سردار سکندر حیات کی پی ٹی آئی میں شمولیت کی افواہیں؟

January 30, 2020

مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی لاک ڈائون کو 6ماہ ہونے کو ہیں۔ ان چھ ماہ کے دوران بھارتی افواج کی جانب سے 13ہزار کشمیریوں کو اغوا کیا گیا جنہیں عقوبت خانوں میں رکھا گیا ہے بچوں اور خواتین کو بھارت کی جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے، شمالی کشمیر میں معصوم بچیوں کی عصمت دری کی گئی اس وقت کشمیر دنیا کا سب سے بڑا عقوبت خانہ بن چکا ہے طویل ترین کریک ڈائون نے 80لاکھ کشمیریوں کو محصور کر کے دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے لیکن کشمیریوں کے جذبہ آزادی میں کوئی کمی نہیں آسکی کشمیریوں کے اندر ایک نیا عزم اور جذبہ پیدا ہوا ہے۔ کشمیر کے طول و عرض میں ایک ہی نعرہ گونج رہا ہے ’’آزادی آزادی‘‘ حکومت پاکستان نے 5 فروری 2020 کو یوم یکجہتی کشمیر بھرپور طریقے سے منانے کا اعلان کیا ہے۔

پاکستانی قوم گزشتہ 30سالوں سے کشمیریوں سے یکجہتی منا رہی ہے حکومت پاکستان نے ملک بھر کے علاوہ پوری دنیا میں یوم یکجہتی منانے کا اعلان کیا ہے۔ یورپ، امریکہ، عرب امارات میں اس دن کی مناسبت سے اہم پروگرام تشکیل دیے جا رہے ہیں دنیا بھرمیں بھارتی سفارت خانوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے ہونگے اقوام متحدہ کے دفاتروں میں یادداشتیں پیش کی جائیں گی۔ صدر پاکستان یا وزیر اعظم پاکستان کا آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی سے اور میرپور میں ایک عوامی جلسہ سے بھی خطاب متوقع ہے اس سلسلے میں تمام انتظامات مکمل کرلیے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں بھی پاکستانی عوام کے شکریے کے پروگرام بھی تشکیل دیے جا رہے ہیں وزیر اعظم پاکستان مظفرآباد میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے نمائندوں سے بھی ملاقات کریں گے کشمیریوں کی قربانیاں رنگ لارہی ہیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دوسری مرتبہ کشمیر کی صورت حال پر اجلاس بلایا ہے چین اور روس نے کشمیر پر سخت موقف دیا ہے چین نے اپنا پالیسی بیان دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کے بھارت اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں کے مطابق کشمیر کے مسئلے کا حل نکالے اور مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے اس وقت پوری دنیا جنوبی ایشیا کی صورت حال پر فکر مند ہے۔ امریکہ اور یورپ کے ایوانوں میں اب مسئلہ کشمیر فلیش پوائنٹ بن چکا ہے یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت وزیر اعظم پاکستان سے ان افواہوں کے حوالے سے بھی بات کرے گی۔

آزاد کشمیر کے اندر آزاد کشمیر کےسٹیٹس کے حوالے سےبے چینی پائی جاتی ہے آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں کشمیر کی موجودہ صورت حال پر ان کیمرہ سیشن میں اراکین اسمبلی کو بریفنگ بھی دی گئی آزاد کشمیر میں گزشتہ کچھ ماہ سے ایک افواہ بازگشت کر رہی ہے حکومت پاکستان کی جانب سے آزاد کشمیر کا سٹیٹس کم کرنے کی باتیں چل رہی ہیں آزاد کشمیر تحریک آزادی کا بیس کیمپ ہے اس کی حیثیت کے ساتھ چھڑنے سے خطے کے حالات پر سخت اثرات مرتب ہونگے آزاد کی قیادت کی جانب سے گلگت بلستان کو بھی آزاد کشمیر طرز پر نظام حکومت دیا جائے آزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت اقوام متحدہ نے دی ہے ایک طرف بھارت نے کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے جس کے خلاف دنیا سراپا احتجاج ہے۔

