والدین میرے لکھنے کے خلاف تھے

January 29, 2020

معروف ڈرامہ نگار ، اداکار ،شاعر اور ہدایتکار خلیل الرحمان قمر کو اگر ’’ڈائیلاگز کنگ ‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔اُن کے ایک ڈائیلاگ ’’دو ٹکے کی عورت‘‘ نے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا دیا ۔اس ڈائیلاگ پر کچھ سامعین کو غصہ بھی آیا ،بہر حال لوگ ان سے نفرت کر سکتے ہیں محبت کرسکتے ہیں ، مگر اِن کی صلاحیتوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے ۔

بقول خلیل الرحمان قمر’’ آئیڈیاز مجھ میں پنپتے ہیں اور جو کچھ لکھتا ہوں اُس کا مجھے پر الہام ہوتا ہے۔ میرے مکالمے شاعری کی طر ح ہوتے ہیں‘‘۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان بھی بیٹھے لکھ لیتے ہیں۔انہوں نےڈراموں سے فلموں تک معاشرے کی خوبصورت منظر کشی کی ، اسی لیے اُنہیں معاشرے کا ’’سرجن‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ پنجابی گھرانے سے تعلق رکھنے والےخلیل الرحمان نے ’’اُردو‘‘ باقاعدہ نہیں سیکھی۔

شاید یہ واحد لکھاری ہیں۔ ڈراما ’’لنڈا بازار‘‘ سے اپنی پہچان بنانے والے مصنف نے 1999ء میں ’’دستک اور دروازہ‘‘ نامی ڈرامے سے انڈسٹری میں قدم رکھا ’’بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ میں بطور رائٹر، ایکٹر اور ڈائریکٹر کے طور پر سامنے آئے۔ مختلف رسائل اور جرائد میں اس وقت لکھا کرتے تھے جب وہ خود بھی بچے تھے۔ اسکول میں پہلی کہانی ’’چھوٹے میاں سبحان اللہ‘‘ ایک رسالے میں شائع ہوئی تو کہانی کے ساتھ ان کی بھی خوب دھوم مچی۔

Your browser doesnt support HTML5 video.

یہ بھی دیکھئے: خلیل الرحمان قمر کا خصوصی انٹرویو،جیو نیوز کے پروگرام’ ایک دن جیو کے ساتھ‘

زندگی کی جدوجہد اور نشیب و فراز نے اُن کے حوصلوں کو مستحکم کیا۔ شدید غربت کا دور دیکھا، 50-60 گھنٹےبھوکے رہے لیکن محنت سے جی نہیں چرایا۔ بی کام اور ایم بی اے میں پہلی پوزیشن لی ۔عملی زندگی کا آغاز بینک سے کیا ۔ زمانے کی حقیقتوں کو اپنے قلم سے اس طرح بیان کرتے ہیں کہ سامعین ان میں کھو جاتے ہیں۔

ان کی کامیابیوں کا سلسلہ صرف ڈراموں تک ہی محدود نہیں اُنہوں نے فلم انڈسٹری میں بھی اپنا لوہا منوایا۔فلم ’’قرض، کوئی تجھ سا کہاں، چنا سچی مچی، نکی جئی ہاں اور ریکارڈ توڑنے والی فلم ’’پنجاب نہیں جاؤں گی‘‘ نے اُنہیں کامیابیوں کی بلندیوں تک پہنچا دیا ۔ فلم ’’کاف کنگنا‘‘ نے اُن کی مقبولیت میں مزید اضافہ کیا ۔

ایک فلم میں نیشنل ایوارڈ ملا،جب کہ بہترین ٹی وی ڈراما رائٹر کا ایوارڈ بھی اپنے نام کرچکے ہیں۔ ان کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ وہ سر عام آرٹسٹوں کو ڈانٹ دیتے ہیں، لیکن ڈرامارائٹرز کواُن کامقام بھی دلایا ۔ بچپن میں اُن کی غنڈہ گردی کے قصے مشہور تھے۔وہ رومانس میں بھی حالات حاضرہ کو شامل کرلیتے ہیں ۔

عورت کی آزادی سے اختلاف ہے لیکن اُن کی آئیڈیل عورت کون ہے؟۔ان سوالا ت کے جواب خلیل الر حمان قمر نے جیو نیوز کے پروگرام’’ ایک دن جیو کے ساتھ ‘‘ میں میزبان سہیل وڑائچ اور جیو کے نمائندے محمد ناصر کو انٹر ویو میں دئیے۔ خصوصی گفتگو میں کیا کہا، یہ جاننے کے لیےآپ بھی ہمارے ساتھ گفتگو میں شامل ہو جائیں۔

