کچھ یادیں، کچھ باتیں

January 25, 2020

میرخلیل الرحمٰن کے انتقال پر شمع دہلی کے مدیر ادریس دہلوی اور اسلامک فاؤنڈیشن لیسٹر کے سید فیا ض الدین احمد نے میر صاحب کی یادوں کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار تحریری صورت میںکیاتھا جو ذیل میں پیش خدمت ہے۔

میرصحافت،پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو(مرحوم)کے ہمراہ ایک تقریب کے دوران

ادریس دہلوی (مدیر شمع دہلی)

میر صاحب کی رحلت کی روح فرسا خبرملی تو دیر تک سکتہ کی سی کیفیت طاری رہی جب حواس کچھ بحال ہوئے توکتنی ہی یادوں کی قندیلیں روشن ہوگئیں۔ چشم تصور نے ان کی پدرانہ شفقت، نیک نفسی اور خلوص و مروت کے وہ مناظر پھر دیکھے جن کو وہ بار بار دیکھتی رہی ہے۔ اور جن کی وجہ سے ان کی وفات میرے لئے ایک ذاتی سانحہ ہے۔

میرے لڑکپن کے دن تھے، دہلی کے فتح پوری اسکول میں پڑھتا تھا، اسکول کے قریب لال کنواں کے علاقے میں ’’جنگ‘‘ کا چھوٹا سا دفتر تھا۔میر صاحب کے چھوٹے بھائی میر جمیل الرحمٰن کے ساتھ جو میرے دوست اور ہم جماعت تھے ،وہاں اکثر آتا جاتا رہتا تھا، کیونکہ مجھے بچپن سے ہی صحافت میں دلچسپی تھی لیکن اپنی دلچسپی اور شوق کو اپنے والد یوسف دہلوی (مرحوم) سے پوشیدہ رکھا ہوا تھا ۔میر صاحب بہت شفقت اور پیار سے ملتے تھے ، کبھی اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ عمر میں مجھ سے کتنے بڑے ہیں۔ انہوںنے ہمیشہ میر ی حوصلہ افزائی کی۔

شوق کو جلا دی، جغرافیائی فاصلے نے ملاقاتوں کی گنتی کم کردی، مگر میرصاحب سے جب بھی ملنا ہوتا، میرے لئے ان کی شفقت اور محبت کا وہی عالم ہوتا۔ ان سے میری آخری ملاقات اُس وقت ہوئی تھی جب میں لندن سے آتے ہوئے کچھ دن کے لئے کراچی میں رکا تھا۔ اس وقت میرےسان و گمان میں بھی نہ تھا کہ میں آخری بار ان کا دیدار کررہا ہوں۔ میرصاحب کی وفات ہم سب کے لئے ہی نہیں ساری دنیا کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ میر صحافت اُردو کے مبلغ تھے۔ اس زبان کو دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کے ہم پلہ بنانے والے معمار اعظم تھے۔

اُردو پر ان کے جو احسانات ہیں وہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ کتابت کے لئے کمپیوٹر اور طباعت کے لئے جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کراکے میرصاحب نے اُردو کو ہندو پاک کی انگریزی صحافت کی سطح پر لانے میں ہی نہیں اس سے بھی بلند مقام دلانے میں کامیابی حاصل کی۔ عالمی سطح پر اُردو کے فروغ کے لئے ان کی خدمات رہتی دنیا تک فراموش نہ کی جاسکیں گی۔ وہ سدا محسن اُردو کے طور پر جانے جائیں گے۔ میر صاحب ایک عہد ساز ہستی تھے۔ ان کی ساری زندگی کڑی جدوجہد اور ان تھک محنت سے عبارت رہی۔ خوب سے خوب تر اور کامیاب سے کامیاب ترکی جستجو انہیں نئی نئی بلندیوں سے ہم کنار کرتی رہی۔ نئی نسل کے لئے ان کی ذات ایک قابل پیروی نمونہ ہے۔

……٭٭٭………٭٭٭………٭٭٭……

سید فیاض الدین احمد

میر صاحب کے انتقال کی خبر مجھے دیر سے ملی میں ان دنوں اسپتال میں بہ عارضۂ دل زیر علاج تھا، میں نے گھر والوں کو تاکید کی تھی کہ شام کو وقت ملاقات جنگ ضرور لایا کریں۔ اس دن اہلیہ جنگ نہیں لائیں پوچھا تو کوئی بہانہ بنادیا۔ دوسرے دن جب اخبار لائیں تو پھر اس حادثہ کو جان سکا، وجہ یہ بتائی گئی کہ چونکہ اخباری دنیا سے میرا بھی تعلق کافی دنوں تک رہا ہے۔ لہٰذا اہلیہ نے اسپتال میں مجھے میر صاحب کی وفات کی خبر والاخبار دینا مناسب نہ سمجھا۔ ان کا خیال بھی ٹھیک تھا۔ میر صاحب تو نیوز پیپر زانڈسٹری کے گلِ سرسرمد تھے ،میں تو ایک ادنیٰ خادم تھا جنگ اخبار کے قاری کی حیثیت سے تو میرا تعلق1950ء سے ہی تھا ان دنوں میں مرحوم مشرقی پاکستان میں تھا۔

ڈھاکہ میں جنگ کے نمائندے وحید قیصر ندوی مرحوم تھے ،جو بذات خود ایک ہمہ صفت انسان تھے اور جنگ کے چلتے پھرتے اشتہار اور نمائندے۔ اُردو اخوان حضرات کے لئے جنگ روز کی غذا تھی۔ خاص طور پر اس کے کالم وغیرہ اور دیگر موضوعات۔ بعد میں جب میرا تعلق بھی اخباری صنعت کے مختلف شعبوں سے ہوا تو اے پی این ایس کے ڈھاکہ کے اجلاس میں میر صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا پھر سقوط مشرقی پاکستان کے بعد کراچی آنا ہوا ،یہاں ایک روزنامہ سے وابستگی کے بعد میرصاحب سے مختلف تقریبات کے علاوہ ان کے دفتر میں بھی ملاقات ہوئی اور اس بات کا بجا طور پر یقین ہوا کہ میر صاحب نے جنگ کو اپنے خون جگر سے سینچا ،وہ اس کی رگ رگ سے واقف رہتے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔

میر صاحب نے اپنے آپ کو کسی پارٹی یا خاص مکتب فکر کا اخبار نہیں بنایا۔اس کی خبروں سے ہی اندازہ ہوجاتا تھا کہ آج کل کس کا زور ہے۔ یہ کمال ہنر مندی کی بات ہے اور اس راستہ پر چلنا تلوار کی دھار پرچلنے کے مترادف ہے۔