یہاں پر اس طرح کا تجربہ کامیاب نہیں ہو سکتا حالات سنبھالنا مشکل ہو جائیں گے۔ کنٹرول لائن کے دونوں اطراف کشمیریوں کے اندر تشویش پائی جاتی ہے پاکستان کے اندر اپوزیشن جماعتوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے عمران خان امریکہ میں ٹرمپ کے ساتھ کشمیر کا سودہ کر چکے ہیں مقبوضہ وادی کی صورت حال اور کنٹرول لائن پر گولہ باری پر پاکستان کا موقف جو آتا ہے وہ انتہائی کمزور سا ہوتا ہے کنٹرول لائن پر لاکھوں افراد غیر محفوظ ہیں دوران گولہ باری نہ میڈیکل کی سہولت اور نہ سر چھپانے کیلے جگہ ملتی ہے اس وقت چودہ لاکھ افراد کنٹرول لائن پر پاک افواج کے ساتھ دفاع وطن کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔

ان کی مشکلات کا حل حکومتوں کی ذمہ داری ہے وفاقی حکومت کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے۔ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے اندر کہیں نہ کہیں خدشات موجود ہیں کے حکومت پاکستان کی عدم توجہ سے تحریک آزادی کو نقضان پہنچ رہا ہے اقوام متحدہ میں ترکی، ایران، ملیشیا نے کھل کر کشمیریوں کی حمایت کی آج وہ ممالک پاکستان کے ساتھ ہیں پاکستان کی موجودہ پالیسی سے کشمیری قیادت اختلاف کر رہی ہے آزاد کشمیر کا جو سٹیٹس ہے یہ کشمیریوں کی اپنی قربانیوں کی وجہ سے ہے یہاں کے لوگوں نے اپنی آزادی کی جنگ خود لڑی ہے آزاد کشمیر کے دس اضلاع کسی نے تحفے میں نہیں دیے جہاد سے یہ علاقہ آزاد کرایا اج کشمیری 72سالوں سے اقوام عالم کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن عالمی ادارے کی جانب سے موثر جواب نہیں آرہا لوگ پاکستان کو اپنی منزل سمجھتے ہیں مقبوضہ وادی میں حالیہ لاک ڈائون سے اب تک وادی کے اندر کسی بھی جگہ نماز جمعہ کی ادائیگی نہیں ہو سکی مقبوضہ وادی میں مذہبی آزادی بھی ٖغصب کر لی گی ہے کشمیری مسلمان اس وقت مسلم امہ اور پاکستان کی جانب دیکھ رہے ہیں۔

پاکستان کی موجودہ صورت حال میں حکومت پاکستان کو اپنی حکومت بچانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کرنے میں مصروف ہیں دوسری جانب بھارتی افواج نے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے کشمیریوں کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں۔

آزاد کشمیر کے اندر بزرگ اور سینئر سیاست دان سابق صدر اور دو مرتبہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم رہنے والے سردار سکندر حیات خان کی عمران خان سے ہونے والی ملاقات کے بعد آزاد کشمیرکے سیاسی حالات نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے سردار سکندر حیات آزاد کشمیر کے اندر ایک کامیاب سیاسی دور رہا ہے اگر سردار سکندر حیات پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو پھر آزاد کشمیر میں ہلچل مچ جائے گی لیکن ان کے بیٹے وزیر حکومت سردار فاروق سکندر نے اس بات کی تردید کی ہے کے انکے والد پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں پی ٹی آئی کے ابھی تک آزاد کشمیر کے اندر کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی سردار سکندر حیات کے شامل ہونے سے پی ٹی آئی آزاد کشمیرکے اندر پوزیشن میں آجائے گی۔