٭سب سےپہلے ہمیں اپنے خاندان کے بارے میں بتائیں ؟

خلیل الرحمان قمر …1962ء میںلاہور میں آنکھ کھولی ہوش سنبھالا تو گھر میں غربت کا راج تھا ۔اس کے باوجود والد نے تعلیم سے بہر ہ مند کیا ۔مادری زبان پنجابی تھی ۔بولتا انگریزی تھا۔ اردو سے نابلد تھا۔

٭… اردو سے نابلد تھے ،پھر وہ کیا خاص فارمولا ہے کہ آپ اردو بولتے سمجھتے سمجھتے ڈائیلاگز کنگ مشہور ہوگئے؟

خلیل الرحمان قمر … کوئی کام کرنا مشکل ہوتا ہے نہ سمجھنا۔ میںنے لوگوں ہی کے درمیان سیکھا ،پڑھا جب میں نے پہلی بار قلم ہاتھ میں لیاتو اسی وقت سمجھ گیا تھا کہ میں رائٹر ہوں، مجھے خود آگہی کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔

یہ سمجھ لیں مجھے الہام ہوتا ہے کیونکہ آمد کو معتبر لفظوں میں الہام کہتے ہیں۔ میں بیٹھ کر قصداً نہیں لکھ سکتا، جب مجھے الہام ہوتا ہے تو اس وقت میرا موڈ تبدیل ہو جاتا ہے، میں سب کے درمیان بیٹھا ہوا بھی تنہا ہو جاتا ہوں۔

لوگوں کے درمیان بیٹھ کر بھی لکھ لیتا ہوں، مجھے علم ہی نہیں ہوتا کہ میں اتنے لوگوں کے درمیان ہوں ،بعض اوقات تو اتنی تیز آمد ہوتی ہے کہ لفظ لکھنے سے رہ جاتے ہیں، پھر بعد میں اُن لفظوں کو ری کال کرنا پڑتا ہے۔ میرے اندرآئیڈیاز پنپ رہے ہوتے ہیں، یہ جو ’’ڈائیلاگز‘‘ ہوتےہیں اس کیلئے اوپر والے نے مجھ پر خاص مہربانی کی ہے، البتہ کہیں کہیں مجھے رعایتی لفظ استعمال کرنا پڑتے ہیں۔

اقبال اور غالب تو اپنے اشعار پر بہت محنت کرتے تھے اور بعد میں اُسے چُست بناتے تھے۔ مجھ پر تو چُست ہی اُترتے ہیں ۔ میں اب کیا کہوں ، شاید لوگ میرے مرنے کے بعد ہی میری باتوں کو مانیں گے۔

٭… لیکن یہ ایک وہم بھی تو ہوسکتا ہے؟

خلیل الرحمان قمر … یہ قطی وہم نہیں ہے، یہ اتنا مستقل اور پکا یقین ہے جو آج تک ٹوٹ نہ پایا۔ شروع میں بہت باریک بین تھا۔ زندگی کے تجربات میرے ذہن میں فیڈ ہو جاتے تھے، میں چھٹی جماعت سے 11 ویں جماعت تک تواتر سے لکھتا رہا ،مختلف جرائد میں چھپتا رہا اور بے تحاشہ شائع ہوا، پھر وہ وقت آگیا جب مجھے صحیح اور باقاعدہ لکھنا تھا۔ یہ بتا دوں کہ والدین میرے لکھنے کے خلاف تھے۔

٭… عموماً والدین بچوں کو کھیل کود سے منع کرتے ہیں لیکن آپ کو لکھنے سے منع کرتے تھے ایسا کیوں؟

خلیل الرحمان قمر … گرچہ ابتداء میں میرے لیے بھی یہ حیران کن بات تھی، لیکن بعد میں مجھے اس بات کا ادراک ہوا کہ اُن کے ذہن میں رائٹر کا تصور بہت ہی بُرا تھا۔ میں بہت اچھا طالب علم تھا ۔والد چاہتے تھے کہ میں پڑھ لکھ کر ایک اعلیٰ افسر بنوں اور خاندان کو غربت کی پاتال سے نکالوں ۔

اسی لیے وہ میرے لکھنے کے خلاف تھے، جس نے میرے اندر ایک باغی پیدا کردیا،میں والدین کے منع کرنے کے باوجود لکھتا چلا گیا جب اس باغی نے لکھنا شروع کیا تو وہ سب مشاہداتی تھا، بالآخر والدین نے بھی چُپ سادھ لی۔میں نے تو اپنے نام میں بھی ’’قمر‘‘ کا اضافہ خود کیا۔

