تعلیم کو درپیش چیلنجز سے کیسے نمٹا جائے؟

January 12, 2020

دورِ جدید میںہماری سوچ اور بیانیہ بگ ڈیٹا سے تشکیل پارہا ہے۔ عالمگیریت اور سوشل میڈیا نے دنیا کو پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ قابل رسائی بنا دیا ہے۔ ٹیکنالوجی میںترقی کے بعد مصنوعی ذہانت کو انسانی دماغ کی طرح بنانے کی کوششیںکی جارہی ہیں۔ ان سب کے باوجود آمدن و اخراجات میں تفاوت نے سیارے کی آبادی کو مخدوش حالات سے دوچار کردیا ہے۔ اس پر مستزاد صنعتی انقلاب کے بعد اشیا سازی کی حد سے بڑھی ہوس پورے کرہ ارض کو عالمی آلودگی میں مبتلا کرگئی ہے۔

گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے سے کم ہوتے میٹھے پانی کے قیمتی ذخائر عالمی قلتِ آب کی گھنٹی بجارہے ہیں۔ عالمی سائنس دانوں نے خبردار کردیا کہ ماحول دوست اقدام اٹھائیں،وگرنہ آنے والی صدیوں میں انتہائی بھیانک نتائج نکلیں گے۔ اتار چڑھاؤ ، غیر یقینی صورتحال، پیچیدگی اور ابہام پر مبنی دنیا اور معاشرہ ہمارے بزرگوں کے لیے تکنیکی طور پرناقابل شناخت ہوچکا ہے۔

ہمارے اجداد کی اخلاقیات،رویوں اور کام کے انداز میں جو دلچسپی اور دلجمعی تھی اس کے مقابلے میں ٹیک جنریشن اخلاقیات اور دھیرج سے یکسر خالی ادب و فلسفے اور مذہب و اخلاقیات جیسے معاشرتی علوم سے دور احسا س سے عاری روبوٹ بن گئی ہے جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ چند دیگر مسائل بھی سامنے آرہے ہیں۔ ایسے میںضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی نظام میں مثبت تبدیلیاںلائی جائیں تاکہ طلبا زندگی کے تمام میدانوں میں مقابلے کے قابل بن سکیں۔

ارتکازِ توجہ کی مشقیں

پاکستان سمیت ترقی یافتہ ممالک کے بیشتر اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم کا بوجھ طالب علموں کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کررہا ہے۔ ہمہ گیر موضوعات کو پڑھنا، انھیں یاد رکھنا اور سمجھنا طالب علموں کے لیے مشکل ہوتا جارہاہے اور اکثر وہ کسی بھی موضوع پر توجہ مرکوز نہیں رکھ پاتے، جس سے ان کا صحت مند طرزِ حیات بری طرح متاثر ہورہا ہے کیونکہ وہ عدم دلچسپی پر مبنی غیر فعال طرز زندگی پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔امریکی اسکولوں میں اس کا حل توجہ مرکوز کرنے والے مراقبے ’مائنڈفل نیس (Mindfulness)‘ کی صورت میں نکالا گیا ہے، جس کے تحت اساتذہ طالب علموں کو اپنی روح سے ہم کلا م ہوکر ذہن سازی کی مشق سکھا رہے ہیں۔

یہ مشقیں طالب علموں کے ذہن سے معلومات کا خوف نکال کر جدید ٹیکنالوجی کاسمجھ داری سے استعمال سکھا رہی ہیں۔ ساتھ ہی فنون لطیفہ، ادبی سرگرمیوں اور کھیل کود جیسی غیر نصابی سرگرمیوں سے طالب علموں کی ذہنی و جسمانی صحت کو برقرار رکھا جارہا ہے۔ نصاب کےحوالے سے اساتذہ طالب علموں کو کھیل کھیل میں تعلیم کا شعور اجاگر کرتے ہوئے یہ باور کرارہے ہیں کہ ترقی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے علم و ہنر: جس نے اسے بوجھ سمجھا وہ کبھی کامران نہیںہوسکتا۔

مصنوعی ذہانت اور تعلیم

انسانوں نے جو مشینیں اور ان کو چلانے کے لیے مصنوعی ذہانت پر مبنی الگورتھم بنائے ہیں، وہ انسانی ذہانت کے خاص اجزاء اور انفرادیت کو چیلنج کررہے ہیں۔ نوجوان تیزی سے ان آلات پر انحصار کرنے لگے ہیں،جس کے مضمرات تعلیم پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ بروقت نتائج تک پہنچنے کی وجہ سے طالب علموں میں تخلیقی ذہانت متاثر ہورہی ہے۔

ہر طالب علم مصنوعی ذہانت کے سہارے علم کی سیڑھیاں طے کرنا چاہتا ہے۔ ساتھ ہی مصنوعی ذہانت کی تیزطراری نوجوانوں کو کارکردگی کے حوالے سے خوف میں بھی مبتلا کر رہی ہے۔اس خوف کو دور کرنے کے لیے اساتذہ طالب علموں کو تخلیق اور اختراع کے بارے میں شعور دیتے ہوئےان کی رہنمائی کر رہے ہیں جیسے کہ انسان کے آداب اور اخلاقیات و منطق کمپیوٹر سے بالاتر رہیں گے، کمپیوٹر بھی وہی کرے گا جو آپ اسے کرنے کے لیے کہیں گے۔ مصنوعی ذہانت انسان کی منفرد خوبیاں نہیں پاسکے گی۔انسانیت کے ان پہلوؤں پر اسکول کی تعلیم میں جگہ اب بھی باقی ہے۔

احترامِ انسانیت کا سبق

شدت پسندی ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے۔ کچھ معاشرےاس سے خود کو پوری طرح محفوظ سمجھتے ہیں، تاہم ایک انجانا خوف، عدم اعتماد اور اجنبی سرزمین پر نفرت کا خوف موجود ہے۔ شدت پسندی کے بارے میں تعلیمی نقطہ نظرسے یہ بات نصاب کا لازمی حصہ ہونی چاہئے کہ آخر یہ ہے کیا اوراس کی وجوہات کیا ہیں! عقیدے کے احترام کو کیسے ملحوظ رکھا جائے؟ اس ضمن میں احترام انسانیت پر مبنی نصاب اکیسویں صدی کی اہم ضرورت ہے۔

مادرِ ارض کی حفاظت

ہم تیزی سے کرہ ارض کی حیاتیاتی صلاحیت کو ختم کررہے ہیں۔ اگر ہم اپنے موجودہ طرز عمل سے جلد باز نہ آئے تو اپنے سیارے کے وسائل کو تیزی سے ختم کردیں گے۔ انسانوں کو وسائل کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گااور زندگی گزارنا مشکل ہوتا چلا جائے گا۔

اکیسویں صدی کی تعلیم کا سب سے بڑاچیلنج یہی ہے کہ اس بات پر غور کریں کہ جب زمین ہی نہ ہوگی تو ہماری یہ ترقی و توسیع کس کام کی، اس لیے اسکول کی سطح پر تحفظ ماحول کو نصاب کا حصہ بناکر طلبا کو فطرت سے پیار کرنا سکھانا ہوگا۔ ہمیں اس دور کی طرف لوٹنا ہوگا جب حجر و شجر، جمادات و نباتات اور حیوان سے محبت کی جاتی تھی۔