کیا روبوٹ تعمیراتی صنعت کو بدل سکتے ہیں؟

January 26, 2020

انسان جتنے بھی کام کرتا ہے، اس میںعمارت تعمیر کرنا سب سے زیادہ مٹیریل کے ضیاع اور آلودگی پھیلانے والے کاموںمیں سے ایک ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ایک عالمی سروے کے مطابق، تعمیرات کا شعبہ دنیا میں 40فیصد توانائی کی کھپت اور کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کے اخراج کا ذمہ دار ہے۔

سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے محققین کے کنسورشیم کے پاس اس مسئلے کا ایک ہی جواب ہے:روبوٹس کے ساتھ کام کرنا۔ سوئٹزرلینڈ کے نیشنل سینٹرز فار کامپیٹنیس اِن ریسرچ (این سی سی آر) کا ڈیجیٹل فیبریکیشن ہاؤس (ڈی فیب ہاؤس) اس تصور کا ایک ثبوت ہے۔ اسے ڈیجیٹل فیبریکیشن کے طریقوں کو اپناتے ہوئے ڈیزائن اور پلان کی گئی، دنیا کی اولین قابلِ رہائش عمارت کے طور پر مانا جاتا ہے۔

زیورخ کے قریب واقع یہ تین منزلہ عمارت توانائی کی بچت کرنے والی دیواروں، تھری ڈی سے پرنٹ کردہ چھتوں اور لکڑی کے بیمز پر مشتمل ہے، جسے سائٹ پر روبوٹس اور انٹیلی جنٹ ہوم سسٹم کے ذریعے نصب کیا گیا ہے۔2,370مربع فٹ (220مربع میٹر) رقبہ پر محیط اس’ڈی فیب ہاؤس‘ کو ای ٹی ایچ زیورخ یونیورسٹی کے ماہرین کی ٹیم اور اس صنعت سے وابستہ 30شراکت داروں نے چار سال کے عرصے میں مکمل کیا ہے۔ عمارت کی تعمیر میں 60فیصد کم سیمنٹ استعمال ہوئی ہے اور اس نے سوئس اداروں کے سخت تعمیراتی ضابطوں کو پاس کیا ہے۔

ڈی فیب تحقیقی ٹیم کے رکن میتھیاز کوہلر کہتے ہیں، ’’یہ آرکیٹیکچر کو دیکھنے کا ایک نیا انداز ہے‘‘۔ ایک طویل عرصے سے آرکیٹیکٹس کے کام کو عمارتیں ڈیزائن کرنے کے حوالے سے پیش کیا جاتا رہا ہے جبکہ تعمیرات کی تکنیکی خصوصیات کو پس منظر میں ڈال دیا گیا ہے۔ کوہلر کا کہنا ہے کہ یہ اب تیزی سے بدل رہا ہے، ’’اچانک سے آرکیٹیکچر کا مرکز اب یہ ہوگیا ہے کہ رہائش گاہیں تعمیر کرنے میں ہم وسائل کس طرح استعمال کرتے ہیں ، یہ بات اہم ہے کہ آپ کس طرح تعمیرات کرتے ہیں‘‘۔

ڈی فیب ہاؤس، ڈیجیٹل فیبریکیشن تکنیک استعمال کرنے والا پہلا عمارتی منصوبہ نہیںہے۔2014ء میں وِن سَن نامی ایک چینی کمپنی نے ایک دن میں10سنگل اسٹوری (ایک منزلہ) گھر بناکر تھری ڈی پرنٹنگ کی آرکیٹیکچرل استعداد کا مظاہرہ کیا تھا۔ ایک سال بعد، شنگھائی میں واقع ایک کمپنی نے اپارٹمنٹ اور ایک نوکلاسیکی محل پرنٹکیا، البتہ یہ تمام منصوبے فی الحال تعمیر کے مراحل میں ہیں۔

کوہلر بتاتے ہیں کہ تعمیراتی رفتار کے ریکارڈ توڑنا ضروری طور پر مقصد نہیں تھا، ’’بلاشبہ، ہم رفتار اور معیشت میں پیشرفت حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن ہم نے سب سے پہلے معیار کے نظریہ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’آپ چیزوں کو بہت تیز رفتاری کے ساتھ کرسکتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پائیدار بھی ہوں گی‘‘۔