٭… آپ خلیل الرحمان سے ’’خلیل الرحمان قمر ‘‘ کیسے بنے ؟

خلیل الرحمان قمر … میں بنیادی طور پر شاعر ہوں ،بعد میں ڈراما نگار ہوں، اِن دونوں میں ایک ڈیڑھ ماہ کا فرق ہے۔یہ سمجھ لیں قمر تخلص ہے۔

٭… آپ بینکار تھے،کہاں اعداد و شمار کا ہیر پھیر اور کہاں تحریر میں رومانوی لفظوں کی اُلٹ پھیر، یہ تو بہت بڑا ٹرن آراؤنڈ ہے؟

خلیل الرحمان قمر … میں نے بڑی جاں فشانی سے بینکنگ کی ہے، نیشنل بینک آف پاکستان سے کیریئر کا آغاز کیا تھا ۔پنجاب بینک کا وائس پریذیڈنٹ تھا۔ بینک کی ملازمت کسی وجہ سے چھوڑنا پڑی، دوسرا کام جو مجھے آتا تھا وہ تھا ’’لکھنا‘‘ ۔ بینک والے اس بات پر یقین ہی نہیں کرتے تھے کہ مجھے اُردو لکھنا آتی ہے۔

اپنے اباکی وجہ سے میں ہر ایک سے حتیٰ کہ ٹھیلے والے سے بھی انگریزی میں بات کرتا تھا، کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ میں ہمیشہ انگریزی میں بات کروں۔ وہ بالکل صحیح کہتے تھے، کیونکہ پاکستان میں اصل ’’لیاقت‘‘ تو انگریزی کو ہی سمجھا جاتا ہے۔

اگر آپ کو اچھی انگریزی نہیں آتی تو آپ جتنے چاہے ذہین ہوں آپ کی کوئی قدر نہیں، حالاں کہ یہ بالکل غلط ہے، اسی چیز نے ہمیں اس جگہ لاکر کھڑا کردیا ہے جہاں سے ہم اپنی ترقی کا سفر شروع نہیں کر پارہے۔ آدمی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے مگر زبان کی غلامی سے کبھی آزاد نہیں ہوتا اور وہ قومیں بے شرمی کی زندگی گزارتی ہیں جو دوسروں کی زبان بول کر اپنی زبان کو پیروں تلے روندتی رہتی ہیں۔

٭… اُردو کس سے سیکھی، اُستاد کون تھا؟

خلیل الرحمان قمر … میں خالص ٹھیٹ پنجابی گھرانے میں پیدا ہوا اور آج بھی پنجابی اُردو سے تیز لکھتا ہوں…

میری پہلی فلم ’’نکی جئی ہاں‘‘ پنجابی میں تھی اردو میں، زیادہ تر ’’کورس ‘‘ کی کتابیں پڑھیں، کسی لکھاری کو خاص طور پر نہیں پڑھا ۔ ایک بات بتادوں کہ میں نے مشہور ادیبوں کی کتابیں تو نہیں پڑھیں لیکن جب ٹی وی پر یا محفل میں لوگ بولتے تھے تو اُنہیں بغور سنتا تھا۔

یوں سمجھ لیں پہلے خاموش رہتا اور سنتا تھا، انگنت لوگوں کو سنا۔ اب بھی اچھی باتیں کرنے والوں کو بہت غور سے سنتا ہوں۔ بہت اچھا سامع ہوں۔ کہہ سکتے ہیں کہ دوسروں کوبولتے، سنتے اردو سیکھی۔

٭… سب سے زیادہ متاثر کس سے ہیں؟

خلیل الرحمان قمر … ڈاکٹر حیراج نقوی سے ۔یہ وہ شخص ہیں جن کی اُردو اور لب و لہن کی وجہ سے مجھے اُن سے عشق ہے۔ وہ بھی مجھ سے بہت محبت کرتے تھے ، میں نے اُن کے نام پر اپنے چھوٹے بھائی کا نام ’’حیراج علی‘‘ رکھا ۔

٭…اس بات میں کتنی صداقت ہے کہ آپ نے رائٹرز کے حق میں آواز بلند کی ؟

خلیل الرحمان قمر …میں جب فلم انڈسٹری میں داخل ہوا تو دیکھا جس قدر بُرا سلوک رائٹرز کے ساتھ کیا جارہا ہے وہ شاید ہی کسی کے ساتھ ہوتا ہو۔ لہٰذا مجھے سب سے پہلے رائٹرز کے امیج کو درست کرنا تھا۔ میں رائٹرز کے ساتھ کھڑا ہوا اور آج تک کھڑا ہوں۔ آج ان کا احترام کیا جاتا ہے۔

