ادبی لطائف...!

January 16, 2020

تلخ وشیریں

نموہن تلخ نے جوش ملیح آبادی کو فون کیا اور کہا:

’’میں تلخ بول رہا ہوں

جوش صاحب نے جواب دیا’’کیا حرج ہے اگر آپ شیریں بولیں۔‘‘

حماقت کا اعتراف

ایک دفعہ علامہ سے سوال کیا گیا کہ عقل کی انتہا کیا ہے ۔ جواب دیا ’’حیرت ‘‘ پھر سوال ہوا۔ ’’عشق کی انتہا کیا ہے ۔‘‘ فرمایا۔’’عشق کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔‘‘ سوال کرنے والے نے پھر پوچھا۔ ’’تو آپ نے یہ کیسے لکھا۔ ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں۔ ‘‘ علامہ نے مسکراکر جواب دیا ۔ دوسرا مصرعہ بھی تو پڑھئے جس میں اپنی حماقت کا اعتراف کیا ہے کہ ’’مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں۔‘‘

اسیر بے زنجیر

سوریا سے ایک شاعر اسیر تشریف لائے ۔ قتیل صاحب نے جو ان دنوں پاکستان رائٹرز گلڈ کے سکریٹری تھے ’ان کا استقبال کرتے ہوئے کہا’’پہلی دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ’ اسیر ‘بے زنجیر بھی ہوتے ہیں۔‘‘اس پر اسیرؔ نے برجستہ جواب دیا:

’’میں نے بھی پہلا ’قتیل‘ دیکھا ہے جو قتل ہونے کے بعد بھی زندہ ہے۔‘‘

تم نے میرے پیر دابے میں نے پیسے

ایک روز مرزا صاحب کے شاگرد میر مہدی مجروحؔ ان کے مکان پر آئے ۔ دیکھا کہ مرزا صاحب پلنگ پر پڑے کراہ رہے ہیں ۔ یہ ان کے پاؤں دابنے لگے۔ مرزا صاحب نے کہا بھئی تو سید زادہ ہے مجھے کیوں گنہگار کرتا ہے ؟‘‘ میر مہدی مجروحؔ نہ مانے اور کہا کہ ’’آپ کو ایسا ہی خیال ہے تو پیر دابنے کی اجرت دے دیجئے گا۔‘‘ مرزا صاحب نے کہا ۔’’ہاں اس میں مضائقہ نہیں۔‘‘ جب وہ پیر داب چکے تو انہوں نے ازراہ مزاح مرزا صاحب سے اجرت مانگی مرزا صاحب نے کہا ۔’’بھیا کیسی اجرت ؟تم نے میرے پاؤں دابے ،میں نے تمہارے پیسے دابے ، حساب برابر ہوگیا ۔‘‘

احمقوں کی آمد

اسرار الحق مجاز تنہا کافی ہاؤس میں بیٹھے تےح کہ ایک صاحب جو ان کے روشناس نہیں تھے ، ان کے ساتھ والی کرسی پر آ بیٹھے ۔ کافی کا آرڈر دے کر انہوں نے اپنی کن سری آواز میں گنگنانا شروع کیا ۔

احمقوں کی کمی نہیں غالبؔ

ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں

مجاز نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’ڈھونڈنے کی نوبت ہی کہاں آتی ہے حضرت!خود بخود تشریف لے آتے ہیں ۔‘‘

پنجابی زبان

جوش ملیح آبادی نے پنجابی زبان کی اکھڑ پن سے زچ ہو کر کنور مہندر سنگھ بیدی سے کہا: ’’کنور صاحب! کیا آپ جانتے ہیں کہ دوزخ کی سرکاری زبان یہی آپ کی پنجابی ہوگی۔‘‘ کنور صاحب نے برجستہ جواب دیا: ’’تو پھر جوش صاحب! آپ کو ضرور سیکھ لینی چاہیے۔‘‘

یک مرتبہ حبیب جالب نے ناصر کاظمی سے کہا:

’’جب بھی آپ کی کوئی غزل کسی رسالے میں دیکھتا ہوں، دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے، کاش یہ غزل میرے نام سے چھپتی!‘‘

ناصر کاظمی نے شکریہ ادا کیا۔ کچھ دیر بعد حبیب جالب نے پوچھا: ’’میری غزل دیکھ کے آپ کا کیا ردِعمل ہوتا ہے؟‘‘

ناصر کاظمی نے کہا:

’’شکر ادا کرتا ہوں کہ یہ غزل میرے نام سے نہیں چھپی۔‘‘