خمارِ گندم (قسط نمبر 3)

February 16, 2020

کھانے کے ارتقامیں عرب کا تذکرہ برمحل ہے۔ وہاں جَو کے ستّو میں شہد اور گھی ملا کر کھایا جاتا تھا، ثرید (شوربے میں بھیگی روٹی) خبیص (چھوہارے اور گھی کُوٹے ہوئے)، بُھنا گوشت، کھجور، گیہوں کی روٹی، روغنِ زیتون اور جَو کی روٹی استعمال میں لائے جاتے تھے۔ تاریخ کی کتابوں میں تذکرہ ہے، ’’خلیفہ ہارون الرشید کے دستر خوان پر ایک وقت میں تیس سے چالیس تک کھانے رکھےجاتے۔ یہ کھانا کئی کورسز میں ہوتا تھا۔ سب سے پہلے شوربا یخنی، بعدازاں سبزی، مرغ اور پرندوں کا گوشت، بُھنا ہوا دنبے یا بکرے کا گوشت، مچھلیاں، انڈے، چُوزوں کا گوشت، اُبلی سبزیاں اورخمیری روٹی آتے تھے۔ ان کےبعد فالودہ، انگور، سیب، ناشپاتی، خشک میوے اور حلوے آتے۔

کھانے کے دوران غلام قُم قُم سے گلاب پاشی کرتے، ابربق اور طشت سے ہاتھ دُھلائے جاتے اور چاندی کی چھوٹی انگیٹھیوں میں بخور جلا کر مہمانوں کی داڑھیاں اور گریبان خوشبو میں بسائے جاتے تھے، جی کہ کھانے کے دوران چہلیں، لطیفے اور نوک جھوک ماحول کو خوش گواربنائے رکھتے۔‘‘ پاک وہند میں قبل از قرونِ وسطیٰ سے گندم کی روٹی، گوشت، انڈے، مچھلی، سبزی اور میوہ جات عام خوراک میں شامل تھے۔ مرغی کا گوشت ہندوستان کی دریافت ہے، البتہ مغربی ہند میں سبزی خور بڑی تعداد میں آباد ہیں اور وہ نہ صرف گوشت اور انڈے سے پرہیز کرتے ہیں بلکہ تیز مہک والی اشیا، جیسا کہ لہسن اور زمین دوز سبزیوں آلو اور گاجر وغیرہ سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔ گزشتہ ادوار میں سبزی خور شلجم سے بھی اس لیےپرہیزکرتےتھےکہ اس کی رنگت بھی گوشت جیسی ہوتی ہے۔

سنیاسیوں اور بیوہ عورتوں کے لیے رات کا کھانا ممنوع تھا۔ بعض روایات کے مطابق مہاتما بدھ کا انتقال سور کا خراب گوشت کھانے سے ہواتھا۔ مہاتما کے ماننے والے تو اس حد تک چلے گئے ہیں کہ چین کے ایک کاشت کار، زیان زینگ ہاؤ نے بدھ کی شکل کے آڑو تک اُگا لیے ہیں۔ وہ چھوٹے چھوٹے آڑوؤں پربدھ کی شکل کے سانچے چڑھا لیتا ہے۔ جب آڑو بڑے ہوتے ہیں تو مہاتما بدھ کے حلیے میں ڈھل جاتے ہیں۔ کاشت کار کو یہ خیال تب آیا، جب اُس نے ایک ایسے خیالی جادوئی پھل کے بارے میں پڑھا، جو بدھا کی شکل کا ہوتا تھا۔ اِن آڑوؤں کی منڈی میں بہت مانگ ہے، کیوں کہ اِنھیں خوش نصیبی اور خوش حالی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

گزشتہ ادوار میں گوشت کا استعمال بہت کم ہوتا تھا۔ یہ بہت منہگا تھا اور آسانی سے میسّر نہ آتا تھا، خصوصاً یورپ میں خوراک زیادہ تر سبزیوں پر مشتمل ہوتی۔ 1870میں یورپ میں ایک شخص پورے سال میں اوسطاً 16کلوگوشت کھاتا تھا جو 1914میں بڑھ کر 50کلو اور 2010 میں 77 کلو تک بڑھ گیا ۔ یعنی ایک یورپی سالانہ قریباً اپنے وزن کے برابر گوشت کھا جاتا ہے۔ بیسویں صدی میں دو بڑی جنگوں میں حالات اتنے خراب ہوگئے کہ اتحادی حکومتوں کو تمام گوشت اپنی فوجوں کو فراہم کرنا پڑا تاکہ ان کی توانائی برقرار رہے۔ خوراک کی ایسی قلت ہوئی کہ عوام کو چارہ تک کھا کر گزارہ کرنا پڑا۔ ہندوؤں اورمسلمانوں کے کھانے کے طریقے مختلف رہے ہیں۔

