آئی تباہی تو کچھ اسباب بھی تھے

January 22, 2020

بدلتے ہوئے موسمی حالات نے ساری دنیا کو متاثر کر رکھا ہے،لیکن پاکستان چوں کہ ان سرِ فہرست مماک میں سے ایک ہے جو ان تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں لہذا یہاں موسمیاتی تبدیلیاں لوگوں کو بری طرح متاثر کررہی ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ اس برس پاکستان میں موسمِ سرما کی شدت معمول سے کہیں زیادہ نظر آ رہی ہے۔

گزشتہ دنوں ملک کے مختلف حصوں میں بارشوں اور برف باری سے کافی تباہی ہوئی۔ آزادکشمیر میں برفانی تودہ گرنے اور دیگر مقامات پر برف باری اور بارش سے ہونے والے حادثات کے نتیجے میں سو سے زاید افراد جاں بہ حق ہوگئے۔ آزاد کشمیر میںنیلم سرگن میں برفانی تودے گرنے سے سیری اور دبکوالی گاوں پورے دب گئے ، 130مکانات تباہ ہوئے، 67 افراد جاں بہ حق ہوئے، اوردرجنوں زخمی ہوگئے۔ بلوچستان میں بارش اور برف باری کا 30سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ،وہاں مختلف حادثات میں21افراد جاں بہ حق ہوئے۔

ایک جانب وہاں برفانی گلیشیئر نے تباہی مچائی تو دوسری جانب مواصلاتی نظام درہم برہم ہو نے اور راستے بند ہونے کے باعث مقامی انتظامیہ اور حکومت کی جانب سے بروقت امدادی کام شروع نہیں کیا جا سکا تھا۔اگلی صبح فوج کے ہیلی کاپٹر سے متاثرہ مقام پر امدادی ٹیمز اتاری گئیں۔ بکوالی اور سیری نامی گاوں سے 53زخمیوں کو اسپتالوں منتقل کیا گیاتھا۔

دودھنیال میں برفانی تودے سے دبے گھر سے بھی ایک شخص کی لاش نکالی گئی تھی۔ کیل کے علاقے ڈھکی چکناڑ میں 6مکانات برفانی تودے کے نیچے دب گئے جس سے8افراد کے جاں بہ حق ہونے کی اطلاعات تھیں۔ کیل میں ناریل کے مقام پر40خاندانوں کو فوج نے ریسکیو کرکے بہ حفاظت نکال لیا تھا۔ برفانی تودے نے بگوال گاؤں کے 15 سے زیادہ مکانات کو نقصان پہنچایا۔ضلع نیلم کے ڈپٹی کمشنر شاہد محمودکا کہنا تھا کہ مسلسل برف باری کی وجہ سے امدادی کاموں میں کم از کم ایک ہفتہ لگ سکتا ہے۔

تین ہیلی کاپٹرز کی مددسے طبی عملے کے چندافراد اور امدادی سامان، جن میں کمبل، پلاسٹک شیٹس اور گرم کپڑے شامل تھے، متاثرہ علاقوں تک پہنچائے گئے ۔ان کا کہنا تھا کہ برف باری کی شدت کی وجہ سے قریبی علاقوں کے لوگ ہی بہ مشکل برفانی تودے سے متاثرہ علاقوں میں جا کر لوگوں کی مدد کر رہے تھے۔ لیکن بغیر کسی مشینری کے لوگوں کی مدد کرنے میں انہیں دشواری پیش آ رہی تھی۔مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ شدید برف باری کے باعث ایک سے دوسرے گھر تک جانا بھی دشوارتھا۔بعض مقامات پر سات فیٹ سے زیادہ پرف پڑ چکی ہے اور مسلسل برف باری ہو رہی ہے۔

یاد رہے کہ سرگن کے علاقے سیری میں جنوری 2005 میں بھی برفانی تودہ گرا تھا جس کی وجہ سے کم از کم 22 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہاں آنے والے برفانی تودوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی وجہ سے اس علاقے کو’’میّتاں والی سیری ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ اب یہاں برفانی تودے زیادہ خطرناک صورت اختیار کر گئے ہیں۔ عمودی پہاڑوں پر اب درخت بھی کم ہیں اور برف باری کی شدت کبھی کبھار معمول سے کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔

برف باری نے رواں برس صرف آزاد کشمیر کے باسیوں کو ہی بُری طرح متاثر نہیں کیا ہے بلکہ بلوچستان میں بھی موسمِ سرما کی معمول سے زیادہ شدت نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ذرایع ابلاغ کے مطابق متعدد علاقوں میں رسائی ممکن نہیں اورراستے انتہائی دشوار ہیں۔پی ڈی ایم اے بلوچستان کے مطابق چوبیس گھنٹے میں بارش کے دوران ژوب ، پشین اور خانوزئی میں چھتیں گرنے کے واقعات میں 5 بچوں سمیت 20افراد جاں بہ حق ہوئے تھے۔

وزیراعلی بلوچستان جام کمال کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی تاریخ میں شاید اتنی شدید برف باری پہلے نہیں ہوئی تھی،اس لیے مشکل صورت حال کا سامنا ہے ۔ دوسری جانب بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللّٰہ کے علاقے کان مہتر زئی میں برف میں پھنسے 500 مسافروں کو ریسکیوکرنا پڑا تھا۔

منفی 14 ڈگری سینٹی گریڈ میں مسافر گھنٹوں اپنی گاڑیوں میں پھنسے رہے تھے۔ ادہر گلگت بلتستان سے آنے والی اطلاعات کے مطابق وہاں کئی فیٹ تک برف کی تہہ جم چکی ہے جس کے سبب بالائی علاقوں کی رابطہ سڑکیں بند ہیں ، دیامر اور استور میں شدید برف باری کے بعد اسنوایمرجنسی نافذ کی جاچکی ہے۔

گزشتہ دنوں گلگت بلتستان میں برف باری کا پچاس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ چھتیس گھنٹے تک ہونے والی مسلسل بارش اور برف باری کی وجہ سے ہنزہ اور نگر میں ایمرجنسی نافذ اور تمام سرکاری اداروں کو الرٹ کردیا گیاتھا۔وہاں بھی جانی اور مالی نقصانات ہوئے۔

وہاں بالائی علاقوں میں ایک فٹ سے زیادہ اور نشیبی علاقوں میں دس انچ سے زیادہ برف باری ہو چکی تھی۔ادہر چترال میں ڈھائی فیٹ برف پڑنے کے بعد لواری ٹنل بند ہوگئی تھی۔مالاکنڈ ڈویژن سمیت قبائلی اضلاع باجوڑ ، خیبر ، مہمند ، کزئی اور وزیرستان میں بھی برف باری جاری ہے ۔ مانسہرہ کی وادیوں کاغان ، ناران ، شوگران میں بھی یخ بستہ ہواؤں کا راج ہے اور وقفے وقفے سے برف باری ہو رہی ہے ۔

کوہستان کے قریب لینڈ سلائیڈنگ سے شاہراہ قراقرم کئی مقامات پر بند ہوگئی تھی جہاں سیکڑوں مسافر گاڑیوں میں پھنس گئے تھے۔ ملکہ کوہ سار، مری، میں مسلسل برف باری سے نظام زندگی مفلوج تھا۔ نتھیاگلی ، ایوبیہ ، چھانگلہ گلی میں مرکزی سڑک سمیت تمام رابطہ سڑکیں بند ہوگئی تھیں۔لینڈ سلائیڈنگ اور برف باری سے راستے بند ہونے کے باعث سیاحوں کو بھی سخت پریشانی کا سامنا ہے۔

ادہر دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کے بیس کیمپ میں 120کلو میٹرز فی گھنٹے کی رفتار سے برفانی طوفان آیا۔اطلاعات کے مطابق اس وقت بیس کیمپ میں اسپین، اٹلی ، چین ، کینیڈا ، ہالینڈ ، فن لینڈ ، نیپال اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما موجود تھے جن کی مہم شدید مشکلات کا شکار ہوئی۔

آئندہ کے حالات اور خوف کے سائے

یہ تو حالات کی صرف ہلکی سی تصویر ہے اورابھی تو موسم میں شدّت آنا شروع ہوئی ۔آگے کے لیے دعا ہے کہ اللہ خیر کرے۔کیوں کہ ہم جس طرح خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں اسے مد نظر رکھا جائے تو آئندہ کے ممکنہ حالات کے بارے میں سوچ کر ہی خوف آتا ہے ۔ذرایع ابلاغ نے ایسی اطلاعات بھی دی ہیں کہ آزاد کشمیر میں جہاں برفانی تودہ گرنے کا واقعہ ہوا،وہاں سانحے کے فورا بعد لوگ مدد کے لیے پکارتے رہے، لیکن انتظامیہ غائب رہی۔

