میر خلیل الرحمٰن عظیم صحافی ہی نہیں عظیم اسپورٹس مین بھی تھے

January 25, 2020

منیر حسین

دنیائے صحافت کی بین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیت میر خلیل الرحمٰن میرے لئے محض عظیم صحافی یا جنگ گروپ آف پبلی کیشنز کے چیئرمین ہی نہ تھے بلکہ وہ باپ کا سا پیار دینے والے سرپرست، زندگی میں قدم قدم پر میری رہنمائی کرنے والے تھے۔ مشکلات اور مایوسیوں میں سہارا دینے والے شفیق انسان، صحافت کی دنیا میں مجھے جنگ کے ذریعے روشناس کرانے والے ایڈیٹر ،اردو جرنلزم میں اسپورٹس کوریج اور برصغیر میں اردو کرکٹ کمنٹری کا آغاز کرانے والے میرے محسن بھی تھے۔

میرا اور ان کا ساتھ دو، چار، پانچ، دس سالوں کا نہیں بلکہ تقریباً 48سالوں پر محیط ہے۔ بارہ سال کا تھا اس وقت سے ان کی موت تک ساتھ رہا۔ میرا سب سے پہلا مضمون جو ، میں نے اسکول کے ایک مقابلے میں ہندوئوں کے تہوار دیوالی پر لکھا تھا۔ دہلی کے جنگ میں چھپا تھا۔ مجھے میر صاحب کی آج بھی وہ گفتگو ازبر ہے جو لال کنواں پر واقع جنگ کے دفتر میں ہوئی تھی، میں اکثر جنگ کے دفتر آتا جاتا رہتا تھا کیونکہ اسی بلڈنگ کے برابر والی بلڈنگ میں ہماری رہائش تھی۔ میر صاحب کو میں نے اپنا مضمون دیا تو وہ پڑھ کر کہنے لگے۔ ’’میاںیہ تو دیوالی پر مضمون ہے۔

ہمارا تو روزنامہ ہے اس میں تو صرف خبریں چھپتی ہیں‘‘۔ میں نے التجائیہ لہجے میں کہا،’’ سر یہ مضمون میں نے اسکول کے مقابلے میں لکھ کر اول انعام حاصل کیا ہے۔ ہندوئوں کا تہوار بھی آ رہا ہے۔ میں آپ کو روزانہ سلام کرنے بھی آتا ہوں۔ آپ یہ چھاپ دیجئے، میرے اسکول والے بہت خوش ہوں گے۔‘‘ میر صاحب میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور کہنے لگے۔’’ میاں یہ سلام والی بات مت کرو، تم مفت کا اخبار لینے آتے ہو اس لئے سلام بھی کرتے ہو۔ اچھا میاں تمہاری خواہش پوری کر دوں گا۔‘‘

وہ دن اور میر صاحب کی وفات سے چند روز پہلے لندن روانگی کے موقع پر ہونے والی آخری ملاقات تک ان کی محبت اور شفقت کا سایہ مجھ پر رہا۔ آخری ملاقات میں انہوں نے خاص طور پر پوچھا ’’کیوں بھئی ورلڈ کپ میں کمنٹری کرنے جائو گے۔ پہلے کی طرح خبریں اور تصاویر بھجواتے رہنا‘‘۔ یہ ان کے آخری الفاظ تھے جو انہوں نے مجھ سے کہے۔

میر صاحب کی زندگی کے ہر پہلو کاجائزہ لیا جائے تو اسے قلم بند کرنے کے لئے ایک ضخیم کتاب درکار ہو گی۔ ان کی اسپورٹس سے دلچسپی اور سرپرستی کے چند واقعات بیان کروں گا تاکہ قارئین کو یہ معلوم ہو سکے کہ بابائے صحافت اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود اسپورٹس میں کس درجہ دلچسپی لیا کرتے تھے اور بہت خاموشی سے اسپورٹس کی ترقی کے لئے ایسے نمایاں اور ناقابل فراموش کارنامے سرانجام دئیے جن پر ہر اسپورٹس مین بجاطور پر فخر کر سکتا ہے۔ یہ وہ کارنامے ہیں جن سے اسپورٹس اور کھلاڑیوں کی ترقی اور شہرت کے نئے باب کھلے۔

قیام پاکستان کے بعد میں نے میر صاحب کی اجازت سے جنگ کرکٹ کلب قائم کر دی تھی۔ اس کے سرپرست اعلیٰ میر صاحب تھے اور میں ٹیم کا کپتان۔ ہماری ٹیم گورنر ہائوس کے قریب پولو گرائونڈ میں پریکٹس کرتی تھی۔ ایک دن میں نے میر صاحب سے اصرار کیا کہ آپ ہماری پریکٹس پر آیئے، ممبران کی ہمت افزائی ہو گی۔

