جواں مرگ اہلِ قلم

January 16, 2020

سکندر اعظم نے کوئی تیس برس کی عمر میں ایک ایسی سلطنت قائم کرلی تھی جو دنیا کی عظیم سلطنتوں میں شمار کی جاتی ہے ۔ لیکن وہ تینتیس برس کی عمر میں دنیا سے گزرگیا۔دنیا کی ادبی تاریخ میں ایسے کئی ادیب اور شاعر گزرے ہیں جنھوں نے کم عمری میں نام کمایا لیکن جلد ہی دارِ فانی سے حیات ِ جاودانی کی جانب کُوچ کرگئے۔

انگریزی ادب کے بعض بڑے نام مثلاً جان کیِٹس، شیلے، ایملی برونٹے اورلارڈ بائرن ان لکھنے والوں میں شامل ہیں جنھوں نے نوجوانی ہی میںاپنا لوہا منوالیا لیکن زندگی نے انھیں زیادہ مہلت نہ دی۔ جان کیٹس جیسا بے مثل رومانی شاعر پچیس سال کی عمر میں ٹی بی کا شکار ہوکر دنیا سے چلا گیا۔ شیلے ایسا مفکر شاعر انتیس برس میں اس وقت ڈوب کرموت کی وادی میں اتر گیا جب اٹلی میں اس کی کشتی طوفان میں پھنس گئی۔

انگریزی کی کلاسیکی ناول نگار اور شاعرہ ایملی برونٹے تیس برس کی عمر میں ٹی بی کے ہاتھوں جان ہار گئی۔’’ ڈون جُو اَن‘‘ جیسی طنزیہ نظم کا خالق لارڈ بائرن چھتیس سال کی عمر میںیونانیوں کی جنگ آزادی میں شریک ہونے روانہ ہوا لیکن زندگی کی جنگ میں اسے بخارنے شکست دے دی ۔ اردو ادب کی تاریخ میں بھی ایسے کئی اہلِ قلم گزرے ہیںجن کے لیے کاتب ِ تقدیر نے مختصر وقت کی مہلت لکھی تھی۔ اگر اور جیتے تو شاید اردو ادب کے دامن کو اور باثروت کرتے۔آئیے اردو کے ان جواں مرگ اہل قلم کی زندگیوں اور ادبی کاموں پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

ز۔خ۔ ش

یہ خاتون بہت باصلاحیت شاعرہ تھیں لیکن چونکہ ان کے دور میں بعض لوگ باپردہ خواتین کا نام رسالوں میں چھپنا معیوب سمجھتے تھے لہٰذا یہ ’’زے۔خے۔ شین‘‘کے قلمی نام کے پردے کے پیچھے رہتی تھیں ۔ نزہتؔ ان کا تخلص تھا۔ ان کا پورا نام زاہدہ خاتون شیروانیہ تھا ۔ نواب مزمل اللہ خان کی صاحب زادی تھیں ۔ بھیکم پور(ضلع علی گڑھ) میں دسمبر ۱۸۹۴ء میں پیدا ہوئیں۔ان کا فروری ۱۹۲۲ء میں تقریباًاٹھائیس برس کی عمر میں انتقال ہوا۔مجموعۂ کلام ’’فردوسِ تخیل ‘‘ کے عنوان سے ۱۹۴۱ء میں یعنی بعد از مرگ لاہور سے شائع ہوا۔ غزلیات کا مجموعہ ’’نزہت الخیال ‘‘ہنوز غیر مطبوعہ ہے۔

انعام اللہ خاں یقین

اردو اور فارسی کے بہت اچھے شاعر اورمرزا مظہر جان جاناں کے شاگرد تھے ۔یقین کا ان شعرا میں شمار ہوتا ہے جنھوں نے ایہام گوئی کی روش ترک کی۔دہلی میں ۱۷۲۸ء یا۱۷۲۷ء میں آنکھ کھولی۔ ۵۶۔۱۷۵۵ء میں وفات ہوئی۔اس لحاظ سے انتقال کے وقت عمر تقریباً اٹھائیس سال تھی۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ انہیں ان کے والد نے قتل کردیا تھا۔

قابل اجمیری

اردوکے نہایت عمدہ شاعر۔ بالعموم چھوٹی بحر میں پُر دردشعرکہتے تھے۔ ان کا اصل نام عبدالرحیم تھا۔ اجمیر کے قریب واقع چرلی نامی ایک گائوں میں 27 اگست 1931میں پیدا ہوئے۔ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے اور کم عمری میں ان کی شاعری کی شہرت ہوگئی تھی۔ لیکن ٹی بی کا شکار ہوکر3؍ اکتوبر1962 کو حیدرآباد (سندھ) میں انتقال کرگئے۔ مجموعہ ٔ کلام ’’دیدۂ بیدار ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔

