بیتی یادیں: ہر وقت ہوا چلنے کے باوجود خاک نہیں اڑتی تھی

January 30, 2020

کراچی ایک زمانے میں واقعی عروس البلاد تھا۔ بہت بڑا‘ روشن‘ ترّقی یافتہ‘ مہذب اور بارونق شہر ۔ لاہور تو اس کے مقابلے میں ایک گاؤں ہی معلوم ہوتا تھا۔ ان دنوں لاہور والے حیران ہونے کے لیے کراچی جایا کرتے تھے اور واپسی میں ایسے ہی قصّے سناتے تھے، جیسے کہ یورپ سے واپس آنے والے سنایا کرتے تھے۔

”کیا بتائیں۔ کراچی میں کتنا ہنگامہ ہے۔ کاروں کی ریل پیل ہے۔ وہاں تو سڑک عبور کرنا بھی دشوار۔ دولت کمانا اس قدر آسان کہ جو وہاں گیا وہ امیر ہو گیا۔ کراچی بڑا غریب پرور شہر ہے۔ ٹریفک ایسا کہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ کے فاصلے اتنے زیادہ ہیں کہ آمدورفت ہی میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ کراچی والوں کو ایک دوسرے کی خبر نہیں ہوتی۔

پڑوس والے کو بھی یہ معلوم نہیں کہ برابر میں کون رہتا ہے۔ کراچی کی سڑکوں‘ بازاروں اور دکانوں کا کیا کہنا۔ روشنی ایسی کہ دن نکلا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ وہاں کے لوگ مشینوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کی شام رات کے گیارہ بارہ بجے شروع ہوتی ہے اور یہی ایک دوسرے کے گھر جانے کا وقت ہے۔“ (ان دنوں لاہور میں سات بجے ہی رات ہو جایا کرتی تھی اور آٹھ نو بجے تو سارا شہر سنسان ہو جاتا تھا۔)

کراچی یاترا سے آنے والوں کی داستانیں کئی کئی دن جاری رہتی تھیں اور لوگ بڑے شوق و ذوق سے سنتے اور حیران ہوتے رہتے تھے۔

اس وقت کا کراچی ہمیں بھی بہت اچھا لگتا تھا۔ ہم ایک بار کراچی گئے تو پھر بار بار وہاں جانے کے بہانے ڈھونڈتے رہے۔ عموماً فلمی مصروفیات کے سلسلے میں ہی جانا ہوتا تھا۔ کبھی دوست احباب کے گھر قیام کرتے تو کبھی ہوٹلوں میں۔ میٹروپول ہوٹل ہمارا پسندیدہ ہوٹل تھا۔ بعد میں اس کے سامنے کلفٹن روڈپر پُل سے اُترتے ہی ایک چھوٹا سا خوب صورت اور ماڈرن ہوٹل بن گیا تھا۔

جس کا نام ”کولمبس“ تھا۔ ایک بار اس میں قیام کیا تو اتنا اچھّا لگا کہ پھر وہیں جاکر ٹھہرتے تھے اور کلفٹن کی جانب والا کمرہ لیتے تھے۔ شیشے کی دیوار میں کلفٹن کو جانے والی سڑک کی روشنیاں دور تک نظر آتی تھیں اور آنکھوں کو بہت بھلی لگتی تھیں۔

اسی ہوٹل کے دوران قیام میں ہماری فلم ”میرا گھر میری جنّت“ کے سلسلے میں ایک حادثہ بھی پیش آگیا تھا جس کا تذکرہ آگے بیان ہو گا۔

اس کشادہ روشن سڑک کے دونوں جانب سمندری دلدل تھی۔ کافی فاصلے پر کلفٹن کے ساحل کی آبادی تھی جو زیادہ بڑی نہیں تھی۔ اب اس جگہ کو دیکھیں تو پہچانی نہیں جاتی۔ کولمبس ہوٹل بھی اب ناپید ہو چکا ہے۔ فلک بوس عمارتوں اور شاپنگ سینٹرز کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو دور تک پھیلا نظر آتا ہے۔

کراچی کو پسند کرنے والوں کے پاس پسندیدگی کی مختلف وجوہات تھیں۔ ہمیں کراچی کا شوروغل (جسے ابراہیم جلیس اور طفیل احمد جمالی غُل غپاڑہ کہتے تھے) کبھی پسند نہیں آیا حالانکہ آج کے مقابلے میں بہت کم تھا، مگر شہر کی صفائی خوبصورتی اور نظم و ضبط نے بہت متاثر کیا تھا۔ یہ ایک مہذب اور ترقّی یافتہ شہر تھا، جس کے بعض حصّے مغربی ملکوں کے شہروں کے معیار کے تھے۔ ملک کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں یہ ایک بالکل مختلف دنیا تھی، جس کے طور طریقے بھی مختلف تھے۔

