سو ارب سے دو ارب تک

January 22, 2020

صرف دو سال قبل یعنی 2018تک حکومتِ پاکستان درآمد شدہ گاڑیوں سے حاصل ہونیوالی ڈیوٹیز کی مد میں سو ارب روپے سالانہ کمارہی تھی جبکہ گاڑیوں کی یہ درآمدات حکومت کے سرکاری خزانے پر کسی طرح کا بوجھ بھی نہ تھیں کیونکہ اس کی اجازت حکومتِ پاکستان نے ان ستر لاکھ سے زائد بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو دے رکھی تھی جو ملک کی معیشت میں سالانہ پچیس ارب ڈالر سے جان ڈالتے ہیں۔ حکومتی پالیسی کے تحت جو پاکستانی دو سال سے زائد پاکستان سے باہر گزار لے وہ ایک گاڑی بھاری بھرکم ڈیوٹی ادا کرکے پاکستان لا سکتا ہے۔ یہ پاکستانی اپنی لائی ہوئی گاڑیوں کی مد میں حکومت کو سالانہ سو ارب روپے ڈیوٹیز کی مد میں ادا کررہے تھے لہٰذا حکومتی خزانے میں صرف ٹیکس آتا تھا، جاتا یہاں سے کچھ بھی نہ تھا۔ پھر سالانہ پینتیس ہزار گاڑیوں کی درآمد سے لاکھوں پاکستانیوں کو روزگار ملنے لگا، عوام کو معلوم ہوا کہ معیاری گاڑی کیا ہوتی ہے، ائیر بیگ کس مرض کی دوا ہوتے ہیں، ایک لیٹر میں بیس سے پچیس کلومیٹر چلنے والی ہائبرڈ گاڑیوں کے بارے میں بھی معلوم ہوا، یہ بھی معلوم ہوا کہ جو غیر ملکی کمپنیاں پاکستان میں ٹین ڈبے جیسی پتلی چادر کی گاڑیوں کی باڈیاں تیار کرکے عوام کی جان سے کھیل رہی ہیں وہی کمپنیاں اسی قیمت میں اپنے ملک میں لوہا لاٹ جیسی گاڑیاں فروخت کررہی ہیں۔ پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیاں پیٹرول بھی زیادہ استعمال کرتی ہیں جبکہ پاکستان میں ہزاروں لوگ ایکسیڈنٹ کے دوران صرف ایئر بیگز نہ کھلنے کی وجہ سے اپنی جان کھو بیٹھے لیکن آج تک کسی کمپنی پر جرمانہ عائد نہیں کیا گیا۔ جاپان سمیت کئی ممالک کی گاڑیاں ہائبرڈ اور بجلی سے چلنے کی بدولت اب بیس سے پچیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں جس سے ان ممالک میں پیٹرول کا استعمال کافی کم ہو گیا ہے جبکہ ہلکی سی ٹکر کی صورت میں بھی گاڑیوں کے معیاری ایئر بیگز کار سواروں کی جان بچانے کے لیے جھٹ سے کھل جاتے ہیں، دوسری طرف پاکستان جیسے ملک میں جہاں پیٹرول نایاب اور مہنگا ہونے کے سبب ملک کی معیشت پر بوجھ سمجھا جاتا ہے یہاں آج تک مقامی اسمبلرز نئی ٹیکنالوجی پر چلنے والی گاڑیاں متعارف کرانے میں ناکام رہے ہیں جب مینو فیکچرنگ کے نام پر اسمبلنگ کرکے اربوں روپے کا نفع کمانے والے مافیا کو اندازہ ہوا کہ باہر سے آنیوالی گاڑیوں کے باعث پاکستانی عوام کو اچھی، معیاری اور نئی ٹیکنالوجی سے لیس گاڑیاں سستے داموں میسر آنے لگی ہیں تو اس مافیا نے شدید دبائو اور اثر ورسوخ استعمال کر کے موجودہ حکومت سے بیرونی گاڑیوں پر پابندی عائد کروا دی جس سے سالانہ پینتیس ہزار گاڑیوں کی درآمد اب کم ہو کر صرف دو ہزار گاڑیوں تک رہ گئی ہے جبکہ حکومت کو سالانہ سو ارب روپے جو ڈیوٹیز کی مد میں حاصل ہوتے تھے وہ کم ہو کر صرف دو ارب تک رہ گئے۔ جس کے بعد اب عوام کو مقامی طور پر اسمبل کی ہوئی غیر معیاری گاڑیاں استعمال کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے، اس حوالے سے آل پاکستان موٹر ڈیلر ایسوسی ایشن کے صدر ایچ ایم شہزاد کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی غیر ملکی کمپنی پاکستان میں آٹو موبائل کے شعبے میں سرمایہ کاری کرتی ہے تو حکومت اُسے خصوصی مراعات اِس شرط کے ساتھ دیتی ہے کہ وہ کمپنی پانچ سال کے اندر اندر گاڑی کی تمام مینوفیکچرنگ پاکستان میں منتقل کردے گی تاہم پاکستان میں کام کرنے والی کمپنیوں نے تیس تیس سال سے زائد گزر جانے کے باوجود بھی سو فیصد مینوفیکچرنگ تو کیا ساٹھ فیصد مینوفیکچرنگ بھی پاکستان میں منتقل نہیں کی بلکہ کچھ غیر معیاری پارٹس پاکستان میں تیار کرکے انجن اور ٹرانسمیشن سمیت اہم پارٹس سی ڈی کے اور ایس ڈی کے کے نام پر بیرون ملک سے ہی درآمد کرکے گاڑیاں اسمبل کی جارہی ہیں۔ جس کے لیے کئی ملین ڈالرز اُن پارٹس کی خریداری کی مد میں بیرون ملک بھیجے جا رہے ہیں لیکن پھر بھی یہ اسمبلرز حکومت سے مینوفیکچرنگ والے مفادات حاصل کر رہے ہیں۔ اسی طرح اسمبلرز مافیا نے ایک طرف تو باہر سے آنے والی گاڑیوں پر پابندیاں عائد کروائیں تو دوسری جانب صرف گزشتہ ایک سال میں گاڑیوں کی قیمتوں میں چالیس سے پچاس فیصد تک اضافہ کردیا یعنی چھ سو ساٹھ سی سی گاڑی سے لیکر دو ہزار سی سی گاڑی تک کی قیمت میں چھ لاکھ سے پندرہ لاکھ روپے کی قیمت بڑھا دی ہے لیکن پاکستان میں کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں ہے جو ان بےجا بڑھتی ہوئی قیمتوں کو روک سکے۔ ایچ ایم شہزاد کے مطابق حکومت کو چاہئے ایک طرف اسمبلرز کو گاڑیوں کو معیاری بنانے، مینوفیکچرنگ سو فیصد پاکستان منتقل کرنے اور قیمتوں میں اضافے سے روکے، دوسری جانب کم از کم ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیوں کی کمرشل بنیادوں پر یا اوورسیز پاکستانیوں کے نام پر درآمد کی اجازت دے تاکہ پاکستان میں معیاری گاڑیاں میسر آسکیں اور پاکستان میں پیٹرول کی بچت کرنے والی ماحول دوست گاڑیوں کے ذریعے پیٹرول کے استعمال کو کم کیا جاسکے۔