اُن کے لکھے کو اہمیت دی جاتی ہے ۔کسی کی جرأت نہیں کہ وہ میری لکھی ہوئی ایک لائن کو اِدھر سے اُدھر کردے یا ’’کا‘‘ کو ’’کی‘‘ کا اضافہ کردے یا کاٹ دے ، اگر کوئی کوشش کرتا تو میرا اُس پر بہت سخت ردِعمل ہوتا اور پھر جس نے یہ کام کیا اس نے دوبارہ میرے ساتھ کام نہیں کیا۔

میں کسی کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ میری لکھی ہوئی ایک لائن بھی تبدیل کرے، شاید یہی وجہ ہے کہ میں اس فیلڈ میں اب تک ہوں، آپ ایک بار میری لائن کو اِدھر سے اُدھر کرو گے تو ، دوسرا موقع آپ کو کبھی نہیں ملے گا۔

٭… ایک ڈرامہ سیریل لکھنے کے کتنے پیسے لیتے ہیں؟

خلیل الرحمان قمر … یہ سوال نہ پوچھیں، ویسے پاکستان میں مجھے سب سے زیادہ پیسے مجھے ملتے ہیں۔

٭… لاکھوں یا کروڑوں میں؟

خلیل الرحمان قمر … کروڑوں نہیں لاکھوں ۔

٭… سنا ہے اُردو زبان کے فروغ کی بات ہو تو آپ بعض اوقات کافی تلخ اور سخت باتیں کرجاتے ہیں؟

خلیل الرحمان قمر … تلخ تو نہیں مگر سخت باتیں ضرور کر جاتا ہوں۔ جہاں تک اُردو کے فروغ کا سوال ہے وہ تو میں تادَم مرگ چیختا رہوں گا۔ اُردو زبان کی ترویج و ترقی میں لکھنؤ، دہلی اور بھوپال کا زیادہ کردار ہے ۔ لاہور میں ایک زمانے تک اچھی اردو بولنے کا سلسلہ رہا جو تعلیم کی نجکاری کے بعد یکا یک ٹوٹ گیا۔ ہمیں لگا کہ ’’لیاقت‘‘ انگریزی زبان میں چھُپ گئی ہے۔

یہ ذہن میں رکھیں کہ اردو بولنا اور لکھنا دو مختلف چیزیں ہیں، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے پنجابی زبان میں کام نہیں ہوسکا کیونکہ ہم نے یقین کرلیا کہ ہمیں تو پنجابی آتی ہے۔ اِسی طرح کراچی میں بھی بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اردو کو اُردو کے لہجے کے ساتھ نہیں بول رہے، لب و لہن کا لحاظ کم رکھا جاتا ہے۔ بہرحال ہم صرف کراچی کو الزام نہیں دے سکتے پورے ملک کا یہی حال ہے۔

پنجاب تخلیقی کام کیلئے زرخیز مٹی ہے اور یہ ہمیشہ سے ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی نے بہت بڑے بڑے لوگوں کو پیدا کیا لیکن پنجاب کی مٹی نے بھی بہت نامور سپوت پیدا کئے ۔ جیسے علامہ اقبال، فیض احمد فیض۔ اِن کے علاوہ بھی بہت نامی گرامی لوگ ہیں جو اِس مٹی سے پیدا ہوئے ہیں۔

اگر کہیں میرا کسی کے ساتھ کچھ سیکھنے میں تعلق ہے تو وہ آغا حشر ہیں، اُن کے ہاں ڈرامہ منظوم تھا ۔ میرے جو ڈائیلاگز ہیں وہ اس طرح ہوتے ہیں جیسے شاعری۔ ویسے آغا حشر کے کچھ ڈرامے میں نے پڑھے بھی ہیں اور مجھے اُن سے بے حد محبت ہے۔ اُن کا نقشہ کھینچنا ، اسکرین پلے وغیرہ بنانا ۔ اُن کے اسٹیج ڈرامے تو لاجواب تھے۔

٭… آغا حشر کاشمیری خود پسند تھے، کیا آپ میں بھی کچھ ایسا ہی ہے اور کیا آپ خود پر تنقید کرتے ہیں؟

خلیل الرحمان قمر … میں ایسا بالکل نہیں ہوں کیونکہ ’’خلیل الرحمان قمر‘‘ جس آدمی کا نام ہے میں اس کی بہت عزت کرتا ہوں، وہ نوازا ہوا آدمی ہے۔ خود کو بالکل خود پسند نہیں کہتا لیکن خلیل الرحمان قمر کو جو عطا ہورہا ہے اس کا عاشق ہوں۔