میر صاحب ایک شام اپنے دوست دادا عشرت مرحوم اور ایڈیٹر جنگ یوسف صدیقی مرحوم کے ساتھ پریکٹس دیکھنے آئے۔ بے حد متاثر ہوئے اور ہمیں فوری طور پر وہیں کھڑے کھڑے نیا سامان خریدنے کے لئے دو سو روپے دیئے۔ ان کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ وہ پیڈ باندھ کر بیٹنگ کرنے لگے۔ ہم نے انہیں آہستہ آہستہ بولنگ کرائی جس پر انہوں نے زوردار قسم کی ہٹیں لگائیں۔

میر صاحب کی فرمائش پر طے پایا کہ آئندہ اتوار کو کلب کے ممبران اور روزنامہ جنگ کے اسٹاف کے درمیان میچ کھیلا جائے گا۔ ان دنوں پولو گرائونڈ پر اتوار کے دن اندازاً سو سے زائد ٹیمیں میچ کھیلتی تھیں، بعض دفعہ تو ایک دوسرے کے فیلڈر گیند روکنے کی کوشش میں آپس میں ٹکرا جاتے تھے ۔ اس دن ہم نے صبح سے ہی مخصوص جگہ صاف کی۔ خیال رہے پولو گرائونڈ میں کسی قسم کی وکٹیں نہیں بنی ہوئی تھیں، بس جھاڑو سے میدان کو صاف کیا، چھوٹے چھوٹے کنکر ہٹائے اور وکٹیں لگا دیں۔

میر صاحب جنگ ٹیم کے کپتان تھے اور میں جنگ کلب کا۔ پولو گرائونڈ کا وہ حصہ جو گورنر ہائوس کے بالکل کونے پر تھا جس کے سامنے اب ایک خوبصورت مسجد تعمیر ہو چکی ہے ،اسےہم نے جنگ کلب کے لئے مخصوص کر رکھا تھا لہٰذا سڑک کے قریب دریاں بچھائی گئیں اس پر کھلاڑی اور میرصاحب بیٹھے تھے۔ یہیں سڑک کے کنارے لنچ ہوا، جو میر صاحب گھر سے بنوا کر لائے تھے۔

یہ میچ جنگ کی ٹیم نے27رنز سے جیتا۔ میر صاحب اس فتح پر بے حد خوش تھے۔ انہوں نے یوسف صدیقی مرحوم سے کہا، اس میچ کی خبر اخبار میں ضرور آنی چاہئے۔ یوسف صاحب نے کہا کہ میر صاحب اردو اخبارات میں اسپورٹس کی خبریں دینے کا رواج نہیں ہے۔ لوگ دلچسپی نہیں لیتے۔ میر حاصب نے کہا، بھائی اگر رواج نہیں، تو تم رواج شروع کرو۔ تم اسپورٹس کی خبریں شائع کرو، لوگ دلچسپی لیں گے اور ہوا بھی یہی۔

اس خبر سے پہلے یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ کوئی اردو اخبار اسپورٹس کی خبریں شائع نہیں کیا کرتا تھا۔ یہ پہلی خبر تھی جو جنگ نے اسپورٹس کے حوالے سے شائع کی۔ اس کے بعد جنگ کلب سے تمام میچوں کی کارروائی جنگ میں شائع ہونے لگی ۔اس طرح اردو جرنلزم میں اسپورٹس کوریج کی ابتدا میر صاحب نے جنگ میں کی جس کی تقلید میں آج ملک کا ہر اردو روزنامہ نہ صرف اسپورٹس کی روزانہ خبریں نمایاں طور پر شائع کرتا ہے بلکہ ہفتہ وار اسپورٹس ایڈیشن بھی شائع کئے جاتے ہیں۔ میر صاحب کے اس فیصلے سے آج ملک کا ہر اسپورٹس مین اردو اخبارات کے ذریعے عوام کے دلوں میں اپنا مقام بنائے ہوئے ہے۔