مسلمان دسترخوان پرمل بیٹھ کر ایک ہی برتن سے بھی کھاتے ہیں، جب کہ ہندو علیحدہ بیٹھ کر تھال میں الگ الگ کٹوریوں میں دال ، بھاجی، اچار، چٹنی وغیرہ کھاتے ہیں۔ گوشت محفوظ رکھنے کے بھی مختلف طریقے رائج رہے ہیں۔ مراکش میں خلیا نامی خوراک معروف تھی۔ اس میں خشک بیف میں مسالے ملاکر چربی میں لپیٹ لیا جاتا، اس طرح گوشت دوبرس کے لیے قابلِ استعمال رہتا۔ یہ طریقہ مراکش میں اس لیے بھی رائج تھا کہ وہاں خانہ بدوش صحرائی سفر پر رواں دواں رہتے۔ پاک و ہند میں گوشت یا قیمے کو دھوپ میں سُکھا کر ’’بڑیوں‘‘ کا سالن یا پلاؤ بنایا جاتا۔ علی عباس جلال پوری نے اپنی کتاب ’’رسومِ اقوام‘‘ میں پلاؤ کا خوب تذکرہ کیا ہے۔ پلاؤ وسط ایشیائی ریاستوں کی دریافت ہے۔

ترکستان، خراسان اور ازبکستان میں بھیڑ بکری یا مرغ کے گوشت کو چاولوں میں ملا کر پکایا جاتا ہے، جسے پلاؤ کہتے ہیں۔ اگر سادہ چاولوں کو کسی دوسرے کھانے کے ساتھ ملا کر بنایا جائے تو وہ ’’چلاؤ‘‘ کہلاتاہے۔ ایران، دِلّی اور لکھنؤ وغیرہ میں پلاؤ پکانے کے کئی طریقے وضع کیے گئے۔ قورما پلاؤ میں گوشت کےٹکڑےملاکردَم دیتے ہیں۔ اور اس میں اگرزعفران کی آمیزش کردی جائے، تو یہ ’’مزعفر‘‘ کہلاتاہے، چھےرنگوں کے پلاؤ کو ’’شش رنگ پلاؤ‘‘ کہتے ہیں۔ دم پُخت میں مکھن ملایاجاتا ہے، جب کہ متنجن کو بھون کر پکایا جاتا ہے۔

لکھنؤ میں موتی پلاؤ، چنبیلی پلاؤ، نور پلاؤ، گل زار پلاؤ، انار دانہ پلاؤ اور نورتن پلاؤ تیار کیے گئے۔ نمکین پلاؤ میں پیاز کو بھون کراسے گاڑھا رنگ دیا جاتا ہے اورگرم مسالےشامل کردیےجاتےہیں۔ لکھنوی پلاؤ میں گھی اور یخنی زیادہ رکھے جاتے تھے۔ نواب غازی الدین حیدر کے لیےچوبیس کلویخنی میں ایک کلو چاول دَم کیے جاتے تھے۔ ایرانی پلاؤ میں نارنگی کے چھلکوں کا ذائقہ اورخوشبو ملا کر نارنجی پلاؤ بناتے ہیں۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور بلوچستان میں آج بھی ایرانی پکوان، چلو کباب دست یاب ہے۔ اس میں چاولوں پر کباب رکھ دیے جاتے ہیں اور مکھن سمیت پورا ٹماٹر اور پورا پیاز بھون کر شامل کردیا جاتا ہے۔

