بھارتی مسلمانوں کی بقا کی جنگ

February 09, 2020

بھارت میں اِن دنوں جس مسئلے پر سب سے زیادہ بحث مباحثہ اور احتجاج ہو رہا ہے، وہ نیا شہریت بِل ہے، جسے مودی حکومت نے تین چوتہائی اکثریت کے بَل پر دسمبر میں منظور کروایا تھا۔ سی اے اے یعنی’’ سیٹیزن شپ امینڈمینٹ ایکٹ‘‘ نے بھارتی شہریت کے قوانین میں بنیادی تبدیلیاں کردیں، جس کے سبب ماہرین کی اکثریت اس اَمر پر متفّق ہے کہ نئے قانون نے مُلک کے سیکیولر آئین کو مکمل طور پر بدل دیا۔ اس بِل سے سب سے زیادہ بھارتی مسلمان متاثر ہوئے ہیں، جن کی تعداد چوبیس کروڑ کے لگ بھگ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً بیس فی صد بنتا ہے۔

اسی لیے سب سے پہلے احتجاج کا سلسلہ علی گڑھ یونی ورسٹی اور جامعہ ملیہ، دہلی کے طلبہ کی طرف سے دیکھنے میں آیا، جو بعدازاں مُلک کے طول وعرض میں پھیلتا چلا گیا۔ پھر یہ کہ اس متنازع بِل کے خلاف صرف مسلمان ہی نہیں، اکثریتی ہندو آبادی اور دیگر اقلیتیں، عیسائی، سِکھ، بُدھ اور دلت وغیرہ بھی سراپا احتجاج ہیں۔ نیز، بارہ سے زاید ریاستوں نے اسے اپنی عمل داری میں نافذ کرنے سے صاف انکار کردیا۔ دوسری بڑی جماعت اور اپوزیشن کی سربراہ، کانگریس بھی، جس نے مُلک کے بانی رہنما، گاندھی اور نہرو کی سرکردگی میں بھارت کا آئین بنایا تھا، دوسری جماعتوں کے ساتھ بِل کی مخالفت میں پیش پیش ہے۔

علاوہ ازیں، بھارتی سپریم کورٹ میں ایک آئینی پیٹیشن کے ذریعے اس بِل کی قانونی حیثیت بھی چیلنج کردی گئی ہے۔ اس پر نہ صرف بھارت بھر کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں، بلکہ باقی دنیا بھی اس کا جائزہ لے گی، کیوں کہ عدالتی فیصلے سے بڑی حد تک طے ہوجائے گا کہ مسقبل کا بھارت کس طرف جائے گا۔ یہ ایک ہندو اکثریت کا قوم پرست مُلک ہوگا یا وہی پرانا سیکولر بھارت، جس کا ویژن اس کے بانیوں نے پیش کیا اور جس کی بنیاد پر بھارت خود کو فخریہ طور پر دنیا کی سب سے بڑی سیکیولر جمہوریت باور کرواتا ہے۔

یوں لگتا ہے کہ نریندر مودی دوسری بار وزیرِ اعظم بننے کے بعد سے کچھ زیادہ ہی جلدی میں ہیں۔ اُنہوں نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد پہلا کام کشمیر سے متعلق آرٹیکل370 کی منسوخی کا کیا اور پوری وادی میں لاک ڈائون کردیا، جو آج تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ پھر دسمبر میں کشمیر کو دو حصّوں میں تقسیم کرکے بھارت میں ضم کردیا ، یعنی بھارتی یونین کے مزید دو صوبے وجود میں آگئے۔ یہ اقدام اُن بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے، جن کی پاس داری کا عہد وزیرِ اعظم، جواہر لال نہرو نے لیا تھا۔ اقوامِ متحدہ نے جمّوں کشمیر کو ایک متنازع علاقہ قرار دیتے ہوئے طے کیا تھا کہ ریفرنڈم کے ذریعے کشمیریوں کی رائے معلوم کی جائے اور پھر اسی کی بنیاد پر ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے۔ اسی عالمی فیصلے کے سبب کشمیر کو بھارتی آئین میں خصوصی اسٹیٹس دیا گیا۔