میر صاحب کا دوسرا کارنامہ وہ ہے جو عوام کے دلوں پر ہمیشہ نقش رہے گا، وہ یہ کہ اردو کرکٹ کمنٹری کے آغاز کے محرک میرصاحب تھے۔ جنگ کلب نے1969ء میں جنگ گولڈ کپ کے نام سے ایک ٹورنامنٹ کرایا جس کے تمام میچز بختیاری یوتھ سینٹر پر کھیلے گئے۔ اس ٹورنامنٹ کو قومی کرکٹ میں اس لئے اہمیت حاصل ہے کہ یہ پہلا مقامی ٹورنامنٹ تھا جس میں بے شمار ٹیسٹ کرکٹرز نے حصہ لیا جس کا فائنل ٹی وی نے براہ راست دکھایا اور ریڈیو نے اس پر رواں کمنٹری نشر کی۔

یہی وہ فائنل میچ تھا جہاں سے کمنٹری کی دنیا میں انقلاب برپا ہوا اور کرکٹ میں اردو کمنٹری کی ابتدا ہوئی۔ اس ٹورنامنٹ کے میچز دیکھنے کے لئے لوگ بہت بڑی تعداد میں آتے تھے۔ میر صاحب جب سیمی فائنل دیکھنے آئے تو شائقین کی تعداد دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اس موقع پر انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ فائنل پر ریڈیو، ٹی وی کی جانب سے کمنٹری نشر کرائی جائے۔ میرے لئے تو یہ ایک ایسا پیغام تھا جس کا انتظار میں طویل عرصے سے کر رہا تھا۔ میں نے کہا میر صاحب مزا تب آئے گا جب انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی کمنٹری ہو۔

کہنے لگے بھئی میں تو تمہاری کمنٹری جنگ کے میچوں میں پویلین میں بیٹھ کر سنتا رہا ہوں، مجھے تو پسند ہے، اب پتہ نہیں ریڈیو، ٹی وی والوں کو پسند آتی ہے یا نہیں۔بہرحال میں ان سے بات کروں گا۔ ان کی بات کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب میں اس سلسلے میں ٹی وی کے اس وقت کے جنرل منیجر اسلم اظہر صاحب کے پاس گیا تو وہ اپنے مخصوص انداز میں ہنستے ہوئے کہنے لگے۔ صاحب آپ نے پہلے ہی اسپورٹس میں کیا کم ہنگامے کئے ہوئے ہیں جو اب ایک اور دھماکہ کر رہے ہو۔ انہوں نے مجھ سے اپنے کمرے میں پانچ منٹ تک کمنٹری سنی اور پھر اپنے سیکرٹری سے کہا کہ جتنے بھی پروڈیوسر اپنے اپنے کمروں میں ہیں، سب کو بلائو۔ چند منٹ میں کئی پروڈیوسر زوہاں آگئے۔

ان میں محسن علی، کنور آفتاب، عارف افتخار، اختر وقار عظیم اور آفتاب عظیم وغیرہ تھے۔ اسلم صاحب نے سب کو میری آمد کا پس منظر بتایا اور مجھ سے کہا، ہاں بھئی شروع ہو جائو۔ میں نے ایک بار پھر تصوراتی میچ پر کمنٹری کرنی شروع کر دی۔ پروڈیوسرز حیرانی سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میرے خاموش ہونے پر اسلم صاحب نے پروڈیوسرز کی طرف دیکھا ۔ اردو کمنٹری پر ملے جلے تاثرات نظر آئے۔ اسلم صاحب تجربہ کار آدمی تھے، بھانپ گئے اور کہنے لگے، میں سمجھتا ہوں نئی بات کی ہے منیر حسین نے، یہ چل جائے گی۔

میر صاحب کی بھی خواہش ہے چلو ایک تجربہ کر لیتے ہیں۔ ریڈیو کے اسٹیشن ڈائریکٹر طاہر شاہ نے اس سلسلے میں کھیلوں کے انچارچ پروڈیوسر یاور مہدی سے مشورہ کیا تو انہوں نے اردو کمنٹری کے حق میں رائے دی اور کہا کہ ریڈیو کے لیےیہ فیصلہ کرکٹ میں انقلابی فیصلہ ثابت ہو گا۔اس طرح میر خلیل الرحمٰن صاحب کی کوششوں سے برصغیر میں اردو کرکٹ کمنٹری کا آغاز ہوا جسے بتدریج قومی سطح پر مقبولیت حاصل ہوتی رہی۔ میر صاحب کا لگایا ہوا پودا آج ماشاء اللہ تناور درخت بن چکا ہے جس سے پاکستان کے کروڑوں افراد فیض یاب ہو رہے ہیں اور کرکٹ میدانوں سے نکل کر گھروں میں پہنچ گئی ہے۔

اسپورٹس میں میر صاحب کی اتنی باتیں ہیں کہ کیا لکھوں اور کہاں تک لکھوں، دریا کو کوزے میں بند کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