دِلّی اورحیدرآباددکن میں بریانی زیادہ پسند کی جاتی تھی، جس میں چاولوں میں گوشت کو بھون کر شامل کیا جاتا ہے۔ بعض معاشروں میں کھانے سے پہلے دُعا کی روایت بھی موجود تھی، جوآج بھی چند معاشروں میں موجود ہے۔ قدیم مصر میں مہمانوں کو کنول کے پھول پیش کیے جاتے۔ کھانے کے دوران ایک غلام لکڑی کی چھوٹی سی ممی تھامےمہمانوں کےپاس رکتا اورکہتا جاتا، ’’اِسے دیکھو، موت کےبعد سب کی یہی حالت ہوگی۔ سو خوب کھاؤ، پیو اور لطف اٹھاؤ۔‘‘ہند میں ایسی ہی ایک بات بابر سے منسوب ہے۔ ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔‘‘ مصر میں پیروں سے آٹا گوندھا جاتا تھا۔

بابلی مچھلیوں کو دھوپ میں سُکھا کر کُوٹتے اور چھان کر اُن کی ٹکیاں بنا لیتے تھے، جنھیں وہ پھر کھاتے رہتے۔ راجستھان میں راج پوت کھانے سے پہلے اناج کے چند دانے اَن دیو (اناج کا دیوتا) کی بھینٹ کرتے تھے۔ پنجاب میں نئے گھر میں منتقل ہوکر خاندان بھر اور برادری کی دعوت کی جاتی تھی، جس کے لیے ’’چٹھ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی۔ یہ روایت آج بھی دنیا بھر میں موجود ہے۔ مغرب میں اسے house warming party کہتے ہیں اور اب پاکستان میں بھی اِسی نقّالی میں امرا کے ہاں یہی کہا جاتا ہے۔’’Housewarming‘‘ کی اصطلاح کی بھی ایک روایت ہے۔

مغرب کے سَرد موسم میں جب گھروں کو گرم رکھنے کےجدید ذرائع میسرنہ تھے،تو مہمان اپنے ساتھ آتش دان کی لکڑیاں تحفتاً لاتے۔ اس سے گھر گرم ہوتا اور سمجھا جاتا کہ بدروحیں بھی دُوررہیں گی۔ خالی اُجاڑٹھنڈےمکانوں کو بدروحوں کا مسکن سمجھا جاتا تھا، انھیں صاف اور پاک کرکے ہی بچّوں کو ان میں داخل کیا جاتا۔ کسی بھوکے کے سامنے کھانا کھانے کو بُرا سمجھا جاتا، اِسی لیے خیر کی خاطر یا نظرِ بد سے بچنے کے لیے اگر کوئی آجائے تو اُسے کھانے میں شریک کرلیا جاتا۔

تاریخ عالم میں دو شخصیات کے تذکرے نئی خوراک کو روشناس کروانے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ ایک سکندر ِاعظم اور دوسرا کرسٹوفرکولمبس۔سکندر ِ اعظم دنیا فتح کرنے نکلا تو اس کے استاد ارسطو نے اُسے ہدایت کی کہ وہ اپنے ساتھ ماہرینِ نباتات (botanists) لیتا جائے۔ گویا تین صدی قبل مسیح میں یونانی معاشرے کو اور پھر یورپ کو لیمونی (citrus)پھلوں جیسا کہ مالٹا، لیموں وغیرہ ہی سے نہیں بلکہ آڑو، پستہ اور دیگر کئی پھلوں سبزیوں سے بھی متعارف کروایاگیا۔ یونان میں مور بھی پہلی مرتبہ تبھی آئے۔ اُس دَور کے یونانی اور رومی مہمان دعوتوں میں خوشبو لگا کر اور سَروں پر پھولوں کے ہارسجا کےجاتے تھے۔ امرا کے ہاں چاندی کے برتنوں میں کھانا دیاجاتا۔

کھانا سات کورسز میں ہوتا، اِس دوران خدّام اور کنیزوں کے رقص و موسیقی جاری رہتے ۔ کھانے کے بعد غلام گرم پانی سےہاتھ دُھلا کرتولیے سے خشک کرواتے۔ کھانے کے دوران بعض اوقات مہمانوں کے پیروں کی مالش بھی کی جاتی۔ کراچی سے پشاور تک بہت سے کھانوں کے مقامات کے پاس آج بھی مالشیے پائے جاتے ہیں، جو کھانے سے پہلے یا بعد میں مردگاہکوں کی مالش کرتے ہیں۔

