’امر کوٹ کا قلعہ‘ حکم رانوں کے عروج و زوال اور رومانوی داستانوں کا خاموش گواہ

February 02, 2020

دھرتی کے سینے پر زندگی اور موت کی علامت تصور کئے جانے والے صحرائوں میں تھرپارکر کا شمار 9ویں بڑے صحرائوں میں ہوتا ہے۔اس صحرا میں جابجا زندگی اور زندگی کے دھنک رنگ ملتے ہیں۔اس ریگستان کی اڑتی ریت میں محبت اور امن کی خوش بو ملتی ہے۔اس کی فضائوں میں نغمگی اور ہوائیں رقص کرتی محسوس ہوتی ہیں۔

یہ ریگستان…کبھی سمندر کے نیلگوں پانیوں کے نیچے تھا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ، ساتھ بحرئہ عرب نے اپنے وجود کو کیا سمیٹا، کہ یہ خطہ ہرذی روح کے دلوں کی دھڑکن اور پسندیدہ مسکن بن گیا۔اس خطے کا جائزہ لیں تو اس میں کشت و خون، جنگ و جدل کے نقاروں اور تلواروں کی جھنکاریں سنائی دیتی ہیں، کہیں انقلاب کی نوید لئے سورج ابھرتا دکھائی دیتا ہے تو کہیں اعلان بغاوت کا شور…،گویا تھرپارکر کے کونے، کونے میں فن و ثقافت، انجانے قافلوں کی آمد کا پتہ دیتے اونٹوں کے پیروں میں پڑے گھنگھروئوں کی جلترنگ، سب ہی کچھ اس صحرا کو منفرد بناتے ہیں۔یہ صحرا مختلف حکم رانوں کی سلطنت کا پایۂ تخت رہا تو کبھی کسی شہنشاہ کی جنم بھومی بنا۔

اس ریگستان کی صدیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی لوگوں کے ذہنوں کو مسخر کردینے والی دل چسپ اور انوکھی رومانوی داستانیں ہی نہیں تاریخ کے بکھرے روشن اوراق بھی سندھ سمیت دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ رکھتے ہیں۔یہ ہے سندھ کا قدیم صحرائی خطہ تھرپارکر…ریگستان کے قلب میں ایک قدیم تاریخی شہر عمرکوٹ بھی ہے جسے مقامی باشندے امرکوٹ ہی کہتے ہیں۔

بعض مورخین کے مطابق یہ شہر بارہویں صدی عیسوی سے قبل بھی موجود تھا، اس حوالے سے سندھ کے معروف ادیب اور تاریخ ریگستان کے مصنف رائے چند ہریجن نے اپنی تصنیف میں لکھا،’’امرکوٹ کی قدیم تاریخ کی مکمل معلومات دستیاب نہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ چھٹی صدی عیسوی کے دوران یہاں پر مارو کی حکومت تھی اور اس شہر کے راجا سوڈا نے اپنی بیٹی کی شادی اسی قلعے میں یادو ونسی راجا مندم رائے سے انتہائی دھوم دھام سے کی تھی۔997ء اور 1054ء کے دوران مارواڑ کے راجا دونی براھ نے جب اپنی وراثت 9بھائیوں میں تقسیم کی تو امرکوٹ پرگراج پرمار نامی بھائی کے حصے میں آیا‘‘ ۔

تاریخ کی کتابوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ گیارہویں صدی عیسوی کی ابتدأ میں امرکوٹ یا عمرکوٹ پرمارو کی حکومت رہی، جب کہ یہ شہر تین سومرو خاندان یعنی عمرسومرو، بونگر سومرو اور ھمید سومرو کی حکومتوں کا پایہ تخت رہا۔ معروف مورخ سید علی شیر قانع اپنی تصنیف تحفتہ الکرام میں لکھتے ہیں،’’عمرسومرو نے عمرکوٹ قلعہ اس جگہ تعمیر کرایا، جو اس سے قبل یہ سوڈو یا رانائوں کے دور میں موجود تھا، اس حوالے سے مورخین اس شہر کو رائونائوں اور موڈو کا شہر کہتے ہیں اور قلعے کو امرکوٹ‘‘۔

