’بشیر مرزا‘ حقیقت پسندانہ اور تجریدی مصوری کے تصویر نگار

January 19, 2020

پاکستان کی حقیقت پسندانہ اور تجریدی مصوری کے نامور تصویر نگار بشیر مرزا المعروف بی ایم کی پیدائش8جون 1941ء کوامرتسرمیں ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کے گھر والوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔ بشیر مرزا نے 1958ء میں نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں داخلہ لیا اور 1962ء میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ 1965ء میں انہوں نے کراچی میں نائجیریا کے سفیر کی اقامت پر اپنی پہلی سولو نمائش کی۔ اسی برس کراچی میں پاکستان کی پہلی پرائیویٹ آرٹ گیلری ’دی گیلری‘کا آغاز کیا ۔ 1967ء میں ان کی مشہور ڈرائنگ سیریز ’’پورٹریٹ آف پاکستان ‘‘کا پورٹ فولیو منظر عام پر آیا۔ اس کے علاوہ ’’آرٹسٹک پاکستان‘‘ کے نام سے آرٹ جرنل شائع کیا۔

1971ء میں بشیر مرزا نے کراچی میں Lonley Girl کے نام سے اپنی پینٹنگز کی نمائش کی، جنہیں بعد ازاںسیول اولمپک آرٹ میوزیم کو تحفے میں دے دیا۔ حکومت پاکستان نےمصورانہ خدمات کے اعتراف کے طور پر23مارچ 1994ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔

بشیر مرزا 1994ء میں پاکستان کے ثقافتی اتاشی کے طور پر آسٹریلیا روانہ ہوگئے، لیکن جلد ہی سفارتی زندگی سے تنگ آگئےاور پھر 1996ء میں واپس پاکستان لوٹے اور کراچی میں آرٹ گیلری کھول لی۔ انہوں نے کئی دلکش نمائشوں کا اہتمام کیا۔ اگست 1999ء میں ان کے فن پاروں کی آخری نمائش چوکنڈی میں ہوئی۔

19جنوری 2000ء کو آپ کراچی میں وفات پا گئے اور ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔ پاکستان پوسٹ نے 14اگست 2006ء کو پاکستان کے دس عظیم مصوروں پر مبنی 40روپے مالیت کی’’ پینٹرز آف پاکستان‘‘ نامی ڈاک ٹکٹ شیٹ میں بشیر مرزا کو شامل کیا۔ آرٹ نقاد اور مصنف مارجوری حسین نے 2006ء میں بشیر مرزا کی سوانح حیات"Bashir Mirza: The Last of the Bohemians" کے نام سے انگریزی زبان میں لکھی، جس میں انہوں نے بشیر مرزا کو1960ء کی دہائی کے مصوروں کی نسل میں شاندار اور بہترین مصور قرار دیتے ہوئے کہا کہ بشیر بے باک انداز میں جرأت مندی سے اپنی بات کرتے اور اپنے ساتھی مصوروں کی صلاحیتوں کا بڑا احترام کرتے تھے۔

مصورانہ زندگی کے شب و روز

ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بشیر مرزا نے مسلم ماڈل اسکول کراچی میں داخلہ لیا۔ اسکول آتےجاتے وہ اکثر سینماؤں کے قد آدم بلبورڈز اور بینرز پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والے پینٹرز کے کام کودلچسپی سے دیکھتے۔ پہلی ڈویژن میں میٹرک کے امتحانات پاس کرنے کے بعد ان کے والدین نے مطالبہ کیا کہ وہ کچھ پیسے کمانا شروع کریں۔ ڈرائنگ میں دلچسپی کا پتہ چلنےپر انھوںنے مشورہ دیا کہ بطور ’’سائن بورڈ پینٹر‘‘ کام کی ابتدا کریں۔ بشیر مرزا نےپینٹر کی ملازمت کے لئے درخواست دی، جہاں انہیں کہا گیا کہ پہلے آزمائشی بنیاد پر کام دیا جائے گا۔

ابتدا میں وہ کافی پر امید تھے کہ کام بن جائے گا۔ وقت کے ساتھ ساتھ انہیںمزید ذمہ داری سونپ دی گئی اور پھر انھیں آٹھ فٹ بڑی پینٹنگ کی ذمہ داری دی گئی۔ تاہم جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ، وہ اس کام میںاکتاہٹ محسوس کرنے لگے کیوں کہ کام بے تحاشا تھا اور معاوضہ بہت کم۔ انھوںنے بھانپ لیا تھا کہ مالک انہیں تجارت کے گُر بتانے اور سکھانے سے گریزاں ہے۔

اس طرح سخت مایوسی کے عالم میں ایک دن انھوں نے یہ ملازمت چھوڑ دی۔ ان کی زندگی کا یہ مشکل وقت تھا، تاہم یہی وقت ڈرامائی تبدیلی کا باعث بنا۔ ایک روز پارک میں بنچ پر بیٹھے ہوئے وہ اخبار میں ’’ملازمت کےمواقع‘‘ کےاشتہارات دیکھ رہے تھے کہ ان کی نظر نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں داخلے کے لئے درخواستیں طلب کرنے کے اشتہار پر پڑی اور انھوں نے وہاں داخلے لینے کا فیصلہ کرلیا۔

1958ء میں نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے پروفیسر ایم آر اسپونبرگ نے پرنسپل کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی تو فن تعمیر، ڈیزائن اور فائن آرٹ کے جدید طریقوں کو متعارف کرایا۔ وہ پاکستان کے روایتی فنون کی دل کی گہرائیوں سےقدر کرتے تھے۔انہوں نے طلبہ پر زور دیا کہ وہ غیروں کے فن پاروں کو دیکھنے کے بجائے اپنی مشرقی اقدار اور ماحول کے مطابق تخلیقی کام سرانجام دیں۔

یہی وقت بشیر مرزا کے لئے بہترین ثابت ہوا۔ انٹرویو کے لئے ڈرائنگ کا پورٹ فولیو اکٹھا کرکے وہ شرٹ پر ٹائی لگائے شاکر علی سے پہلی ملاقات کے لئے روانہ ہوئے۔ عملی امتحان میں بشیر مرزا نے داتا گنج بخش ؒ کے عرس اور میلے کی بڑی خوبصورتی کے ساتھ عکاسی کی، شاکر علی نے فوراً ہی ان کی صلاحیتوں کو پہچان لیا۔

ان کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے انہوںنے بشیر مرزا سے ہمدردی کا اظہار کیا اور ان کے وظیفے کا انتظام کیا۔ انہیں ایک پبلشر کے ساتھ شام کی نوکری بھی مل گئی، جہاں انہیں فیض احمد فیض سمیت اپنے وقت کے بہت سارے ادباء و شعراء سے ملنے کا موقع ملا۔ شاکر صاحب نے بشیر مرزا کی مصورانہ ذہانت کو پروان چڑھانے کے لیے ذاتی دلچسپی لی۔ بشیر مرزا بھی اپنے استاد کی عنایت کبھی نہیں بھولے۔ شاکر صاحب ان کے پہلے ہیرو تھے، وہ ساری زندگی ان کی قدر کرتے رہے۔ مصوری میں کمالِ فن کا سلیقہ بھی انہی سے پایا۔