کرسٹوفرکولمبس نہ صرف امریکا میں پہلی مرتبہ گھوڑے، سور، گائے وغیرہ لے کر گیا بلکہ وہاں سے لاکر پوری دنیا کو ٹماٹر، سُرخ و سبز مرچ، مونگ پھلی اور آلو سے بھی آشنا کیا۔ اگرتحقیق کو پاک و ہند میں مغل دَور پر مرتکز کیا جائے تو سات ہزار برس قبل مسیح سےہندسندھ میں شروع ہونے والی باقاعدہ زراعت اورمویشیوں کو سِدھا کر استعمال میں لانے سے لے کر مغل دَور تک پکوان اتنی ترقی کر گئے کہ اپنے تنّوع، تیکنیک اور ذائقے میں پوری دنیا کے امام ٹھہرے۔ افغانی وترک، جو گیارہویں صدی عیسوی میں ہندوستان آئے، تہذیبی طور پر زیادہ عُمدگی اور نفاست کے حامل نہ تھے۔ وہ خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزارتے اور بقا کے لیے قابلِ تعریف مہارت رکھتے تھے، البتہ ان کی زندگیاں ابھی بنیادی سطح پر تھیں۔

وہ روسٹ دنبے اور دودھ وغیرہ پر زیادہ انحصار کرتے۔ جب دلّی کو دارالسلطنت بنایا گیا تو آہستہ آہستہ یہ ’’شہرِ تہذیب‘‘ کی شکل اختیار کرنے لگا۔ سلطنتِ دلّی کے رعایا کی ثقافتی ومعاشرتی زندگی کے متعلق بہت کم تحریری ماخذات موجود ہیں۔ اُس دور کے کھانوں کے متعلق امیر خسرو، ابنِ بطوطہ اور نعمت نامہ نامی کتاب بنیادی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ’’نعمت نامہ‘‘ مالوہ کے حکم ران، غیاث الدین خلجی نے لکھوانا شروع کی اور اس کے بیٹے عبدالمظفر ناصر شاہ کے دَور میں مکمل ہوئی۔ یہ کتاب تصاویر سے مزیّن ہے اور اس میں کھانے میں استعمال ہونے والے مختلف اجزا کی تفصیل دی گئی ہے۔ کھاناپکانے کی تراکیب، بیماریوں سے بچاؤ، بہترین غذائوں اور پکوانوں میں تناسب کے ساتھ عناصر کوبھی بیان کیا گیا ہے۔ اجزا میں گوشت، سبزیوں، پھلوں، بیجوں، پتّوں، جَڑوں، گوندوں اور رسوں کا تذکرہ موجود ہے۔ علاوہ ازیں، اس میں خوش بودار خمیر، سفوف، بُرادے اور جواہر جیسا کہ عرقِ گلاب اور پھولوں سے بنے کیوڑے وغیرہ کا ذکر بھی ہے۔

ابنِ بطوطہ سلطان محمد تغلق کے دربار میں منعقد ہونے والی دعوتوں کا احوال لکھتا ہےکہ ’’اگر بادشاہ نےکسی پرخاص مہربانی کرنی ہو تو وہ خود رکابی اٹھاتے ہیں اور اُس پر ایک روٹی رکھ کر اپنے ہاتھ سے اُس شخص کو دیتے ہیں۔ وہ شخص بائیں ہاتھ پر وہ رکابی رکھ لیتا ہے اور دائیں ہاتھ سے سلام کرتا ہے۔ کبھی کبھی اس خاصّے میں سے کسی غیرحاضر شخص کے واسطے کھانابھیجاجاتا تو وہ بھی یہی تعظیم کرتا، جیسے حاضر شخص۔‘‘ عام کھانوں کےبارے میں وہ لکھتا ہے، ’’یہ کھانا مطبخ سے لاتے ہیں۔ اُس کے آگے آگے نقیب ہوتے ہیں، جو بسم اللہ کہتے جاتے ہیں اور ان سب کے آگے نقیب النقبا ہوتا ہے، اُس کے ہاتھ میں سونے کی چھڑی ہوتی ہے اوراس کے نائب کے ہاتھ میں چاندی کی۔

