پاکستان میں صحت کے شعبے کو انقلابی لیڈرز کی ضرورت ہے، ڈاکٹر عبدالباری

January 18, 2020

انڈس ہیلتھ نیٹ ورک کے سربراہ اور معروف پاکستانی معالج ڈاکٹر عبدالباری خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صحت کے شعبے کو منیجرز کے بجائے انقلابی لیڈرز کی ضرورت ہے، لیڈر شپ کے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں صحت کے شعبے کا برا حال ہے، چند سالوں میں ایک اسپتال سے بارہ اسپتالوں پر مشتمل انڈس ہیلتھ نیٹ ورک کا قیام اور سالانہ 130 ملین ڈالر کا بجٹ رکھنے والا ہیلتھ نیٹ ورک پاکستان میں صحت کے شعبے کے لیے مشعل راہ ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتے کے روز بین الاقوامی ٹریننگ اور ریسرچ کے ادارے فرینکلن کووی اور انسٹیٹیوٹ آف لیڈرشپ ایکسیلینس پاکستان کے درمیان مفاہمت کی یادداشت کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

تقریب کا اہتمام انسٹیٹیوٹ آف لیڈرشپ ایکسیلینس کی جانب سے کراچی اسکول آف بزنس اینڈ لیڈرشپ میں کیا گیا تھا، جس سے پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی رہنما عندلیب عباس، فرینکلن کووی کے جنرل منیجر اسٹیون فٹزگیرالڈ، پیشنٹ سیفٹی کے بین الاقوامی ماہر پروفیسر ڈاکٹر پال باراش، انسٹیٹیوٹ آف لیڈرشپ ایکسیلینس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ذکی الدین احمد، فرینکلن کووی کی پاکستان کی منیجر مریم وزیرزادہ، ہارون قاسم، سید جمشید احمد اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

انڈس ہیلتھ نیٹ ورک کے سربراہ پروفیسر عبدالباری خان کا کہنا تھا کہ اس وقت صحت کے شعبے اور بڑے اسپتالوں کو منیجرز چلا رہے ہیں، جن میں اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ وہ بڑے فیصلے کر سکیں اور صحت کے شعبے میں انقلابی تبدیلیاں لاسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اسپتالوں اور صحت کے شعبے کو انقلابی قائدین مل جائیں تو موجودہ وسائل میں رہتے ہوئے صحت کے شعبے میں انقلابی تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں جس کی ایک مثال انڈس ہیلتھ نیٹ ورک ہے جو چند سالوں میں ایک اسپتال سے بارہ اسپتالوں کے وسیع نیٹ ورک میں تبدیل ہوچکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے انڈس اسپتال قائم کرنے کا خواب دیکھا تو لوگوں نے اسے 'دیوانے کی بڑ' قرار دیا اور کسی نے کہا کہ یہ ماڈل چھے مہینے یا زیادہ سے زیادہ ایک سال تک ہی چل سکتا ہے لیکن اللّٰہ کے فضل و کرم سے اس وقت انڈس اسپتال کا بجٹ 130 ملین ڈالر سالانہ ہے، جہاں پر ہر سال 30 لاکھ سے زائد مریضوں کو صحت کی سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔

پی ٹی آئی کی سینئر رہنما عندلیب عباس کا کہنا تھا کہ اس وقت صحت کے شعبے کو مالی مشکلات کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود اس وقت چند ایسے اسپتال اور بڑے اسپتالوں میں چند ایسے ڈپارٹمنٹ موجود ہیں، جہاں کے سربراہان مالی مشکلات کے باوجود انتہائی بہتر طریقے سے مریضوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔

عندلیب عباس جوکہ فرینکلن کووی کی تربیت یافتہ ماسٹر ٹرینر بھی ہیں کا کہنا تھا کہ فرینکلن کووی اور انسٹیٹیوٹ آف لیڈرشپ ایکسیلینس کے درمیان مفاہمت کی یادداشت سے پاکستانی ماہرین صحت اور اسپتالوں کے سربراہان کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا جس کے نتیجے میں پاکستانی مریضوں کی زندگیاں مزید بہتر ہونگی۔

فرینکلن کووی امریکا کے جنرل منیجر اسٹیون فٹزگیرالڈ نے اس موقع پر بتایا کہ ان کا ادارہ امریکا کے چند بڑے اسپتالوں کے علاوہ دنیا کے کئی اسپتالوں اور صحت کے اداروں کے سربراہان کو تربیت فراہم کرچکا ہے جس کے نتیجے میں ان اداروں کے مریضوں، ملازمین اور عملے کے لئے آسانیاں پیدا ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت فرینکلن کووی دنیا کے 160 ممالک میں ماہرین کو تربیت دینے والا ادارہ ہے جو کہ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر سالانہ کروڑوں ڈالر خرچ کرتا ہے۔

پیشنٹ سیفٹی کے عالمی ماہر پروفیسر ڈاکٹر پال باراش کا کہنا تھا کہ اس وقت صحت کے شعبے میں عدم اطمینان اپنے عروج پر ہے اور امریکا جیسے ملک میں سیکڑوں ڈاکٹر ہرسال خودکشی کر لیتے ہیں، صحت کے شعبے میں پائی جانے والی بے اطمینانی کے نتیجے میں مریضوں کو ملنے والی سہولیات متاثر ہوتی ہیں، ایک اچھا لیڈر کم وسائل کے باوجود کسی بھی اسپتال کو نہ صرف مریضوں کے لیے بلکہ ڈاکٹروں اور دیگر عملے کے لیے بھی انتہائی محفوظ ادارے میں تبدیل کر سکتا ہے۔

انسٹیٹیوٹ آف لیڈرشپ ایکسیلنس کے سربراہ ڈاکٹر زکی الدین احمد کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں پاکستان میں صحت کے شعبے کو وژنری لیڈرز کی ضرورت ہے ایسے لیڈر اوپر سے نہیں آئیں گے بلکہ ہمیں اپنے ماہرین صحت کو لیڈرشپ کی صلاحیتوں سے آراستہ کرنا ہوگا۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ فرینکلن کووی اور انسٹیٹیوٹ آف لیڈرشپ ایکسیلینس کے درمیان ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں پاکستانی اسپتالوں اور صحت کے شعبے میں انقلاب برپا ہو جائے گا۔

تقریب سے ہارون قاسم، سید جمشیداحمد اور مریم وزیر زادہ نے بھی خطاب کیا اور امید ظاہر کی کہ اس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان میں صحت کے شعبے میں انقلابی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوں گی۔