شکیب جلالی

اردو کے معروف و مقبول شاعر شکیب جلالی کا اصل نام سید حسن رضوی تھا۔ یکم اکتوبر 1934 کو علی گڑھ کے قریب جلال نامی ایک قصبے میں پیداہوئے۔اس حساس شاعر نے12 نومبر 1966 کو سرگودھا میںچلتی ٹرین کے سامنے خود کو گرا کر موت کو گلے لگایا۔ مجموعۂ کلام ‘‘روشنی اے روشنی ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا، کلیات بھی شائع ہوچکی ہے اور مختصر انتخاب ِ کلام بھی۔

عبدالرحمٰن بجنوری

غالب کے دیوان پر ’’محاسن ِ کلام ِ غالب ‘‘ کے نام سے شان دار مقدمہ لکھ کر مشہور ہونے والے عبدالرحمٰن بجنوری 10؍ جون 1885ء کو سیوہارا (ضلع بجنور ) میں پیدا ہوئے۔ بھوپال میں7 نومبر 1918 کو داعی ٔ اجل کو لبیک کہا۔

حیات امروہوی

حیات امروہوی کی ایک غزل کا مطلع ہے :

زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے

بج رہا ہے اور بے آواز ہے

جب یہ غزل کمال امروہوی کی فلم ’’پکار‘‘ میں شامل کی گئی تو یہ شہرت کے آسمان پر چمکنے لگے۔ امروہہ میں ۱۹۱۲ء میں پیدا ہونے والے حیات امروہوی کا ساز ِحیات16؍ اکتوبر1946 کوامروہہ میں خاموش ہوگیا ۔ مجموعۂ کلام انتقال کے بہت عرصے بعد 1989 میں کراچی سے ’’سا زِ زندگی‘‘ کے نام سے چھپا۔

نسیم لکھنوی

اردوکی شہرۂ آفاق مثنوی ’’گلزار ِ نسیم ‘‘کے خالق اور آتش لکھنوی کے شاگرد پنڈت دیاشنکر کول نسیم لکھنوی 1811ء میں پیدا ہوئے اور لکھنؤ میں1845ء میں چل بسے۔

مصطفیٰ زیدی

معروف شاعر سید مصطفی حسنین زیدی پہلے تیغ الہٰ آبادی تخلص کرتے تھے اور بعد میں مصطفی زیدی کے نام سے شاعری کی۔ الہٰ آباد میں 10 اکتوبر 1930میں پیدا ہوئے۔ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہو کراعلیٰ عہدوں پر رہے۔12اکتوبر 1970 کو کراچی میں پراسرار حالات میں سفر ِ آخرت پر روانہ ہوگئے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مصطفی زیدی نے خود کشی کی تھی۔

پروین شاکر

نسائی احساسات کو اردو شاعری میں منفرد انداز میں پیش کرنے والی ممتازشاعرہ پروین شاکر ۲۴؍ نومبر ۱۹۵۲ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ کم عمری ہی میں اپنی شاعری سے سب کو چونکا دیا اور اپنے پہلے شعری مجموعے ’’خوشبو ‘‘ کی اشاعت کے بعد مقبول ترین شعرا میں شامل ہوگئیں۔۲۶؍ دسمبر ۱۹۹۴ء کوا سلام آباد میں ٹریفک کے ایک حادثے میں جاں بحق ہوئیں۔ کلیات ’’ماہِ تما م ‘‘ کے عنوان سے ہے۔

اختر شیرانی

شاعر ِ رومان کا خطاب پانے والے اختر شیرانی کا اصل نام محمد داؤد خان تھا۔ ان کے والد حافظ محمود شیرانی اردو کے نمایاں ترین محققین میں شامل ہیں۔اختر شیرانی ۴؍ مئی ۱۹۰۵ء کو ٹونک (راجستھان) میں پید ا ہوئے ۔ رومانی اشعار کا یہ خالق لاہور میں ۹؍ ستمبر ۱۹۴۸ء کوخالقِ حقیقی سے جا ملا۔

سعادت حسن منٹو

اردو کے عظیم ترین افسانہ نگاروں میں شمار کیے جانے والے سعادت حسن منٹو ۱۱؍ مئی ۱۹۱۲ء کو سمرالہ (ضلع لدھیانہ) میں پیدا ہوئے۔لاہور میں ۱۸؍ جنوری ۱۹۵۵ء کو عبرت سراے جہاں سے آخری منزل کی طرف کوچ کیا۔