جب وہ چوتھے دروازے سے داخل ہوتے ہیں اور دیوان خانے میں جو لوگ حاضر ہوتے ہیں، وہ ان کی آواز سُنتے ہیں تو سب کے سب کھڑے ہوجاتے ہیں۔ علاوہ بادشاہ کے کوئی شخص بیٹھا نہیں رہتا۔ جب کھانا زمین پر رکھ دیا جاتا ہے تونقیب ہاتھ باندھ کرکھڑےہوجاتے ہیں۔ ان کا سردار سب سے آگے کھڑا ہو کر بادشاہ کی تعریف کرتا ہے اور پھر زمین بوسی کرتا ہے اوراس کے ساتھ کُل حاضرین زمین بوسی کرتے ہیں۔ جب یہ موقع ہوتا ہےاورنقیب کی آواز سنائی دیتی ہے تو جو شخص چل رہا ہو، کھڑا ہوجاتا ہے اورجو کھڑا ہوتا ہے وہیں جم جاتاہے۔ دسترخوان کےصدر میں قاضی، خطیب فقیہہ، سیّد اورمشائخ ہوتے ہیں۔ اُن کے بعد بادشاہ کے رشتےدار اور امرا ترتیب وار بیٹھتے ہیں۔

جب سب لوگ بیٹھ چُکتے ہیں تو شربدار آتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں سونے، چاندی، تانبے اور کانچ کے پیالے ہوتے ہیں، جن میں شربت ہوتا ہے۔ کھانے سے پہلے سب شربت پیتے ہیں اور پھر حاجب بسم اللہ کہتے ہیں۔ اس وقت کھانا شروع کیا جاتا ہے۔ کھانا دو دفعہ ہوتا ہے۔ ایک تو ظہر سے پہلے، دوسرے عصر کے بعد۔‘‘ (تاریخِ فیروز شاہی ازضیا الدین برنی، مترجم معین الحق)۔ سکندر لودھی کے دسترخوان پر شریک لوگوں کے لیے بھی کھانا لگایا جاتا تھا مگر امرا اور علما کھانے میں شریک نہ ہوتے تھے۔

جب سکندر لودھی کھانا ختم کرلیتا تو ان لوگوں کا کھانا اُن کے گھروں کو بھیج دیا جاتا، جہاں وہ کھانا کھاتے۔ امرا کے ہاں بھی دعوتوں کا عام رواج تھا۔ ابنِ بطوطہ نے تغلق عہد کے ایک ملتانی امیر،خداونزادہ قوام الدین کے ہاں دعوت کی تفصیل میں ’’سموسے‘‘ کابھی ذکر کیا ہےکہ ’’قیمے میں بادام، جائفل، پستہ، پیاز اورگرم مسالا ڈال کر پتلی چپاتیوں میں لپیٹ دیتے ہیں اور پھر گھی میں تل لیتے ہیں۔‘‘ خاندانِ غلاماں سے 1206میں شروع ہونے والا سلطنتِ دلّی کا دَور لودھی خاندان کے ساتھ ہی 1526میں اختتام پذیر ہوا۔ اُس کے بعد مغل دَور شروع ہوا۔ سلطنتِ دلّی کے دَور میں کئی قسم کا اناج اُگایا جاتا تھا۔ اس میں گندم سب سے اہم تھی، جسے تنور میں روٹی کی شکل یا گھی میں پراٹھے کی صورت دال، گوشت اور سبزی کے سالن کے ساتھ استعمال کیا جاتا۔

دیگر اناجوں میں مٹر، دال ماش، لوبیااورتِل شامل تھے۔ چاولوں کو دودھ میں پکایا جاتا تھا۔ سبزیوں میں کریلے، بینگن، چقندر، پیاز، ادرک، گاجر، شلجم، پالک اور کدو/لوکی عام تھے۔ پھلوں میں سیب، مالٹا، لیموں، انگور، آڑو اور انار سب سے زیادہ استعمال ہوتے تھے۔ تربوز اور خربوزہ بھی شوق سے کھائے جاتے، لیکن آم سب سے زیادہ پسندیدہ پھل تھا۔ گو شراب کی اسلام اور ہندو شاستروں میں ممانعت تھی مگر یہ امرا و سلاطین کے عام استعمال میں تھی۔

