے فنڈ کا اکاؤنٹ "حبیب بنک " ہی میں کھولا گیا ۔

قیامِ پاکستان کے بعد قائدِاعظم محمد علی جناح کے پُرزور اسرار پر حبیب بنک کا ہیڈ کواٹر بمبئی سے اُس وقت کے دارالحکومت کراچی میں منتقل کردیا گیا۔اور نو تشکیل شُدہ پاکستان کو "حبیب بنک " نے ایک تجارتی بنک دے کر مُعاشی سفر کا آغاز کردیا ۔

1950ء سے حبیب بنک نے بین الاقوامی توسیع شروع کردی۔1951 میں پہلی تین شاخیں سری لنکا میں کھولی گئیں۔ اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کو سہولیات فراھم کیں۔

اِس کے بعد 1956 کو کینیا میں پانچ شاخیں کھولی گئیں۔1972 کو عُمان میں 11 شاخوں کا افتتاح کیا گیا۔یکم جنوری 1974ء میں"حبیب بنک " کو نیم سرکاری کردیا گیا۔

آئی آئی چندریگر روڈ پر سنہ 1963 میں تعمیر ہونے والی حبیب بینک پلازہ کی 22منزلہ عمارت شہر کراچی ہی کی نہیں، بلکہ پاکستان کی سب سے اونچی عمارت شمار ہوتی تھی۔ اس کی لمبائی ایک سو پانچ اعشاریہ دو میٹر ہے۔ 1963ء سے 2000 تک پاکستان کی بلند ترین عمارت کا درجہ حاصل رہا۔1972 تک جنوبی ایشیاء کی بلند ترین عمارت کا درجہ حاصل رہا۔1970ء میں آنے والا چینی تجارتی وفد اس اونچی عمارت کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اور اُنہیں بھی اونچی عمارات بنانے کا شوق پیدا ہُوا۔

یہ حبیب بینک کا صدر دفتر ہے۔ یہ عمارت "پاکستان کی وال اسٹریٹ " آئی آئی چندریگر روڈ پر قائم ہے 2005ء میں ایم سی بی ٹاور نے اس کا ریکارڈ اپنے نام کر لیا۔ یہ عمارت حبیب بینک پلازہ میں رویت ہلال کمیٹی کا دفتر بھی واقع ہے اور ہر ماہ اسلامی مہینے کا چاند دیکھنے کے لیے تقریب اس کی چھت پر منعقد ہوتی ہے۔یہ حبیب بینک کا صدر دفتر ہے۔ یہ 4 دہائیوں تک پاکستان کی بلند ترین عمارت رہی ۔اس وقت یہ ایم سی بی ٹاور کے بعد ملک کی دوسری بلند ترین عمارت ہے۔ اس کے ماہر تعمیرات لیو اے ڈيلی تھے، جبکہ تعمیراتی کام ایس محبوب اینڈ کمپنی نے انجام دیا۔

عبیداللہ کیہر لکھتے ہیں ’’کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن کی اس یادگار صبح میں وہ میرا ازلی تجسس ہی تھا کہ جس نے مجھے ریلوے اسٹیشن سے باہر جھانکنے پر مجبورکیا تھا پھر میرے لیے کراچی کا پہلا منظر ہی حیرت انگیز تھا۔ پاکستان کی بلند ترین عمارت حبیب بینک پلازہ کے اس اچانک جلوے نے مجھے ڈرا دیا تھا۔‘‘