جنوبی پنجاب: علیحدہ صوبہ اور سیکرٹریٹ کا منصوبہ پھر نظر انداز

January 30, 2020

لاہور میں وزیر اعظم عمران خان کی آمد اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے بارے میں ان کے دبنگ بیان نے پنجاب کے سیاسی منظر نامے پر جمی گرد کو بڑی حد تک صاف کردیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کے اندر گروپ بندی، سیاسی کشمکش اور جوڑ توڑ ختم ہوجائے گا ، عثمان بزدار کی حد تک شاید کچھ عرصے کے لئے وہ نادیدہ سازشیں بند ہوجائیں جن کا ذکر عمران خان نے کیا ہے لیکن پارٹی کے اندر ارکان اسمبلی اور مختلف سیاسی دھڑوں کے درمیان جو بے چینی اور اختراق موجود ہے وہ ختم ہوتا نظر نہیں آتا ۔

اس کے کئی مناظر اور کئی شواہد اس میٹنگ میں بھی سامنے آئے جو لاہور میں وزیر اعظم عمران خان کی ارکان اسمبلی سے ملاقات پر مشتمل تھی ۔ خاص طور پر وہاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو اس وقت خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب ملتان سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی احمد حسن ڈیہڑ نے اٹھ کر یہ کہا کہ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے اور شاہ محمود قریشی اس امتیازی سلوک کے سب سے بڑے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملتان کے صرف دو قومی اسمبلی کے حلقوں کو ترقیاتی سکیمیں اورفنڈز مل رہے ہیں اور ان دونوں حلقوں سے شاہ محمود قریشی اور ان کے صاحبزادے زین قریشی ایم این اے منتخب ہوئے ۔

انہوں نے مثال دی کہ حال ہی میں شاہ محمود قریشی کے حلقہ کو 8 اور زین قریشی کے حلقے کو 12 کروڑ روپے کے منصوبے دیئے گئے جبکہ میرے حلقے کو صرف اڑھائی کروڑ روپے کی سکیمیں دی گئیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملتان میں شاہ محمود قریشی منصفانہ فنڈز کی تقسیم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ پارٹی کے تنظیمی عہدے اور دیگر حکومتی عناصر پر انہیں دو حلقوں کے لوگوں کو نامزد کیا جارہا ہے باقی سارا ملتان دوسری طرف محرومی سے ان سارے فیصلوں کو دیکھ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس امتیازی سلوک کی وجہ سے تحریک انصاف کو بہت نقصان پہنچ چکا ہے اور پارٹی کے دیرینہ کارکن بد دل ہوکر کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ اس موقع پر شاہ محمود قریشی خاصے حبزیز ہوئے اور انہوں نے اپنی باری پر احمد حسن ڈیہڑ کی تمام باتوں کو بے بنیاد اور مفروضوں پر مشتمل قرار دیا ، تاہم وہ ان اعداد و شمار کو نہیں جھٹلا سکے جو احمد حسن ڈیہڑ نے فنڈز کی تقسیم ، تنظیمی اور سرکاری عہدوں پر ایک ہی گروپ کے لوگوں کو نوازنے کی بابت لگائے تھے ۔

اگرچہ شاہ محمود قریشی نے ان الزامات کی صریحاً مخالفت کی اور وزیراعظم کو یہ تک بتایا کہ یہ وہی احمد حسن ڈیہڑ ہیں جنہیں میں نے آپ سے ملوا کر ٹکٹ دلوایا تھا تاہم اس وضاحت کے باوجود وزیر اعظم عمران خان نے عثمان بزدار کو ہدایت کی کہ وہ ان معاملات کو خود دیکھیں اور تمام ارکان اسمبلی کو مساویانہ ترقیاتی فنڈز دینے کو یقینی بنائیں۔

وزیر اعظم عمران خان کی اس ہدایت کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ملتان کی سیاست اور تحریک انصاف کے معاملات میں شاہ محمود قریشی کی کلیدی اہمیت کو کس طرح بائی پاس کرتے ہیں کیونکہ اب تک ملتان میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اس سے عثمان بزدار کی لا تعلقی بالکل واضح نظر آتی ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے انہوں نے ملتان کو شاہ محمود قریشی کے لئے وقف کررکھا ہے ۔ یہاں کے ارکان اسمبلی واضح طور پر احساس محرومی کا شکار نظر آتے ہیں جو شاہ محمود قریشی کے گروپ میں شامل ہیں۔

