’کلفٹن کا سرمئی ساحل، منوڑا کی پیلی ریت‘

January 26, 2020

عبیداللہ کیہر

کراچی میں سیر و تفریح کے لیے کئی مقامات تھے۔ ان میں ہمارے لیے سب سے اہم کلفٹن کا سرمئی ساحل تھا، جہاں ہم ہوا کے تیز جھونکوں میں ٹھنڈی ریت پر ننگے پاؤں چہل قدمی کرتے ہوئے نرم روی سے آتی سمندری لہروں سے کھیلتے تھے۔ کلفٹن سمندری ہواؤں کی آماج گاہ ہے اور کراچی کی قدیم آبادیوں کے باسی آج بھی اسے کلفٹن کے بجائے ’ہوا بندر‘ کہتے ہیں۔

کراچی کے بزرگ آج بھی کلفٹن کو ’ہوا بندر‘ کہتے ہیں

70ء یا 80ء کی دہائی میں یہاں ساحل پر پانی میں نصف ڈوبا ہوا ایک پرانا متروک اور زنگ آلود بحری جہاز بھی ٹیڑھا پڑا ہوتا تھا۔ من چلے تیراک اکثر سمندر میں تیرتے ہوئے اس جہاز کے نزدیک چلے جاتے تھے۔ یہ جہاز یہاں کئی سال پڑا رہا، پھر اللہ جانے کہاں غائب ہوگیا۔ کلفٹن پر ساحل سمندر کے علاوہ ایک اور کشش جہانگیر کوٹھاری پریڈ سے متصل ’جبیس فن لینڈ‘ کے نام سے ایک پلے لینڈ بھی تھا، جہاں طرح طرح کے جھولے اور بجلی سے چلنے والی ڈاجنگ کاریں ہوا کرتی تھیں، جن کو لوگ الارم بجنے تک آپس میں ٹکرا ٹکرا کر بے حال ہوجاتے تھے۔

وہیں ’ماہی گھر‘ کے نام سے ایک عدد پُراسرار اور خوابناک مچھلی گھر بھی ہوتا تھا۔ فن لینڈ میں ہوٹل جبیس والوں کا ایک خوبصورت ’سیلف سروس‘ ریسٹورنٹ بھی ہوتا تھا، جہاں کھانے پینے کی چیزیں لوگ اپنی پسند کے مطابق ٹرے میں جمع کرنے کے بعد ادائیگی کرتے تھے۔ آج ساحل کلفٹن پر وہ ساری تفریحات تو موجود نہیں، البتہ اُن سب چیزوں کی جگہ پر باغ ابن قاسم کا ایک با رونق سبزہ زار پھیلا ہوا ہے۔

کلفٹن کے بعد دوسرا اہم مقام جزیرہ منوڑا تھا ،جہاں جانے کے لیے کیماڑی کی بندرگاہ سے کشتیوں میں بیٹھنا پڑتا تھا۔ منوڑے کا ساحل کلفٹن کی طرح سرمئی نہیں تھا بلکہ پیلی ریت اور نیلے پانی کی سفید جھاگ والی شوریدہ سر لہروں کی آماج گاہ تھا۔ لیکن یہاں ساحل کی سیر سے زیادہ مزیدار اور سنسنی خیز وہ کشتی کا سفر ہوا کرتا تھا ، جس میں کیماڑی اور منوڑا کے درمیان سفر ہوتا تھا۔ کیماڑی کے گھاٹ پر بغیر ریلنگ کی خطرناک سیڑھیاں نیچے سمندر کے گدلے اور مچلتے پانی کے اندر تک اترتی چلی جاتی تھیں۔

ان سیڑھیوں کے ساتھ بندھی ہوئی لانچیں پانی کی لہروں پر تیزی سے ہل رہی ہوتیں، ان ڈولتی کشتیوں میں صرف چھلانگ لگا کر ہی سوار ہوا جاسکتا تھا۔ کشتی کی دیواروں کے ساتھ جڑی ہوئی لکڑی کی نشستیں پُر ہوتے ہی اس کے گھرگھراتے انجن کی آواز بلند ہوجاتی اور وہ پَھٹ پَھٹ پَھٹ پَھٹ کرتی ہوئی گھاٹ سے نکل کر بندرگاہ میں لنگر انداز اونچے اونچے بحری جہازوں سے بچتی بچاتی جزیرہ منوڑہ کی طرف بڑھنے لگتی۔