اس پر بہت سے قوانین لاگو نہیں ہوتے تھے، جیسے کوئی غیر کشمیری وہاں زمین نہیں خرید سکتا تھا۔ اس نئی اور اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے منافی قانون سازی پر کشمیری گزشتہ چھے ماہ سے سراپا احتجاج ہیں۔ تنازعے کا دوسرا فریق پاکستان بھی بھارتی اقدامات مسترد کرچُکا ، جب کہ ساری دنیا اس پر تشویش کا اظہار کر رہی ہے، لیکن مودی سرکار روایتی ہَٹ دھرمی سے اپنے فیصلے نافذ کرتی جا رہی ہے۔ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ معاملے کی نزاکت کے پیشِ نظر تین مرتبہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کر چُکے ہیں، جسے حسبِ توقّع بھارت رَد کرتا رہا۔اس کے بعد شہریت کے متنازع بِل جیسی نامعقول حرکت نے بھارتی انتہا پسندی مزید بے نقاب کردی۔

شہریت بِل کیا ہے اور اس سے مسلمان زیادہ متاثر کیوں ہو رہے ہیں؟ جس دن یہ بِل دونوں ایوانوں سے منظور ہوا، اُسی دن سے مُلک بھر میں اس کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ صدر جمہوریہ نے بھی اسے فوراً سے پیش تر دست خط کر کے قانون کا درجہ دے دیا۔ ماہرین اور سیاسی رہنمائوں کے مطابق، یہ ترمیم بھارت کے 1955 ء کے شہریت کے قانون میں کی گئی، جس سے قانون کی رُوح ہی بدل گئی۔ یہ ترامیم بھارتی آئین کی شق 14،15اور21 کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور مذاہب کے درمیان امتیازی سلوک کی موجب ہیں۔ اس قانون کے تحت بھارت کے تین پڑوسی ممالک پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے آنے والے ایسے افراد جو ہندو، بُدھ، پارسی، سِکھ یا عیسائی ہوں، اُنھیں بھارت کی شہریت دے دی جائے گی۔

تاہم، ان ممالک سے آنے والے مسلمان اس سہولت سے فائدہ نہیں اُٹھا سکیں گے۔ ماہرین کے مطابق، مذہبی بنیادوں پر کی جانے والی یہ ترامیم جانب دارانہ اور آئین کے سیکیولر تشخّص کے منافی ہیں۔ گو کہ اس متنازع بِل میں مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے، لیکن یہ کوئی مذہبی معاملہ نہیں، بلکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور شہریوں کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھے جانے کا ایشو ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ قانون اسی شکل میں برقرار رہتا ہے، تو مسلمانوں پر ہر وقت شہریت کا ثبوت پیش کرنے کی تلوار لٹکتی رہے گی اور وہ عملاً دوسرے درجے کے شہری ہوجائیں گے۔ نیز، اگر اُنہوں نے ایک شہری کی حیثیت سے کسی بھی حق کا مطالبہ کیا، تو اُنہیں اس قانون کے تحت ہراساں بھی کیا جاسکے گا۔

وہاں صدیوں سے آباد مسلمان شہری ہر وقت اسی خوف میں رہیں گے کہ نہ جانے کون سی حکومت اُن سے کب ناراض ہوجائے۔ البتہ، اچھی بات یہ ہے کہ بھارت کی سِول سوسائٹی نے بھرپور انداز میں اس متنازع بِل کی مخالفت کی اور وہ اپنے ہم وطن مسلم شہریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ دہلی کی جواہر لال یونی ورسٹی میں، جو بھارت کا ایک نام وَر تعلیمی اداراہ ہے، وہ واقعہ پیش آیا، جس میں ایک انتہا پسند گروپ نے احتجاج کرنے والے طلبہ پر حملہ کیا اور اُنہیں زد وکوب کیا۔ متاثرہ طلبہ میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے شامل تھے اور وہ اس غنڈہ گردی کے خلاف ڈٹ گئے۔ اسی طرح بھارت کی زیادہ تر ریاستوں نے نئے شہریت بِل کی مخالفت کی۔ ان ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ، وزراء اور اسمبلیوں نے نئے قانون کو نہ صرف یہ کہ ماننے سے انکار کردیا، بلکہ واضح اعلان کیا کہ وہ اسے اپنی حدود میں لاگو نہیں ہونے دیں گے۔