٭… یعنی آپ اپنے ہی عاشق ہیں؟

خلیل الرحمان قمر … یہ تو وقت طے کرے گا، جب لوگ امریکا اور یورپ کے بارے میں اتنا کچھ لکھتے ہیں تو کسی دِن خلیل الرحمان قمر کو بھی لکھا جائے گا ، پھر پتہ چلے گا کہ خلیل الرحمان اور ’’خلیل الرحمان قمر ‘‘ دو الگ الگ شخصیات ہیں۔ مجھ پر خلیل الرحمان قمر وارد ہوتا ہے۔ اُس وقت میں لکھنے بیٹھتا ہوں، ورنہ خلیل الرحمان تو ایک عام آدمی ہے۔

٭… عورت کوآزادی دو، دُنیا بھر کا مقبول نعرہ ہے،کیا آپ کو اس سے اختلاف ہے؟

خلیل الرحمان قمر … مجھے اِس سے کوئی اختلاف نہیں ، میں تو عورت کی آزادی کا سب سے بڑا داعی ہوں لیکن میں مادر پدر آزادی کیلئے کسی صورت اپنی تجاویز نہیں دے سکتا۔

٭… اس آزادی میں فرق کیسے کریں گے؟

خلیل الرحمان قمر … فرق کیسے نہیں کریں گے؟۔ آپ ضابطوں اور مذہب سے باہر نکل جائیں۔ تمام مذاہب کو بحر ہند میں پھینک دیں،تو اسے کیا کہیں گے۔ میں کئی برس تک عورت کو جاننے کی کوشش کرتا رہا ہوں، میں لکھتا ہی عورت کے بارے میں ہوں، میرا ماننا ہے کہ معاشرے میں مرد کا کردار بہت کم ہے اور عورت کا بہت زیادہ ۔ ہم اُن پر انحصار کرتے ہیں، پھر اُن کا رتبہ مرد سے زیادہ ہوتا ہے ۔ میرا اعتراض صرف یہ ہے کہ آپ (خواتین) اپنے حقوق کی بات کیجئے، مردوں کے حقوق سے حصہ نہ مانگیں۔

٭… اپنی پہچان کیا سمجھتے ہیں؟

خلیل الرحمان قمر … مکالمے۔ میں مکالمے سے پہچانا جائوں گا، نئی بُنتوں سے پہچانا جائوں گا۔یہی میری پہچان ہوگی۔ وہ خدا کی ودیعت کردہ چیز ہے اس سے آپ باہر نکل ہی نہیں سکتے۔

٭… بظاہر آپ بہت خوش مزاج ہیں لیکن سنا ہے فنکاروں پر ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے ہیں؟

خلیل الرحمان قمر … یہ ڈانٹ ڈپٹ اَنا کی نہیں بلکہ اُنہیں سکھانے کے لیےہوتی ہے، میں کئی فنکاروں سے عمر میں بڑا ہوں، کئی سےعمر میں چھوٹا مگر تجربات میں بڑا ہوں۔ جو اپنے کام میں ایماندار ہیں میں اُن کے پیروں میں بیٹھتا ہوں اور جو اپنے کام سے دیانت نہیں کرتے، اُن کے ساتھ میری پرابلم شروع ہوجاتی ہے۔

٭… آج کا خلیل الرحمان قمر بچپن کے خلیل الرحمان قمر سے کتنا مختلف ہے؟

خلیل الرحمان قمر … بہت مختلف اور اب تو خلیل الرحمان قمرتائب ہوگیا ہے ، بچپن میں تو خلیل الرحمان اپنے تئیں محلے کا ایک غنڈہ ہوا کرتا تھا۔ میں نے دوسروں سے مار نہیں کھائی، ہمیشہ مارا ہی ہے۔

لیکن جب تک کوئی مجھ سے پنگا نہ لے میں اسے نہیں مارتا تھا، اگر کوئی پنگا لیتا تو پھر میں اُسے نہیں چھوڑتا تھا۔ یہاں بدنام زمانہ ایک شخص تھا، جس نے 100 بچوں کا قتل کیا تھا، میں نے ایک بار اُسے بھی بہت مارا تھا۔ اس وقت مجھے علم نہیں تھا کہ یہ بچوں کا قاتل ہے ۔

