کیا شوہر بیوی کی میّت کو غسل دے سکتا ہے؟

February 07, 2020

تفہیم المسائل

سوال: خاوند اپنی فوت ہونے والی بیوی کو غسل دے سکتاہے یا نہیں ؟،اسی طرح بیوی اپنے خاوند کو غسل دے سکتی ہے ؟(ناصر لطیف،اسلام آباد)

جواب:عورت کا اپنے شوہر کو غسل دینا توتمام اہلِ علم کے ہاں مُتّفَق علیہ ہے، علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ عورت اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے ،جبکہ موت سے پہلے یا بعدمیں کوئی ایساامر واقع نہ ہوا ہو ،جس سے اُس کے نکاح سے نکل جائے ،مثلاً: شوہر کے لڑکے یا باپ کو شہوت کے ساتھ چھو ا یا بوسہ لیا، اگرچہ موت کے بعد ایسا کوئی امر واقع ہوا ہو ،تو بھی عورت کا شوہر کو غسل دینا جائز نہیں ،لیکن مردکسی حالت میں بھی عورت کو غسل نہ دے ، جیساکہ ’’سراج الوہاج ‘‘ میں ہے ،(فتاویٰ عالمگیری، جلد1)‘‘۔

شوہر کے انتقال کے وقت چونکہ عدّت وفات پوری ہونے تک نکاح باقی رہتا ہے، اسی وجہ سے عورت اپنے شوہر کو غسل وکفن دے سکتی ہے اور عورت کے انتقال پر شوہر مثل اجنبی کے ہوجاتا ہے، علامہ علاء الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی لکھتے ہیں: ’’ (شوہر کے لیے عورت کی میت کو )غسل دینے کی اباحت نکاح سے مستفاد ہے تو جب تک نکاح باقی ہے ،یہ اباحت باقی رہے گی اور عدت ختم ہونے تک نکاح باقی رہتا ہے۔ اس کے برخلاف جب عورت فوت ہوجائے تو شوہر اُسے غسل نہیں دے سکتا کیونکہ نکاح کی ملکیت ختم ہوجاتی ہے اور محلِ نکاح نہ ہونے کے سبب خاوند اجنبی ہوجائے گا، پس اس کا عورت کو غسل دینا جائز نہیں ہے،(البدائع الصنائع ،جلد 1)‘‘۔

شوہر کے انتقال کے بعد بیوی اپنے خاوند کو دیکھ سکتی ہے، غسل وکفن دینے کی بھی اس کو شرعاً اجازت ہے، البتہ شوہر بیوی کا صرف منہ دیکھ سکتا ہے۔ ہاتھ لگانے اور غسل وکفن کی اجازت نہیں، تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے : ’’ بیوی کو غسل دینے اور اسے چھونے سے شوہر کو منع کیاجائے گا ، دیکھنے سے منع نہیں کیاجائے گا ،’’مُنْیَۃالْمُصَلّی‘‘ علامہ سدیدالدین کاشغری کے حوالے سے یہ صحیح ترین قول ہے ۔تینوں اَئِمّہ جائز قراردیتے ہیں کہ شوہر بیوی کو غسل دے سکتاہے ، جواز کے لیے ان کی دلیل حضرت علیؓ کا عمل ہے ۔ ہماری (اَحناف)کی دلیل یہ ہے کہ یہ زوجیت کا رشتہ باقی رہنے پر محمول ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن ہر سبب اور نسب ختم ہوجائے گا ،مگر میرا سبب اور نسب باقی رہے گا ، جبکہ بعض اصحابِ رسول ﷺ نے اسے ناپسند کیاتھا ’’شَرْحُ الْمَجْمَعَ لِلْعَیْنِی ‘‘، (حاشیہ ابن عابدین شامی ،جلد :5)‘‘۔اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ’’ سیدہ فاطمۃ الزہراء ؓکو ان کی دائی اُمّ ایمن ؓ نے غسل دیاتھا ،پس حضرت علی ؓ کے غسل دینے کی روایت کو اس پر محمول کیاجائے گا کہ پورے سازوسامان کی تیاری تو انہوں نے کی اورعملاً غسل اُمّ ایمن نے دیا (ہوسکتاہے کہ غسل کا طریقہ اُنہوں نے بتایا ہو) اوراگر یہ روایت ثابت بھی ہو جائے کہ حضرت علیؓ نے خود ہی غسل دیا تھا تواسے حضرت علیؓ کی خصوصیت پر محمول کیا جائے گا ،یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اُن پر اعتراض کیا توانہوں نے جواب میں کہا: کیاتمہیں رسول اللہ ﷺ کایہ فرمان معلوم نہیں ہے:’’بے شک فاطمہؓ دنیا اور آخرت میں تمہاری بیوی ہے‘‘،پس ان کا خصوصیت کا دعویٰ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ ؓکے نزدیک اصل مذہب یہی ہے کہ شوہر اپنی بیوی کی میت کو غسل نہیں دے سکتا ، علامہ علاء الدین حصکفی لکھتے ہیں: حضرت علی ؓ کا حضرت فاطمہؓ کو غسل دینے کا جواز اس حدیث پر محمول ہے: ’’ہر سبب اور نسب (موت کے ساتھ) منقطع ہوجاتاہے ، سوائے میرے سبب اور نسب کے (طبرانی کبیر )‘‘۔

نسب اور سبب کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:’’ سبب سے مراد قرابتِ سببی ہے ،خواہ رضاعت کی نسبت سے ہو یا سسرالی نسبت سے اور نسب سے مراد قرابتِ نسبی ہے ،کیونکہ اگر سبب سے اسلام اور تقویٰ مرادلیا جائے تووہ کسی سے منقطع نہیں ہوتا اوررسالت مآب ﷺ کی ذات پاک سے سببی رشتہ قائم کرنے کے لیے حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت اُمّ کلثوم بنت علی ؓسے نکاح کیا تھا ،رہا یہ سوال کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: پس ان کے درمیان نسب قائم نہیں رہیں گے ،(سورۃ المومنون:101)،تو اس سے رسول اللہ ﷺ کے علاوہ دوسروں کے نسب مراد ہیں جو دنیا اورآخرت میں نافع نہیں ہیں ،(حاشیہ ابن عابدین شامی ،جلد :5)‘‘۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheemjanggroup.com.pk