ہمیں جن چیزوں نے حیران اور متاثر کیا ان میں گدھا گاڑی بھی شامل تھی۔ اُس زمانے میں شہر میں گدھا گاڑیوں کی ریل پیل تھی۔ چھوٹی سی گاڑی کے آگے ایک چھوٹا سا گدھا جتا ہوا بھاگا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور گدھا بھی دوڑتا رہتا تھا۔ پوچھا کہ بھئی یہ کیا ہے۔ جواب ملا ”یہ پخ ہے۔“

”یعنی گدھے کی پخ؟“ ہم نے حیران ہو کر پوچھا ”مگر اس کا فائدہ کیا ہے، گاڑی تو ایک ہی گدھا کھینچتا ہے۔“

بولے ”اس کا فائدہ یہ ہے کہ دونوں میں سے ہر گدھا یہی سمجھتا ہے کہ گاڑی دوسرا گدھا کھینچ رہا ہے۔ اس طرح دونوں خوش رہتے ہیں اور تیز بھاگتے ہیں۔“

گدھے کے گدھے پن کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا۔

گدھا گاڑی کے علاوہ اونٹ گاڑی بھی ہم نے کراچی میں کثرت سے استعمال ہوتے ہوئے دیکھی۔ اونٹ اکیلا ہی بوجھ کھینچتا ہے، اس کے ساتھ کوئی پخ نہیں دیکھی۔ شاید اس لیے کہ اونٹ کو دھوکا دینا بہت مشکل ہے۔ وہ ایک ذہین اور چالاک جانور ہے۔فِٹُن یا وکٹوریا کو دیکھ کر ہمارا دل خوش ہو گیا۔ لاہور میں تو اس کا رواج ہی نہیں ہے۔

البتہ دہلی اور میرٹھ میں خاندانی رئیسوں کو فٹن میں سوار دیکھا تھا۔ بمبئی کی فلموں میں بھی فِٹُن یا وکٹوریا نظر آجاتی ہے۔یہ خاصی آرام دہ‘ کشادہ اور ہوا دار سواری ہے، جس میں ڈرائیور یعنی کوچوان سواریوں کے مقابلے میں اونچی جگہ پر بیٹھتا ہے۔کراچی پہنچ کر ہم نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وکٹوریا میں سواری کی۔ اونٹ گاڑی اور گدھا گاڑی ہمیں سواری کے لیے مناسب نہ لگی۔

چونکہ یہ گدھے کے سپرد تھی جس کی بیوقوفی اور دولتی سے ڈر لگتا ہے۔ دوسری گاڑی اونٹ کے رحم و کرم پر تھی جس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی۔ وکٹوریا کی سیر نے کراچی کی کُھلی‘ صاف شفاّف سڑکوں پر بہت لطف دیا۔ صاف اور تازہ ہوا کے جھونکوں نے اس لطف کو دوبالا کر دیا۔ کراچی میں ہر وقت چلنے والی ہوائیں بھی ہمیں بہت اچھّی لگیں۔ شام کے وقت تو آسمان پر گہرے بادلوں اور ہوا کے جھونکوں کی بہار ہی کچھ اور ہوتی تھی۔ لاہور میں یہ ہوا میّسر نہ تھی۔ ۔ اگر تیز چلے تو اسے آندھی کہتے ہیں۔

مگر کراچی میں یہ ہوا ایک مستقل تازگی فراہم کیا کرتی تھی (افسوس کہ اب یہ بھی کمیاب ہے)۔ ایک اور بات ہمیں یہ پسند آئی کہ کراچی میں ہر وقت ہوا چلنے کے باوجود خاک نہیں اڑتی تھی۔ سڑکیں اور فٹ پاتھ بہت صاف ستھرے تھے۔ کافی عرصے تک تو ہم اس پر ہی حیران ہوتے رہے کہ فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر سفر کرنے کے باوجود نہ جوتوں پر گرد جمتی تھی نہ قمیص کا کالر میلا ہوتا تھا۔ یہی خوبیاں بعد میں ہم نے یورپ اور امریکہ میں بھی پائیں۔

وکٹوریہ شاہانہ سواری ہونے کے باوجود کافی سستی لگی۔ اس میں عام طور پر سیّاح اور باہر سے آنے والے لوگ ہی سواری کرتے تھے۔ کچھ دور جانے کا کرایہ چار آنے سمجھ لیجئے۔ اگر بھاؤ تاؤ کر لیں تو اس میں مزید کفایت ہو جاتی تھی۔ وکٹوریا کا کوچوان ایک لمبا سا کوڑا لے کر بیٹھتا۔ کبھی ہم نے یہ کوڑا گھوڑے کو مارنے کے لیے استعمال ہوتے نہیں دیکھا۔ شاید یہ ڈیکوریشن کا حصّہ ہے یا وکٹوریا کے لوازمات میں شامل ہے۔

کوچوان کی گفتگو بھی بہت مزے دار تھی۔ کراچی کے بارے میں ساری معلومات انہیں حفظِ زبان تھیں۔ کئی کوچوان کافی ادب ذوق نظر آئے۔ انہیں شعر و شاعری سے خاصی رغبت تھی۔ ایک درمیانہ عمر کوچوان کو داغ کا سارا دیوان حفظ تھا۔ ہم نے اس کے ساتھ اپنے سفر کو مزید طویل کر دیا۔ اس اللہ کے بندے نے داغ دہلوی کے اشعار تحت اللّفظ میں سنائے تو ہم دونوں بھول گئے کہ ہمیں جانا کہاں ہے۔ بس وہ سڑکوں پر چکّر لگاتا رہا اور شعر سناتا رہا۔