ہندوستان میں صحیح معنوں میں کھانوں کو ذائقے، نفاست، تنّوع اور معیار کے بامِ عروج پر مغل لےکرگئے۔ کھانوں میں تنّوع امرا پیدا کرتے تھے، چوں کہ وہ اتنی مالی استطاعت رکھتے تھے کہ مختلف اشیا خرید سکیں اور پکوانوں میں جدّت لاسکیں۔ مغل دَور میں بادشاہ اور نوابین ایسے باورچیوں کو ملازم رکھتےتھے،جومخصوص پکوانوں میں مہارت رکھتے تھے۔ اُس دور میں بےشمار پکوان تیار کیے گئے۔جدیددَور میں بھی پکوانوں کو پُرکشش بنانے کے لیے مغل نام دیے جاتے ہیں، جیسا کہ مغلی ٔ پلاؤ، شاہجہانی ہانڈی، شاہی کباب وغیرہ۔ شہنشاہ ظہیرالدین بابر ’’بابر نامہ‘‘ میں کباب، سالن، بریانی، نان وغیرہ کاتذکرہ کرتا ہے۔

وہ پَھلوں کا رسیا تھا، سو وسطی ایشیا سے پھل منگواتا، جنھیں بعد میں ہندوستان میں بھی اُگایا جانے لگا۔ اُس نے پکوانوں میں میوہ جات، بالائی، خشک پھلوں اور دہی کا استعمال بڑھایا۔ اُس کے بعد ہمایوں کھچڑی اور آم پسند کرتا تھا۔ اُس نے کھچڑی کے لیے ’’لذیذہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ جلال الدین اکبر گوشت کےپکوان خاص پسند نہ کرتا تھا۔ وہ سبزیوں کو اتنی فوقیت دیتا کہ آخری عمر میں مکمل سبزی خور ہوگیا۔ یہ مغل فرماں روا تھے جنھوں نے ہندوستانی کھانوں میں خوشبو اورمہک کی اہمیت پر زور دیا اور مسالا جات کے ذریعے ہر پکوان کی مخصوص مہک کو طعام کا اہم جزو قرار دیا۔

سبزیوں کی کاشت کے دوران خوش گوار مہک کےلیےعرقِ گلاب اورمشک استعمال کیے جاتے تھے۔ روزانہ کےشاہی پکوانوں میں حکیموں کی معاونت ہوتی تھی۔ وہ خوراک کی اجزا کی خصوصیات کےعلاوہ بادشاہ کےمزاج کوبھی مدنظر رکھتے تھے۔ ان کھانوں میں مقوی دماغ، نظر کو تیزکرنےوالی، جلدکوچمک داربنانے والی اورسماعت کو تیز کرنے والی جَڑی بوٹیاں بھی شامل کی جاتیں۔ پکوانوں کےساتھ مختلف قسم کے اچار، چٹنیاں، ادرک، لیموں اور مربہ جات وغیرہ رکھے جاتے۔

اورسمجھاجاتا کہ پھلوں سے تیار کردہ اچار بھوک بڑھاتے، دافع امراض ہوتےہیں اور نظامِ ہضم بہتر کرتے ہیں۔ کھانے کے بعد بادشاہ کے ہاتھ دھلائے جاتےاور پان پیش کیا جاتا۔ ایک بِیڑا گیارہ پتّوں سے تیار ہوتا۔ پان کے پتّوں پر کافور اور عرقِ گلاب ملے جاتے، سپاری کو عرقِ صندل میں اُبالا جاتا اور زعفران کا استعمال کیا جاتا۔ شاہی محل میں پانی کی فراہمی کی نگرانی محکمۂ آب دارخانہ کرتا تھا۔ پانی کو چکھنے والے تجربہ کار لوگ روزانہ پانی کو جانچتے اور شکار کے علاوہ جنگی مُہمات میں بھی شاہ کے ہم راہ ہوتے تھے۔ کھانا پکانے کے لیے جمنا اور چناب کے پانی میں گنگا کا پانی ملایا جاتا اوربارش کے پانی کو بھی ذخیرہ کیا جاتا۔ اور پھر پُرتگالیوں کی آمد کے بعد آلو اورسُرخ مرچیں بھی شاہی دسترخوان کا حصّہ بن گئے۔ (جاری ہے)