سمندر کی ٹھنڈی اور خوشگوار ہوا کھا کر سارے مسافر کھل اٹھتے۔ جیسے ہی کشتی منوڑہ کے ساحل پر پہنچتی تو وہاں ایک اور تماشا دیکھنے کو ملتا۔ یہاں گھاٹ کے پاس سمندر کے پانی میں ملاحوں کے لڑکوں نے ایک عجب اچھل کود مچائی ہوئی ہوتی۔ سمندر میں تیراکی اور غوطہ خوری کا مظاہرہ جاری رکھتے ہوئے وہ منوڑہ کی سیر کے لیے آنے والوں کو سمندر میں سکہ پھینکنے کی ترغیب دیتے ہوئے ’پھینکو، پھینکو‘ کی آوازوں کا شور مچا دیتے۔

جیسے ہی کوئی چونّی (25 پیسے) یا اٹھنّی (50 پیسے) کا سکّہ اچھال کر پانی میں پھینکتا، کئی غوطہ خور لڑکے اس سکے کے تعاقب میں پانی میں غوطہ لگا دیتے۔ یہ پانی ایسا کوئی صاف شفاف بھی نہیں ہوتا تھا کہ سمندر میں پڑی ہوئی چیزیں اوپر سے نظر آ رہی ہوں۔ دھندلا سا پانی ہوتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود چشم زدن میں کوئی نہ کوئی ملاح لڑکا اس سکّے کو اپنے دانتوں میں دبائے پانی سے برآمد ہوتا اور تماشبین حیران رہ جاتے۔ وہ سکّہ ان لڑکوں کا انعام ہوتا تھا۔ شام تک وہ اچھی خاصی کمائی کرکے گھر واپس جاتے ہوں گے۔

اس زمانے میں کیمرہ ہر ایک کے پاس نہیں ہوتا تھا۔ کراچی کی تفریح گاہوں پر اکثر گشتی فوٹو گرافر فوری تصویر نکالنے والے پولورائڈ کیمرے Polaroid Camera لیے گاہکوں کی تلاش میں گھوم رہے ہوتے تھے۔ ایک دفعہ منوڑہ کے ساحل پر ہم نے بھی ایک ایسے ہی فوٹوگرافر سے اپنی تصویر کھنچوائی۔ کیمرے کا شٹر دباتے ہی اس کے اندر سے فوراً ہماری رنگین تصویر باہر نکل آئی جسے دیکھ کر ہم تو حیران ہی رہ گئے۔

ان مقامات کے علاوہ چڑیا گھر (گاندھی گارڈن)، مزارِ قائد اور ہل پارک بھی ہم اکثر جایا کرتے تھے۔ چڑیا گھر میں گینڈے والے پنجرے کے سامنے ممتاز محل کا تماشا ہوتا تھا، سر انسان کا دھڑ لومڑی کا (وہ بھی کیا معصوم دور تھا)۔ ممتاز محل کے برابر ایک فوٹو گرافر کی دکان بھی ہوتی تھی جہاں سے ایک دفعہ ہم تینوں بھائیوں نے اپنا بلیک اینڈ وائٹ گروپ فوٹو بنوایا تھا۔

ہل پارک پی ای سی ایچ سوسائٹی کے وسط میں ایک پہاڑی کی چوٹی پر بنی سیر گاہ ہے۔ ہل پارک میں اس زمانے میں ایک بھوت بنگلہ بھی ہوا کرتا تھا، جس میں اندر گھومتے ہوئے ایک مرتبہ میں اپنے گاؤں سے آئے ہوئے دوعزیزوں کے ساتھ شدید خوفزدہ ہوا اور پھر ہم تینوں چیختے چلاتے ہوئے باہر بھاگ آئے تھے۔

اس زمانے میں ہاکس بے، سینڈز پِٹ اور پیراڈائز پوائنٹ کے ساحل پر بھی لوگ بہت جاتے تھے لیکن یہ جگہیں چونکہ ہمارے گھر ملیر سے بہت دُور تھیں، اس لیے ہم وہاں بہت کم گئے۔

