آٹا، چینی اور مہنگائی

January 22, 2020

بعض بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں کے خوش کن تجزیوں اور حکومتی دعوئوں کے برخلاف ملکی معیشت پر کتنا دبائو ہے، اس کا اندازہ روز افزوں مہنگائی سے لگانا مشکل نہیں سبزیوں، پھلوں، انڈے، مرغی اور دوسری ضروری اشیا کے بعد اب آٹے اور چینی کے نرخوں میں بےمحابا اضافے نے کم آمدنی والے طبقے کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ گیس اور بجلی کے نرخ بھی جو پہلے ہی عام آدمی کی استطاعت سے باہر ہیں، مزید بڑھانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ مہنگائی کے اس طوفان کی موجودگی میں آٹے کے بحران نے غریب کی زندگی دو بھر کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی چینی کا بحران بھی سر اٹھا رہا ہے جس کے نرخوں میں گراں فروشوں نے اچانک اضافہ کر دیا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جو گندم کے معاملے میں نہ صرف اپنے عوام کی طلب آسانی سے پوری کر سکتا ہے بلکہ اسے برآمد کرکے قیمتی زرمبادلہ بھی کماتا ہے مگر انتظامی بدنظمی اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث ایسے بحران نے جنم لیا جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ غلط تخمینوں کی وجہ سے حکومت نے تین لاکھ ٹن گندم برآمد کردی۔ اب اس کمی کو دور کرنے کے لئے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اتنی ہی گندم درآمد کرنے کی منظوری دی ہے۔ گویا پہلے سستے داموں گندم برآمد کرکے کسانوں کو نقصان پہنچایا گیا، اب مہنگی گندم باہر سے منگوا کر عوام کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ گندم کی کمی کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں ایک تو یہ کہ پچھلے سال پیداواری ہدف پورا نہیں ہو سکا۔ دوسرے، ذخیرہ اندوزوں نے بلیک مارکیٹ میں فروخت کے لئے بڑی مقدار میں گندم اسٹاک کر لی، تیسرے، کافی مقدار میں گندم برآمد بھی کی گئی اس کے علاوہ اسمگل بھی ہو گئی اس کے باوجود اطلاعات کے مطابق 42لاکھ ٹن گندم اب بھی سسٹم میں موجود ہے جسے جاری کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے مگر ضروری اقدامات بروقت نہ ہونے کی جہ سے آٹے کا بحران پیدا ہوگیا۔ گورنر پنجاب نے اس حوالے سے درست کہا کہ آٹے کے معاملے میں حکومت سے کوتاہیاں ہوئی ہیں۔ یہ انہی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے کہ لوگ پیسے ہاتھ میں لیکر مارے مارے پھر رہے ہیں اور انہیں آٹا نہیں ملتا۔ پشاور میں نان بائیوں نے روٹی کی قیمت بڑھانے کی اجازت نہ ملنے پر تندور بند کر دیئے ہیں۔ سینیٹ میں اپوزیشن نے آٹے کے بحران پر شدید احتجاج کے بعد واک آئوٹ کیا، وزیراعظم نے بحران پر قابو پانے کے لئے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ہے مگر اس کے باوجود تاحال صورتحال میں بہتری کے آثار نظر نہیں آرہے ۔ آٹے کے بحران کی آڑ میں شوگر مافیا نے چینی کے نرخوں میں اضافہ کردیا ہے۔ ایک بوری چینی کی قیمت 6860سے بڑھا کر 7340روپے کر دی گئی۔ پرچون میں اب چینی 80روپے فی کلو فروخت ہونے لگی ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جلد ہی سو روپے فی کلو ہونے والی ہے حکومتی وزرا اس صورتحال کی ذمہ داری بھی گزشتہ حکومتوں پر ڈال رہے ہیں اور نوید سنا رہے ہیں کہ یہ وقتی پریشانی ہے اس کا حل جلد نکل آئے گا۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو مگر اس کے لئے حکومت کے کار پردازوں کو سنجیدگی سے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا مہنگائی پر قابو پانے کے لئے انتظامی کنٹرول موثر بنانا ہو گا۔ درست فیصلے کرنا ہوں گے، ضروری اشیا کی رسد یقینی بنانا ہو گی۔ قیمتوں پر کنٹرول رکھنا ہو گا اور منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کی سرکوبی کرنا ہو گی۔ اس سلسلے میں قانون سازی ضروری ہو تو وہ بھی کرنا ہوگی۔ اگرچہ یہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں، خالصتاً انتظامی معاملہ ہے مگر سیاسی عدم استحکام کے اس مرحلے پر اگر اپوزیشن کی تجاویز پر غور کر لیا جائے تو یہ بھی عوامی مفاد میں ہو گا۔ مناسب ہو گا کہ بحران کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے۔