روسی ادیب ’لیوٹا لسٹائی‘

January 30, 2020

امریکی ناول نگار’’جے پرینی‘‘ کا شمار جدید ادب کے ان تخلیق کاروں میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے ادبی منظرنامے، بالخصوص ناول نگاری کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ وہ ناول کے علاوہ بطور مدرس، ناقد اور اسکرین پلے رائٹر بھی ہیں، جب امریکا نے عراق میں جنگ چھیڑی تو امریکا کے نمایاں اور پڑھے لکھے طبقہ نے اس فیصلے کی شدید مذمت کی، اس میں ’’جے پرینی‘‘بھی پیش پیش تھے۔

اس ناول کے مرکزی کردار لیو ٹالسٹائی روس کے کلاسیکی ادب کا وہ مرکزی ستون ہیں، جنہوں نے اپنی حیرت انگیز ناول نگاری سے عالمی ادب میں تہلکہ مچا دیا۔ ان کے ناولوں کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے، کسی بھی ناول کو لکھنے کے فکری آبیاری کے ساتھ ساتھ جس مزدوری اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ان کے کام میں ہمیشہ سے شامل تھی۔

لیو ٹالسٹائی نے اپنی زندگی میں متعدد بار اپنے ایک ایک ناول کے کئی کئی ڈرافٹ لکھے، جن میں ’’جنگ اور من‘‘ کا ڈرافٹ آٹھ بار لکھا جانا بھی شامل ہے، پھر وہ ڈرافٹ ان کے مدیران نے مدون کیے، اسی طرح ان کی شریک حیات نے بھی ان ڈرافٹس کو بنانے میں ان کی معاونت کی، بہت محنت اور ریاضت سے لکھے گئے یہ تمام ناول، اس روسی ادب کا پوری دنیا میں ایسا تعارف ہیں کہ کہیں بھی ناول کی تاریخ لکھتے ہوئے لیو ٹالسٹائی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔

لیوٹالسٹائی 28 اگست 1928 کو پیدا ہوئے اور 20 نومبر 1910 میں انتقال ہوگیا۔ وہ روس کے معروف ترین ادیب اور فلسفی تھے۔ نو برس کی عمر میں یتیمی برداشت کی، آبائی زمینوں پر کاشتکاری کے کام کو دیکھا، انہی زمینوں پر کاشت کاروں کے بچوں کے لیے اسکول بھی قائم کیا۔ مختلف تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد عمر کا ایک حصہ فوج میں بھی گزارا، جس سے ملنے والے تجربے کی بنیاد پر’’جنگ اور امن‘‘ جیسا شہرہ آفاق ناول تخلیق کیا۔ زندگی کے دیگر تجربات نے ان سے’’آننا کارینینا‘‘ جیسا ناول بھی لکھوایا۔ پاکستان میں ان دونوں ناولوں کے اولین مترجم لاہور کے معروف ادیب، مدرس اور بے حد عمدہ مترجم شاہد حمید تھے، جنہوں نے انتہائی عرق ریزی سے اس کٹھن کام کو سر انجام دیا تھا۔

لیو ٹالسٹائی کی زندگی میں سماجی و ذاتی تلخیوںسے ان کی ذات میں روحانی تبدیلیاں پیدا ہوئیں، اسی لہر کے زیر اثر یہ انسانیت اور عدم تشدد نظریات کے علمبردار بن گئے اور تمام عمر اس پر قائم بھی رہے۔ جاگیردار گھرانے میں پیداہونے والے اس تخلیق کار نے اپنے اردگرد کے ماحول سے بغاوت کی اور انسانیت کے لیے فکری طور پر بہت کام کیا۔ ان کی سچائی اور کام کی لگن نے ان سے ایسی کہانیاں لکھوائیں، جن کی تخلیق کے بعد روسی ادب تو کیا عالمی ادب میں بھی کوئی ان کے حوالے کو دیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا، وہ ہر دورمیں پڑھے جانے والے مقبول روسی ادیب ہیں۔

لیو ٹالسٹائی کی زندگی پر کام تو بہت ہوا، لیکن امریکی ادیب جے پرینی نے ان کا سوانحی ناول’’دی لاسٹ اسٹیشن‘‘ لکھ کر اسے نئی شناخت دی۔ اس میں انہوں نے لیو ٹالسٹائی کی ادبی اور ذاتی زندگی کے گوشوں کو وا کیا، خاص طورپر ان کی زندگی کا آخری حصہ، جب ایک طرف ان کی بیوی زندگی بسر کرنے میں ان کی معاونت پر مامور تھیں، ان کی اولاد بھی قریب تھی، ان کی سیکرٹری اوران کے ساتھ کام کرنے والے ایڈیٹرز کے بارے میں تعلقات کا اتار چڑھاؤ ناول اور فلم میں ٹالسٹائی کی زندگی کو بیان کرتا ہےکہ کس طرح ایک تخلیق کار مادی معاشرے میں سانس لیتا ہے اور اپنی تشفی کے لیے جان جوکھم میں ڈال کر تسکین کی راہیں دریافت کرتا اور تخلیق کی چوٹیاں سرکرتاہے۔ ناول ’’دی لاسٹ اسٹیشن‘‘ انہی کیفیات کا مظہر ہے، جس کو ناول کے صفحات میں اور فلم کے پردے پر لیوٹالسٹائی کی زندگی سے قریب ترین رکھ کر لکھااور فلمایا گیا ہے۔

ہالی ووڈ میں بننے والی فلم’’دی لاسٹ اسٹیشن‘‘ فلم 2009 میں ریلیز ہوئی۔ ناول کی طرح فلم کو اتنی پذیرائی حاصل نہ ہوسکی۔ فلم کے ہدایت کار’’مچل ہوف مین‘‘ ہیں، جنہوں نے نہایت مہار ت سے اتنے بڑے کہانی کار کی زندگی کو فلم کے پردے پر منعکس کیا ہے ، جس کو دیکھ کر ادیب کی زندگی کے معاملات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ناول اس کی زندگی کے آخری سال کی روداد ہے، جس کو پڑھ کر اور دیکھنے کے بعد عش عش کرنے کو دل چاہتا ہے۔ فلم کی کاسٹ میں’’کرسٹو فرپلمر‘‘ نے لیو ٹالسٹائی کا کردار عمدہ طریقے سے نبھایا ہے،طبعی عمر کے اعتبار سے بھی وہ ٹالسٹائی سے دو برس چھوٹے ہیں، جب اس فلم میں انہوں نے کام کیا۔ دیگر اداکار بھی اپنے کرداربخوبی نبھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ٹالسٹائی اوراس کی بیوی کے کرداروں میں کام کرنے والے فنکار آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد بھی ہوئے تھے۔

سوانحی ناول نگاری میں ایسے بہت سارے امکانات کی گنجائش ہوتی ہے، جن کے ذریعے کسی بھی اہم شخصیت کی زندگی اور ذات کو فکشن کی طرز پر حقیقی انداز میں پیش کرسکتے ہیں۔ اردو ادب میں بھی اس طرح کے ناولوں کا رواج بڑھ رہا ہے، لیکن تناسب کم ہے، اس تناظر میں ممتاز مفتی کا ناول ’’علی پور کا ایلی‘‘ ایک روشن مثال ہے۔ یہ ایک دلچسپ اور تعمیری انداز تحریر ہے، اس لیے اردو ناول نگاروں کو اس صنف ادب پر بھی کام کرنا چاہے، موجودہ دور کی یہ ایک اہم ضرورت ہے، جس کے ذریعے اپنے ملک اور معاشرے کا روشن چہرہ پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے۔