اس قلعے کی تعمیر سے متعلق ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس قلعے کو سندھ کے حکم راں میاں نور محمد کلہوڑو نے 1747ء کے دوران تعمیر کرایا، لیکن یہ تعمیر ممکن ہے کہ اس پرانے قلعے کی بنیادوں پر کرائی گئی ہو جسے سومرو، سوڈو یا راجپوت حکم رانوں نے بنوایا تھا، لیکن یہ امر حقیقت ہے کہ تالپور دور حکومت میں اس قلعے میں اب فوجی تعینات رہا کرتے تھے تاکہ بیرونی حملہ آوروں کا مستطیل نما قلعہ عمرکوٹ، تاریخی حوالے سے سندھ کے دیگر قلعوں سے خاصا مختلف ہے، یہ قلعہ دفاعی لحاظ سے اتنا مضبوط نہیں کہ کسی طاقت ور لشکر کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ اسی لئے قلعہ کے اطراف ایک خندق کے بھی آثار ملے ہیں۔

قلعہ امرکوٹ 17؍ایکڑ اراضی پر محیط ہے اور اس قلعے کی دیواریں 14فٹ موٹی ہیں۔ اس کی تعمیر میں چکنی مٹی کی اینٹوں کو آگ میں پکا کر پختہ بنا یا گیا ، اس کےبعد فصیل کی بیرونی طرف لگائی گئیں، جب کہ فصیل میں اندرونی طورپر کچی چکنی مٹی کی اینٹوں کا استعمال کیا گیا۔ قلعہ کے دروازے کی حفاظت کے لئے دونوں طرف برج تعمیر کئے گئے جب کہ دروازے کے عین اوپر سورج مکھی کے پھول سے مشابہت رکھنے والا نشان بھی بنا ہوا ہے۔ ایسا ہی یہ نشان عمر سومرو کی انگوٹھی پر بھی بنا ہوا تھا لیکن ماہرین اس نشان کو سورج ونسی راجپوتوں سے منسوب کرتے ہیں جنہیں ان ہی سومروئوں نے شکست دے کر اس شہر اور قلعہ پر اپنی حکومت قائم کرلی تھی، لیکن اس جنگ کا احوال تاریخ میں کہیں نہیں ملتا۔

سومرا خاندان کے دور حکومت کا جائزہ لیں تو جہاں سندھ کے کلاسیکل ادب خصوصاً شاعری کو اس دور میں فروغ حاصل ہوا وہاں رومانوی داستانوں نے بھی جنم لیا۔ آخری سومرو حاکم ھمیر کے دور میں مومل اور میندری،سوہنی میھار، سستی پنوں، لیلا چنیسر، عمرگنگا، مومل رانو، دمن سونارا جیسی رومانوی داستانیں وجود میںآئیں لیکن عمر مارئی کی رومانوی داستان سندھ کے خطے میں نا صرف خاص اہمیت کی حامل ہے بلکہ شاعروں نے اپنے کلام کی بنیاد انہی داستانوں پر رکھی حتیٰ کہ موجودہ جدید شاعری بھی ان داستانوں کے اثر سے نہیں نکلی۔ مارئی کا لازوال کردار اسی حکم راں عمرسومرو سے وابستہ ہے کہ جس نے چھاچھرو چیلھار اور مٹھی تک اپنی سلطنت کو وسعت دی اور پھر پارکر تک اپنی حاکمیت کے نشان چھوڑے۔

سندھ کی قدیم روایت اور لوک داستانوں کے مطابق جب عمرسومرو اس خطے کا حکمراں تھا تو ایک روز عمر سومرو کی بھالوا گائوں کے کنویں پر مارئی پر نظر پڑی اور اسے زبردستی اٹھا کر اپنے قلعے میں قید کردیا۔ عمرسومرو نے مارئی کو شادی کرنے پر مجبور کیا، حالاں کہ مارئی شادی شدہ تھی۔ مارئی کے مسلسل انکار پر عمرسومرو نے مارئی کو چادر اوڑھا کر اپنی بہن بنا لیا اور مارئی کو اس کے گائوں چھوڑ آیا۔ یہ کنواں آج بھی اس رومانوی داستان کی یاد تازہ کرتا ہے اور لوگ یہاں عقیدت سے حاضری دیتے ہیں۔ عظیم صوفی بزرگ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کے زمانے کے سروں میں ایک لازوال سر عمرمارئی کا بھی ہے جو حب الوطنی، حریت پسندی اور اعلیٰ ظرفی کا مظہر ہے۔