مجید لاہوری

مجید لاہوری نے اردو نثر اور نظم دونوں کو مزاح سے زعفران زار بنایا ۔گجرات (پنجاب ) میں ۱۹۱۳ء میں پیدا ہوئے۔ روزنامہ ’’جنگ ‘‘ میں شائع ہونے والے ان کے مزاحیہ کالم اور شاعری نے انہیں شہرت دی اور ان کے ’’رمضانی ‘‘جیسے عوامی کرداروں کی وجہ سے انہیں عوامی مقبولیت بھی بہت حاصل ہوئی۔ لوگوں کو ہنسانے والا یہ ادیب کراچی میں ۲۶؍ جون ۱۹۵۷ء کوانہیں روتا چھوڑ گیا۔

اسرار الحق مجاز

اردو کے مقبول شاعر اسرار الحق مجاز رُدَولی (ضلع بارہ بنکی) میں۱۹؍ اکتوبر ۱۹۱۱ء کو پیدا ہوئے۔

۵؍ دسمبر ۱۹۵۵ء کو لکھنؤ میں راہی ٔ ملک ِ عدم ہوئے۔مجموعۂ کلام ’’آہنگ‘‘ کے عنوان سے ہے۔

عظیم بیگ چغتائی

اردو کے مقبول مزاح نگار، ناول نگار اور افسانہ نگار مرزا عظیم بیگ چغتائی آگرہ میں ۱۸۹۵ء میں پیدا ہوئے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور وکالت کرتے تھے۔ ریاست جاوراکے راجا نے انھیں جج مقرر کیا تھا۔ وہاں کے مضحکہ خیزدرباری حالات و معاملات پر طنزیہ کتاب ’’کھرپا بہادر ‘‘ کے نام سے لکھی۔

لیکن راجا کو اندازہ ہوگیا اور وہ ان کا دشمن ہوگیا ۔راقم کو ان کی ایک قریبی عزیز ہ نے بتایا کہ عظیم بیگ چغتائی کو راجا کے حکم پر کھانے میں دھیما زہر (slow poison) دیا جانے لگا تھا۔ یہ کسی طرح وہاں سے نکل بھاگے لیکن زہر کے اثر سے مستقل بیمار رہنے لگے اور جودھ پور میں ۲۰؍ اگست ۱۹۴۱ء کو جان کی بازی ہار گئے۔

رشید جہاں

معروف خاتون کمیونسٹ لیڈر اور افسانہ نگار ڈاکٹر رشید جہاں (جنھیں بعض لوگ غلطی سے رشیدہ جہاں بھی لکھتے ہیں )۲۵؍ اگست ۱۹۰۵ء کو دہلی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد نومسلم کشمیری تھے۔ جب ۱۹۳۲ء میں تہلکہ خیز کتاب ’’انگارے ‘‘ شائع ہوئی (جس پر پابندی لگادی گئی) تو اس میں رشید جہاں کا ایک افسانہ ’’دلّی کی سیر ‘‘ اور ایک ڈراما ’’پردے کے پیچھے‘‘شامل تھا ۔ رشید جہاںکا ۲۹؍ جولائی ۱۹۵۲ء کو ماسکو میں انتقال ہوگیا جہاں وہ سرطان کے علاج کے لیے گئی تھیں۔

ممتاز شیریں

ممتاز نقاد ، مترجم اور افسانہ نگارممتاز شیریں ۱۲؍ ستمبر ۱۹۲۴ء کو میسور میں پیدا ہوئیں ۔اپنے شوہر صمد شاہین کے ساتھ پاکستانی ادب اور منٹو کی حمایت میں سرگرم رہیں جنھیں ترقی پسندوں نے مطعون کرنا شروع کیا تھا۔ اسلام آباد میں ۱۱؍ مارچ ۱۹۷۳ء کو جان جاں آفریں کے سپرد کی۔

ایم ڈی تاثیر

نقاد، محقق اور شاعرایم ڈی تاثیر کا پورا نام محمد دین تاثیر تھا۔ نہایت ذہین اور حاضر جواب تھے۔ پطرس بخاری کے دوستوں میں سے تھے۔ انگلستان سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی تھی اورقیام ِ پاکستان سے قبل امرت سر میں بھی پروفیسر رہے تھے۔ ایم ڈی تاثیر ۲۸؍ فروری ۱۹۰۲ء کواجنالہ (ضلع امرت سر ) میں پیدا ہوئے اور لاہور میں ۳۰؍ نومبر ۱۹۵۰ء کو انتقال کیا۔ ان کے صاحب زادے سلمان تاثیر آگے چل کر پنجاب کے گورنر بنے ۔