خوابوں کا تسلسل

February 16, 2020

مولانا سید حسن ظفر نقوی

’’میرے دوست کیا ہوا ؟ایسے چُپ چاپ کیوںلیٹے ہو؟لگتا ہے تم تھک گئے ہو ، کیوں کہ تم ہار ماننے والوں میں سے تو ہونہیں۔میرا تمہارا ساتھ دِنوں کا نہیں، ساٹھ برسوں کا ہے۔ جب ہمارا وطن 12سال کا تھا ،ہم ایک ساتھ سِپارہ پڑھنے جاتے تھے ۔ تمہیں ابّامیاں یاد ہیں…؟؟ ہاں وہی ابّا میاں جو ہمیں سِپارہ پڑھاتے تھے، پورے محلّے کے ابّا میاں ۔

محلّے کے سارے بچّوں پر جیسے انہیں پورا اختیار تھا ، جہاں کسی بچّے کو غلط حرکت کرتے دیکھا ، فوراً ڈانٹ دیتے،بلکہ ہاتھ اُٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے، مگر کیا مجال کہ کوئی گھر جاکر ابّا میاں کی شکایت کردے، کیوں کہ سب جانتے تھے کہ اگرگھر جا کر ابّا میاں کی شکایت کی، تو ابّو الگ ماریں گے اور امّی الگ۔مجھے اُن کا نورانی چہرہ آج بھی اچھی طرح یاد ہے ۔ کتنے شفیق اور مہربان تھے ، یاد ہے ناں، جب کسی بچّے کے جلدی اور اچھا سبق یاد کرنے پر خوش ہوجاتے تھے، تو جھٹ جیب سے سکّہ نکال کر بطور انعام دیتے تھے۔اور ہم بچّے آپس میں یہی سر گوشی کرتے کہ ابّا میاں کی شیروانی کی جیب میں نہ جانے کتنے سکّے ہیں، جو کبھی ختم ہی نہیں ہوتے۔

میرے دوست ، مجھے یہ بات کبھی نہیں بھولتی کہ جب بھی ہم دونوں میں سے کسی کو وہ ایک پیسا ملتا تھا، تو ہم دونوں شکر قندی یا شرفو بھائی کی دُکان سے بھُنے ہوئے چنے لے کر برابر تقسیم کرکے کھاتے تھے ۔ اُس زمانے میں یہی ہماری سب سے بڑی عیّاشی ہوتی تھی ۔ اب آج اپنے بچّوں یا اُن کے بچّوں کو اُس ایک پیسے کی قیمت بتاؤ تو کوئی مانتا ہی نہیں یار۔ اچھا چل، اب اُٹھ ناں یار ! چل ہمّت کر، سامنے اُجڑے ہوئے پارک میں ابھی بھی ہمارے بیٹھنے کے لیے ایک بینچ موجود ہے ، چل وہاں چل کر بیٹھتے ہیں اور پٹھان کے ہوٹل کی چائے بھی منگواکر پئیں گے ۔

میرے دوست ،مت گھبرا سب ٹھیک ہو جائے گا ۔بات یہ ہے کہ تُونے خود پر کچھ زیادہ ہی بڑھاپا طاری کرلیا ہے، تُو کتنی ہمّت والا تھا، میرے یار…!! یاد ہے، ہم اُردو میڈیم اسکول میں پڑھتے تھے اور اسکول سے چُھٹّی پر کتنی موج مستی کیا کرتے، تھوڑا ہوش سنبھالا تو دل وطن کی محبّت سے سرشار پایا۔ اپنے شہر اور پیارے مُلک کے لیے کیسے کیسے سہانےخواب بُنتے تھے۔ تجھے یاد ہے ناں کہ ہم پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے کتنے پُر اُمید تھے۔

پورے محلّے میں ہماری دوستی مشہور تھی، تُو میرے ساتھ محرّم میںامام بارگاہ جاتا تھا اور مَیں تیرے ساتھ جمعہ پڑھنےمسجد، مگر یار، سوچتا ہوں وہ کتنا اچھا دَور تھا ناں کہ ہمیں تو نہ ہمارے والدین نے کبھی روکا ٹوکا اور نہ ہی مولوی صاحب نے، بلکہ وہ مبارک مسجد والے حافظ تمنّا ؔ صاحب تو ہمیشہ جمعے کے خطبے میں اخلاق ، محبّت اور رواداری ہی کا درس دیا کرتے ۔ میرے دوست ! پھر یہ سب کیا ہوگیا ؟ کس کی نظر کھا گئی اِس گلشن کو؟ مُلک کے حالات دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔

حکومتیں تو بدل جاتی ہیں، پر مُلک کے حالات نہیں بدلتے، عوام کی قسمت نہیں بدلتی۔اب تُو ہی بتاکہ کیا کریں…؟ ؟ اب ہماری عُمریں تو ایسی نہیں کہ کہانی کو پھر صفر سے شروع کریں۔ لیکن یار!مَیں تجھے یقین دلاتا ہوں کہ ان بوڑھی ہڈّیوں میں آج بھی اتنا زور اور ہماری دوستی میں اتنی طاقت ہے کہ ہم اپنے طور پر اس معاشرے میں سُدھار کی کوشش تو کر سکتے ہیں۔

صبر و برداشت، بھائی چارے کا سبق تو عام کرسکتےہیں۔ہم نے توکبھی ہارنا نہیں سیکھاتھا۔چل ہم بھی ابّامیاں کی طرح چھوٹے چھوٹے بچّوں کو سپارہ پڑھا ئیں گے، وہ سپارے جن میں محبّت ، اُلفت ، شفقت اور صرف اللہ سے ڈرنے کا درس ہے ۔ وہ سپارے، جن میں اللہ تعالیٰ نے انسانی جانوں کی حُرمت اور قیمت بتائی ہے ، وہ سپارے جن میں ہم نے پڑھا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔ اُٹھ میرے دوست اُٹھ ! ہم اپنے اپنے بچّوں سے کچھ پیسے لے کر جیب میں رکھا کریں گےاور اچھا پڑھنے والے بچّوں کو انعام دیں گے۔ہم بھی ابّا میاں کی طرح بچّوں کو اخلاقیات کا درس دیں گے۔

ہمیں اس تاریکی سے مقابلہ کرنا ہے ۔ مَیں تجھے یقین دلاتا ہوں کہ یہ سب انسانیت کے دشمن بہت جلد مٹ جائیں گے اورسحر بس ہونے کو ہے ۔ یاد رکھ! یہ فطرت کا قانون ہی نہیں کہ باطل ہو اور حق نہ ہو، ہاں وہی تو حق ہے ،جو آج کی ظالم ، شیطانی اور سامراجی طاقتوں کے مقابل ڈَٹا ہوا ہے۔ ہمیں اِس حق کی آواز پر لبّیک کہنا ہے۔

ہمیں جنگ لڑنی ہوگی، ان ضمیر فروشوں، لٹیروں ، مذہب کے نام پر خوں ریزی کرنے والوں ، علاقائیت اور رنگ و نسل کا زہر گھولنے والوں اور بھوک و افلاس کے خلاف ۔ دیکھ یہ بچّے اپنی آنکھوں میں ہماری ہی طرح خواب سجائے کتنی اُمید سے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں ۔ ہمیں تو اپنے رہبروں سے مایوسیاں ہی ملیں، مگر انہیں، ان کے خوابوںکی تعبیر ملنی چاہیےکہ اگر ہم نے بھی انہیں مایوس کردیا تو سب کچھ ختم ہوجائے گا۔

اُٹھ میرے ساتھی! آخر تُو اُٹھتا کیوں نہیں، کچھ کہتا کیوں نہیں …؟؟ اُٹھ ناں میرے یار…لگتا ہے تُو تھک کر گہری نیند سوگیا ہے۔ چل ٹھیک ہے، تُو آرام کر ، لیکن سُن میرا انتظار کرنا۔ مَیں، ہم دونوں کا خواب پورا کرکےجلد تجھے ملوں گا۔ ‘‘ نقوی صاحب، اسپتال کے کمرے میں اپنے دوست کو پکارتے رہ گئے، لیکن اُن کا ساتھی، بچپن کا یار تو اس دنیا کی تھکاوٹ سےبہت دُور، ابدی نیند سو چُکا تھااور اب انہیں اکیلے ہی اس معاشرے کی اصلاح کے لیے جدّو جہد کرنی تھی،وہ جدّوجہد جس کا خواب دونوں دوستوں نے مل کر دیکھا تھا۔