انسان اور مشین

آٹومیشن کا ذکر ان خدشات کو بہرصورت چھیڑنےکا باعث بنتا ہے کہ روبوٹس، انسانوں کو ان کی نوکریوں سے بے دخل کررہے ہیں۔ البتہ، کوہلر کا ماننا ہے کہ ٹیکنالوجی کو اختیار کرنا درحقیقت انسانی تخلیق کو اُبھارنے اور کاریگری کی بحالی کو آگے بڑھانے کا باعث بنے گی۔ ’’جیسے کسی کاریگر کے جیب میں آئی فون ہوسکتا ہے، میرا خیال ہے کہ مستقبل کی مشینیں انسان سے کم الگ ہوںگی‘‘۔

یہ کام کس طرح ہوگا؟ کوہلر کہتے ہیں کہ روبوٹس کے ساتھ شراکت میںکام کرنے کا مطلب ہے، مشین پراسیس کے نتائج خود اس بات کا تعین کریں کہ ڈیزائن کس طرح کرنا ہے۔ وہ تجویز کرتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ مشینوں پر یہ دباؤ ہو کہ وہ تعمیراتی مراحل میںانسان کی نقل کریں، ڈیجیٹل فیبریکیشن کے ذریعے ایک مکمل طور پر نئی جمالیاتی شناخت حاصل کی جاسکتی ہے۔ ڈی فیب گھر کی سجاوٹی چھت، جسے بڑے سائز کے تھری ڈی سینڈ پرنٹر سے تخلیق کیا گیا ہے، ایسے ہی سجاوٹی امکانات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

اس حوالے سے ڈی فیب ٹیم کے تھری ڈی پرنٹنگ اسپیشلسٹ بینجمن ڈیلنبرگر مزید کہتے ہیں کہ روبوٹس کے ساتھ کام کرنا تعمیراتی کارکنوں کی صحت کی حفاظت کرسکتا ہے۔ ساتھ ہی وہ خبردار کرتے ہیں کہ کسی کو تعمیراتی سائٹ پر کام کرنے کو رومانویت نہیں دینی چاہیے۔ ان کا کہنا ہے، ’’اس طرح کے باہمی تعاون کے سیٹ اَپ رکھنا واقعی سمجھ میں آتا ہے، جہاں روبوٹ اور انسان ایک ساتھ مل کر کام کریں‘‘۔

کوہلر اور ڈیلنبرگر کہتے ہیں کہ سوئٹزرلینڈ میںتجرباتی ڈھانچے سے آگے بڑھ کر وہ عالمی آرکیٹیکچر اور تعمیراتی شعبے کے ساتھ بات چیت کو فروغدینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انھوں نے اوپن سورس ڈیٹا سیٹ بھی شائع کیے ہیںاور ’’ایک گھر کس طرح تعمیر کیا جائے: ڈیجیٹل عہد میں آرکیٹیکچرل تحقیق‘‘ کے عنوان سے نمائش بھی منعقد کی ہے۔

اسکول کے شعبہ آرکیٹیکچر کے ڈین نادر تہرانی کو اُمید ہے کہ یہ نمائش آڈینس کی بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کرے گی۔ ’’ہم نے تصور کیا تھا کہ یہ صرف آرکیٹیکٹس ہی نہیں بلکہ انجینئروں، آرٹسٹوں اور بلڈروں کی بھی دلچسپی کا باعث ہوگی‘‘، وہ کہتے ہیں۔ ’’ایک بار میں سنجیدہ، عقلی اور پُرمغز نظر آنے والی اس منصوبے کی تحقیق، تخمینہ ساز، بے مثال اور قیاس آرائی پر بھی مبنی ہے‘‘۔

ڈیلنبرگر کا ماننا ہے کہ ڈی فیب گھر ان افراد کے لیے بھی دلچسپی کا باعث بنے گا، جن کا آرکیٹیکچر اور تعمیراتی شعبے سے تعلق نہیں۔ ’’آرکیٹیکچر ہمیشہ ایک عوامی منصوبہ ہوتا ہے‘‘، وہ کہتے ہیں۔ ’’یہ ہر اس شخص کے بارے میں ہے جو یہ جاننے کا تجسس رکھتا ہے کہ ہم اپنا مستقبل کس طرح تعمیر کررہے ہیں‘‘۔