پانچ فروری: کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا روایتی انداز ۔ آخر کب تک

February 05, 2020

5 فروری :دنیا بھر میں موجود پاکستانی ہر سال اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر مناتے ہیں اور ظلم و نا انصافی کا شکار کئی دہائیوں سے اپنے عزم اور موقف پر ڈٹے رہنے والے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں سے وابستگی کا اعادہ کرتے ہیں لیکن اس مرتبہ صورتحال ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ مختلف ہے اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے اور خود پر ہونے والے مظالم ،ناانصافیوں اور بھارتی جبر و استبداد کا مقابلہ بے سروسامانی کے عالم میں تو کشمیری کئی دہائیوں سے کرتے آرہے تھے لیکن مودی حکومت نے اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئےکہ ظلم و ستم کے ہتھکنڈوں سے کشمیریوں کو جھکانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور ایک انتہائی مکارانہ اقدام یہ کیا کہ بھارتی آئین میں موجود آرٹیکل370 ختم کر دیا جس کے ختم ہونے سے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی جو خصوصی اہمیت اور حیثیت تھی وہ ختم ہوگئی۔

انڈین آئین کی شق 370 عبوری انتظامی ڈھانچےکے بارے میں ہے در حقیقت یہ مرکز اور ریاست جموں وکشمیر کے تعلقات کے خدوخال کا تعین کرتا تھا یہ آرٹیکل ریاست جموں و کشمیر کو انڈین یونین میں خصوصی نیم مختار حیثیت دیتا تھا اور ریاست جموں وکشمیر کے وزیراعظم شیخ عبداللہ اور انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے درمیان پانچ ماہ کی مسلسل مشاورت کےبعد اسے آئین میں شامل کیا گیاتھا۔ جسے بھارت میں برسراقتدار جنتا پارٹی کی حکومت نے ختم کرنے کا ا علان کیا۔

اس آرٹیکل کے تحت اب غیر کشمیری افراد وہاں جائیدادیں بھی خرید سکیں گے اور سرکاری نوکریاں بھی حاصل کر سکیں گے اور بااثر اور معتمول ہندو تو کشمیری خواتین سے شادی کرنے کے عزائم کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ بھارتی آئین میں آرٹیکل35A اور آرٹیکل 370 کیا ہے اس کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو اس معاملے کے دو حصے ہیں۔ (اول) آزادی کے موقعہ پر اور دوسرا تقریباً سات سال بعد۔ پہلے مرحلے1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ جو و ادی کا حکمران تھا اس نے ابتدا میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے رہے گا جبکہ وادی مسلمانوں کی واضح اکثریت کی حامل ریاست تھی اس لئے فطری طور پر اسے پاکستان کا حصہ بننا تھا۔1947 میں بھارت نے اپنی فوجیں سرینگر میں اتار دیں اور طاقت اور ترغیب کے ذریعے مہاراجہ ہری سنگھ کو بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے پر مجبور کردیا۔

3؍ فروری : وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی مرکزی شاہراہ کے مصروف چوک پر آویزاں مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے نفاذ کے حوالے سے ایک ’’کرفیو کلاک‘‘ جو اسلام آباد میں متعین غیر ملکی سفارت کاروں کی گزر گاہ بھی ہےعالمی ضمیر کو لمحہ بہ لمحہ باخبر کرتا ہے

