خوش نصیب وزیراعلیٰ بزدار ایک بار پھر خطرات سے نکل آئے

January 30, 2020

وزیر اعظم عمران خان نے لاہور میں حالیہ دورہ کے دوران ایک مرتبہ پھر وزیر اعلیٰ عثمان احمد بزدار پر مکمل اعتماد کا اظہار کر تے ہوئے واضح کر دیا ہےکہ عثمان بزدار ہی صوبہ میں وزیر اعلیٰ قائم رہیں گے ، وزیر اعظم نے اپنے گزشتہ دورے کے دوران صوبہ میں اعلیٰ بیورو کریسی میںبڑے پیمانے پر رد و بدل کر کے میجر ( ر ) اعظم سلیمان کو چیف سیکرٹری اور شعیب دستگیر کو آئی جی پنجاب تعینات کر کےمتعدد صو بائی سیکرٹریوں ، کمشنر وں اور ڈپٹی کمشنروں کو تبدیل کر دیا، اس کے بعد صوبائی کابینہ کی باری آئی صوبائی کابینہ میں وزیر اعلیٰ کے ہم خیال ارکان اسمبلی کو اہم وزارتیں سپرد کر دیں جن میںفیاض الحسن چوہان کو وزیر اطلاعات ، سبطین خان کو وزیر جنگلات اور اسد کھوکھر کو وزیر ماہی پروری و جنگلی حیات کا قلمدان سونپ دیا گیا۔

پنجاب میںعثمان بزدار کی مرضی کے مطابق بیورو کریسی اور وزیروں کے تقرر کے بعد امید تھی کہ صوبہ میں سیاسی اور انتظامی صورتحال میںبہتری ہو گی لیکن حالات مزید ابتر ہو گئے اور معاملات وزیر اعلیٰ کی تبدیلی تک پہنچ گئے ، پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے 20ارکان پر مشتمل فارورڈ بلاک بن گیا ، آٹے کا مصنوعی بحران ، شوگر ملوں کی بندش ، چینی کی قیمتوں میں خود ساختہ اضافے نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور محسوس ہونے لگا کہ عثمان بزدار کی حکومت صبح گئی کہ شام ، اس دوران وزیر اعظم دوبارہ عود آئے اور عثمان بزدار پر مکمل اعتماد کا اظہار کر کے واپس چلے گئے ۔ وزیر اعظم نے 8کلب روڈ لاہور میںمصروف دن گزارہ، پنجاب میںتحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی ، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار، چیف سیکرٹری میجر ( ر ) اعظم سلیمان اور آئی جی پنجاب شعیب دستگر ، پنجاب اسمبلی میںپارلیمانی پارٹی کےا رکان سے الگ الگ ملاقاتیں کیں جس کے بعد حالات میںجمود آ گیا ۔

حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے ارکان قومی اسمبلی ، وزیر اعلیٰ ، چیف سیکرٹری اور آئی جی سے ہونے والے اجلاسوں میں صوبائی معاملات میں گہری سنجیدگی سے تجاویز لیں اور مناسب ہدایات بھی جاری کیں لیکن صوبائی پارلیمانی پارٹی میںفارورڈ بلاک سمیت دیگر ارکان صوبائی اسمبلی پر بہت زیادہ برہمی کا اظہار کیا اور اپنی تقریر میں واضح کر دیا کہ صوبہ میں عثمان بزدار بدستور وزیر اعلیٰرہیںگے ، انھیں تبدیل کرنے کی سازش اور خفیہ ہاتھوں کو جانتے ہیں ، عثمان بزدار کو ہٹایا تو نیا وزیر اعلیٰ بیس دن بھی پورے نہیں کرسکے گا۔وزیر اعلیٰ عثمان بزدار پہلے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے بیرونی حملوںکا نشانہ بن رہے تھے لیکن اس وقت اندرونی حملے بھی ہونے لگے ہیں اور پنجاب میں اتحادی جماعتوں ، تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی حتی کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کے اعتماد سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔

گورنر پنجاب چودھری سرور ، اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی ، سابق سینئر وزیر عبدالعلیم خان ، وزیر صنعت پنجاب میاںاسلم اقبال عثمان بزدار کی حمایت سے دستبردار ہو چکے ہیں ، ستم بالائے ستم کہ نئے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب نے میرٹ پالیسی کے نام پر سرکاری ارکان اسمبلی کو حلقوںمیں تقرر و تبادلوں اور ترقیاتی کاموں میں نظر انداز کر دیا ہے اور غیر سیاسی روئیے کا مظاہر ہ کر رہے ہیں، تحریک انصاف کو صوبہ میں مضبوط کرنے کے لئے ارکان اسمبلی کو اہمیت اور فوقیت دینی چاہئے لیکن بیورو کریسی اپنی من مانیاں کر رہی ہے ، تحریک انصاف کے ارکان اپنے حلقوں میں ایس ایچ او، پٹواری کے تبادلوں میں بھی بے بس ہیں جس سے پارٹی کو بہت نقصان ہو رہا ہے ، سرکاری ارکان کے ترقیاتی فنڈز بھی جاری نہیں ہو رہے جس کے بعد تحریک انصاف کا فارورڈ بلاک ہی قائم ہونا تھا۔

تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویز الہی سب سے زیادہ مسائل پید ا کر رہے ہیں، صوبائی اسمبلی میں ان کی گرفت بہت مضبوط ہو چکی ہے ، صوبائی اسمبلی میںانتظامی معاملات ان کے معتمد ساتھی سیکرٹری اسمبلی محمد خان بھٹی چلا رہے ہیں اور ایوان کے اندر باہر سیاسی معاملات پرویز الہیٰ نے اپنے ہاتھوں میں رکھے ہیں، پرویز الہیٰ اپوزیشن مسلم لیگ ن کو مسلسل ریلیف دے رہے ہیں ، ن لیگ کو سٹینڈنگ کمیٹیوںمیںنمائندگی دی گئی ،اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز اورخواجہ سلمان رفیق کو نیب کی حراست سے نجات دلانے کے لئے پروڈیکشن آرڈر جاری کئے ، بزنس ایڈوائزری کمیٹی اور اپنے چیمبر میں مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو خصو صی اہمیت اور ایوان کے اندر اپوزیشن ارکان کو تحریک انصاف حکومت کے خلاف تندو تیز تقریروں کا موقع دینے کی وجہ سے وہ ن لیگ میں پسندیدہ اور ہر دلعزیز اسپیکر بن چکے ہیں ، تحریک انصاف کے حلقوں کے مطابق گورنر نجاب چودھری محمد سرور بھی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے لاتعلقی اختیار کر چکےہیں اور چودھری پرویز الہیٰ کی خاموش تائید و حمایت کر رہے ہیں، پنجاب اسمبلی میں ق لیگ کے ارکان کی تعداد صرف دس ہے لیکن پرویز الہیٰ جب چاہیں تحریک انصاف کی حمایت سے دستبردار کو ہوکر عثمان بزدار ہی نہیں پوری حکومت کا دھڑن تختہ کر سکتے ہیں ، مسلم لیگ ن حمایت کر دے تو وزیر اعلیٰ بھی بن سکتے ہیں۔

عثمان بزدار کے لئے وزیر صنعت و تجارت میاںاسلم اقبال بھی درد سر بنے ہوئے ہیں جو خود وزیر اعلیٰ کے امیدوار تھے ، صوبے میں مہنگائی اور قیمتوں کو کنٹرول کرنا وزارت صنعت کا کام ہے لیکن چینی ، آٹے کی قیمتیں آسمان کو پہنچ رہی ہیں جس کا تمام ملبہ عثمان بزدار پر گر رہا ہے ، لاہور میں آٹے کی قلت کے ساتھ چکی مالکان کی ہڑتال سے معاملات سنگین ہو چکے ہیں، وزیر اعلیٰ کی مشکلات میںجہانگیر ترین اور وفاقی وزیر خسرو بختیار بھی اضافہ کر رہے ہیں جنہوںنے صوبہ میں گنے کی قیمتوں کا بحران پیدا کر دیا، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے پنجاب کے کسانوں کو ریلیف دینے کے لئے گنے کی قیمت 180 روپے من سےبڑھا کر 190 روپےمن کر دی جسے شوگر مل مافیا نے مسترد کر دیا، گنے کی کرشنگ ایک مہینہ تاخیر سے دسمبر میں شروع کی گئ لیکن 20دسمبر کو گنے کی خریداری بند کر کے ملوں کو تالے لگا دئیے گئے ، وزیر خوراک سمیع اللہ چودھری سے مذاکرات کے بعد ملیں یکم جنوری کو دوبارہ کھول دی گئیں ، گنا کی قیمت 210روپے من تک پہنچ چکی تھی لیکن کسان بے چارے دوبارہ 190روپے من گنا فروخت فروخت کرنے پر مجبور ہیںکیونکہ انھیں خطرہ ہے کہ مل مالکان گنے کی خریداری بند کر کے ملوں کو دوبارہ تالے لگا سکتے ہیں۔