کیرانچی کا جغرافیہ (طنزیہ ومزاحیہ تحریر)

January 16, 2020

لالہ صحرائی

کراچی والوں کے شب و روز کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ دن میں بُنے ہوئے خواب رات کو پریشان رکھتے ہیں اور رات میں آنے والے خواب دن میں تنگ کرتے ہیں۔

ہزاروں زخم سہنے والے اس شہر کے عزم و استقلال کو زندہ دلان جیسا کوئی نام دینا چاہئے، مگر حال مست و چال مست مہربانوں کی بدولت اپنی تمامتر خوبیوں کے باوجود فی الوقت یہ شہر ناپُرساں ہی کہلا رہا ہے، حالانکہ، جس قدر یہ شہر جاگتا ہے اتنا کوئی دوسرا نہیں جاگتا، جتنا یہ سوچتا ہے اتنا کوئی سوچتا بھی نہیں، جس قدر یہ کماتا اور کھلاتا ہے اتنا کسی کو اور کوئی نہیں پالتا ،پھر بھی کراچی کا درد اور اس کا جغرافیہ سونے کے حروف سے بھی لکھ دیں تو سرخ فیتے کے نیچے ہی رہتا ہے۔

کیرانچی کا جغرافیہ جاننے سے زیادہ محسوس کرنیوالی چیز ہے، یہ ارباب اختیار کی لذت گاہوں اور محورِ عنایات سے بہت دور ایک گنجان آباد قسم کا بین الاقوامی گاؤں ہے، جس کا رقبہ کل ملکی غربت سے کئی گناہ وسیع اور تہی دست و تہی دامنوں کو پناہ دینے میں فزوں تر ہے، اسی لئے یہ ہر کس و ناکس کو پالنے میں ماں جیسا درجہ، درد، جذبہ اور وسعت قلبی رکھتا ہے، مگر اس کا اپنا شناور کوئی نہیں۔

کراچی کا جغرافیہ وہاں سے شروع ہوتا ہے ،جہاں پہ یہ ختم ہونا چاہیے، مگر عوام الناس کو ہرگز قبول نہیں کہ آغوشِ مادر جیسے اس سائبان کا رقبہ کہیں پہ ختم ہو اس لیے یہ تین اطراف سے شروع ہی رہتا ہے، عوام کو کراچی سے ایسا گراں قدر عشق ہے کہ خدانخواستہ ،جہاں کہیں پہ ختم ہونے لگے وہیں سے دوبارہ اسے شروع کرا لیتے ہیں، یہ خاصیت پھیلاؤ کسی اور شہر بلکہ درجہ حرارت سے پھیلنے والی گیسوں میں بھی کم ہی پائی جاتی ہے، سائنسدان کہتے ہیں یہ کائنات ہر لمحہ پھیل رہی ہے، ہو سکتا ہے انہوں نے کراچی کو بے حساب پھیلتا ہوا دیکھ لیا ہو۔

کراچی کی سب سے بڑی پہچان اس کی نئی آبادیاں ہیں، یہ اتنی کثرت سے پیدا ہوتی ہیں کہ ان کے نام رکھنے کےلئے کم پڑ جاتے ہیں، لہذا جس جگہ جو چیز غالب اکثریت میں نظر آئے وہی اس علاقے کا نام تجویز کر دیا جاتا ہے یعنی بہار کالونی، مچھر کالونی، گیدڑ کالونی، بھینس کالونی اور کنواری کالونی وغیرہ وغیرہ حالانکہ پہلا مکان بننے کے بعد اسے کنواری کہنا کافی عجیب سا لگتا ہے لیکن کراچی میں کسی بات پر بھی اتفاق رائے پیدا ہو سکتا ہے، اس میں کچھ عجب نہیں، یہاں نااتفاقی کا اصول بھی یہی ہے۔

کراچی کو رنگوں اور رنگی ہوئی چیزوں سے بہت پیار ہے ،اس لیے، یہاں ہر چوک کو چورنگی کہتے ہیں، ان چورنگیوں کی بھیڑبھاڑ میں پرفیوم چوک بھی ہے، بلاشبہ یہ دنیا کا پہلا خوشبودار چوک اور سب کی پسندیدہ جگہ ہے، یہاں پہنچ کے آپ ناک پر سے رومال ہٹا سکتے ہیں اور کھل کے سانس بھی لے سکتے ہیں لیکن یہ بھولنے والی بات نہیں کہ اکثر وارداتوں میں یہی چوک ملوث ہوتا ہے اس لیے یہاں سے جلدی جلدی گزرنا پڑتا ہے۔

