پہلے دارالحکومت میں ہونے والے کچھ احتجاج

January 30, 2020

سلیم اللہ

پاکستان کا قیام زبردست سیاسی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ ہمارا یہ ہی سیاسی جمہوری مزاج ہے ،جس کے سبب آزادی کے بعد سے گزشتہ 72برسوں کی تاریخ میں لاتعداد ایسے واقعات آئے، جس میں تقریباً ہر حکومت کے خلاف کوئی نہ کوئی قوت مزاحمتی صورت میں نظر آئی ۔کراچی کو پاکستان کے پہلے دارالحکومت کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

تقریباً 13برس تک اس حیثیت کے ہونے کے سبب نوزائیدہ مملکت کے زیادہ تر مرکزی دفاتر یہاں قائم تھے۔مشکلات کا انبارتھا ،ایسے میں ان مسائل کی نشاندہی کے لیے حکومت وقت کے سامنے عام عوام، مزدوروں، طلبا سب ہی بھوک ہڑتال، ریلی اور دھرنے ہر قسم کی جدو جہد کرتے نظر آئے۔ پہلے دارالحکومت میں حکومت وقت کے خلاف کچھ بڑے احتجاجی واقعات یوںرہے۔

جنوری 1953، وفاقی وزیر تعلیم اور وزیراعظم کے خلاف احتجاج

جنوری 1953 کا دوسرا ہفتہ تھا۔ خواجہ ناظم الدین وزارت عظمی کے منصب پر فائز تھے۔ شہر کی طلبا انجمنوں نےاپنے تعلیمی مسائل کے حل کےلیے فیس کی کمی سمیت9نکاتی مطالبات کے لیے ایک مہم شروع کی۔7جنوری کو ڈیموکریٹک اسٹوڈینٹس فیڈریشن کے زیراہتمام طلبا کی بڑی تعداد نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرنے کےلیے وزیرتعلیم فضل الرحمن کی رہائش گاہ کی طرف مارچ کیا تو اس موقع پر پولیس نے لاٹھی چارج کرتے ہوئے متعدد طلبا گرفتار کرلیے۔

اس کے اگلے ہی دن 8 جنوری کو اس سے کہیں بڑا طلبا کا جلوس اپنا احتجاج ریکارڈ کرنے کےلیے وزیراعظم ہاوس کی طرف روزانہ ہوا ۔تو اس موقع پر پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش کی، تو صورتحال سنگین ہوگئی۔ اس موقع پر فائرنگ سے دس افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے تھے صورتحال سے نمٹنے کےلیے کرفیو لگا دیا تھا۔

اس قومی سانحے پر رات گئے وزیراعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین نے ریڈیو پاکستان سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے طلبا کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ،’’ ملک کا ایک ایک نوجوان اور بچہ میرا جگر گوشہ ہے‘‘، تاہم دوسرے روز ملک کی تمام جماعتوں نے طلبا پر فائرنگ کے افسوسناک واقعے پر شہر بھر میں ہڑتال اور ملک بھر میں غائبانہ نماز جنازہ اداکی تھی۔ تشدد کے مجموعی واقعات میں 20 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

مارچ 1954، وزیراعظم حسین شہید سہروردی کے خلاف احتجاج

28مارچ 1954 کو مشرقی پاکستان میں ہونے والے فسادات کے خلاف حزب اختلاف کے اتحاد متحدہ محاذ نے وزیراعظم حسین شہید سہروری کے خلاف ایک بڑا احتجاجی جلوس نکالا تھا۔اونٹ گاڑیوں اور گدھا گاڑیوں پر سوار احتجاجی جلوس شہر میں کئی مقامات پر گشت کرنے کے بعد کچہری روڈ پر واقع وزیراعظم ہاوس کے سامنے کئی گھنٹے احتجاج کیاتھا،نعرے بازی کی گئی تھی اور مقررین نے خطاب بھی کیا تھا جس میں وزیراعظم سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ فوری طور پر ڈھاکا جاکر حالات کو خود قابو کریں۔ بعدازاں مظاہرین پرامن طور پرمنتشر ہوگئے تھے۔

اپریل1954، دستور ساز اسمبلی کے سامنے مظاہرہ

ملک کے تیسرے وزیر اعظم محمد علی بوگرا کا قومی زبان کے مسئلے پر مشرقی پاکستان سے کافی دباؤ تھا۔ سیاسی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے 19اپریل 1954 کو دستور ساز اسمبلی نے فیصلہ کیا کہ اب اردو کے ساتھ بنگلہ بھی سرکاری زبان ہوگی۔ رد عمل کے طور پر22اپریل 1954 کو بابائے اردو مولوی عبدالحق کی قیادت میں صرف اردو کو سرکاری زبان بنانے کے حق میں ایک لاکھ افراد پر مشتمل تاریخی احتجاجی مظاہرہ ہوا تھا۔

اس دن دارالحکومت میں مکمل ہڑتال تھی۔ مولوی عبدالحق کی قیادت میں مظاہرین نے اردو کالج سے احتجاجی ریلی کا آغاز کیا پھر سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے آخر میں دستور ساز اسمبلی کے سامنے دو گھنٹے تک فلک شگاف نعروں اور تقریروں کے ساتھ مظاہرہ کیا تھا۔

اس موقع پر مولوی عبدالحق نے اپنی تشویش کا اظہار کرنے کےلیے وزیر اعظم پاکستان سے بھی ملاقات کی تھی۔ پتھراؤ کے چند ایک واقعات کے علاوہ یہ احتجاج مجموعی طور پر پرامن تھا۔فروری 1956،دارلحکومت کو مغربی پاکستان کا حصہ بنانے کا مطالبہ دارالحکومت میں چوہدری محمد علی وزارت عظمی پر فائز تھے۔

ملک میں نئے آئین کی تیاری جاری تھی۔ایسے میں17فروری 1956 کو دستوریہ کے رکن جناب یوسف ہارون،سابق مئیر ومیونسپل کونسلرمحمود ہارون مغربی پاکستان کے رکن خواجہ مظفرالحق،اے ایم قریشی اسمعیل برہانی اور عبداللہ حقانی سمیت مزید دودرجن افراد کوجلسہ اور جلوس کرنے کے الزام میںدفعہ 144 کی خلاف ورزی کے الزام میں برنس گارڈن کے قریب سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔

یہ افراد آئین سازی کے موقع پر مطالبہ کررہے تھے کہ کراچی کی مغربی پاکستان میں شامل کیا جائے۔اس مقصد کےلیے انہوں نے دستور اسمبلی کے سامنے مظاہرے کا پروگرام بنایا تھا ۔انتظامیہ صورتحال سے نمٹنے کےلیے اس سے قبل ہی دفعہ 144 کا نفاذکرچکی تھی۔