اشرف ا لمشروبات

February 16, 2020

امجد محمود چشتی، میاں چُنوں

مشروب سے مراد پی جانے والی رقیق چیزہے،جس کا ماخذ ’’شرب‘‘ ہے۔پانی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ چِین جیسے ترقّی یافتہ مُلک کا قومی مشروب ’’ پانی ‘‘ ہی ہے، جس سے عموماً مہمانوں کی تواضع کی جاتی ہے، لیکن ہمارے ہاں غریب سے غریب بھی سادہ پانی سے مہمانوں کی تواضع کرنا خلافِ آداب سمجھتا ہے۔سافٹ ڈرنکس اور چائے دو ہی تولوازمات ہیں ،جو ہمارا بھرم رکھے ہوئے ہیں۔

ان میں سے بھی ڈرنکس مہمانوں کے آگے رکھنا نسبتاً سرد مہری سمجھی جاتی ہے،البتہ، ’’چائے‘‘ ہر ایک کے خلوص کی ضامن ٹھہرتی ہے۔بلکہ چائے کے رسیا تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ’’چائےکا تو جوڑ ہی نہیں‘‘۔گویاچائے کو تمام مشروبات پرسبقت حاصل ہے۔ یہ سیاسی،مذہبی و سماجی تقریبات کی شان، جزوِ لا ینفک سمجھی جاتی ہے، توسرکاری اداروں کے افسران اپنے فرائض بخوبی انجام دیں، نہ دیں،چائے نوشی کے ناغے کا تصوّر بھی ممکن نہیں۔پھرکسی مہمان یا آفیسر کی آمد کی صُورت میں بھی چائے کا آ نا ناگزیر ہو جاتا ہے،نہیںتو مہمان کی عزّت افزائی اورآفیسر کے پروٹوکول پہ حرف بلکہ حروف آنے کے اندیشے جنم لے سکتے ہیں۔

چائے کی بابت بعض یاروں کا عقیدہ توغالب کے آموں کی مثل ہے کہ ’’چائے ہو، میٹھی ہو اور ڈھیر ساری ہو۔‘‘جب کہ بعض افراد تو چائے کے ایسے رسیا ہوتے ہیں ، جیسے منہ میںچائے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے ہوںاور پہلا لفظ ’’ماں ، بابا‘‘ نہیں ’’ چائے‘‘ بولا ہو۔ ہم تو ایسے لوگوں کو بھی جانتے ہیں جو عُسرت میں بھی کثرتِ چائے کی حسرت سے مالا مال ہیں۔ برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ ایک سو سال قبل تک چائے ہماری خوراک کا حصّہ ہرگز نہ تھی،صرف اطبّاء کے ہاں بطوردرد کُش( پین کِلر) دوا دست یاب ہوتی تھی۔ شاید اسی لیے انگریزی زبان میں کسی کو چائے پینے کے لیے کہا جائے تو ’’ڈرنک ٹی‘‘ نہیں’’ ٹیک ٹی‘‘ کہا جاتا ہے۔

اگر یہ پرانے دَور میں اسی شان و شوکت سے پائی جاتی، تو شعرو ادب کی دنیا میں ہمیں ’’انگور کی بیٹی‘‘ کے ساتھ ساتھ دانے دار کے قصیدے بھی ملتے۔ ساغرو مینا کے ساتھ کیتلی و کپ کےاذکاربھی چلتے ۔جہاں مئے خانوں کا ذکرِہوتا، تو ساتھ ہی ٹی ہاؤسز اور چائے کے کھوکھوں کے بھی گُن گائے جاتے۔مئے نوشی اور چائے نوشی کا فرق بس اتنا ہے کہ مئے نوشی، مدہوشی کا موجب بنتی ہے، جب کہ چائے سُستی اورخُمار بھگانے کا۔میر کے دَور میں چائے ہوتی، تو یقیناً فرحت ِ طبع کےلیے کہہ اُٹھتے،’’چائے کو چاہیے دو منٹ اثر ہونے تک۔‘‘ اب معلوم ہواکہ ساغر صدّیقی اپنی تخلیقات چائے کی ایک پیالی کے عوض کیوں قربان کر دیتے تھے۔

اس لیے کہ وہ شعروسخن کےساتھ ساتھ بلا کےچائے شناس بھی تھے۔ چائے اگر کلاسیکل دَور میں عام ہوتی، تو شعرائے کرام اپنے دَور کے مفتیا ن اور زاہدانِ تنگ نظر کے عتاب کا شکار ہونے سے بھی محفوظ رہتے کہ چائے توانہیں خود بھی مرغوب ہے۔ مگر غالب اپنی سچ گوئی اور اعترافی اسلوب میں تب بھی مارے جاتےجیسے؎’’چائے‘‘ نے غالب نکمّا کر دیا …ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے۔ذرا سوچیں کہ اگرآج کے دَور میں ہیر رانجھا ہوتے، تو کیا ہیررانجھے کے لیے چوری چُھپے چائے کا تھرماس لے کر جاتی۔