اس دستاویز میں بھی مہاراجہ نے صرف تین شعبوں میں اپنی خود مختاری بھارت کو منتقل کرنے کی حامی بھری، دفاع، خارجہ امور اور مواصلات اس کے علاوہ تمام امور پر جموں وکشمیر کے عوام اور انکی اسمبلی کا حق تھا اور وہ ان کے انتظام انصرام اپنی مرضی سے چلانے کیلئے بااختیار تھے تاہم بعد ازاں جب 1949 میں بھارت کا آئین بن رہا تھا اور ریاستی اسمبلی نے ابھی اپنی آئینی تجاویز مکمل نہیں کی تھیں تو اس آئین میں بھارت نے کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 کو بھی شامل کردیا جو سارے بھارت میں کسی اور ریاست کو حاصل نہیں تھا۔ اس کی بنیاد وہی دستاویز الحاق ہے جس پر مہاراجہ سے جبراً دستخط کرائے گئے تھے لیکن بعد ازاں کشمیری لیڈروں کو یہ احساس ہوا کہ بھارت کے کچھ حلقے ریاست کی آبادی کی جغرافیائی حیثیت کو بدلنا چاہتے ہیں خصوصاً اس حوالے سے کہ وہاں دیگر علاقوں سے لا کر نئی قوموں کو بسایا جائے۔

یہ ایک بڑی تشویش کی بات تھی اور کشمیری عوام اس بات کو قبول کرنے کیلئے کسی صورت بھی آمادہ نہیں ہوسکتے تھے کہ وادی میں ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے اس بات کا اندازہ یا خوف کشمیریوں کو آزادی کے بعد پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ آزادی سے قبل ہی ایک سے زیادہ مواقعوں پر یہ اندیشہ پیدا ہوا۔ ایک موقعہ پر اس وقت بھی جب مقامی آزادی کے خدشات دور کرنے کیلئے مہاراجہ نے وہ احکامات جاری کئے جس کی رو سے کشمیریوں کو یہ حقوق حاصل ہوگئے کہ ان کے علاوہ کوئی غیر کشمیری ریاست میں جائیداد خریدنے کا حق نہیں ر کھتا اور انہیں سرکاری نوکریاں اورسرکاری وسائل سے پیدا شدہ سہولتوں تک ترجیحانہ رسائی ہوتی تاہم ضرورت اس بات کی تھی ان کے حقوق کو آئینی تحفظ حاصل ہو لیکن دوسری جانب بھارتی حکومت بے چینی اور اضطراب کے عالم میں کشمیری آئین ساز اسمبلی سے الحاق کے دستاویز کی منظوری کا انتظار کررہی تھی۔

اس پس منظر میں وزیراعظم نہرو نے کشمیری قیادت کے ساتھ 1952 میں طویل مذاکرات کئے جس کے نتیجے میں ایک معاہدہ طے پا گیا جب کے تحت مذکورہ آئینی تحفظات فراہم کر دیئے جائیں گے اورکشمیر آئین ساز اسمبلی الحاق کی دستاویز کی توثیق کر دے گی۔ چنانچہ اس تناظر میں 1954 میں بھارتی آئین کا نیا آرٹیکل 35A ایک صدارتی حکم کے ذریعے شائع کر دیا گیا کہ اس آرٹیکل کی رو سے ریاستی اسمبلی کو یہ اختیارات حاصل ہونگے۔(اول) ریاستی اسمبلی میں اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ مقامی شہری(کشمیری) کون ہے۔(دوئم) ایسے مقامی اور مستقل شہریوں کو خصوصی توجہ دینی ہوگی جس میں سرکاری نوکریوں میں ترجیح دینا جبکہ دیگر لوگوں کو رہائش کی مشروط اجازت دیناشامل جبکہ مقامی شہریوں کو دیگر سرکاری سہولیات کی ترجیح کی فراہمی اور جائیداد کا حق مقامی شہریوں تک محدود کرنا شامل تھا۔

جموں و کشمیر میں مودی حکومت نے آرٹیکل 370 نافذ کرنے کے وار سے صورتحال میں کیا تبدیلی آئی ہے اس سے مودی حکومت کے عزائم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جموں وکشمیر کے شہریوں کے پاس دوہری شہریت ہوتی ہے۔ جموں وکشمیر کی کوئی خاتون اگر ہندوستان کی کسی ریاست کے شخص سے شادی کرے تو اس خاتون کی جموں وکشمیر کی شہریت ختم ہو جائے گی۔ اگر کوئی کشمیری خاتون پاکستان کے کسی شخص سے شادی کرے تو اس کے شوہر کو بھی جموں وکشمیر کی شہریت مل جاتی ہے۔ جموں وکشمیر ہندوستان کے ترانے یا قومی علامتوں کی بے حرمتی جرم نہیں ہے۔ یہاں ہندوستان کی سپریم کورٹ کا حکم بھی قابل قبول نہیں۔ جموں و کشمیر کا جھنڈا الگ ہوتا ہے۔

