کراچی یا "لاوارث کراچی"؟

January 16, 2020

سید انور محمود

دو دن پہلےمیرے ایک دوست کے صابزادے بہت عرصے بعدایک کام کے سلسلے میں میرے گھر آئے تو خیریت کے ساتھ ساتھ دوسری باتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ میںان کو بتانے لگا کہ میری اور اُس کے والد کی دوستی بہت پرانی ہے ،ہم دونوں ہی کراچی میں پلے بڑھے ہیں۔

اسٹریٹ کرائم کے حوالے سے کراچی سر فہرست ہے

پھر میں نے اُس سے کراچی کا ذکر شروع کہ کراچی روشنیوں اورامن کا شہر تھا، کراچی بڑاغریب پرور شہر تھا، یہاں ہر ایک کو روزگا ر کی آسانیاں تھیں، کراچی رات کو بھی جاگتا تھا، اگر آپ کو رات کو گرم کھانا کھانے کا دل چاہے تو رات کے تین بجے گرما گرم روٹی اور نہاری مل جاتی تھی۔چوبیس گھنٹے میں کسی بھی وقت کراچی کے کسی بھی علاقے میں جہاں آپ کادل چاہے یا کوئی کام ہو آپ جاسکتے تھے۔ ایک ہی محلے میں مختلف زبانیں اور مختلف عقائدکے لوگ امن وامان سے رہتے تھے، ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں رشتہ داروں کی طرح شریک ہوتےتھے۔

ابھی میں کراچی کے بارے اور بھی کچھ کہنا چاہتا تھا کہصاحبزادے کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور مجھ سے احتجاج کے انداز میں کہنے لگا انکل شاید آپ مجھے مائی کلاچی کے زمانے کی تاریخ سنا رہے ہیں، جس کو آپ کراچی کہتے ہیں ، میں تو تین کروڑ تک کی آبادی کےاس شہر "لاوارث کراچی" میں رہتا ہوں اوراگر آج ان خوبیوں میں سےجو آپ نے بیان کی ہیں ایک بھی موجود ہو تو بتادیں۔

میں آج گھر سے باہر جاتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ کوئی مجھے لوٹ نہ لے، کسی بازار میں کوئی خودکش حملہ آور نہ آجائے، کسی مسجد میں نمازکےلیے جاتاہوں تو بم دھماکے کا خوف رہتا ہے، کسی بس میں سفر کرتا ہوں تو خوف رہتا ہے کہ اس کا گیس کا سلنڈر نہ پھٹ جائے، کسی ایسے علاقے میں نہیں جاتا ،جہاں دوسری زبان بولنے والے رہتے ہوں اور کسی دوسرئے عقیدئے والے کو اپنے عقیدہ کا پتا نہیں ہونے دیتا کہ کہیں وہ مجھ کو مارکر جنتی نہ ہوجائے۔

آپ رات کو گرم کھانا کھانے کی بات کرتے ہیں یہاں کبھی کبھی دن میں بھی آٹا نہیں ملتا۔ یہ شہر جس کے ماضی کو آپ دودھ اور شہد کی بہتی نہروں سے تشبیہ د ے رہے ہیں، اس میں خون کی ندیاں بہہ چکی ہیں، شہر کا کوئی ایسا گھر نہیں جس کے مکین راستوں میں لیٹروں اور گھروں میں ڈاکوں سے نہ لٹے ہوں، یا پھر کوئی غیر فطری موت کا شکار نہ ہوئے ہوں۔ اور اگر خوش قسمتی سے ایسا نہ ہوا ہوتو اُن کے عزیزوں اور دوست احباب میں ایسے ضرور موجود ہوںگے۔

آپ جس کراچی کی بات کررہے ہیں ،اُس وقت جب بھی کبھی قبرستان گے ہوں گے تو وہاں کا ایک بڑا حصہ خالی ملا ہوگا ،مگر اب قبرستان آباد ہوگئے بلکہ کم پڑ گے ہیں قبروں کی قیمتیں چار گنا ہو گئی ہیں۔ میں اِسی شہر کراچی کے صرف ایک علاقہ لیاری کے بارے میں آپ کو بتاتا ہوں، جہاں آج حکومت کی کوئی عملداری نہیں ہے۔

لیاری کراچی کا ایک بہت پرانا اور بدنصیب وہ علاقہ ہے، جہاں اکژیت میں غریب لوگ رہتے ہیں۔ لیاری کے 11علاقے آگرہ تاج کالونی، بہار کالونی ، رانگیواڑہ، سنگولین، علامہ اقبال کالونی، چاکیواڑہ، شاہ بیگ لین، دریا آباد، نوا آباد، کھڈا میمن، بغدادی ہیں۔

آپ ان میں سے کسی علاقے میں بھی چلے جائیں آپ کو ہر طرف غربت، جہالت اور لاچاری دیکھنے کو ملے گی۔ ویسے تو پورے۔ انکل یہ تو صرف کراچی کے ایک علاقے کی صورتحال ہے ، باقی کراچی کا حال چاہے وہ اورنگی ہویا پٹھان کالونی، ملیر ہو یا لانڈھی سب کی صورتحال لیاری سے ملتی جلتی ہی ہے۔

اسٹریٹ کرائم کے حوالے سے کراچی سر فہرست ہے۔ رشوت لے کر نوکریاں دینے کا رواج عام ہے۔ کراچی جو پاکستان کا معاشی حب ہے اس کا وہ برا حال ہے کہ یہ شہر جو کبھی امن کا گہواراہ تھا آج لاقانونیتکا شہر بن چکا ہے۔ بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان اس شہر میں عام بات تھی اور اب بھی ہے۔ بے روز گاری اور مہنگائی سے عوام پریشان ہیں۔ کراچی کے ان حالات کی ذمیدار نہ صرف پیپلز پارٹی کی حکومت ہے بلکہ وہ تمام سیاسی اور مذہبی سیاسی جماعتیں ذمیدارہیں جو اس شہر کی سیاست میں شامل ہیں۔

لاقانونیت کا شکار یہ شہر جب تک بدحالی کا شکار رہے گا جب تک صاحب اقتدار اس شہر کو سیاست سے بالاتر ہوکر اس کا علاج نہیں کریں گے۔