لوگوں کا کہنا تھا کہ بروقت ریسکیو کیا جاتا تو ہلاکتوں کی تعدادکم ہوسکتی تھی۔ لیکن ایس ڈی ایم اے، شہری دفاع، ڈی ڈی ایم اے مکمل طور پر غائب رہے، بلکہ سوشل میڈیا پر نقصانات نہ ہونے اور سب اچھا کی خبریں پھیلاتے رہے۔ تاہم بعد میں فوج نے وہاں امدادی کارروائیاں شروع کیں۔

ہمارے ارباب اختیار بھول جاتے ہیں،لیکن تاریخ کے صفحات پر سے حقائق کبھی نہیں مٹتے۔جنوری 2014 میں بھی ملک کے مختلف علاقوں میں طوفانی بارشوں اور برف باری سے کم از کم 83 افراد جاں بہ حق اورمتعدد زخمی ہو گئے تھے۔آزاد کشمیر کے علاقے نیلم ویلی میں برفانی تودے تلے دب کر 60 افراد جاں بہ حق اور پانچ زخمی ہوئے تھے۔چناں چہ مستقبل کے ممکنہ خطرات کو مد نظر رکھ کر ہماے ارباب اختیار کو صورت حال کی سنگینی کا ادراک کرنے کے ساتھ یہ بھی سوچنا ہوگا کہ پوری دنیا اور ملک کے برفانی علاقے موسمیاتی تبدیلیوں سے دوچار ہیں۔

دبئی ،شارجہ، الفجیرہ، العین میں طوفانی بارشیں ہوئی ہیں، گلگت بلتستان ، بلوچستان اور کراچی سمیت سندھ میں سردی کی غیر معلوی لہر اس بات کا عندیہ ہے کہ عالمی موسمیاتی اور ماحولیاتی خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔لیکن ہماری تیاریاں نہ ہونے کے مساوی ہیں۔ان حالات میں ضروری ہوگیا ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبائی انتظامیہ ، ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے لیے ٹھوس اور موثر لائحہ عمل تیار کرے ۔برف ہٹانے کا عمل جدید سائنسی بنیادوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے تاکہ گلیشیئرز اور تودوں کے گرنے سے ہونے والی ہلاکتوں کا سدباب ہوسکے اور پیشگی الارم سسٹم فعال ہو۔ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہمیں ترقی یافتہ ممالک کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہیے۔

خطرات کی نوعیت

اس وقت ہمارے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ملک کو لاحق خطرات کی نوعیت کو سمجھیں اور انہیں اور ان کے اثرات کم سے کم کرنے کے لیے موثر اور ٹھوس اقدامت اٹھائیں۔جس طرح سے موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں وہ پاکستان میں صحت عامہ کے لیے سب بڑا خطرہ ہیں۔چناں چہ ہمیں ان تبدیلیوں سے مطابقت پیداکرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ ماہرین کے مطابق اس صدی کے آخر تک عالمی حِدّت میں اضافے کے نتیجے میں پاکستان میں اوسط درجہ حرارت میں چھ ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ہوسکتا جس کے اثرات زندگی کے ہر شعبے پر پڑیں گے۔ان سے سے بچنے کے لیے ہمیں ضروری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

اس کے علاوہ پاکستان میں موسمی تغیرات کی وجہ سے انسانی صحت پر جو اثرات مرتب ہوں گے ان پر بھی فوری غور وخوض کرنے کی اشد پرورت ہے،کیوں کہ ابھی توصرف فوگ،شدید بارش،برف باری اور معمول سے زیادہ سردی اور گرمی نے رنگ دکھانا شروع کیا ہے۔آنے والے دنوں میں ہمیں بہت سی جہتوں میں شدید بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔آج دنیا بھر میں ماہرین ایسی طرز فکر اپنانے پر زور دے رہے ہیں کہ متاثرہ خطوں کے لوگ بدلتے موسم کے ساتھ اپنا طرز زندگی بدلنے کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں سے نقصان اٹھانے کے بجائے فائدہ حاصل کریں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے انسانی صحت پر ممکنہ اثرات کے صرف ایک پہلو کو سمجھنے کے لیے یہاں ایک رپورٹ کا حوالہ دینا ضروری ہے۔امریکا میں دماغ اور نفسیات کے ماہرین کا کہناہے کہ دنیا بھر میں آب وہوا میں آنے والی تبدیلیوں سے دماغی اور نفسیاتی مریضوں کی تکالیف اور ان امراض میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔

امریکن فزیالو جیکل ایسوسی ایشن نے کچھ عرصہ قبل موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کی خاتون مصنفہ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات صرف بہ راہِ راست متاثر ہونیوالے افراد تک محدود نہیں رہیں گے ۔

رپورٹ کے مطابق موسمی شدت سے دمے، دل اور پھیپھڑوں کے امراض میں اضافے کے ساتھ کیڑوں سے پھیلنے والے امراض بھی بڑھ سکتے ہیں ۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ سیلاب ہو یا جنگلات کی آگ، ان واقعات کے بعد پہلے سے متاثرہ افراد ڈپریشن، خوف اور دیگر عارضوں میں مزید گھرسکتے ہیں۔ رپورٹ میں اس کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2005 میں امریکا میں آنے والے ہول ناک سمندری طوفان کترینہ کے بعد خودکشی کے واقعات اور اس سے وابستہ سوچ میں دْگنا اضافہ ہوگیا تھا۔

اس واقعے کے بعد نصف سے زاید آبادی شدید بے چینی اور موڈ میں تبدیلی کا شکار ہوئی تھی۔ اس کے بعد 2015 میں آنے والے ایک اور سمندری طوفان سینڈی کے بعد 15 فی صد آبادی بعد از حادثہ تناو (پی ٹی ایس ڈی) کی شکار ہوگئی تھی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قدرتی آفات میں اپنوں کی موت، معذوری، جائیداد سے محرومی، تحفظ، خود مختاری اور عزم میں کمی ہوجاتی ہے جس سے نفسیاتی عوارض پیدا ہوتے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے گرمی بڑھنے، فضائی آلودگی، ہوا کے خراب معیار اور دیگر قدرتی کیفیات سے دماغی امراض میں ہول ناک حد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے جہاں بچوں کی جسمانی صحت متاثر ہوگی وہاں اس سے ان کی تعلیمی کارکردگی اور نفسیاتی صحت بھی بہت متاثر ہوسکتی ہے۔

شہر کاری اور جنگلات کاٹنے کی رفتار میں اضافہ

موسموں میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں سے بنی نوع ا نسان کی بقاکو لاحق خطرات میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔جنگلات میں کمی زہریلی گیسوں کے اخراج میں اضافے اور سمندروں میں پانی کی بلند ہوتی ہوئی سطح کسی ایٹم بم سے کم نہیں ہے۔دوسری جانب شہر کاری یا اربنائزیشن سے پاکستان سمیت دنیا کے کئی زرعی ممالک خوراک کے ضمن میں خودکفالت کھوچکے ہیں اور غذائی تحفظ کے ضمن میں بہت زیادہ خطرات سے دوچار ممالک کی فہرست میں شامل ہوچکے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ تیس برسوںمیں دیہا ت سے بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب میں ہرسال پینتیس ہزارایکٹر سے زایدزیرکاشت رقبہ غیرآباد ہورہا ہے اور حکومت کی ٹھو س اور دیرپا پالیسیز نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوںکا فقدان ہے،چناں چہ لوگ دیہی علاقے چھوڑ کر بڑے شہروں کا رخ کررہے ہیں۔دوسری جانب بڑے شہروں کے نواحی دیہات ان شہروں کے پھیلاو کی نذرہوچکے ہیں۔

عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک کے کل رقبے کا25فی صدجنگلات پرمشتمل ہوناضروری ہے، لیکن پاکستان میں یہ رقبہ چار سے پانچ فی صد بتایا جاتا ہے ۔ پاکستان کے باسیوں کو چند برسوںسے اسموگ کاسامنا ہے جس کے لیے مختلف عذرتراشے جارہے ہیں، مگر ماہرین جانتے ہیں کہ جو عوامل بنیاد بنا کرپیش کیے جارہے ہیں ان سے کہیں زیادہ عمل دخل شہروں میں بے تحاشا گاڑیوں کا ہے۔ پاکستان میں گاڑیوں میں جو ایندھن استعمال کیا جاتا ہے وہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت غیرمعیاری ہے ۔اس میں سلفر کی مقدارعالمی معیارات سے کہیں زیادہ ہے۔