٭…کہتے ہیں عشق ایک بار ہوتا ہے، آپ کو کتنی بار ہوا؟

خلیل الرحمان قمر … یہ کہنا کہ عشق ایک بار ہوتا ہے یہ بات ’’عشق‘‘ کے حوالے سے تو سچی ہوسکتی ہے لیکن ایک عمر آتی ہے جب آپ کے اندر محبت کے سوتے پھوٹ رہے ہوتے ہیں لیکن وہ محبت کس کے حوالے کی جائے گی یہ طے کرنا ہوتا ہے۔ پھر جب محبت سے تشبیہہ کھاتا کوئی شخص آپ کو مل جاتا ہے تو آپ وہ محبت اُسے سونپ دیتے ہیں۔اب مجھے کتنے لوگوں سے محبت ہوئی اس کاجواب نہیں دے پائوں گا۔

٭… کیا آپ چاہتے ہیں کہ محبوب آپ کا تعاقب کرے؟

خلیل الرحمان قمر … جی ہاں! کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے، ویسے میری زندگی کے احساسات کچھ مختلف ہیں، ہمارے ہاں فوراً قدغن لگتی ہے کہ جناب، افیئر چل گیا، محبت ہوگئی، عشق ہوگیا اور ایسے بہت سے الزامات ہیں جو ہم لوگوں پر لگاتے رہتے ہیں لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہم لوگوں کو ’’آزادیٔ بکواس‘‘ کی اجازت ہے ۔

٭… دور حاضر میں اُردو کا سب سے بڑا شاعر اور نثر نگار کسے مانتے ہیں؟

خلیل الرحمان قمر … میرا پڑھنے کا شوق ذرا کم ہے، کئی دہائیوں سے میں نے دیکھا نہیں کہ کوئی بہت بڑا شاعر سامنے آیا ہو۔ البتہ فیض ، مجید امجد ، احمد فراز ،منیر نیاز،امجد اسلام امجد، پروین شاکر ، جون ایلیا یہ بہت بڑے شاعر تھے۔ نثر میں ممتاز مفتی، احمد ندیم قاسمی ۔

٭… آپ منٹو کو ادب میں کیا مقام دیتے ہیں؟

خلیل الرحمان قمر … اُنہیں تو میرا سلام ، میں شاید حجاب میں وہی باتیں کرتا ہوں جو وہ کرتے تھے، اُنہوں نے مالی دُکھ زیادہ دیکھے تو اُن کی تکلیف بھی زیادہ تھی لیکن میرے اخلاقیات کے حوالے سے دُکھ زیادہ ہیں تو بس، وہی چیرا دستیاں ہیں۔

٭… لوگ وہ وقت نہیں بھولے جب لاہور لالی ووڈ کے نام سے فلمی دُنیا اور شوبز کا مرکز ہوا کرتا تھا، اسے کسی کی نظر کھا گئی؟

خلیل الرحمان قمر … اِسے اپنی ہی نظر کھا گئی، وہاں کونٹینٹ کا زوال آیا، جہاں کونٹینٹ کو انڈرمائن کیا جاتا ہے وہاں کتنی ہی قیمتی پروڈکشنز ہوں اس کی کوئی قیمت نہیں رہتی ،اگر آپ یہ تصور کرلیں کہ اداکار کا چہرہ دکھانے سے آپ کو کامیابی مل جائے گی، وہاں آپ غلط رستے پر بھٹک رہے ہوتے ہیں۔

٭… کیا لاہور دوبارہ فلمی دُنیا اور شوبز کا مرکز بن سکتا ہے؟

خلیل الرحمان قمر … لاہور شوبز کا فطری حب ہے اور دُنیا میںایسا کہاں ہوا ہے کہ ایک فطری حب ٹوٹ گیا ہو۔ ممبئی ہمیشہ سے حب ہے، کلکتہ سائوتھ کا حب ہے، ہالی ووڈ امریکا کا حب ہے تو لاہور کو آپ کیسے مٹا سکتے ہیں۔

٭… آپ اب تک تقریباً 80 کے قریب ڈراما سیریلز لکھ چکے ہیں، آئندہ کے کیا ارادے ہیں؟

خلیل الرحمان قمر … اب میرا زیادہ تر کام ’’جیو‘‘ ٹی وی کے لیے ہو گا،کیونکہ میں نے اِنہیں سال میں 4 ڈرامے دینے کا معاہدہ کرلیا ہے۔ عبداللہ کادوانی اور اسد قریشی سے بھی میرے مذاکرات فائنل ہوگئے ہیں اب میری مکمل توجہ جیو پر مرکوز ہوگی ،یہی میرے مستقبل کے ارادے ہیں۔

٭… کیا موضوعات کرنٹ افیئرز سے لیتے ہیں؟

خلیل الرحمان قمر … کرنٹ افیئرز کے بغیر تو میں رہ ہی نہیں سکتا، اپنے وقتوں کے شاعر اپنے ملک کے حالات سے ناتہ نہیں توڑ سکتے، رومانس میں بھی حالاتِ حاضرہ ہوتا ہے۔