واضح رہے، بھارت میں وفاقی سطح پر بی جے پی کی حکومت ہے، تاہم بہت سی ریاستوں میں اُس کے مخالف اتحاد حکومت کر رہے ہیں۔ ویسے بھی ہر کچھ ماہ بعد بھارت کی کسی نہ کسی ریاست میں الیکشن ہوتے رہتے ہیں۔ جہاں مقامی ایشوز کے ساتھ ،قومی معاملات بھی ووٹرز کے لیے اہم ہوتے ہیں۔ دارالحکومت، دہلی میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ گزشتہ بار عام آدمی پارٹی نے مودی کی ذاتی اور اَن تھک کوششوں کے باوجود بی جے پی کو شکست دی تھی اور اس مرتبہ پھر کجروال نے اُنھیں ٹف ٹائم دے رکھا ہے۔ دہلی میں مسلمانوں کی نہ صرف بڑی تعداد بستی ہے، بلکہ اُن کا خاصا اثر بھی ہے۔ گو کہ وہ کئی عشروں سے اپنی انتخابی قوّت منظّم طریقے سے استعمال نہیں کرسکے، لیکن اس مرتبہ سوچ بدلتی نظر آ رہی ہے، جس کے باعث یہ الیکشن مودی کے لیے بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔

اسی لیے اُن کے دستِ راست، امیت شاہ خود انتخابی مہم کی نگرانی کررہے ہیں۔ دہلی میں ہی شاہین باغ کا مشہور احتجاج بھی مہینوں سے جاری ہے۔ اسے عام گھریلو مسلم خواتین لیڈ کر رہی ہیں، جو روز شاہین باغ میں متنازع شہریت بِل کے خلاف دھرنا دیتی ہیں۔ اُن کی طاقت میں روز بروز اضافہ بھی ہو رہا ہے کہ اُنھیں معاشرے کے ہر طبقے کی حمایت حاصل ہوتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ’’ شاہین باغ احتجاج‘‘ ایک تحریک کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے، جس سے باقی ریاستوں کے مسلمانوں کو بھی حوصلہ ملا ہے۔

اس متنازع بِل کے بعد ایک اہم سوال یہ بھی سامنے آیا کہ کیا بھارت کے مسلمان شہری اپنی حیثیت منوانے اور طاقت یک جا کرنے میں کام یاب ہوجائیں گے؟ جہاں تک قانونی جدوجہد کی بات ہے، تو معاملہ سپریم کورٹ پہنچ چُکا ۔ دورانِ سماعت آئین کی سیکیولر حیثیت ختم ہونے کا معاملہ زیرِ بحث آئے گا، جسے اب بھی آبادی کے ایک بڑے طبقے میں قومی اساس مانا جاتا ہے۔ دوسرا مرحلہ معاشرے کے دوسرے حصّوں، خاص طور پر اکثریتی ہندوؤں کو اپنے ساتھ کھڑا کرنا اور اُنہیں یہ احساس دِلانا تھا کہ اس سے ایک طرف آئین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، تو دوسری جانب، معاشرے میں ایک ایسی تقسیم عمل میں لائی جارہی ہے، جو مُلک کے لیے نقصان کا باعث ہوگی۔ مشکل یہ ہے کہ صرف آٹھ ماہ قبل یہی ہندو اکثریت، مودی اور اُن کی پارٹی کو فیصلہ کُن اکثریت دے کر دوبارہ اقتدار میں لائی تھی۔ کشمیر، معاشرے کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم، ہندو انتہا پسندی، پاکستان مخالفت سب ہی اُس الیکشن میں زیرِ بحث آئے ۔