بہر حال ،سو باتوں کی ایک بات کہ آج زندگی چائے کے بغیر ادھوری، بے کیف ہے۔اورسچ تو یہ بھی ہے کہ بڑی بڑی ناراضیاں، گلے شکوے بھی بس ایک چائے کے کپ سے دُور ہو سکتے ہیں۔بقول شاعر ؎میرے پاس سے گزرکر مجھے ’’چائے‘‘ تک نہ پوچھی…میں یہ کیسے مان جائوں کہ وہ دُور جاکےروئے۔اگر آپ چائے کے پینے پلانے کے ہنرسے واقف ہیں، تو بلا شبہ کام یاب انسان ہیں،کیوں کہ یہ قاضی ا لحاجات بھی ثابت ہو تی ہے۔ پلائی جانے والی چائے ’’ چائے، پانی‘‘ کی اصطلاح سے تو آپ واقف ہی ہوں گے،جس سے کام نہ نکلنے کی شرح کم ہوجاتی ہے ۔

رشتوں کے دیکھنے دکھانے کے عمل میں بھی چائے ہی کاکلیدی کردار کار فرما ہوتا ہے۔کسی کی ممی کسی کو چائے پہ بلاتی ہے، تو کبھی کسی کے ممی ،پاپا چائے پہ بلائے جاتے ہیںاورشادی بیاہ کےرت جَگوںمیں تو یہ بہت ہی مقبول ،بلکہ لازمی ہے۔اکثر پڑھاکو طلبہ رات کو نیند کے غلبے سے بچنے کے لیےبھی چائے ہی کا سہارا لیتے ہیں۔یعنی اچھے گریڈز میں بہت حد تک چائے ہی کا عمل دخل ہوتا ہے، مگر اچھی چائے بنانے والے کو کوئی شکریے کے دو بول بھی نہیں بولتا۔

کچھافراد کا کہنا ہے کہ اس عدیم ا لفرصتی کے دَورمیں اِک چائے ہی مل بیٹھنے کا بہترین بہانہ ہےاور اہلِ دل کا عقیدہ ہے کہ چائے تو بس چائے ہی ہے ۔اگر چائےکی اصل چاہ کا اندازہ لگانا ہے، تو انڈین پائلٹ ابھےنندن کی گفتگو سے لگائیں، جو اپنے طیارے کے عِوض پاک فوج کی ایک پیالی چائے پہ فریفتہ ہو گیا ۔ ویسے اسے’’ چائے ڈپلومیسی ‘‘بھی کہا جاسکتا ہے۔کہنے کو تو دَورِ حاضر کا اہم ایشو پانی ہے ،جس کی بنیاد پر اقوامِ عالم میں جنگیں متوقع ہیں، مگر چائے کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں چائے پینے پلانے پہ بھی جھگڑے ہوں ۔اس کی طلب ، رسد ،دست یابی اور تجارت کی بابت مقابلے ہوں۔

تاہم ،چائے سے مشروط کچھ المیے بھی ہیں، جن میں خوش ذائقہ بسکٹس کا چائے کی پیالی میں مفاجاتی انہدام اور کسی مکّھی کی اس میںتیراکی کی کوشش وغیرہ شامل ہیں۔ تا ریخ پہ نظر ڈالیں تو چائے کے پودے پانچ ہزار سال قبل چین سے ملتے ہیں۔اس کی دریافت حادثاتی طور پر ہوئی ،مگروہ سبز چائے تھی ، جب کہ بلیک ٹی اس کے بعد متعارف ہوئی ۔برطانوی حکومت ،چین کی چائے کی سب سے بڑی خریدار تھی ۔ ٹی بیگز کا رواج 1908 ء میں امریکا سے عام ہوا۔اگر چائے نوشوں کو چائے کے مضر اثرات کا بتایا جائے، تو فرماتے ہیں کہ چائے کے ساتھ دیگر لوازمات یعنی بسکٹس وغیرہ کے تکلّفات سے چائے معتدل ہو جاتی ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ دنیا کی عظیم نعمتوں میں چائے سرِفہرست ہے اور اس کے دانے دانے پہ پینے والے کا نام تک لکھا ہوتا ہے۔بعض تو اس حوالے سے اندھی عقیدت رکھتے ہیں؎’’ہم فقیروںکی طبیعت بھی غنی ہوتی ہے… بیٹھ جاتے ہیں جہاں چائے بنی ہوتی ہے۔‘‘ ہماری تو شدید خواہش ہے کہ جنّت میں بھی میسّر ہو، مگر تا حال یہ مژدہ کسی عالم نے سنایا نہیں، پرہم نے بڑوں سے سُنا ہے کہ جنّت میں جس چیز کی خواہش کی جائے گی اس کا ذائقہ نصیب ہو گا ۔تو اب تسلیم کرنا ہی ہو گا کہ انسان اگر اشرف المخلوقات ہے، تو چائے’’ اشرف ا لمشروبات‘‘ ہے۔