وزیراعظم کی جارحانہ حکمت عملی: عدم استحکام کا طوفان وقتی طور پر تھم گیا

January 30, 2020

پاکستان طویل عرصے سے بحرانوں اور مشکلات میں گھرا ہوا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہے کہ اندرونی و بیرونی دشمن تمام تر کوششوں اور سازشوں کے باوجود پاکستان کے خلاف اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب نہیں ہوسکے اور نہ ہی انشاء اللہ کامیاب ہونگے اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پاکستان کی دلیر فوج اور عوام مشکلات کے باوجود دشمنوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئےہیں۔ عمران خان جب سے اقتدار میں آئے ہیں ملک ایک بحران سے نکلتا ہے تو دوسرے بحران میں داخل ہو جاتا ہے۔

عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو انہوں نے نیا پاکستان بنانے، کرپشن کے خاتمے اور لٹیروں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا نعرہ لگایا۔ بالخصوص ان کا سابقہ حکمرانوں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے، منی لانڈرنگ ختم کرنے ، کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کے نعرے کو عوام میں زبردست پذیرائی ملی۔ وزیراعظم عمران خان نے مہنگائی بیروزگاری اور غربت سے چھٹکارا دلانے کی بھی یقین دہانیاں کرائی تھیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ان نعروں اور عوام سے کئے گئے وعدوں کو کہاں تک پورا کیا۔

وزیراعظم عمران خان صاحب کو یہ بخوبی ادراک تھا کہ سابقہ حکمرانوں نے خزانہ بالکل خالی چھوڑا اور ملک معاشی طور پر قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا مگر حکمران جماعت، اراکین پارلیمنٹ نے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش نہیں کی اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا۔ ملک میں آٹے کا بحران ہے ابھی آٹے کے بحران پر قابو نہیں پایا گیا تھا کہ چینی کا بحران پیدا ہوگیا۔ اس کے علاوہ بھی دالوں گوشت سبزیوں اور پھلوں کے ریٹ آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ عوام دو وقت کی روتی کیلئے محتاج اور پریشان ہوگئے۔ ملک میں طوفان برپا ہے اپوزیشن حکومت پر خوب گولہ باری کر رہی ہے۔ عوام سخت مایوس ہیں ملک میں پیدا ہونے والی گندم سستے داموں بیرون ملک بیچ دی گئی ہے، مہنگی گندم بیرون ملک سے منگوائی جارہی ہے۔

اپوزیشن جہانگیر ترین، خسرو بختیار اور بعض دیگر صوبائی اور وفاقی وزراء کا نام لے رہی ہے۔ اپوزیشن کا یہ پروپیگنڈہ ہے یا واقعی ان الزامات میں کوئی صداقت ہے۔ وزیراعظم عمران خان جن کی ذات پر ابھی تک کرپشن کا کوئی دھبہ نہیں اگر ان کے بعض وزراء یا قریبی ساتھی کرپشن میں ملوث ہیں تو اس کی تحقیقات کیوں نہیں کرائی جاتی تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ وزیراعظم صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ محض میڈیا کا پروپیگنڈہ ہے اور آپ چینل اور اخبارات پڑھنا چھوڑ دیں تو ملک میں سب کچھ ٹھیک ہے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ بعض وزراء کی نااہلیوں کو چھپانے کیلئے سب اچھا کی رپورٹ دیتے ہیں ۔ بعض میڈیا والے حدود سے تجاوز کرتے ہوں یا تنگ کرتے ہوں مگر سب اچھا کی رپورٹ بھی درست نہیں۔ آٹے اور چینی کا بحران نہیں ، کیا مہنگائی سے لوگ فاقہ کشی کا شکار نہیں ہو رہے ہیں۔کیا پنجاب اور وفاق میں آپ کے اتحادی حکومت سے الگ ہونے کی باتیں نہیں کر رہے۔ کیا کے پی کے میں حکومتی وزراء گروپ بندی نہیں کر رہے۔ کیا آپ نے کے پی کے تین وزراء عاطف خان شکیل اللہ اور ترکئی کو گروپ بندی پر برطرف نہیں کیا۔ کیا بلوچستان حکومت میں اختلافات نہیں۔