ان موضوعات پر تین مہینے تک کُھل کر بات ہوئی۔ اپوزیشن، بھارتی مسلم شہریوں، اہلِ دانش اور سِول سوسائٹی کو بھی ان معاملات پر اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کا موقع ملا۔ اُنہوں نے اس طرح کی باتوں کو بھارتی معاشرے کی تقسیم قرار دیا اور ان کی کُھل کر مخالفت بھی کی، لیکن اس کے باوجود عوام کا اکثریتی فیصلہ نریندر مودی کے حق میں آیا۔ اس کا یہ مطلب لیا گیا کہ بھارتی عوام کی اکثریت قوم پرستانہ سوچ کی حامی ہے۔ اگر ایسا ہی ہے، تو اس کے محرّکات کیا ہیں؟ اس پر بات ضروری ہے، وگرنہ مسائل کا حل تلاش کرنا مشکل ہوجائے گا۔ ماہرین کی رائے ہے کہ اسی انتہا پسندانہ یا ہندو توا کی سوچ پر مودی بار بار اقتدار میں آرہے ہیں۔ سب سے پہلے تو اس سوچ کے سب سے اہم اور بڑے متاثرین یعنی بھارتی مسلمانوں کی شہری اور عددی حیثیت دیکھ لی جائے۔

بھارت میں مسلمانوں کی تعداد چوبیس کروڑ سے زیادہ بتائی جاتی ہے اور یہ کسی بھی مسلم مُلک کی آبادی سے زیادہ ہے۔ چوبیس کروڑ شہریوں کو اقلیت کہنا بذاتِ خود ایک عجیب سی بات لگتی ہے، کیوں کہ اقوامِ متحدہ میں شامل مُمالک میں سے شاید دس سے بھی کم مُلک اتنی آبادی رکھتے ہوں گے۔ تقسیمِ ہند کے وقت ان مسلمانوں کی حیثیت بہت بہتر تھی۔ ان کی لوک سبھا اور ایوانِ بالا میں نمایندگی تھی۔ وفاقی کابینہ میں بھی حصّہ تھا، بلکہ ایک زمانے میں مُلک کا صدر بھی مسلمان رہا۔ تاہم، گزشتہ ستّر سالوں میں مسلمانوں کی آبادی میں تو اضافہ ہوا، لیکن اُن کی سیاسی اور سماجی طاقت گھٹتی ہی گئی۔ ان پر ہمیشہ یہ الزام رہا کہ پاکستان بنانے میں ان مسلمانوں کے اجداد نے مرکزی کردار ادا کیا اور شاید اسی لیے ان سے اس کی قیمت بھی وصول کی جاتی رہی۔ پھر تقسیم کے وقت نفرت کا جو لاوا پھٹا، اُس نے نئے وجود میں آنے والے مُلکوں میں دشمنی کی آگ بھڑکا دی۔ کشمیر پر بھارتی قبضے نے اس نفرت کو مزید عروج پر پہنچایا۔ اس تمام دَور میں صرف لیاقت، نہرو پیکٹ ہی ایک ایسی کوشش نظر آتی ہے، جس میں دونوں طرف کی اقلیتوں کی حیثیت کی حفاظت کا ذکر ہے، وگرنہ اسے ممالک کا اندرونی معاملہ ہی سمجھا جاتا ہے۔

بھارت کے مسلمانوں کی آواز وقت گزرنے کے ساتھ مُلکی معاملات میں کم زور پڑنے لگی اور ساتھ ہی اُن کی سماجی حیثیت بھی کم ہونے لگی۔ چاہے کانگریس کی حکومت ہو یا بی جے پی کی، اُن کے سماجی مقام میں ہر سطح پر کمی آتی گئی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ بالی ووڈ جیسی رنگین دنیا میں بظاہر ان کے’’ خانوں‘‘ کا راج رہا۔بالی ووڈ کے سُپر اسٹار، شاہ رُخ خان نے حال ہی میں ایک قصّہ سُنایا، جو دنیا بھر کے مسلمانوں کو دعوتِ فکر دیتا ہے۔ شاہ رُخ خان نے بتایا’’ مَیں مسلمان ہوں اور بیوی ہندو۔ میرے بچّوں سے اسکول میں اکثر بچّے سوال کرتے ہیں کہ تمہارا کس مذہب سے تعلق ہے؟ تو میری بیٹی نے بھی مجھ سے پوچھا’’ ہم کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں؟‘‘ مَیں نے جواب دیا’’ ہم انڈین ہیں۔‘‘ اس لیے مَیں نے اسکول میں مذہب کے خانے میں بچّوں کے لیے انڈین لکھوایا ہے۔‘‘ اس پر کمنٹ کرنے سے زیادہ غور کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ بھارت میں بسنے والی اُن کی سب سے بڑی آبادی، وہاں کس حیثیت میں رہ رہی ہے۔