ان کی انتظامیہ بھی کام کرتی ہے اور انہیں وافر ترقیاتی فنڈز بھی مل جاتے ہیں لیکن وہ ارکان اسمبلی جو شاہ محمود قریشی کی گڈ بکس میںنہیں ہیں انہیں ہر سطح پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اگرچہ صوبائی اسمبلی کے 20 ارکان کے گروپ بنانے کی وجہ سے ایک ہلچل ضرور مچی اور نوبت وزیر اعظم سے ملاقات اور ان کی یقین دہانیوں تک آگئی مگر اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے ۔ پارٹی کے اندر بہت طاقت ور گروپ موجود ہیں جنہیں نظر انداز کرنا شاید خود وزیر اعظم کے لئے بھی ممکن نہیں۔ اس لئے ایک کھینچا تانی کی فضا تو جاری رہے گی مگر لاہور میں وزیر اعظم کی موجودگی میں ہونے والی ملاقاتیں ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر مارنے کے مترادف ہے جس سے ارتعاش ضرور پیدا ہوا ہے ۔

اب یہ ارتعاش کیا شکل اختیار کرتا ہے اور ممکن حد تک پارٹی کے اندر موجود بے چینی کو ختم کرنے اور پنجاب میں عثمان بزدار کی حکمرانی کا سکہ جمانے میں کامیاب ہوتا ہے لیکن ایک بات جسے جنوبی پنجاب کے سیاسی حلقوں میں بڑی تشویش کے ساتھ محسوس کیا گیا، خاص طور پر قوم پرست تنظیموں نے اسے ایک بہت بڑا المیہ بھی قرار دیا وہ ملتان میں شاہ محمود قریشی کی صدارت اور لاہور میں وزیر اعظم کی صدارت میں ہونے والے ان اجلاسوں میں صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام یا علیحدہ سیکرٹریٹ کے حوالے سے کسی قسم کی بات نہ ہونا ہے۔

کوئی فیصلہ تو درکنار کسی رکن اسمبلی کی طرف سے اس بات کا ذکر تک نہیں کیا گیا کہ یکم جولائی 2019ء کو جس علیحدہ سیکرٹریٹ کا اعلان کیا گیا تھا وہ اب تک کیوں نہیں بن سکا ، کسی نے وزیر اعظم عمران خان کے سامنے یہ سوال کرنے کی جرأت نہیں کی کہ جب الیکشن منشور میں علیحدہ صوبے کا قیام شامل تھا تو اب پارٹی اس سے کنارہ کشی کیوں اختیار کررہی ہے ، کیا پہلے ہی سے ارکان اسمبلی کو روک دیا گیا تھا کہ وہ اس ضمن میں کوئی سوال نہیں کریں گے ؟

کیا شاہ محمود قریشی جیسے پارٹی کے رہنما بھی جو ملتان آکر ہمیشہ علیحدہ صوبے اور علیحدہ سیکرٹریٹ کے بارے میں کوئی نہ کوئی پھلجھڑی ضرور چھوڑتے ہیں صرف اس لئے خاموش رہے کہ کہیں وزیر اعظم اس ذکر سے ناراض نہ ہوجائیں ؟ اور تو اور وہ 20 رکنی گروپ بھی جو بڑے طمطراق کے ساتھ سامنے آیا اس نے بھی اس بارے میں ایک لفظ تک کہنا گوارہ نہیں کیا ۔

لگتا یہی ہے کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے یا علیحدہ سیکرٹریٹ دینے کا خیال پارٹی قیادت کی طرف سے غیر ممنوعہ قرار دیا گیا ہے ، اس لئے کسی فورم پر بھی اس کا ذکر نہیں کیا جارہا۔ گزشتہ ہفتے بلوچ قوم پرست رہنما عبدالحئی بلوچ ملتان آئے اور انہوں نے مختلف تقریبات میں شرکت کی۔ 5فروری یوم کشمیر کے موقع پر مولانا فضل الرحمن ملتان میں ایک بڑی ریلی اور جلسے سے خطاب کریں گے۔