قلعہ عمرکوٹ، یوں تو مختلف ادوار میں لاتعداد حکم رانوں کی حکومتوں کا پایہ ٔ تخت بنا لیکن اس قلعے کو تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ اس حوالے سے بھی اہمیت حاصل رہے گی کہ یہاں مشہور مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے جنم لیا تھا۔ترخان نامے میں ہے کہ 1547ء کے دوران ہمایوں جب شیرشاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد پریشانی کے عالم میں عمرکوٹ آیا تو یہاں کے راجا نے ان کا پرجوش خیرمقدم کیا۔ ہمایوں کی بہن گل بدن بیگم بھی اس موقع پر اس کے ساتھ تھیں۔

وہ عمرکوٹ کے راجہ کی مہمان نوازی سے متعلق کہتی ہیں کہ عمرکوٹ کے بادشاہ نے اعلیٰ حضرت کی اس قدرشان دار پذیرائی کی کہ زبان اس کی مدح سرائی کرنے سے قاصر ہے۔عمرکوٹ کے رانا نے قلعہ کے وسطی حصے کو ہمایوں اور اس کے خاندان کے لئے خالی کرادیا تھا، اسی بنا پر بعض مورخین کا خیال ہے کہ اکبر کا جنم اسی قلعے میں ہوا ہوگا۔قلعہ عمرکوٹ میں ہر طرف خاموشی ہے، مگر اسے ماضی کے ان گنت یادگار واقعات، حکم رانوں کے رویوں، اخلاقی قدروں، امور سلطنت کی بہ احسن ادائیگی، رومانوی جذبوں کے سبب خاصی شہرت حاصل ہے۔

خیال، قیاس آرائیاں بھی لوگوں کی گفتگو کا محور ہوتی ہیں۔ ماضی میں بھی انگریز سیاحوں نے اسی قلعے کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کیں، جن میں سرفہرست قلعے میں کلہوڑو اور تالپوروں کے پوشیدہ خزانے سے متعلق رہیں۔ سندھ میں انگریزوں کی آمدورفت میں اضافہ، ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور سے شروع ہوا، لیکن انگریزوں نے تالپوروں کو حیدرآباد کے قریب میانی کے میدان میں ایک جنگ کے بعد شکست دی اور 1843ءکے دوران انہوں نے یہاں مکمل طورپر اپنی حکومت قائم کرلی تو برطانوی سپہ سالار سرچارلس نیپئر نے فٹنر گیرالڈ کو میرپورخاص سے عمرکوٹ کا انچارج بنا کر بھیجا تاکہ عمرکوٹ کو فتح کیا جاسکے۔

اس نے یہاں مقامی شخصیت سید محمد علی کو عمرکوٹ کے لوگوں سے ریونیو اور ٹیکسز کی وصولی کے لئے مقرر کیا۔ اس شخص نے لوگوں پر اس قدر ٹیکسز کی بھرمار کردی کہ یہاں کے لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہوگئی تو رتن سنگھ نے انگریزوں کے اس ظلم و ستم کے خلاف اعلان بغاوت اور ٹیکسز کی ادائیگی کو مسترد کردیا جس کی بنا پر اسے گرفتار کرلیا گیا، بعدازاں 1850ء کے دوران اسی عمرکوٹ کے احاطے میں ایک اونچی برجی تعمیر کرائی گئی اور اس برجی کے وسط میں ایک ستون بھی بنوایا گیا تاکہ رائے رتن سنگھ کو پھانسی پر لٹکایا جائے، بالآخر انگریز جب مقررہ تاریخ پر اسے پھانسی پر لٹکانے کے لئے لے جارہے تھے تو انہوں نے رائے رتن سنگھ سے اس کی آخری خواہش معلوم کی۔ اس نے کہا ’’میرے ہاتھ کھول دو اور منہ سے کپڑا ہٹا دو، تاکہ میں اپنی قوم کو دکھا سکوں کہ میں نادم نہیں ہوں۔‘‘ پھانسی کے موقع پر قلعہ کے اطراف سندھ کے عوام اور انگریزوں کے درمیان زبردست تصادم بھی ہوا۔

وقت کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں نے انگریزوں کی حاکمیت تسلیم کرنا شروع کردی، چناں چہ 1867ء کے دوران سندھ کے کمشنر ایڈی رابرٹ نے قلعے میں ایک دربار لگایا اور معززین شہر، امرأ اور افسران کو اس دربار میں مدعو کیا۔ اس دربار میں بعض امرأ کو ان کی انگریز سرکار سے وابستگی اور خدمات کے اعتراف میں خطابات سے بھی نوازا گیا۔1876ء کے دوران بمبئی کا گورنر چالس ٹیمپل عمرکوٹ آیا اور 1890ءکے دوران چارلس پرٹ چرڈ (CharlesPertChard) نے بہ حیثیت کمشنر عمرکوٹ کا دورہ کیا۔