ماہرین کے مطابق ایک طرف تیزی سے گلیشیئر ز پگھل رہے ہیں تو دوسری جانب بارشوں میں کمی آنے سے زیرزمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جارہی ہے اور لاہور جیسے بڑے شہر پر پانی کی شدید قلت کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ بعض ماہرین کے نزدیک تو آئندہ پانچ سے د س برسوں میں لاہور میں زیرزمین پانی ختم ہوجائے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت فوری طور پر بڑے شہروں میں کم سے کم د س سال تک ہر طرح کی نئی تعمیرات پر پابندی عاید کرکے خالی زمینوں پر شجرکاری کرے۔دوم ، شہروں پر سے آبادی کا بوجھ کم کرنے کے لیے دیہات اور قصبوں میں دیہی زندگی کو فروغ دینے کے لیے شہریوں کو ترغیبات دے جن میں ٹیکسز میں چھوٹ، سرمایہ کاروں کے لیے خصوصی سہولتیں، چھوٹے کاشت کاروں کے لیے زراعت کے ساتھ باغ بانی، ماہی پروری شروع کرنا وغیرہ شامل ہے۔

اس کے علاوہ مال مویشیوں کے لیے شفا خا نو ں کا قیام، ہربڑے دیہہ یا قصبے میں زرعی یونیورسٹی کے تحت زرعی ا سکولز اورکالجز کا قیام بھی ضروری ہے۔ماہرین کے مطابق حکومت ہرڈویژ نل ہیڈکوارٹرمیں موجود اسپتالوں کوبہتر بناکر اور تمام جامعات کے ڈویژنل ہیڈ کوارٹرکی سطح پر کیمپس قائم کرکے بڑے شہروں سے آبادی کا تیس تا چالیس فی صدبوجھ کم کرسکتی ہے۔

اسی طرح اگر ہر برس وسائل کی فراہمی کے لیے صوبائی حکومتیں اپنے میزانیوں میں دو ڈویژنل ہیڈکوارٹرز کی حالت بہتر بنانے کا ہدف طے کرکے شہروں پر خرچ ہونے والے فنڈز کا نصف اس منصوبے پر لگادیں تو چند برسوںمیں صوبے اپنے بہت سے اضلاع کی حالت بدل سکتے ہیں۔اس اقدام سے نہ صرف ہر صوبے میں شہرکاری کا رحجان کم ہو جائے گابلکہ مقامی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوگا اور بے روزگاری میں نمایاں کمی بھی آئے گی۔

فصلیں بھی محفوظ نہیں

زرعی شعبے کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں میں شدت آنے کی وجہ سے گزشتہ برس کے صرف چند ماہ میں اچانک رونما ہونے والے موسمی اثرات کی وجہ سے ہماری فصلوں کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا تھااورہماری مکئی، کپاس اور چاول کی پیداوار خطر ناک حد تک کم ہوئی ہے ۔گزشتہ برس صرف کپاس کی فصل کو کم و بیش ایک ہزارارب روپے کا نقصان پہنچا تھا اوردیگر فصلوں کے نقصانات کا تخمینہ لگانا ابھی باقی ہے۔

پچھلے موسم گرما میں گرمی زیادہ پڑنے،آندھیوں اور بے موسم کی بارشوں کی وجہ سے کپاس کی ڈیڑھ کروڑ بیلز کے بجائے صرف 90 لاکھ بیلزحاصل ہو سکی تھیں اور مکئی کی پیداوار میں چالیس اور چاول کی پیداوار میں پچاس فی صد کمی واقع ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔صرف کپاس کی کم پیداوار کی وجہ سے چھ ارب ڈالرز کا نقصان ہوا۔ کیوں کہ ہدف سے 60 لاکھ بیلز کم پیدا ہوئیں اور 10 لاکھ بیلز کی مالیت ایک ارب ڈالرز بنتی ہے۔

اسی طرح مکئی کے خوشوں میں نہ صرف پھل کم لگا بلکہ ان میں فنگس بھی لگ گیا تھا۔ دیگر مصنوعات،مثلا ، خورنی تیل کی کم پیداوار سے ہونے والا نقصان اس کے علاوہ ہے۔گزشتہ برس گرمی تین سے چار درجے زیادہ تھی۔ فصلوں کو بیس سے تیس فی صد نقصان بے موسم کی بارشوں اور آندھیوں کی وجہ سے پہنچا۔