دوسری مشہور چُوک یا چَوک ناگن چورنگی ہے لیکن ناگن دیکھنے کےلئے وہاں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ طبیعت عاشق مزاج اور شاعرانہ ہو تو ہر جگہ ایسی ناگنیں مل جاتیں ہیں جن کا ڈسا ہوا پانی نہیں مانگتا، صرف اپنا کریڈٹ کارڈ واپس مانگتا ہے۔

کہیں بھی ایک اور کراچی آباد کرنا ہو تو بہت آسان سا کام ہے، نہ کوئی پلاننگ چاہئے نہ کوئی انفراسٹرکچر درکار ہے، بس ایک لاکھ گاؤں کسی کھلی جگہ پر منتقل کر دیں، پھر کئی سال تک اس ذخیرے کو کوئی بھی نظرِ رحمت سے نہ دیکھے تو بیس سال بعد نیا کراچی تیار ہو جائے گا، مگر چونکہ یہ سمندر کے بغیر ہوگا لہذا اسے سلیمانی کراچی یا ڈائیٹ کراچی کہنا ہی مناسب ہوگا اس لیے کہ اصلی جیسا مزا، تکلیف، درد یا ریوینیو اس میں بہرحال پیدا نہیں ہو سکتا خواہ کتنی ہی دھوپ کیوں نہ لگوا لی جائے یا کتنا ہی پان کیوں نہ پھیلا دیا جائے۔

کراچی کی ہر آبادی اسے بسانے والوں کے ذوقِ آرٹ کی بہترین نمائندہ تصویر ہے۔ایبسٹریک آرٹ کا جو بہترین نمونہ کراچی کی ساخت میں پیش کیا گیا ہے، یہ ٹاؤن پلانرز کی گہری نیند اور شہریوں کی اسی قدر بیداری کا عکاس ہے، اس پر گارنشنگ کےلئے تجاوزات کی گلکاری بھی نہایت مہارت کیساتھ کی گئی ہے اور اس تصویر میں حقیقی رنگ بھرنے کے لیے جا بجا گہرا سیاہی و عنابی مائل پانی بھی مستقل بنیادوں پر چھوڑا گیا ہے، ان تمام نقش و نگار کی حفاظت کا ذمہ کچھ ٹاؤن کمیٹیوں نے لے رکھا ہے۔

علاوہ ازیں کراچی ایک ملٹی اسٹوری شہر بھی ہے، جتنا یہ اطراف میں پھیلتا ہے، ہمہ وقت اتنا ہی اوپر بھی جاتا ہے۔

الغرض دنیا ایک گلوبل ولیج ہے، جس کے اندر کراچی ایک بہت بڑا برِاعظم ہے جو بحرالکاہل قسم کے شہری اداروں کے اردگرد متمکن ہے، جس کے اندر عوام الناس نے اپنی مدد آپ کے تحت کم و بیش ایک لاکھ گاؤں بحسنِ خوبی ٹھونس رکھے ہیں اور خود اسی زنجبیل کی پہنائیوں میں جیسے تیسے بن پڑے آباد ہیں۔

کراچی ادیبوں کا شہر ہے، اس میں نامور سے زیادہ گمنام ادیب پائے جاتے ہیں، جسے یقین نہ آئے وہ شہر کی دیواریں دیکھ کے یقین کر سکتا ہے، کراچی پر جتنا کچھ لکھا جا چکا ہے اس سے زیادہ لکھنے کی گنجائش موجود ہے، مگر دیواروں پر اب اتنی جگہ باقی نہیں رہی۔

کراچی میں ٹرانسپورٹ کا بھی ایک وسیع ترین نیٹ ورک قائم ہے جو برسوں کی ان تھک محنت سے الجھایا گیا ہے، یہاں بس کے آگے اس کی منزل واضع الفاظ میں لکھنے کی بجائے صرف رُوٹ نمبر لکھ دیا جاتا ہے، تاکہ جسے پتا ہے وہ بس پر سوار ہو جائے۔

کراچی میں انتظامات کی نگرانی کےلئے ایک میئر اور باقی ہر طرف ائیر ہوتی ہے، جہاں ہوا نہ ہو وہاں بھی سب کچھ ہوا ہی میں ہوتا ہے، یہاں کچھ اور ملے نہ ملے ہر طرف کھلی ہوا ضرور ملے گی جو پانی کی دیوی کی طرف سے چلائی جاتی ہے، پانی کی دیوی بھی سرکاری اداروں کی طرح آدم زاد سے بیزاری و لگاوٹ کے ملے جُلے احساس کی بنیاد پر شہر سے دور سمندر پہ اپنا تخت بچھا کے براجمان رہتی ہے۔

