پختونخوا میں حکومتی پارٹی کے اراکین بھی ترقیاتی فنڈز سے محروم

February 20, 2020

حکومت ابھی اندرونی سیاسی اختلافات اور تاریخ کی بدترین مہنگائی سے نکلنے کی راہ تلاش کرنے میں مصروف تھی کہ اس دوران اپوزیشن جماعتوں نے صوبے کے کئی اہم مسائل پر غور کے لئے صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے لئے گزشتہ روز ریکوزیشن جمع کرادی چالیس اپوزیشن اراکین کے دستخطوں سے جمع کرائے جانے والی ریکوزیشن کے ساتھ پشاور ریپڈ بس سروس منصوبے، صوبے میں بدترین مالی بے ضابطگیوں اور بدعنوانیوں کے حوالے سے آڈیٹر جنرل کی رپورٹ سمیت 17نکات پر مشتمل ایجنڈا جمع کرایا مگر حکومت نے اپوزیشن کی اس کوشش کو سبوتاژ کرتے ہوئے عین اسی دن صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کرکے موقف اختیار کیا کہ حکومت نے اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے لئے پہلے ہی گورنر کو سمری ارسال کی تھی حکومت کے اس اقدام کا مقصد اسمبلی اجلاس بلانے سے زیادہ اپوزیشن کا ایجنڈا سبوتاژ کرنا تھا کیونکہ حکومتی اجلاس کے لئے ایجنڈا بھی حکومت جاری کرے گی اپوزیشن نے حکومت کہ اس اقدام پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے حکومت کی راہ فرار قرار دیا ہے اور واضح کیا کہ اس کے باوجود وہ اسمبلی اجلاس میں پشاور بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات سے راہ فرار، آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میںحکومی مالی بے ضابطگیوں اور بدعنوانیوں سمیت کئی اہم ایشوز پر ایوان میں بات کی جائے گی۔

خیبرپختونخوا کابینہ سے گروپ بندی کرنے اور پارٹی کے اندرونی معاملات کو میڈیا میںلے جانے کی پاداش میں سابق وزیر کھیل و ثقافت عاطف خان سمیت تین وزرا کی برطرفی کا معاملہ بدستور جوں کا توں ہے،تمام تر سیاسی رابطوں کے باوجود وزیر اعلیٰ محمود خان اپنے فیصلے پر ڈٹ گئے ہیں اور وہ کسی صورت برطرف شدہ تینوں وزرا کو کابینہ میں واپسی پر راضی نہیں ہورہے ہیں جس کی وجہ سے پارٹی میں بے چینی اور غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے اگرچہ دعوے کے باوجود پارٹی کے ان اراکین کو شوکاز نوٹس جاری نہیں کیا گیا جنہوں نے برطرف شدہ وزرا کی جانب سے طلب کردہ اجلاس میں شرکت کی تھی کیونکہ حکومت کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے پارٹی مخالف گروپ مزید مضبوظ ہوسکتا ہے ،اس لئے لگتا ہے کہ حکومت فی الحال اپنے اس فیصلے یا اعلان سے پیچھے ہٹ گئی ہے تاکہ پارٹی مزید انتشار کا شکار نہ ہو تاہم سیاسی حلقوں کے مطابق عاطف خان کی اپنی جماعت سے ناراضگی نئی نہیں بلکہ اس کا آغاز 2018کے انتخابات کے بعد سے اس وقت شروع ہوا تھا جب صوبے کے نئے وزیر اعلیٰ کے لئے پارٹی چیئرمیں عاطف خان کے حق میں تھے اور اس حوالے سے عمران خان نے عاطف خان کو یقین دہانی بھی کرائی تھی۔