زرعی ماہرین کے مطابق گرمی کے خلاف مزاحمت کرنے والے بیجوں کے استعمال سے اس نقصان سے بچا جا سکتا تھا، لیکن وہ اچانک آنے والی تبدیلی میں موثرثابت نہیں ہوتے۔وفاقی وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی کے ایک سینیر عہدے دارکے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات چند برسوں سے مرتب ہو رہے ہیں اور آئندہ برسوں میں یہ فصلوں کی پیداوار میں مزید کمی کا باعث بنیں گے۔ان کے مطابق گرمی بڑھنے کی وجہ سے پورے موسمی انداز میں خلل پڑتا ہے اوربیج بونے کے لیے وقت کم بچتا ہے جو کم پیداوار کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔

مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے جارہے ہیں

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں اب پاکستان دنیا میں پانچویں نمبر پرآچکا ہے۔چناں چہ ماہرین ہمیں باربار خبردارکررہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان اور اس کے عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ عالمی شہرت کے حامل ادارے، جرمن واچ نے دسمبر 2019میں اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان کو ان ممالک میں شمار کیا ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہیں۔ ’’گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس 2020 ‘‘کے مطابق 1999 سے 2018 کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں سے جو ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوئے، پاکستان ان میں پانچویں نمبر پر ہے۔

ماہرین ماحولیات کے مطابق ماحول کے تحفظ کے ضمن میں ہماری ماضی کی غیر دانش مندانہ پالیسیز نے ملک میں اس مسئلے کو مزیدپے چیدہ بنا دیاہے۔تاہم موجودہ حکومت اس معاملے میں قدرے بہترہے۔ حکومت دس ارب درخت لگانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ پیٹرول اور ڈیزل کی جگہ الیکٹرک کاریں درآمد کرنے کا فیصلہ بھی بہت بہتر ہے۔ لیکن ان کے علاوہ بھی حکومت کو بہت سارے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

ماہرین کے مطابق عالمی حِدّت میں اضافے کی وجہ سے ملک کے شمال میں پگھلتے ہوئے گلیشیئرز ملک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔بعض ماہرین کاکہناہے پاکستان کو اس وقت چار بڑے خطرات کا سامنا ہے ، یعنی ، گلیشیئرز کاپگھلنا، کوئلے کا استعمال، اسموگ اور خشک سالی ۔ماہرین کے بہ قول ملک کے کئی ساحلی علاقوں سے نقل مکانی پہلے ہی شروع ہو چکی ہے۔

اوڑمارہ، پسنی، بدین، ٹھٹھہ، سجاول اور گوادر سمیت کئی علاقوں سے نقل مکانی ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے کئی علاقے خشک سالی کے شکار بھی ہوئے ہیں۔ یہ عوامل فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔ان حالات میں ملک میں جنگلات کاٹنے کاسلسلہ فوری طور پر رکنا چاہیے۔ ہمارے ملک میں پہلے ہی جنگلات صرف سات سے آٹھ فی صد رقبے پر تھے، لیکن اب یہ رقبہ تین فی صد مزید کم ہو گیا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے ضمن میںبعض ماہرین کا خیال ہے کہ ملک کا جنوبی حصہ ان سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ تاہم اس مسئلے پر کسی حکومت نے توجہ نہیں دی۔سندھ میں دو لاکھ ستّر ہزار ہیکٹرز رقبے پر محیط ساحلی جنگلات اب ستّر ہزار ہیکٹرز تک آ گئے ہیں۔ پاکستان کے دیہات میں بھی سبزہ اور درخت کم ہورہے ہیں اور شہروں میں آبادی میں بے تحاشا اضافے کے باعث جہاں ماحول آلودہ ہوا ہے، وہاں درخت بھی غائب ہوگئے ہیں۔

پاکستان کے بڑے شہر جن میں کراچی اور لاہور سرفہرست ہیں، ماحولیاتی آلودگی کا نمونہ بن چکے ہیں۔آبادی میں بے محابہ اضافے نے ان شہروں کا حلیہ بگاڑ دیا ہے اور ان شہروں کی فضا انسانوں ہی نہیں بلکہ جانوروں کے لیے بھی مختلف اقسام کی بیماریوں کا باعث بن رہی ہے۔