شہر کے پُرفضا مقامات میں گوٹھ ابراہیم حیدری کا مقام سب سے نمایاں ہے، اس فضا کا صحیح ادراک یا آگہی کا عذاب صرف کورنگی کریک والوں کو پتا ہے، یہاں کی فضا ہمیشہ ماہی کی یاد سے مخمور رہتی ہے، خاص طور پہ شہر میں صبح کے وقت فشریز کی طرف سے چلنے والی ہواؤں کو عطرالحوت اور حیدری گوٹھ کی طرف سے چلنے والی ہواؤں کو محتاط ادبی زبان میں نسیمِ حیدری کہا جاتا ہے، بادِ نسیم یہاں بعدِ نسیم یا مابعد ازمنۂ قدیم کا درجہ رکھتی ہے، یہ صرف ان دنوں میں آتی ہے جب ماہی گاہوں میں یومِ رخصت ہو اور ایسا کوئی دن سو سال بعد پورن ماشی کی کسی رات کو ہی آتا ہوگا…شائد…اور چپ چاپ اپنی لطافتِ حسنہ محسوس کرائے بغیر ہی گزر جاتا ہوگا۔

شہر کی نمایاں نشانیوں میں کئی عمارتیں اور ایک امارت قابل ذکر ہیں، عمارات میں کئی پلازے شامل ہیں جبکہ امارت میں ایک ناظم اعلیٰ کا عہدہ شامل ہے، عمارتوں کا شمار شہر کی چیدہ چیدہ نشانیوں میں ہوتا ہے جبکہ امارت کا شمار شہر کی پیچیدہ نشانیوں میں ہوتا ہے، یہاں عمارتوں اور امارتوں دونوں پر سیکیوریٹی کا معقول انتظام رکھا جاتا ہے، تاکہ ہوا کے تیز دباؤ سے کوئی موج میں نہ آجائے، ان کے جھکنے کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے ان کے اوپر نظر رکھنا بہرحال ضروری ہو جاتا ہے۔

شہر میں بہت سے دیگر محکمے بھی قائم ہیں ،جن میںایک محکمہ صفائی کا توازن درست کرنے پر بھی مامور ہے جس نے سوک سینس اجاگر کرنے کےلئے جگہ جگہ کچرا کنڈیاں بنوا رکھی ہیں لیکن یہ چونکہ کوڑا پھینکنے کے حقیقی مقام سے سوا دو فٹ پرے بنائی گئی ہیں، اس لیے کوڑا ان کنڈیوں میں گرنے کی بجائے دوفٹ ادھر ہی رہ جاتا ہے، کوئی شہر اس نظام کو کاپی کرنا چاہے تو ایک مطالعاتی دورہ کرسکتا ہے، تاکہ انہیں سمجھ آسکے کہ تعمیرات سوادوفٹ کس طرف رکھ کے کرنی ہوں گی کہ کچرا ان کنڈیوں کے اندر جا سکے، ان کنڈیوں سے اٹھنے والے عود الکچر اور عطرالحوت کی باہم آمیزش سے جو فضائی مرکبات ترتیب پاتے ہیں ان کا توازن راست کرنے کیلئے یہاں مزید پرفیوم چوکس بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے، مگر اس کےلئے پہلے کوئی محکمہ بنانا پڑے گا۔

سیر وتفریح کےلئے تاحد نگاہ کچھ دیکھنا ہو تو لوگ سمندر دیکھ لیتے ہیں۔کراچی میں انسان تو ایک طرف بعض مادی اشیاء کو بھی پوری رواداری کیساتھ سکون کا سانس لینے کی مکمل آزادی حاصل ہے، اس کی خوبصورت مثال ہر فلائی اوور پر آڑے رخ بنی وہ خفیف سی نالیاں ہیں جن کے اوپر سے گزرتے وقت ہر گاڑی میں سے ڈب ڈب گھب گھب کی خوبصورت سی آواز کئی بار آتی ہے۔

کراچی میں زیادہ مشہور پان ہے، اس کے علاوہ یہاں دہاڑی اور نہاری بھی عام مل جاتی ہے، تفریح کےذرائع یہاں بہت کم ہیں اس لیےہر بندہ اپنی تفریح منہ میں رکھ کے گھومتا ہے اور بعد از شغلِ کامل قریبی کونے کھانچے، سڑک یا سیڑھی پر پچکاری مار کے اپنے سنتشت ہو چُکنے کی رسید بھی چھوڑ جاتا ہے۔