٭… کیا سیاست میںدل چسپی ہے؟

خلیل الرحمان قمر … جس قسم کی سیاست پاکستان میں ہوتی ہے میرا نہیں خیال کہ میں کبھی سیاست میں آئوں گا۔ مجھے کسی سے کوئی اختلاف نہیں لیکن ایک بات سے اختلاف ہے کہ آپ ببانگ دہل ایک بات کہیں اور پھر باہر آکر سب کو بتائیں کہ وہ تو ایک سیاسی بیان تھا تو جھوٹ بولنا میرے ہاں کیا میرے مذہب میں بھی جائز نہیں ہے۔

٭… آپ کی ساری کہانیاں عورت کے کردار کے گرد گھومتی ہیں، آپ کی آئیڈیل عورت کیسی ہے یا یہ صرف کوئی تخیل ہے؟

خلیل الرحمان قمر … بالکل کوئی تخیل نہیں ہے، میری آئیڈیل عورت باوفا اور با حیا ہے ، جو بے وفا ہو،اسے تو میں قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتا۔ میں اُسے ولن بھی نہیں مانتا بلکہ میں تو اُسے سرے سے عورت ہی نہیں مانتا۔ میرا اس بات پر یقین ہے کہ عورت فطرتاً باوفا ہوتی ہے اور جو بے وفا ہو وہ عورت ہی نہیں ہوتی۔

٭… کیا ایسی عورت آپ کے ڈراموں میں جگہ پاتی ہے؟

خلیل الرحمان قمر … وہ عورتیں منفی عنصر کے طور پر جگہ پاتی ہیں اور مجھے دُکھ ہوتا ہے جب مجھے عورت کو منفی طور پر لکھنا پڑتا ہے۔ میں عورت کو زیادہ عزت دیتا ہوں، مرد کو تو میں کسی کھاتے میں ہی نہیں لاتا ۔

٭… لیکن کبھی کبھی تو آپ زمانے کے عمومی چلن کے برعکس مرد کو ظالم کی بجائے مظلوم بنا کر پیش کرتے ہیں؟

خلیل الرحمان قمر … مرد کہیں کہیں بہت مظلوم ہے، کہیں کہیں بہت ظالم ہے، یہ ہر جگہ ہے، اِسی طرح عورت بھی کہیں بہت پریشان ہے، کہیں وہ بہت طاقت ور ہے۔ میری آرزو یہ ہے کہ مرد اپنا حق ادا کرے اور عورت اُس کے ساتھ وفا کرے ۔ وہ مرد جو عورت سے چیٹ کرتا ہے میں اُسے بھی دو ٹکے کا بولتا ہوں، اُس سے تو میری کوئی توقع ہی نہیں ہے۔ اب اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔

شادی ہوئی تو شوہر شاعر تھے ،نہ ادیب

ابو دوسروں پر زیادہ اپنے پر کم خرچ کرتے ہیں، خلیل الرحمان کی بیوی اور بچوں کا اظہارِ خیال

٭… خوبصورت شوہر، رائٹر اور شاعر۔ آپ تو ہر وقت مشکل میں رہتی ہوں گی؟

روبی ناز (اہلیہ) … جی ہاں! مشکل میں تو رہتی ہوں۔

٭… اِنہیں عورتیں زیادہ تنگ کرتی ہیں یا یہ اُنہیں تنگ کرتے ہیں؟

روبی ناز … عورتیں اِنہیں زیادہ تنگ کرتی ہیں۔ وہ ہر وقت اِن کے پیچھے پڑی رہتی ہیں، فون نمبر ، ایک کا میسج آتا ہے تو دوسری کی کال آجاتی ہے ۔ اور کچھ یہ (خلیل الرحمان قمر) بھی دِل پھینک ہیں۔

٭… پھر آپ اِنہیں ، کیسے منع کرتی ہیں؟

روبی ناز … پہلے میں روکتی تھی، اب نہیں ۔

٭… کیا آپ کے پیچھے بھی یہ اِسی طرح رومانس کرتے ہیں؟

روبی ناز … بندہ شوبز کی فیلڈ سے وابستہ ہو اور اس کا رومانس نہ چلے ، یہ میں کیسے کہہ سکتی ہوں۔