23نومبر1846ء کو پیدا ہونے والے ہربرٹ ایڈورڈ واٹسن نے بہ حیثیت ڈپٹی کمشنر عمرکوٹ اپنا عہدہ سنبھالا، اس دور میں عمرکوٹ ضلع تھرپارکر کا حصہ تھا۔ واٹسن نے عمرکوٹ شہر کو مثالی شہر کی شناخت دینے کی ہرممکن کوششیں کیںمگر وہ 47سال کی عمر میں 1894ءکے دوران انتقال کرگئے۔ان کی تھر اور پارکر کے لئے پیش کی جانے والی اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں انہیں قلعہ عمرکوٹ کے احاطے میں دفنایا گیا اور راجستھانی پہاڑی پتھروں سے بنی ان کی قبر پر جملہ "WEL DON THOU GOOD AND FAITHFUL SERVANT ENTRE THOU INTO THE ION THE GOD"کندہ کرایا گیا۔

قلعے ہی میں عجائب گھر کے ملازمین اور صوبائی حکومت کے اعلیٰ افسران کی رہائش گاہیں ہیں۔٭ایک کونے میں جیم خانہ کی عمارت ہے جس میں عمرکوٹ سمیت بیرون شہر سے آنے والے معززین آپس میں تبادلہ خیال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔تھرپارکر کے نقشے کو دیکھیں تو اس رنگا رنگ ریگستان کے مشرق کی جانب پڑوسی ملک انڈیا کا سرحدی شہر جودھ پور، باڑمیر اور شمال کی جانب سانگھڑ کا تعلقہ کھپرو واقع ہے۔ عمرکوٹ اس ریگستان کے شمال میں اپنی عظمت رفتہ کی کہانیاں سناتا دکھائی دیتا ہے۔

اس شہر میں اردو سندھی زبان کے علاوہ ڈھاٹکی اور پارکری زبانیں بولی جاتی ہیں، ان زبانوں کا تعلق میٹھا اور سادگی سے مزین ہے۔جب ملکہ برطانیہ کی تاجپوشی کا جشن برصغیر کے طول و عرض میں منایا جارہا تھا تو عمرکوٹ میں حیدرآباد کے گائیکوں کو بھی مدعو کیا، جنہوں نے قلعہ میں رات بھر حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام سنا کر لوگوں کو جھومنے پر مجبور کردیا، اس روایت کو آج بھی یہاں کے مقامی گلوکار قائم رکھے ہوئے ہیں جو آنے والے سیاحوں کو شاہ کا کلام سنا کر داد حاصل کرتے ہیں۔انسانی فطرت میں یہ امر پوشیدہ ہے کہ یہ تجسس پسند واقع ہوا ہے۔

یہ ماضی کے گرداب میں مستقبل کی خوش رنگ سویرے تلاش کرتا ہے۔ عمرکوٹ کے اس قلعے کے چہرے پر وقت کی جھریاں نمودار ہوچکی ہیں مگر اس قلعے کی خاموشی، یہاں وطن پرست باغیوں کے گونجتے نعرے اور اس کی فصیل کے کسی گوشے پر بیٹھے مور کی کونج سیاحوں کا استقبال کرتے ہیں۔یہ قلعہ صدیوں کے موسمی تغیرات، حکم رانوں کی عدم توجہی کے سبب مخدوش ہی سہی مگر آج بھی اپنی عظمت کی درخشاں تاریخ دہرا رہا ہے اور سیاحوں کے تجسس کو یقین کے جذبوں سے سرشار کرتا ہے۔

حکومت سندھ نے اس قلعہ کو محفوظ بنانے اور سیاحوں کی دل چسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے اہم اقدامات کئے ہیں جس کی بناء پر بجا طورکہا جاسکے گا کہ:زندہ قومیں اپنے تاریخی و ثقافتی ورثے کے تحفظ کو ہرممکن یقینی بناتی ہیں تاکہ آئندہ نسلیں تاریخ کے ان اوراق سے اپنی منزل کا تعین اور سبق حاصل کرسکیں۔