بھارت کا کوئی بھی عام شہری ریاست جموں وکشمیر کے اندر جائیداد نہیں خرید سکتا اور یہ قانون صرف بھارت کے عام شہریوں تک ہی محدود نہیں بلکہ بھارتی کارپوریشنز اور دیگر سرکاری اداروں پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ وہ ریاست کے اندر بلا قانونی جائیدادیں حاصل نہیں کر سکتے۔ جموں وکشمیر میں خواتین پر شریعت قانون نافذ ہوتا ہے۔ یہاں پنچائیت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ جموں وکشمیر کی اسمبلی کی مدت کار6 سال ہوتی ہے جبکہ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی اسمبلی کی مدت کار پانچ سال ہوتی ہے۔ ہندوستان کی پارلیمنٹ جموں وکشمیر کے سلسلے میں بہت ہی محدود دائرے میں قانون بناسکتی ہے لیکن اس کے نفاذ میں آرٹیکل 370 ایک فلٹر کی حیثیت رکھتا تھا۔

جسے ختم کرنے سے اب تمام صورتحال تبدیل ہوگئی اور مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے کشمیری ان تمام مراعات اور استحقاق سے محروم کر دیئے گئے ہیں۔ بھارتی آئین کے آئین آرٹیکل360 کے تحت بھارت کی وفاقی حکومت کسی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کرسکتی ہے۔ تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔ بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 ختم کئے جانے کے خلاف پوری وادی میں احتجاج کو کم وبیش چھ ماہ ہونے کو آئے ہیں لیکن حالات نہ صرف بدترین ہو چکے ہیں بلکہ ان میں بہتری تو کجا معمول پر آنے کے بھی کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ 5 اگست 2019 سے نافذ کیا جانیوالا کرفیو ابھی تک جاری ہے پوری وادی محاصرے میں ہے، مواصلاتی نظام منجمد کر دیا گیا ہے،5 اگست کو کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت نے پوری ریاست پر سخت مواصلاتی پابندیاں نافذ کر دی تھیں جن کی زد میں سوشل میڈیا بھی بری طرح آیا لیکن جبر کے ذریعے خاموش کی جانیوالی آوازیں آج بھی چیخوں کی طرح شور مچارہی ہیں۔ احتجاج کررہی ہیں۔

التجا کررہی ہیں اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھارہی ہیں جنہیں سننے کے لئے سماعتوں کی نہیں بلکہ دل اور بیدار ضمیر کی ضرورت ہے بھارت نے غیر ملکی صحافیوں، تجزیہ نگاروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کی غیر اعلانیہ پابندی عائد کر رکھی ہے البتہ اپنے ہم خیال طبقات کو وہاں لے جانے کیلئے خصوصی اقدامات کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں نئی دہلی میں متعین غیر ملکی سفیروں کو وادی کا دورہ کرانے کی دعوت دی گئی تو ان شخصیات کو فہرست میں شامل نہیں کیاگیا جنہوں نے و ادی میں آزادانہ گھوم پھر کرعوام کے جذبات جاننے اور حالات کا اپنی مرضی کے مقامات پر جا کر جائزہ لینے کی خواہش ظاہر کی تھی کشمیری رہنمائوں آل پارٹی حریت کانفرنس اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ارکان سے رابطہ کرنے پر زور دیا تھا لیکن انہیں بتایا گیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے چنانچہ سفیروں اور دیگر سفارتکاروں کی بڑی تعداد نے وادی کا دورہ کرنے سے انکار کردیا۔