’منو بھائی‘ ایسا کہاں سے لاؤں، تجھ سا کہیں جسے!

January 19, 2020

بچپن میںپاکستان ٹیلی ویژن پر جب ’’سونا چاندی‘‘ ڈرامہ چلتا تھا تو تحریر کے ساتھ ’’منو بھائی ‘‘ لکھا نظر آتا تھا، تب سے اس نام سے ایک انسیت سی ہوگئی تھی اور جب منو بھائی کی مزید تماثیل و تحاریر سے آگاہی ہوئی تو کشف ہوا کہ چھوٹے قد کا یہ انسان درحقیقت ایک قدآور شخصیت کا مالک ہے اور ہمارا ملک خوش قسمت ہے کہ اسے منو بھائی جیسا گوہر نایاب ملا۔

منو بھائی کو ہم اپنے معاشرے کا ضمیر بھی کہتے تھے کیونکہ وہ نہ صرف اپنے کالموںکے ذریعے سماج میںپائی جانے والی برائیوںپر لعنت ملامت کرتے تھے بلکہ اپنے ڈراموں سے معاشرے کی زبوں حالی کو بھی سامنے لاتے تھے ۔ ایک بار پیٹی وی کے پروڈیوسر عارف وقار نے منو بھائی سے ایک سلسلہ وار کھیل لکھنے کی فرمائش تو وہ فوراً مان گئے لیکن ساتھ ہی کچھ شرائط بھی رکھ دیںکہ اس ڈرامے میں کوئی گلیمر نہیںہوگا، نہ ہی محل نما گھریا بنگلہ، نہ لمبی لمبی کاریں اور نہ منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی بولنے والے الٹراماڈرن کردار بلکہ یہ کہانی گلی محلے کے حقیقی کرداروں کی زبانی پیش کی جائے گی۔ اس کےبعد ناظرین منو بھائی کے لکھے پنجابی کھیل ’’کی جاناں میںکون‘‘ کو دیکھ کر اش اش کر اُٹھے۔

منو بھائی اپنی صحافتی زندگی کے آغاز میں کافی عرصہ رپورٹنگ کے شعبے سے منسلک رہے، اسی لیے سماج کا کوئی بھی پہلو ان سے دامن نہ بچا سکا۔ منو بھائی نے تمثیل نگاری کا فن کسی سے نہیں بلکہ اپنے اردگرد چلتے پھرتے کرداروں سے سیکھا۔ اسی لئے ان کے ڈراموں کے کردار آج بھی دیکھنے والوںکے ذہن کے دریچوں میں موجود ہیں۔ ڈرامہ سیریل سونا چاند ی کے علاوہ طویل دورانئے کے کھیل ’’خوبصورت‘‘ اور ’’گمشدہ ‘‘ آج بھی لوگوںکو یاد ہیں۔

سلسلے وا ر کھیل ’’ آشیانہ ‘‘ میں وہ خاندانی اقدار سے جڑے مسائل کو سامنے لائے تو مشہور ڈرامہ ’’دشت ‘‘ کے ذریعے انھوں نے بلوچستان کی صحرائی ثقافت کو اپنے قلم کی زینت بنایا۔ اس کے علاوہ منو بھائی نے مشہور ڈارمہ ’’جھوک سیال‘‘ کی ڈرامائی تشکیل بھی دی، یہ ڈرامہ دیہاتی منظر نگاری اور کردار نگاری کے حوالے سے ایک سنگ میل گردانا جاتا ہے۔

مختصر سوانح

6فروری 1933ء کو پنجاب کے شہر وزیر آباد میں پیدا ہونے والے منو بھائی کا اصل نام منیر احمد قریشی تھا۔ ان کے دادا میاں غلام حیدر قریشی مسجد کے امام تھے اور گزر بسر کیلئے کتابت اور کتابوں کی جِلد سازی کیا کیا کرتے تھے۔ منو بھائی کے والد عظیم قریشی پاکستان ریلوے میںملازم تھے۔

