’’احمد فراز‘‘ اردو شاعری کا روشن باب

January 12, 2020

آج اک اور برس بیت گیا اس کے بغیر

جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے

احمد فراز ان چند شعراء میں سے ایک ہیں جنہوں نےاپنی زندگی میں ہی اپنی شاعری کی مقبولیت کے سورج کو پوری آب وتاب پر دیکھا۔ گو اب وہ ہم نہیں مگر جدید غزل گوئی کا تصور آج بھی احمد فراز کے بغیر نا ممکن سا ہے۔

رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں

چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

احمد فراز منفرد رومانوی لب ولہجے کے ساتھ محبت و شہرت کے آسمان چھونے والے ایک ایسے انقلابی، مزاحمتی اوررومانوی شاعر تھے جو نوجوان شاعروں کے لیے ایک کامیاب مثال بن کر سامنے آئے۔ ان کے چاہنے والوں کا کہنا ہے کہ فراز کی شاعری میں غم محبوب نمایاں نہیں، اس کے برعکس اس میں خوشی، امید اور رومانیت نظر آتی ہے، جس سے لگتا ہے کہ شاعر نے اپنی بات کہنے کے لیے موضوع کو الفاظ کا ایک منفرد اور خوبصورت پیراہن دیا ہو۔

اب کے ہم بچھڑے تو شایدکبھی خوابوں میں ملیں

جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

فراز اپنی شاعری میں غم کو بھی کسی خزانے سے کم نہیں سمجھتے، غم زمانہ کو کیا خوب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں

فراز ملتے ہیں غم بھی نصیب والوں کو

ہر ایک کے ہاتھ کہاں یہ خزانے لگتے ہیں

احمد فراز کی شاعری وطن پرستی، ظلم کے خلاف احتجاج، سیاست سے بےزاری، معاشرے کی عکاسی، عشق حقیقی، عشق مجازی اور غم اندوہ جیسے موضوعات سے بھری پڑی ہے، جنہیں فراز نےسادگی اور خوش اسلوبی سے مدھم لب ولہجے میں اپنے احساس و جذبات کے ساتھ شاعری میں ایسے بیان کیا ہے کہ ہرشعر لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا اور ذہن میں نقش ہوگیا۔

فراز نے اپنی شاعری میں جذبات و احساسات کو اتنی سچائی اور واضح الفاظ میں بیان کیا ہے کہ گویا ہر لفظ انسانی زندگی کی ترجمانی کرنے لگتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ احمد فراز کی شاعری قاری کے جذبات و احساسات میں ایسے گھل مل جاتی ہے کہ وہ انھیں اپنے دل کی آواز معلوم ہونے لگتی ہے۔ کہیں فراز کی شاعری مزدوروں کی ڈھارس بنتی ہے تو کہیں محبوب کی اصلاح، یہی خاصیت احمد فراز کو دیگر شعراء سے ممتاز بناتی ہے۔

حالات زندگی

فیض احمد فیضؔ کے بعدشاعری کے اُفق کا جگمگاتا ستارہ ’احمد فراز‘ کا اصل نام سید احمد شاہ تھا۔ انہوں نے 12جنوری1931ء کو کوہاٹ کے معزز سادات خاندان میں آنکھیں کھولیں۔ ان کے والد سید محمد شاہ برق کوہاٹی کا شمار فارسی کے ممتاز شعراء میں کیا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود فراز کے والد نے اپنے بیٹے کے لیے ریاضی اور سائنس کے میدان میں آگے بڑھنے کا خواب دیکھا۔

چونکہ فطری میلان اور گھریلوں ماحول ادب وشاعری کی طرف مائل تھا تو یہ تمام چیزیں فرازؔ کو شاعری سے دور نہ رکھ سکیں۔ انہوںنے ابتداء میں احمد شاہ کوہاٹی کے قلمی نام سے شعری سفرکا آغازکیا، بعدازاں فیض احمد فیض کے گراں قدر مشورے سے ’’احمد فراز‘‘ ہوئے۔ یوں رومانوی شاعری کی اساس فیض صاحب جیسے نفیس رومانوی و انقلابی شاعر کے دستِ شفقت سے بنی۔

احمد فراز نے پشاور کے ایڈورڈ کالج سے فارسی اور اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور باضابطہ ادب وشاعری کا مطالعہ کیا۔ انھوں نے دورانِ تعلیم ہی ریڈیو پاکستان پشاور کے لیے فیچر لکھنا شروع کردیے تھے۔

فراز کی مادری زبان پشتو تھی لیکن وہ فارسی، اردو، انگریزی اور پشتو سمیت چار زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔ وہ گریجویشن کے دوران رومانوی طالب علم بن کر ابھرے۔ ان کا پہلا رومانوی شعری مجموعہ ’’تنہا تنہا‘‘ منظر عام پر آتے ہی ہزاروں دلوں پرراج کرنے لگا۔

مجموعات کلام اور شاعری

احمد فراز کے شعری ورثے میں جاناں جاناں، خواب گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کرو ، درد آشوب ، تنہا تنہا، نایافت، نابینا شہر میں آئینہ، بے آواز گلی کوچوں میں، پس انداز موسم، شب خون، یہ سب میری آوازیں ہیں ، میرے خواب ریزہ ریزہ، اے عشق جفا پیشہ وغیرہ مشہور ومعروف ہیں۔ احمد فراز کی شاعری کے کئی زبانوں میں ترجمے کئے گئے جن میں پنجابی، روسی، فرانسی اور جرمنی قابل ذکر ہیں۔ فراز کی لکھی گئی کئی نظموں کو عالمی سطح پر بھی بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔

شاعری اورمختلف کیریئر

احمد فراز نے اپنے کیریئر کی ابتداء ریڈیو پاکستان پشاور سے بحیثیت اسکرپٹ رائٹر کی۔ اس دوران وہ اردو کے استاد، پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر، اکیڈمی آف لیٹرز کے پہلے ڈائریکٹر جنرل، 1989ء سے 1990ء تک چیئرمین اکادمی پاکستان، 1991ء سے 1993ء تک لوک ورثہ اور 1993ء سے 2006ء تک ’’نیشنل بک فاؤنڈیشن ‘‘کے سربراہ کے عہدوں پر فائز ر ہے۔

احمد فراز نے اپنی زندگی میں کئی اعزازات اپنے نام کیے جن میں آدم جی ایوارڈ، اباسین ایوارڈ، اکیڈمی آف اردو لٹریچر ایوارڈ (کینیڈا)، اکادمی ادبیات پاکستان کا ’کمال فن‘ ایوارڈ، ستارہ امتیاز، نگار ایوارڈ اور دیگر اعزازات شامل ہیں۔

آسمانِ سخن پر دمکتا یہ درخشاں ستارہ اپنے جانے کے بعد بھی شاعری ورثے کی صورت ایسی چمک چھوڑ گیا ، جس کی روشن کرنوں سے اب بھی لوگ فیضیاب ہورہے ہیں۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ

تیرے جانے کے بعد بھی لگتا ہے

سلسلہ تعلق تجھ سے ٹوٹا ہی نہیں