پاکستان فلم انڈسٹری کی کامیاب مزاحیہ جوڑی ’’رنگیلا اور منور ظریف‘‘

February 11, 2020

1956میں انور کمال پاشا کی ’’چن ماہی ‘‘ میں مختصر سے کردار میں متعارف ہونے والے فن کار ’’رنگیلا‘‘ نے مزاح کے شعبے میں ہنگامہ خیزی پیدا کی۔ انہوں نے پچھلے مزاحیہ فن کاروں کے برعکس جسمانی حرکات و سکنات کا استعمال کیا اور بھرپور ایکشن کامیڈی کا ٹرینڈ متعارف کروایا، جب کہ 1956 میں انوکھی سے متعارف ہونے والےسفیر اللہ المعروف ’’ لہری‘‘ نے ایکشن کے بجائے ایکسینٹ یعنی لہجے یا تلفظ کی کامیڈی کا ٹرینڈ متعارف کروایا۔1961میں افتخار کی ’’ڈنڈیاں‘‘ کے توسط سے منور ظریف کی آمد ہوئی۔ گو کہ یہ بھی ایکشن کامیڈی کا انداز لےکر آئے، لیکن ان کا سارا زور جملے کی ٹائمنگ سے ادائیگی پر تھا اور یہی چیز ان کی کامیڈی کا خاصا بنی۔

1964کی ریلیز شباب کی نیلم میں یہ دونوں کامیڈین یعنی رنگیلا اور منورظریف پہلی بار یکجا ہوئے۔ پھر شباب کے فرزند ظفر شباب کی ڈیبیو سنگدل 1968 میں پہلی بار یہ دونوں ایک دوسرے کے مد مقابل نظر آئے۔ اسکرین پر کامیڈی کرتے وقت یہ دونوں فن کار ایک دوسرے کے حریف نظر آتے، لیکن عملی زندگی میں ایک دوسرے کے بہترین دوست تھے۔

یہی وجہ تھی کہ جب رنگیلا نے بہ طور ڈائریکٹر اپنا پہلا پروجیکٹ ’’دیا اور طوفان ‘‘ کا آغاز کیا تو ایک بھرپور کامیڈی ٹریک کے لیے جو کہ پوری فلم میں کہانی کے متوازی چلتا ہے۔ رنگیلا نے اپنے کامیڈین دوستوں منور ظریف اور خلیفہ نذیر کو اس اہم ٹریک کا حصہ بنایا۔ ’’دیا اور طوفان ‘‘ کی ملک گیر کام یابی میں جہاں بہترین کہانی ،عمدہ موسیقی ،نغمہ اعجاز ،رانی وغیرہ کی عمدہ کردار نگاری کا حصہ تھا وہیں، ان تین دوستوں رنگیلا، منور ظریف اور خلیفہ نذیر کی منفرد طرز کی شان دار کامیڈی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

1970میں نگیلا نے جب اپنا سیکنڈ پروجیکٹ ’رنگیلا‘‘ کا آغاز کیا تو اس میں بھی اپنے یار منور کو شامل رکھا۔ پھر 1971کی ’’دل اور دنیا‘‘ میں بھی منور ظریف ان کی کاسٹ میں شامل تھے۔ 1972کی ریلیز ’’میری زندگی ہے نغمہ ‘‘جسے مصنف و نغمہ نگار ’’شیون رضوی ‘‘ نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ انہوں نے ایک انوکھا رسک لیا کہ اس وقت کی ابھرتی ہوئی حسین و جمیل فن کارہ سنگیتا کے مقابل فرسٹ ہیرو کے طور پر رنگیلا کو پیش کرنے کا جرات مندانہ اقدام کیا۔ یُوں رنگیلا ایک ساتھی کامیڈین سے کامیڈی ہیرو بن گئے۔ ’’میری زندگی ہے نعمہ ‘‘ باکس آفس پر نمایاں ہٹ ثابت ہوئی تو رنگیلا نے خود بھی تھوڑی سی جرات دکھائی اور اپنی ڈائریکشن میں بننے والی پہلی پنجابی فلم ’’دو رنگیلے ‘‘ میں وہ آسیہ کے فرسٹ ہیرو بن گئے۔

شباب کیرانوی نے ایک قدم اور مزید پیش رفت کرتے ہوئے رنگیلا کے ساتھ منور ظریف کو لیڈ ہیرو کے طور پر یکجا کیا اور ہیروئن صاعقہ اور زرقا کو لے کر بہت خُوب صورت اسٹوریکل مزاحیہ میوزیکل فلم شائقین فلم کو دی۔اس فلم کی باکس آفس پر گولڈن جوبلی ہٹ کام یابی نے کامیڈی ہیروز پر مشتمل فلموں کے ٹرینڈ کو بھرپور فروغ دیا۔

اس فلم میں ان دونوں ہی فن کاروں نے بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ 1973میں قوی خان نے اپنی ذاتی پروڈکشن میں ’’بے ایمان‘‘ میں آسیہ کو ڈبل رول ہیروئن بنا کر ایک کے خود ہیرو بن گئے اور دوسری کا رنگیلا کوہیرو بنا دیا۔ بے ایمان نے بہت بڑی فلم ’’انمول‘‘ کے مقابل ریلیز کے باوجود شائقین کی بھرپور توجہ حاصل کی۔

1974میں نذر شباب نے ’’رنگیلا اور منور ظریف‘‘ کے ٹائٹل سے ایک دل چسپ کامیڈی فلم بنائی، جس میں صاعقہ رنگیلا کی اور شائستہ قیصر منور ظریف کی ہیروئن تھیں۔ رنگیلا اور منور ظریف کی عمدہ کامیڈی اور دیگر خوبیوں کے سبب یہ فلم کام یابی سے ہم کنار ہوئی۔ شیون رضوی نے 1974 میں میوزیکل فلم ’’بات پہنچی تیری جوانی تک ‘‘ بنائی، جس میں رنگیلا ایک شاعر شاہد آفاق ،منور طریف ایک کتب فروش کے روپ میں نظر آئے۔ قوی خان نے ’’منجھی کتھے ڈاھواں ‘‘ کے لیے خود کو صاعقہ کے مقابل اور رنگیلا کو سنگیتا کے ہیرو کے طور پر چُنا، جب کہ منور ظریف کو بوڑھے کے یادگار رول میں منتخب کیا گو کہ رنگیلا اور دیگر فن کاروں نے اچھا کام کیا۔

1974 کی ریلیز ظفر شباب کی ’’سچا جھوٹا‘‘ میں دونوں کامیڈین بہ طور ہیروز پھر یکجا ہوئے، لیکن فلم فلاپ رہی۔ ایس ٹی زیدی نے ’’بے ایمان‘‘ کے بعد ’’ایمان دار ‘‘ میں ایک بار پھر ان دونوں سپر کامیڈینز کو یکجا کیا۔ لیکن اس میں رنگیلا کا کردار ہلکے پھکے مزاح سے زیادہ سنجیدہ نوعیت کا حامل تھا، جب کہ منور ظریف روایتی کامیڈین تھے۔ تاہم یہ فلم کردار نگاری کے اعتبار سے رنگیلا سے منسوب ہوئی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ کامیڈی کے مناظر میں رنگیلا اور منور ظریف ’’پاکستانی سنیما کی ہیرو شپ میں پہلی کامیڈی جوڑی تھی، جس نے اپنے اپنے طرز ادا کاری سے شائقین کو طویل عرصے تک محظوظ کیا۔