کیا ملک کی دولت لوٹنے والے پیسہ دیئے بغیر ملک سے باہر نہیں چلے گئے اور کچھ باہر جانے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ کیا یہ درست نہیں آپ کے وزراء ایسی گگلی پھینک دیتے ہیں کہ اپوزیشن کو کئی روز تک حکومت پر نشتر چلانے کا موقع ملتا ہے اور ہمارے ٹی وی اینکرز کو بھی ان باتوں پر پروگرام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ کیا یہ بات درست نہیں جو بیوروکریٹس میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے پروردہ تھے وہی اب بھی اہم عہدوں پر فائز ہیں اور وہ حکومت کو ناکام بنانے کیلئے باریک وارداتیں کر رہے ہیں۔ کیا یہ بات بھی غلط ہے کہ آپکی حکومت کے دو اہم وزیر مشیر میاں محمد سومرو اور شہزاد اکبر اڑھائی کنال کے پلاٹ پر لڑ پڑے اور یہ لڑائی میڈیا پر آگئی اور اس لڑائی کے چکر میںراولپنڈی ڈپٹی کمشنر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر رضوان جو بہت اچھا کام کر رہے تھے طاقتور شخصیات کی بھینٹ چڑھ گئے۔

اگر یہ باتیں غلط ہیں تو آپ کا شکوہ درست ہے درحقیقت حکومت کو اپنی غلطوں کا الزام دوسروں پر ڈالنے کی بجائے گڈگورننس پر توجہ دینا چاہئے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عمران خان نے کرپشن مافیا کے خلاف جو آواز بلند کی اور ڈٹ گئے اس کی مثال نہیں ملتی۔ جبکہ عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بڑھانے اور کشمیر کاز کیلئے وزیراعظم عمران خان کی کوششوں کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کے دوران یہ محسوس نہیں ہوا کہ ایک حاکم ہے اور دوسرا محکوم ۔ عمران نے بلاجھجک برابری کی بنیاد پر ملاقات میں بات کی۔نہ عمران خان صدر ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کے دوران لکھی ہوئی چٹیں پڑھ رہے تھے جیسا کہ ماضی میں ہوا ہے۔

وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں جو تقریر کی اس سے بھی پاکستان کا وقار بلند ہوا اور عمران خان اسلامی دنیا کے لیڈر بن کر ابھرے انہوں نے ایران سعودی عرب کو بھی قریب لانے کیلئے بھرپور کوششیں کیں جبکہ امریکہ نے ایرانی جنرل کو مارنے کی جو حماقت کی اور ایک بڑی جنگ کا خطرہ پیدا ہوا۔ اس میں بھی عمران خان نے امریکہ کو ایران کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دینے سے انکارکر دیا اور اس فیصلے سے ایران کے ساتھ تعلقات خراب نہ ہوئے۔

عمران حکومت نے اگرچہ غریبوں کی فلاح وبہبود کیلئے بہت اچھے کام بھی کئے جن میں شیلٹر ہومز کا قیام نوجوانوں کے قرضہ اسکیم کا اجراء اور دیگرا سکیمیں شامل ہیں مگر عوام کو مطمئن کرنا ہے تو مہنگائی پر کنٹرول کرنا ہوگا۔ اگر ہم وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کے کھرے اور سچے موقف کی تعریف نہ کریں تو زیادتی ہوگی۔ شیخ رشید احمد ایسے وزیر ہیں جو گلی محلے سے اٹھ کر اہم مقام پر پہنچے ہیں اور وہ غریبوں کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ انہوں نے کابینہ کے اجلاس میں آٹے اور چینی اور اشیائے خرد کی قیمتوں کے اضافے کے خلاف بات کی اور وزیراعظم ان کی صاف اور کھری باتوں کا برا بھی نہیں مانتے۔