یہ کوئی ڈھکی چُھپی حقیقت نہیں کہ نریندر مودی ایک قوم پرست لیڈر ہیں۔ وہ ہندو توا پر یقین رکھتے ہیں، یعنی ہندو مذہبی ریاست کا قیام۔ جب بھارت وجود میں آیا، تو نہرو اور گاندھی جیسے لوگ اس کے رہنما تھے، جو سوشلزم سے متاثر تھے اور اُنھیں یقین تھا کہ ایک سیکیولر بھارت ہی ترقّی کا ضامن ہوگا، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، قوم پرستی معاشرے میں جڑ پکڑتی گئی۔ اکثریت کے ایک حصّے کو یہ احساس ہونے لگا کہ کیا سیکیولر نظام اُن کی اکثریت کے مطابق ہے۔ سوال ہوا، ہمیں کیا ملا، سیکیولر معاشرے میں تو سب برابر ہیں، ہماری اکثریت کا کیا فائدہ؟

آبادی کی عددی طاقت اور معاشی مضبوطی کا نشہ سَر چڑھ کر بولنے لگا اور شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ جب مودی کی قوم پرست سوچ نے اُنہیں اپنے سحر میں گرفتار کر لیا، تو وہ سیکیولرازم کو بھول کر ہندو قوم پرستی کو ووٹ دینے لگے۔ شروع میں دانش ور سوچ کے اٹل بہاری واجپائی جیسے وزیرِ اعظم مُلک کی سربراہی کرتے رہے، لیکن2013 ء کے انتخابات میں یہ پٹاری کُھل گئی۔ نریندر مودی وزیرِ اعظم بنے، جن پر امریکا میں داخلے پر اس لیے پابندی تھی کہ گجرات میں دو ہزار مسلمانوں کے قتلِ عام میں اُن کا کردار مشتبہ تھا۔اگر دیکھا جائے، تو دنیا بھر میں قوم پرستی دوبارہ تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد کے پچاس سال کا’’ قوموں کی ہم آہنگی کا ہنی مون پیریڈ‘‘ ختم ہو رہا ہے۔

آج چاہے بڑی طاقتیں ہوں یا چھوٹے مُلک، سب ہی اپنی اپنی قوم کا نعرہ بلند کررہے ہیں اور اسے اپنی ترقّی کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔ برطانیہ اور یورپ میں بریگزٹ، امریکا میں’’ امریکا فرسٹ‘‘ کا نعرہ بلند کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ، جاپان میں غیر فوجی کردار ختم کرنے والے شنزو ایبے، چین میں اقتصای برتر قوّت کے حامی شی جن پنگ، روس میں سویت عظمت کی بحالی کے چیمپئن پیوٹن، ایران میں انقلابی حکومت، تُرکی میں اردوان، گویا ہر ایک اپنے اپنے مُلک اور ترجیحات کے علاوہ کچھ اور سمجھنے کو تیار نہیں۔ اسی پس منظر میں دیکھا جائے، تو سمجھ آ جاتا ہے کہ آخر دنیا مودی اور بی جی پی کی انتہا پسندانہ پالیسیز کی مذمّت کیوں نہیں کرتی۔

شہریت کے متنازع بِل کے آنے سے جہاں بھارتی مسلمان شدید دبائو میں ہیں، وہیں اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اُنہیں کئی عشروں بعد اپنی طاقت کا احساس ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ جغرافیائی طور پر بکھرے ہوئے ہیں، اُن کی کہیں ایسی اکثریت نہیں، جس سے وہ انتخابات میں کوئی فیصلہ کُن کردار ادا کرسکیں، لیکن چوبیس کروڑ کی آبادی ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ اُنہیں شاید پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ بکھرے رہنے سے ایک طرف اُن کی معاشی حیثیت کم ہوئی، تو دوسری جانب، سماجی اہمیت بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ حکومت اُن کی شہریت چیلنج کرنے کی تیاریاں کرچُکی ہے۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اکثریتی ہندو برادری سمیت سارے بھارتی شہریوں نے بھی جان اور مان لیا کہ مُلکی یک جہتی اور ترقّی کے لیے مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے۔