پیراڈائز پوائنٹ پر ساحلی پہاڑیوں میں پتھر کی ایک بلند و بالا قدرتی محراب ہوا کرتی تھی، جس کے نیچے سمندر کی لہریں گرجتی ہوئی آ کر ٹکراتی تھیں اور دھماکہ دار آوازوں کے ساتھ خوب شور مچاتی تھیں۔ ایک وقت آیا کہ یہ قدرتی محراب رفتہ رفتہ خود ہی ٹوٹ پھوٹ کر فنا ہوگئی۔

تفریحی مقامات کے ساتھ ساتھ کراچی میں سنیماؤں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد تھی لیکن چونکہ ہم ایک دیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے ہمیں سنیما کی وہ لت نہیں لگی جو اس زمانے کے لڑکوں میں عام سی بات تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنی زندگی کی پہلی فلم 1980ء میں گھر والوں کو بتائے بغیر اپنے گاؤں سے آئے ہوئے ایک کزن کے ساتھ صدر پریڈی اسٹریٹ پر ’اوڈین‘ سنیما میں دیکھی تھی۔

آج صدر میں ریگل چوک کے قریب یو پی ایس اور اسٹیبلائزر کی ایک کئی منزلہ مارکیٹ ہے اور یہ شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اس مارکیٹ کی جگہ کبھی ’اوڈین’ سنیما ہوا کرتا تھا، جس میں 1980ء میں فلم ’آگ‘ لگی تھی۔ آج پریڈی اسٹریٹ پر اوڈین نام کا کوئی سنیما نہیں۔

سنیما کی بات چلی ہے تو بتاتے چلیں کہ اس زمانے میں کراچی میں بہت سارے سنیما ہوا کرتے تھے۔ ریڈیو سے جب کسی فلم کی گیتوں بھری کہانی نشر ہوتی تھی تو اس پروگرام کے آخر میں جہاں جہاں یہ فلم زیرِ نمائش ہوتی تھی ان سنیماؤں کے نام بھی سنائے جاتے تھے۔

وہ ایک خاصی طویل لسٹ ہوتی تھی۔ سب سے معروف سنیما تو مرکز شہر کے تھے، نشاط، کیپری، پرنس، جوبلی، ریوالی، نشیمن، پلازا، ناز، بمبینو، اسٹار، ریگل، کیپٹل، پیراڈائز، اسکالا، ریکس، ریو، لیرک اور پیلس وغیرہ۔ جبکہ دیگر علاقوں کے نمایاں سنیماؤں میں ملیر کا نفیس اور شبانہ سنیما، شیر شاہ کا رنگ محل سنیما، تین ہٹی کے فلمستان اور ناولٹی سنیما، ماری پور روڈ پر کراؤن سنیما، نرسری پر خیام سنیما، بندر روڈ پر نگار، نگینہ، لائٹ ہاؤس، رِٹز، میجسٹک اور تاج محل سنیما، کورنگی میں غالب، نسیم، زینت اور تصویر محل سنیما وغیرہ۔ ان سنیماؤں میں سے اکثر تو شاپنگ پلازاؤں میں بدل گئے، البتہ کئی اب بھی اپنی اپنی جگہ کھڑے ہیں۔

کراچی کی ایک اور تفریح گاہ بھی ہوا کرتی تھی جو بعد میں سیکیورٹی کی نذر ہوگئی، یعنی کراچی ایئرپورٹ۔ اس زمانے میں ابھی جناح ٹرمینل تعمیر نہیں ہوا تھا صرف ٹرمینل وَن تھا۔ ایئرپورٹ میں عوام کے آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی تھی۔ جہاز پر سفر کرنے والے تو نیچے لاؤنج میں سے گزر کر جہاز پر تشریف لے جاتے تھے۔

البتہ جہازوں کے اڑنے اور لینڈ کرنے کا تماشا دیکھنے کے لیے شائقین ایئرپورٹ کی چھت پر چلے جاتے تھے اور وہاں ٹھنڈی ہواؤں کا لطف اٹھاتے ہوئے جالی دار ریلنگ سے لگ کر گھنٹوں کھڑے رہتے۔ دنیا بھر کے جہازوں کے آنے جانے اور بھانت بھانت کے غیر ملکی مسافروں کے گزرنے کا دلچسپ نظارہ کرتے رہتے تھے۔ یہاں ایک ریسٹورنٹ بھی ہوا کرتا تھا، جہاں بڑی مزے کی آئسکریم ملتی تھی۔

عبیداللہ کیہر کی کتاب ’’کراچی جو ایک شہر تھا‘‘ سے انتخاب