جس کے بعد انہوں نے اپنے حلقہ میں بحیثیت وزیراعلیٰ مبارک باد کے بڑے بڑے سائن بورڈز بھی لگائے تھے مگر اس وقت سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک جو خود اس عہدے کے امیدوار تھے مگر عمران خان نے انہیں مرکز میں آنے کی ہدایت کی جس کے بعد انہوں ایک ہی شرط رکھی تھی کہ اگر وہ وزیر اعلیٰ نہیں ہونگے اور تو پھر وہ صرف اسی صورت میں مرکز جائیں گے جب صوبے میں عاطف خان وزیر اعلیٰ نہیں ہونگے بلک ان کی مرضی کے وزیر اعلیٰ ہونگے جس کے لئے انہوں نے محمود خان کا نام تجویز کیا اور یوں پرویز خٹک نے عاطف خان کے وزیر اعلیٰ بننے کا بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا تھا اور اسی وقت سے عاطف خان اور پرویز خٹک کے درمیان سیاسی اختلافات کی خلیج پیدا ہوئی تھی اس بات کا ذکر خود عاطف خان نے مختلف مواقعوں پر کیا ہے اور حال ہی میں جب انہیں کابینہ سے برطرف کیا گیا تو ایک نجی ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے پھر اسے دہرایا اور کہا اس بات کا امکان ہے کہ ان کی کابینہ سے برطرفی میں پرویز خٹک کاہی ہاتھ ہو کیونکہ ان کے وزیر اعلیٰ بننے کی بھی انہوں (پرویز خٹک) نے ہی مخالفت کی تھی ۔سیاسی حلقوں کے مطابق عاطف خان ،شہرام خان جو آپس میںقریبی رشتہ دار ہیں اور وزیر مال شکیل خان کی کابینہ سے برطرفی کے فیصلے سے قبل بھی پرویز خٹک نے وزیر عظم عمران خان سے ملاقات کی تھی جبکہ ان کی برطرفی سے دو روز قبل وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی جن کا تعلق بھی پرویز خٹک گروپ سے بتایا جاتا ہے نے بھی ایک پریس بریفنگ میں عاطف خان کے حوالے میڈیا بھی زیر گردش خبروں جن میں گروپ بندی کا ذکر تھا کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں واضح طور پرکہا تھا کہ وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ محمود خان کو اختیار دیا ہے کہ وہ جس کو کابینہ میں رکھیں اور جس کو نکال لیں اور اس کے دو دن بعد عاطف خان سمیت تین وزرا کو کابینہ سے فارغ کر دیا گیا۔

اگرچہ اس کے بعد وزیر اعلیٰ ،عاطف خان اور شہرام خان ترہ کئی وزیراعظم سے الگ الگ ملاقاتین کرکے اپنے اپنے موقف سے آگاہ کرچکے ہیں۔سیاسی حلقوں کے مطابق تینوں وزرا کی کابینہ میں واپسی وزیراعلیٰ کے لئے سیاسی موت سے کم نہیں ہو گی جبکہ پرویز خٹک بھی ان کی واپسی نہیں چاہیں گے کہ ان کی واپسی ہو ان کی واپسی کےلئے وزیراعظم عمران کے ساتھ ساتھ پرویز خٹک کی رضامندی بھی ضروری ہے اس لئے اس حوالے سے فی الحال صورت حال واضح نہیں ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق صوبے میںتحریک انصاف کے اندرونی سیاسی اختلافات کی اصل وجہ اختیارات کی جنگ اور اراکین کو ترقیاتی فنڈز کی تقسیم بتائی جاتی ہے وزیر اعلیٰ نے محکمہ مواصلات تعمیرات اوربلدیات سمیت بعض اہم محکمے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں نہ صرف اپوزیشن اراکین کے ساتھ ترقیاتی فنڈز کے اجرا میں امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔

بلکہ خود پارٹی اراکین بھی ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے شکوہ کررہے ہیں کہ انہیں بھی نظرانداز کیا جارہا ہے تاہم وہ کارروائی کے خوف سے کھل کر بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ سیاسی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ خود وزیر اعلیٰ بھی بعض معاملات بے اختیار ہیں اور صوبہ درحقیقت مرکز میں بیٹھے بعض بیوروکریٹ کنٹرول کر رہے ہیں جس کی وجہ سے صوبے میںحکومت اور پارٹی بدانتظامی کا شکار ہے بلکہ پارٹی کے چند منظور نظر اراکین کے کام ہو رہے ہیں جبکہ پارٹی کے اکثریتی اراکین ترقیاتی فنڈز اور منصوبوں کے حوالے سے محرومی کا شکارہیں جو بوجوہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ان اراکین کو شکوہ ہے کہ انہیں نہ تو ان کی مرضی کے مطابق فنڈز دیئے جارہے ہیںنہ ان کی مرضی کی اسکیمیں دی جارہی ہیں۔