پنجابی کے مشہور شاعر شریف کنجاہی منو بھائی کے ماموں تھے۔ 1947ء میں میٹرک پاس کرکے منو بھائی گورنمنٹ کالج کیمبل پور ( اٹک ) چلے گئے ، وہاں انہیں غلام جیلانی برق، پروفیسر عثمان اور مختار صدیقی جیسے اساتذہ کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ یہیں سے انہوں نے پنجابی شاعری میں طبع آزمائی شروع کی ۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1950ء کی دہائی کے اواخر میں منو بھائی نے راولپنڈی کے اخبار ’تعمیر‘ میں50روپے ماہوار پر ملازمت اختیار کی اور اسی اخبار میں’’اوٹ پٹانگ‘‘ کے نام سے کالم لکھنے کی شروعات کی۔ انھوںنے امروز اخبار میںاپنی نظم ارسال کی تو اس کے مدیر معروف شاعرودانشور احمد ندیم قاسمی نے انہیں قلمی نام ’’منو بھائی‘ ‘ عطا کیا، جس سے وہ ساری زندگی معروف رہے۔

قاسمی صاحب نے منو بھائی کو اپنے پاس بلالیا، یہاں صحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے ’’ گریبان ‘‘ کے نام سے کالم نگاری شروع کی۔ اس دور میں حکومت ِ وقت سے صحافیوںکے معاوضے پر ہونے والے تنازعے پربطور ِ سزا ان کا تبادلہ امروز ملتان کردیا گیا، جہاں سے انہیں مساوات لے آیا گیا۔ مساوات کے بعد منو بھائی جنگ لاہور سے وابستہ ہوگئے اور تادم مرگ جنگ میں ’’گریبان ‘‘ کے نام سے کالم لکھتے رہے۔

انہیں ٹی وی کیلئےڈرامہ نویسی کی جانب لانے والے اسلم اظہر تھے ، جن کیلئے انہوں نے 1965ء میں جنگ کے موضوع پر ڈرا مہ ’’پل شیر خان‘‘ لکھا تھا۔

کالم نگاری و شاعری

منو بھائی علمی، ادبی اور تخلیقی شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک سچے، کھرے اور سادہ انسان تھے۔ وہ یاروںکے یار اور دوسروں سے محبت کرنے والی شخصیت تھے۔ سماج کا درد رکھنے والے منو بھائی نے روزنامہ جنگ میںاپنے فکاہیہ کالم ’’گریبان ‘‘ کے ذریعےمعاشرے کی برائیوں اور لوگوںکے رویّوں پر اپنی روایتی شگفتگی سے طنز کے ڈونگرے برسائے۔ کالموں کے ساتھ ساتھ انہوںنے اپنےاردگرد جو کچھ دیکھا وہ پنجابی شاعری میںسمودیا۔

ان کی نظم ’’ اجے قیامت نئیں آئی ‘‘ میںآپ اپنے ارد گرد ہونے والی اَنہونیوںپر منو بھائی کے مخصوص انداز میںطنز اور نشتر برستے محسوس کرسکتے ہیں۔ دراصل منو بھائی اس دشت کی سیاحی میں طویل جدو جہد اور سیاست کے گہرے مشاہدات کو اپنی شاعری، کالم نگاری اور تمثیل نگاری میںشامل کیے بغیر نہ رہ سکے، اسی لئے ان کا لکھا معتبر ٹھہرا۔ انہوںنے غیر ملکی شاعری کے تراجم کو بھی اپنی مہارت سے حسن بخشا۔

ان کی مشہور تصانیف میں’’اجے قیامت نئیں آئی ( پنجابی شاعری کا مجموعہ)، جنگل اداس ہے ( منتخب کالموںکا مجموعہ)، فلسطین فلسطین، محبت کی ایک سو ایک نظمیں اور انسانی منظر نامہ ( تراجم ) شامل ہیں۔ 2007ء میں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ منو بھائی 19 جنوری 2018ء کو ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