بار بار کہتا تھا ”میاں۔ داغ کی کیا بات ہے۔ اُس جیسا شاعر تو پھر دلّی میں بھی پیدا نہیں ہوا‘ کراچی میں کیا پیدا ہو گا۔“

ہم نے کہا ”بھائی۔ آپ کیوں کوشش نہیں کرتے؟“

بولے ”میاں کیوں مذاق کرو ہو۔ ہم شاعری جوگے کہاں رہے؟“

”تو پھر کس جوگے رہ گئے ہو؟“

کہنے لگے ”بس فٹن ہانکتے جوگے رہ گئے ہیں سو ہانک رہے ہیں۔ زندگی کی گاڑی ہانکنا ان دنوں بڑا مشکل ہووے ہے۔ ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑے ہے۔“

وہ سستا زمانہ تھا۔ ہم نے آدھے سے زیادہ دیوانِ غالب بھی سنا۔ سیر کی سو الگ‘ کرایہ ایک روپے چار آنے دیا تو وہ خوش ہو گئے۔ آج کی مہنگائی کے زمانے میں خدا جانے ان کا کیا حال ہو گا اور وہ زندگی کی گاڑی کیسے ہانک رہے ہوں گے۔

وکٹوریا اب کراچی میں بھی خال خال ہی نظر آتے ہیں بلکہ ناپید ہو چکے ہیں۔ آج کی تیز رفتار دنیا میں ان چیزوں کا بھلا کیا کام۔ البتہ نمائش اور تفریح کی اور بات ہے۔

تیز رفتاری سے یاد آیا کہ اس زمانے میں کراچی میں ٹرام بھی چلتی تھی۔ ٹن ٹن گھنٹی بجاتی ہوئی سڑک پر سے گزرتی تو ہم جیسے شہر میں نووارد تو چوکنّا ہو کر دیکھنے لگتے تھے۔ سڑک کے درمیان میں ٹرام کی پتلی سی پٹری ہوتی تھی، جس پر دوسرا ٹریفک مداخلت کرنے سے گریز کرتا تھا۔ ٹرام کافی سست رفتاری سے چلتی تھی۔ اوپر چھت آس پاس سے کھلی ہوئی۔ درمیان میں لکڑی کی سیٹیں۔ ٹرام کے پچھلے حصّے میں کھڑے ہونے کے لیے کُھلی جگہ ہوتی تھی۔ ہمیں وہ جگہ سب سے زیادہ پسند آئی۔

چلتی ٹرام میں سوار ہونا اور اس پر سے اُترنا کوئی مشکل کام نہ تھا کیونکہ وہ بہت سُست رفتار سے چلتی تھی۔ اسے پکڑنے کے لیے بھاگنا بھی ضروری نہ تھا۔ بس ذرا تیز قدمی سے چل کر ٹرام پر چڑھ جائیے۔ پچھلے حصّے میں کھڑے ہو کر آس پاس کا نظارہ کیجئے۔ یار لوگ سڑک چلتے اور باتیں کرتے کرتے بڑے آرام اور اطمینان سے ٹرام میں سوار ہو جاتے تھے۔ اُترتے وقت بھی کسی تکلّف یا اہتمام کی ضرورت نہ تھی۔ بس پہلے ایک پیر لٹکائیں‘ پھر جیسے ہی ٹرام کی رفتار ہلکی ہو آہستہ سے سڑک پر کود جائیں۔

ٹرام بہت غریب پرور سواری تھی۔ غالباً کراچی کے ایک حصّے سے دوسرے حصّے تک سفر کرنے کا کرایہ ایک یا ڈیڑھ آنہ تھا۔ ٹریفک میں بہتری پیدا کرنے کے نام پر یہ بند کر دی گئی۔ حالانکہ چلتی رہتی تو بہتوں کا بھلا ہوتا۔ دنیا کے بہت سے ترّقی یافتہ ملکوں میں آج بھی ٹرام چلتی ہے مگر ہمارے بااختیار لوگوں کو شاید عام لوگوں کی سواری اور سہولت اچھّی نہیں لگتی۔

ٹرام کراچی میں آمدورفت کا بہت اچھّا اور سستا ذریعہ تھی۔ رش کے اوقات میں تو ذرا بھیڑ بھاڑ ہوتی تھی‘ اس کے علاوہ ہر وقت بڑے آرام سے سفر اور فاصلہ طے ہو جاتا تھا اور جیب پر بوجھ بھی نہیں پڑتا تھا۔ کراچی غریب پرور شہر تھا اور کافی عرصے تک ایسا ہی رہا۔

علی سفیان آفاقی ۔’’ فلمی الف لیلہ حصہ سوئم‘‘ سے انتخاب·