یہاں آپ اڑے سے ابے تک کسی بھی لہجے میں بات کر سکتے ہیں، سامنے والا مائنڈ کر جائے تو لہجہ بدل لیجئے، مگر شین ،قاف بہر طور درست رکھنا ہوگا، آپ کا قاف قواف کے اریب قریب نہ نکلا تو آپ کو خرخور یا لہوریا ہی سمجھا جائے گا ،جس کے ذمے دار آپ خود ہوں گے باقی شین کی اتنی ٹینسن‌ ہم خود بھی نہیں لیتے۔

کراچی کے لوگ بہت پُرخلوص ہوتے ہیں، بھیا کہہ کے بلانا ویسے بھی پیار محبت کی نشانی ہے، میل ملاقات سے بھی کبھی گریز پا نہیں ہوتے بلکہ آدھی رات کو بھی کسی سے ملنا ہو تو وہ باہر تھڑی پر ہی بیٹھا مل جاتا ہے، لہذا یہاں دوستوں سے ملنے جلنے کےلئے ڈرائینگ و ڈائیننگ کی بجائے صرف بازو کھلے رکھنے پڑتے ہیں۔

کراچی کے ہر گھر میں ایک ایسا فرد ضرور ہوتا ہے ،جس کی ڈیوٹی اپنے اہل خانہ کو آمدِ آب سے مطلع کرنا ہوتی ہے، تاکہ ہر کوئی آکے پانی کی زیارت کر لے، اس موقع پر کوئی کلی کرنا چاہے یا سونگھنا چاہے تو اس کام کی پوری آزادی دی جاتی ہے لیکن زیادہ فری ہونے کی کوشش میں پانی اسی بے نیازی سے واپس چلا جاتا ہے۔

پانی سے یاد آیا کہ ملک بھر میں جب بارشیں ہو رہی ہوں تو شاعر بیچارہ اہل کراچی کی خواہش کو اپنے الفاظ تو پہنا دیتا ہے لیکن حقیقت میں کراچی والوں کو بارش کا کوئی ذوقِ شاعرانہ لاحق نہیں ہوتا۔ کراچی والے بارش جیسی رومانٹک عیاشی افورڈ بھی نہیں کر سکتے۔

علاوہ ازیں کراچی میں وہ سب کچھ ہے جو آپ کے آس پاس کہیں بھی واقع ہے، امراء، غرباء، مساکین، ارب پتی، کھرب پتی، بزنس ٹائیکونز، جہلاء، درویش، عالم، استاد، قابلیت، پروفیشنل ازم، تفریح، جرائم، قدیم طرز کا اندرونِ شہر، پوش ایریاز، شاپنگ اریناز، لائف سٹائل، برانڈز، ماڈلنگ، شوبز، گرین بیلٹس، پارکس، جوگنگ ٹریکس، خوانچہ فروش، دھابے، فائیواسٹارز، قدیم و جدید بستیاں، موٹو ریس، سی۔کروز، فوڈسٹریٹس، آرکیالوجی، مونیومینٹس، سمندر کنارے، جیمخانے، جمنیزیم، سوشل کلبز، باغات، زراعت، فارم ہاؤسز اور وہ سب کچھ جو کہیں بھی ہو سکتا ہے وہ سب کچھ یہاں پر بھی موجود ہے بلکہ طرز معاش، معیشت و معاشرت کے جدید انداز فکر اور بیشتر رجحانات یہیں سے ترتیب پاتے ہیں اور یہیں سے پھیلتے و سکڑتے ہیں۔

شہر کراچی ایک مِنی پاکستان ہے، جیسے سب دریا یہاں آکے سمندر میں گرتے ہیں اسی طرح گلگت سے لیکر گوادر تک کا سارا کلچر یہاں آکے اس شہر کا ایک چہرہ بنتا ہے، یہ مہاجروں کا چہرہ ہے، وہ جو گجرات، کاٹھیاوار، دہلی، یو پی، سی پی، بنگال اور بہار سے آئے یا گلگت، چترال، سوات مردان، لہور، تربت، گوادر، سکھر یا نواب شاہ سے آئے ہوں، چند ماہی گیروں کی بستیاں چھوڑ کے باقی سب یہاں مہاجر ہیں خواہ دو نسلوں سے یہیں آباد ہوں، کوئی بھی مہاجر قابل نفرت نہیں، سب اپنے ہیں اور سب سچے اور کھرے پاکستانی ہیں۔