٭… کیا شاعر اور ادیب ایسے ہی ہوتے ہیں؟

روبی ناز … جب میں نے اِن سے شادی کی تھی تو یہ شاعر تھے اور نہ ہی ادیب۔

٭… کیا لو میرج تھی؟

روبی ناز …کہہ سکتے ہیں ۔ یہ میرے کزن ہیں۔

٭… بطور شوہر اور بطور باپ کیسے ہیں ؟

روبی ناز … بہت اچھے۔قسم کھا کر کہہ سکتی ہوں میرا شوہر بہت اچھا آدمی ہے، یہ ہمارے گھر کا وہ بچہ ہے جس کے سارے کام ہمیں کرنا پڑتے ہیں۔

٭… یعنی یہ سارا انحصار آپ پر ہی کرتے ہیں؟

روبی ناز (اہلیہ) … میں نے اِنہیں اتنے لاڈ سے رکھا ہے جس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ باہر خلیل الرحمان کیا ہیں مجھے نہیں معلوم، اگر کچھ اونچ نیچ ہے تو میں سمجھتی ہوں کہ وہ ہمارے معاشرے کی خرابی ہے لیکن اِن میں کوئی خرابی نہیں ہے۔

نوشابہ خلیل (بیٹی ) … میرے والد دُنیا کے سب سے اچھے باپ ہیں، جب میں اِن سے بات کرتی ہوں تو مجھے لگتا ہی نہیں کہ میں اپنے ابا سے بات کررہی ہوں، میں ہمیشہ ایسے بات کرتی ہوں جیسے کسی دوست سے بات کررہی ہوں۔

خلیل الرحمان قمر … یہ تو مجھے اپنا چھوٹا بھائی سمجھتی ہے۔

نوشابہ خلیل … میں اپنے بابا کو کسی چیز کا منع کردوں اور پھر بھی یہ وہی کریں تو میں اِنہیں ایسے ہی ڈانٹتی ہوں جیسے اپنے چھوٹے بھائی کو ۔ میں اپنے والد سے تقریباً 99فیصد اختلاف کرتی ہوں اور جو چاہتی ہوں منوالیتی ہوں۔ کیونکہ صبح کی چائے، دوپہر کا کھانا، گرم پانی سے لے کر رات کے کھانے اور ٹھنڈے پانی تک سب کچھ اِنہیں مجھے ہی دینا ہوتا ہے، لہٰذا جب یہ میری بات نہیں مانتے تو پھر میں سب کچھ دینا بند کردیتی ہوں۔

دراب خلیل (بیٹا) … خلیل صاحب چیزوں پر کمپرومائز نہیں کرتے، یہ جھوٹ نہیں بولتے، جو چیز جیسی ہے ویسی ہی بیان کرتے ہیں، اِن میں منافقت نہیں ہے۔ میرے باپ نے کبھی اپنے اوپر اضافی خرچ نہیں کیا البتہ یہ دوسروں پر کافی خرچ کرتے ہیں۔

٭… تخلیقی فن میں آپ نے والد سے کیا سیکھا؟

دراب خلیل (بیٹا) … اِنہوں نے مجھے اداکاری سکھائی اور کافی حد تک ہدایتکاری بھی سکھائی ہے۔ اس کے علاوہ مجھے پروڈکشن مینجمنٹ اور شوبز کے لوگوں سے ڈیل کرنا سکھایا۔ اگر آپ اسکرپٹ رائٹنگ کی بات کریں تو میں خلیل صاحب کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ چیز سیکھی نہیں جاتی ، یہ آپ کے اندر ہی کوئی خاص ایپلی کیشن انسٹالڈ ہوتی ہے جو کام کرتی رہتی ہے۔

شادباغ کی مٹی سے مجھے عشق ہے

بچپن اور جوانی شاد باغ کی گلیوں میں گزرا، اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ تمہارا اصلی عشق کس سے ہے تو میرا عشق شادباغ کی مٹی سے ہے۔ میں کہتا ہوں کہ میں کہیں بھی مروں، مجھے شاد باغ میں دفنایا جائے۔ میرا گھر پانچ گھروں کے برابر تھا، یہ شادباغ کے مالکان کا گھر تھا۔

اُن کی ایک بیٹی تھی جو میری بہن بھی تھی اور سہیلی بھی۔ میں اپنی بہنوں اور اس کے درمیان کوئی فرق نہیں سمجھتا تھا۔ یہاں (گھر میں) ایک پرانا کچن تھا جسے ہم نے توڑ کر نیا کچن بنایا تھا۔ 1980میں ہم نے یہ گھر چھوڑ دیا تھا۔

1962میں، اس گھر میں پیدا ہوا تھا، وہ میری جائے پیدائش ہے۔ باورچی خانے کی چھت پر بیٹھ کر چاند کی روشنی میں بیالوجی کا سبق پڑھتا تھا۔