پاکستان میں ذہنی صحت کی صورتحال

February 09, 2020

پاکستان میں ذہنی صحت پچھلے کچھ برسوں سے بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ بڑھتے ہوئے عدم تحفظ، دہشت گردی، معاشی مسائل، سیاسی طور پر غیر یقینی، بے روزگاری اور معاشرتی تانوں بانوں میں خلل کے پس منظر میں ذہنی عوارض میں اضافہ ہوا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں کسی بھی ذہنی عارضے میں مبتلا 10ہزار افرادکیلئے صرف ایک ماہر نفسیات اور 20کروڑ سے زائد کی آبادی کیلئے صرف چار بڑے نفسیاتی اسپتال موجود ہیں جبکہ ذہنی عارضے میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہوتا جارہاہے۔

عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق عالمی سطح پر تمام معاشروں میں ڈپریشن 35کروڑ سے زائد افراد کو متاثر کرتا ہے اور ایک بڑی تعداد خودکشی کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اگرچہ ڈپریشن کے لئے مؤثر علاج معروف ہیں لیکن بیشتر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی میں علاج تک رسائی ایک مسئلہ ہے۔

پاکستان میں نفسیاتی مریضوں کی اکثریت پرانی روایات پر عمل کرتے ہوئے مزارات، نام نہاد عاملوں، بابائوں اور ملنگوں کے پاس جاتی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ دماغی بیماری مافوق الفطرت قوتوں کی وجہ سے ہوتی ہے جیسے کسی پر جن کا سایہ ہوجانا وغیرہ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ معاشرے میں دماغی ماہرین اور لوگوںمیںشعور کی کمی ہے۔

ساتھ ہی پاکستان میں ذہنی امراض کے علاج کے حوالے سے کوئی مناسب ذہنی صحت کی پالیسی بھی نہیں ہے۔ یہ سب معاملات دماغی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کی صحت یا ان کی دیکھ بھال کے عوامل کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ پاکستان میں ذہنی امراض کی شکایت کے حوالے سے ذہنی دباؤکے6فیصد، شیزو فرینیاکے 1.5فیصد اور مِرگی کے 1سے 2 فیصد افراد پائے جاتے ہیں۔

ذہنی خرابی کی علامات بعض اوقات پتہ نہیںچلتیں۔ یہ خرابی غیر ارادی طورپر یا جان بوجھ کر چوٹ لگنے سے بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ صحت کی دیگر مخدوش حالتیں بھی ذہنی عارضے کاخطرہ بڑھا سکتی ہیں، مثال کے طور پر موٹاپا ڈپریشن میں نمایاں اضافے سے وابستہ ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان میں، خاص طور پر دیہی اور پسماندہ علاقوں میں خواتین کو اکثر گھریلو تشدد کے ساتھ ساتھ مساوی حقوق میں بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طلاق یافتہ یا بیوہ ہونا، سسرال والوں سے تنازعہ، مالی تناؤ اور ملازمت پیشہ نہ ہونا اور خاتون ِ خانہ کی اضافی ذمہ داریاں بھی ذہنی عوارض کا باعث بنتی ہیں۔

ورلڈ مینٹل ہیلتھ پر جاری ایک رپورٹ کے مطابق ’’ ڈپریشن کا بوجھ عورت میں مردوں کے مقابلے میں50فیصد زیادہ ہوتا ہے۔‘‘ لیکن خواتین اس بات کو ماننے سے انکاری ہیں کہ وہ عورت ہونے کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار زیاد ہ ہوتی ہیں اوریہی سوچ ان کے ڈپریشن کی ہارمونل خرابی بڑھاتی ہے، پھر عورتوںکی بڑی تعداد اس کا علاج عامل بابائوںکے پاس ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں۔

مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ مستقل افسردگی، دلچسپیاں یا خوشیاں کم ہونا، کسی احساسِ جرم یا احساسِ کمتری کا شکار ہونا، پریشان کن نیند یا بھوک نہ لگنا، تھکاوٹ کے احساسات اور توجہ کے ارتکا ز میں کمی سے ڈپریشن پیدا ہوتاہے ۔ ڈیپریشن دیرپا یا پھر بار بار ہوسکتا ہے اور یہ ملازمت، علم کے حصول یا روزمرہ زندگی سے نمٹنے کے لئے کسی فرد کی صلاحیت کو کافی حد تک خراب کرتا ہے۔

شدید ڈپریشن خود کشی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ہر سال لگ بھگ 10لاکھ افراد شدید ڈپریشن کی وجہ سے اپنی جان لے لیتے ہیں۔ ڈپریشن کم عمری میںشروع ہوسکتا ہے اورعام طور پر مردوںسے زیادہ خواتین کو متاثر کرتا ہے۔10میں سے ایک یا دو ماؤں کو بچے کی پیدائش کے بعد ڈپریشن ہوجاتا ہے اور یہ بچے کی دیکھ بھال کرنے کے حوالے سے ماںکی صلاحیت کو محدود کرتا ہے، جس سے بچے کی نشوونما متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

ہم بعض اوقات یہ نہیں سمجھ پاتے کہ ہم یاسیت کا شکار ہیںیا اندرونی بے چینی کے سبب ذہنی خلفشار میںمبتلا ہیں۔ ڈپریشن، یاسیت یا افسردگی کو کہتے ہیںاور انزائٹی کا مطلب ہے تشویش یا فکرمندی، یہ دونوں بہت ہی تکلیف دہ اور قابلِ رحم بیماریاں ہیں۔ ڈپریشن انگریزی زبان کا لفظ ہے لیکن اس کا استعمال ہر زبان میں ہو رہا ہے۔

لوگ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات بھی استعمال کرتے ہیں لیکن دوا کے بغیر بھی انزائٹی سے محفوظ رہنے کے کئی طریقے موجود ہیں، جن میں تناؤ کو کم کرنے کے لیے ورزش، سانس لینے کی مختلف مشقیں اور یوگا کرنا شامل ہیں۔ تھراپی اور ماہرِ نفسیات سے مشورہ لینا بھی ایک اثرانگیز طریقہ ہے، خاص طور پر Cognitive Behavioural Therapy جس میں گفتگو کے ذریعے سوچ و خیالات کا زاویہ اور انداز تبدیل کیا جاتاہے اور آپ اس سے چھٹکارا پاکر نسبتاً خوشحال اور صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں۔

ڈپریش نہ ہو تو زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے میںمددملتی ہے۔ بہت ساری حکمت عملیاں ہیں، جو آپ کو اچھی ذہنی صحت قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرسکتی ہیں، جیسے کہ مثبت رویہ اپنائے رکھنا،جسمانی طور پر متحرک رہنا، دوسرے لوگوں کی مدد کرنا، بھرپور نیند لینا،صحت بخش غذا ئیں کھانا وغیرہ۔ اگر آپ کو ضرورت ہو تو اپنی ذہنی صحت کے لئے پیشہ ورانہ خدمات حاصل کریں،ان لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جن کے ساتھ آپ وقت گزارنے میں لطف اندوز ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ ٹیچنگ اسپتالوں میں نفسیاتی فیکلٹی تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے، جہاں کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ کی اسامیاں نکالی جائیں۔ ذہنی صحت کے مسائل سے نمٹنے کیلئے عوامی آگاہی کے پروگراموں کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بھی شروع کیا جانا چاہیے۔