’کراچی کو عزت دو‘ اس کا بدن انتہائی کمزور اور لاغر ہوچکا تھا

January 30, 2020

طارق مسعود

ملک کے فائیو اسٹار ہوٹل کے ایک بڑے ہال میں تمام شہر جمع تھا۔ حقوق کے حوالے سے پاکستان کے شہروں کی قومی کانفرنس جاری تھی۔ پاکستان کا دارلحکومت "اسلام آباد” کرسی صدارت پر براجمان تھا۔ لاہور، پشاور، کوئٹہ اور کئی دوسرے شہر اپنی اپنی نسشتوں پر بیٹھے تھے۔ سب کی نگاہیں کراچی کو ڈھونڈ رہی تھیں جو اب تک نہ پہنچا تھا۔

اچانک ہال کا دروازہ کھلا۔ سرکتا، سسکتا، سہما ہواکراچی اندر داخل ہوا۔ اس کے کپڑے پرانے اور جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے تھے۔ جوتے ادھڑے اور غلاظت سے لتھڑے تھے۔ اس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ، ہونٹوں پر خشکی کی پپڑی جمی، چہرے پر محرومی کی گھٹا تنی تھی۔ اس کا بدن انتہائی کمزور اور لاغر ہوچکا تھا۔ وہ ایک لمحہ کو رکا پورے ہال پر ایک اُچٹتی نگاہ ڈالی اور اپنی نشست کی جانب پڑھ گیا۔

اجلاس کی کاروائی رک گئی کانفرنس میں شریک تمام شہروں کی نگاہیں کراچی پر جم گئیں۔سارے ہال میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں۔کانفرنس کے سیکریٹری نے معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے شیڈول سے ہٹ کر کراچی کو خطاب کی دعوت دے دی۔ سارے ہال میں سناٹا چھا گیا۔ کراچی اٹھا اور اپنے کچرے سے بھرے گردآلود قدموں کے نشان شہروں کے حقوق کے حوالے سے منعقد ہونے والی اس قومی کانفرنس کے قیمتی نفیس قالین پر ثبت کرتا اسٹیج پر پہنچا۔ ڈائس پر رکھے پانی کے گلاس کو اٹھایااپنے خشک ہونٹوں سے لگاکر سالوں سے سوکھے حلق کو تر کیا پھر سکوت توڑتے ہوئے بولا”میں بھی آپ سب کی طرح نہ صرف اس ملک کا ایک شہر ہوں بلکہ اپنے صوبہ کا دارلحکومت بھی ہوں۔

میں ملک کی صنعت و تجارت کا مرکز ہوں۔ دوستو! میری مٹی میں "صنعتی زرخیزی” بھی ہے اورہواوُں میں "تجارتی خوشبو” بھی۔ آپ سب کے مقابلے میں مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ بحیرہُ عرب کی موجیں میرے ساحلوں سے ٹکراتی ہیں لہذا اس نسبت میں بندرگاہ کا مالک ہوں۔ میں پاکستان کا معاشی حب ہوں۔ قدرے توقف کے بعد اس نے اپنائیت کی نگاہ سارے ہال پر ڈالی اور کہا” آپ تمام شہر میرے بھائی اور آپ کے بچوں کے روزگار کے لیے میرے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ آپ تمام شہروں کے بچے میری زمین پر آباد ہیں، اسی لیے میں "منی پاکستان” کہلاتا ہوں۔

پھرذرا رکا اور فخر سے بولا ” میں ملک کو ٹیکس ریونیو کا بڑا حصہ ادا کرتا ہوں۔‘‘

بھائیوں! آپ یقیناً حیران ہورہے ہوں گے کہ اتنا سب کچھ کےباوجود یہ محرومی کیسی؟

میری یہ بدحالی کیوں؟

میرے جوان بیٹے بےروزگار کیوں؟

میرے معصوم بچےاسپتالوں میں بلک بلک کر مرتے کیوں ہیں؟

میری بوڑھی مائیں سسک سسک کر جیتی کیوں ہیں؟

میرے بوڑھے باپ سلگ سلگ کر تڑپتے کیوں؟اتنا کہہ کر کراچی کی آنکھوں میں آنسو آگئے پھر گھٹی گھٹی آواز میں بولا” گزشتہ کئی سالوں سے میرے بیٹے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ مجھے 1080 ملین گیلن یومیہ پانی چاہیئے لیکن ملتا صرف 650 ملین گیلن ہے۔ یعنی مجھے یومیہ 430 ملین گیلن پانی کم ملتا ہے۔

ایک وقت تھا جب میں روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا لیکن آج کے الیکٹرک کے ظلم وستم کےباعث اندھیروں کا مسکن ہوں۔

ایک دور تھا جب میری بچے کے ٹی سے کی بسوں اور ٹراموں میں سفر کرتے تھے لیکن آج ٹرانسپوٹ کا کوئی نظام نہیں۔ حال ہی میں بننے والا گرین لائن بس منصوبہ بھی تعطل کا شکار اور سرکلر ریلوے عدالتی حکم کے باوجود سست روی کے ساتھ برسرپیکار۔ ایک طرف ہائی رائز بلڈنگز آسمان چھو رہی ہیں تو دوسری طرف کچی بستیاں زمیں بوس ہورہی ہیں۔ میرے بیٹے بے گھر ہورہے ہیں۔

کبھی میں خوبصورت اور خوش لباس تھا لیکن آج کچرے کا ڈھیر بلکہ آپ میں سے کئی نے میرا نام ہی بدل کچراچی رکھ دیا۔ ٹوٹی سڑکیں، ابلتے گٹر، اجڑے پارک، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر آج میری پہچان بن گئے ہیں۔میرا مقام ، میری عزت نہ جانے کہاں گئی؟

اتنا کہہ کر کراچی دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔

تمام شہر اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہو اور زوردار آواز میں نعرہ لگایا۔۔۔۔۔۔۔۔

” کراچی کو عزت دو ‘‘

کراچی کو حقوق دو”